نظریہ انسان کو انسان اور زندگی کو زندگی بناتا ہے۔ نظریے کے بغیر انسان حیوان، اور زندگی ایک اندھی قوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے طویل سفر میں مسلمانوں نے ہمیشہ نظریے کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔ مسلمانوں کے بہترین زمانے ہمیشہ وہ تھے جب مسلمانوں نے اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی حرکیات کے تحت انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کی۔ اس تناظر میں کراچی کا نظریاتی تشخص غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کراچی کا نظریاتی تشخص کہاں سے آیا؟ کیسے آیا؟
یہ انسانی تاریخ کا ایک نایاب منظر تھا کہ پاکستان پنجاب، سندھ، بنگال، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بن رہا تھا اور تحریکِ پاکستان دلی، یوپی اور سی پی میں چل رہی تھی۔ یہ بات اس لیے حیران کن تھی کہ پاکستان مسلم اکثریتی علاقوں میں بن رہا تھا مگر مسلم اقلیت کے علاقوں کے مسلمان پاکستان کے لیے سر دھڑ کی بازی لگارہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ پاکستان بنے گا تو انہیں اس کا کوئی سیاسی، معاشی یا سماجی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ ہندو اکثریت تحریکِ پاکستان میں ان کے کردار پر ان سے ناراض ہوگی اور ان کی جان کے درپے ہوجائے گی۔ مگر برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان ان تمام معاملات سے بلند ہوکر سوچ رہے تھے۔ ان کی فکر اور جدوجہد مکمل طور پر اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی حرکیات کے زیراثر تھی۔ ان کے لیے پاکستان ایک بہت بڑا مذہبی آئیڈیل تھا۔ وہ پاکستان کو قائداعظم کے ارشادات کی روشنی میں اسلام کے ایک قلعے کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ ان کا بجا طور پر یہ خیال تھا کہ پاکستان عہدِ جدید میں اسلام کے سیاسی، معاشی، علمی اور تہذیبی احیاء کے لیے بروئے کار آئے گا۔ چنانچہ وہ تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ اُس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ قیام پاکستان کے وقت بڑے پیمانے پر مسلم کُش فسادات ہوں گے اور دلی، یوپی اور سی پی کے لوگ بڑے پیمانے پر پاکستان ہجرت کریں گے۔ مگر وہی ہوا جس کی اُمید کسی کو نہیں تھی، قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات شروع ہوگئے اور لاکھوں لوگوں کو ہندوستان سے پاکستان کی جانب ہجرت کرنی پڑی۔ مہاجروں کی اکثریت پاکستان آنے کے بعد کراچی میں آباد ہوئی۔ چنانچہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا نظریاتی مرکز بن کر ابھرا۔ یہ نظریے کی قوت تھی جس نے لاکھوں لوگوں کو خاک اور خون کا دریا پار کرنے پر مجبور کیا۔ اپنے آبائی گھروں کو چھوڑنے پر مائل کیا۔ جانی و مالی نقصانات کو جذب کرنے کی صلاحیت عطا کی۔ ’’اجنبی سرزمین‘‘ کو ’’اپنا گھر‘‘ بنانے کی ہمت فراہم کی۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اہلِ کراچی نے بھارت کو اپنے نظریاتی شعور کی وجہ سے ہمیشہ ’’سیاسی حریف‘‘ کے بجائے نظریاتی حریف سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت مخالف جذبات یا تو کراچی میں قوی رہے ہیں یا پنجاب کے اُن مہاجروں میں جنہوں نے بھارتی پنجاب سے پاکستانی پنجاب کی جانب ہجرت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو جب کہتے تھے کہ ہم بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال جنگ کریں گے تو اُن کے اس بیان کی سب سے زیادہ پذیرائی یا تو ہندوستان کے مسلمانوں میں ہوئی تھی یا پنجاب اور کراچی کے مہاجروں میں۔ اس معاملے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اہلِ کراچی کے لیے بھارت کوئی ’’تصور‘‘ نہیں تھا، وہ ایک ’’وجودی تجربہ‘‘ تھا۔ کراچی میں آباد مہاجر جس طرح بھارت کو جانتے تھے پاکستان کے باقی حصوں کے لوگ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ بھارت سے آنے والے مہاجر ایک ہزار سال تک ہندو اکثریت کے ساتھ رہنے اور معاملات کرنے کا تجربہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ کبھی بھارت کے بڑے حجم سے مرعوب ہوئے، نہ اس کی بڑی آبادی کو انہوں نے اپنے اعصاب پر سوار کیا، نہ بھارت اور پاکستان کے درمیان موجود عسکری عدم توازن کو انہوں نے کبھی کوئی خاص اہمیت دی۔
پاکستان کی داخلی سیاست میں بھی اہلِ کراچی کا نظریاتی شعور بلند آہنگ لہجے میں کلام کرتا رہا ہے۔ جنرل ایوب اور محترمہ فاطمہ جناح کی کشمکش ’’طاقت‘‘ اور ’’نظریے‘‘ کی کشمکش تھی۔ جنرل ایوب اس کشمکش میں ’’اندھی طاقت‘‘ کی علامت تھے، اور محترمہ فاطمہ جناح اس کشمکش میں نظریۂ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی علامت تھیں۔ ایسا نہ ہوتا تو مولانا مودودیؒ جیسی شخصیت عورت کی سربراہی پر ذہنی تحفظات کے باوجود فاطمہ جناح کا ساتھ نہ دیتی، اور نہ یہ کہتی کہ جنرل ایوب میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہیں، اور محترمہ فاطمہ جناح میں اس کے سوا کوئی خامی نہیں کہ وہ عورت ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کشمکش میں پاکستان کے دوسرے علاقوں نے جنرل ایوب کا ساتھ دیا، البتہ صدارتی انتخابات میں کراچی نے مادرِ ملت فاطمہ جناح کو فتح یاب کیا۔ جنرل ایوب نے کراچی کے اس نظریاتی کردار کو برداشت نہ کیا۔ انہوں نے کراچی میں پہلی بار مہاجر پشتون عصبیت کو ہوا دی۔ لیکن داخلی سیاست میں کراچی کا نظریاتی کردار صرف جنرل ایوب اور فاطمہ جناح کی کشمکش تک محدود نہیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کراچی طویل عرصے تک مذہبی جماعتوں کا بڑا اور مضبوط سیاسی مرکز رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی کی سیاست جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان سے Define ہوتی تھی۔ مولانا مودودیؒ کے بعد جماعت اسلامی کراچی نے جتنی قدآور شخصیات پیدا کیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک ابتدا میں نظریاتی اعتبار سے بے چہرہ تحریک تھی۔ اس پر صرف بھٹو مخالف جذبات کا غلبہ تھا۔ مگر کراچی کی نظریاتی جہت نے اس تحریک کو تحریک نظام مصطفی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اصل میں کراچی کا شعور سیاست کو سیکولر اور لبرل صورت میں قبول ہی نہیں کرسکتا۔ وہ ہمیشہ اس کی نئی صورت گری کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ چنانچہ پی این اے کی تحریک بھی بالآخر ایک مذہبی رنگ اختیار کرگئی۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ پی این اے کی تحریک ابتدا میں مؤثر نظر نہیں آتی تھی، اور اس کی کامیابی کا امکان نہ ہونے کے برابر نظر آتا تھا، مگر اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں نے اپنے جوش و جذبے، اپنی قربانیوں اور انتھک جدوجہد سے پی این اے کی تحریک کو بھٹو صاحب کے لیے سیاسی معنوں میں جان لیوا یا کم از کم اقتدار لیوا بنادیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھٹو گردی کی جتنی مخالفت اور مزاحمت کراچی میں ہوئی، کہیں نہیں ہوئی۔ اس مزاحمت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اہلِ کراچی کو بھٹو کی شکل و صورت پسند نہیں تھی، ان کو بھٹو کی سیاست پر کوئی ’’سیاسی اعتراض‘‘ تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو اہلِ کراچی کے لیے نظریاتی طور پر قابلِ قبول نہ تھے۔ انہیں بھٹو کا سوشلزم یا اسلامی سوشلزم پسند تھا، نہ ان کی سیکولر اور لبرل روش اہلِ کراچی کے حلق سے نیچے اترتی تھی۔
نظریاتی شعور کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ آمریت کو ہر صورت میں ناپسند کرتا ہے۔ اس کے لیے ’’سول آمریت‘‘ قابلِ قبول ہوتی ہے، نہ ’’فوجی آمریت‘‘۔ جنرل ضیاء الحق ’’اسلام پسند‘‘ تھے، مگر جماعت اسلامی کراچی میں ان کے خلاف جتنا شدید ردعمل موجود تھا اتنا شدید ردعمل کہیں موجود نہ تھا۔ پروفیسر غفور، خورشید صاحب، سید منور حسن اور محمود اعظم فاروقی نے ڈٹ کر جنرل ضیاء الحق کی آمریت کی مخالفت کی۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے ایم کیو ایم بنائی تو اس کی ایک وجہ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو دبائو میں رکھنا تھا، اور دوسری جانب جنرل ضیاء الحق نے ایم کیو ایم کے ذریعے جماعت اسلامی کراچی کو دیوار سے لگانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے ظلم، جبر اور تشدد کے سامنے بڑے بڑوں نے ہتھیار ڈال دیے، یہاں تک کہ پولیس اور فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی طویل عرصے تک الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے ہراساں نظر آئی، مگر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ نہ ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او سے خوف زدہ ہوئیں، نہ انہوں نے میدانِ عمل چھوڑا، نہ نظریہ تبدیل کیا۔ جب ہم یونیورسٹی میں تھے تو ایک سال اے پی ایم ایس او نے جمعیت کے اتنے کارکنوں کو شہید کیا کہ ہمیں لگتا تھا جیسے ہم جمعیت کے کارکنوں کے جنازے پڑھنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، مگر اس کے باوجود جمعیت نے کسی کالج اور کسی یونیورسٹی میں اے پی ایم ایس او کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او کا جبر یہ تھا کہ وہ ہر جگہ موجود تھے۔ وہ گلی میں تھے، محلے میں تھے، کالج میں تھے، یونیورسٹی میں تھے۔ مگر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے لوگوں نے نہ گلی چھوڑی، نہ محلہ چھوڑا، نہ کالج اور یونیورسٹی کو ترک کیا۔ ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او کا کھلی موت سے مقابلہ تھا، مگر جماعت اور جمعیت نے 30 سال تک کھلی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ جامعہ کراچی میں اے پی ایم ایس او کا بہت بڑا یونٹ موجود تھا، مگر ایک روز ہم نے دیکھا کہ جمعیت کے پچیس تیس کارکنان اے پی ایم ایس او کے ڈیڑھ سو دو سو کارکنوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ جمعیت کے کارکنوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے، اور اے پی ایم ایس او کے کئی فرار ہونے والے کارکن ایسے تھے جن کے ہاتھ میں اسلحہ تھا۔ یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ سید منور حسن ایم کیو ایم کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ ان پر ایک دن حملے کا پروگرام تھا۔ سید منور حسن کے ڈرائیور کو ایم کیو ایم کے ایک کارکن نے حملے کے بارے میں بتادیا۔ ڈرائیور نے سید منور حسن کو آگاہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ آج گھر سے باہر نہ نکلیں۔ سید منور حسن نے اپنے ڈرائیور کو بتایا کہ انہیں کچھ اور ذرائع سے اس حملے کی اطلاع پہلے ہی مل چکی ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ سید منور حسن اُس دن بھی بے خوف ہوکر گھر سے نکلے۔ نعمت اللہ خان صاحب کی گاڑی پر بھی ایک روز حملہ ہوا۔ ان سے ان کے ڈرائیور نے کہا کہ واپسی میں دوسرے راستے سے چلتے ہیں، مگر نعمت صاحب نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے واپسی کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جس راستے پر ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی تھی۔ ان کے ڈرائیور کے بقول جس مقام پر گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا نعمت صاحب نے واپسی پر گاڑی کو اسی مقام پر رکوایا۔ وہ گاڑی سے باہر نکلے اور گاڑی سے باہر نکل کر دو سگریٹیں پیں اور حملہ آوروں کو پیغام دیا کہ جماعت اسلامی کے لوگ ایم کیوایم کے دہشت گردوں سے ڈرنے والے نہیں۔ جماعت اسلامی اور جمعیت کے لوگوں کا یہ کردار ان کی نظریاتی تعلیم و تربیت اور نظریاتی مزاج کا آئینہ دار ہے۔ ورنہ ایم کیو ایم کی فسطائیت ایسی تھی کہ اس کا ایک دن بھی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایم کیو ایم کی تحریک مہاجروں کی تہذیب، تاریخ اور مزاج کے خلاف ایک بہت بڑی بغاوت تھی، مگر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ نے اس بغاوت کے خلاف بغاوت کرکے مہاجروں کی اصل کا مان رکھ لیا۔
پاکستان میں ’’پاکستانی ادب‘‘ کی تحریک بھی کراچی سے شروع ہوئی۔ اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد حسن عسکری اور ان کے شاگردِ رشید سلیم احمد نے اس سلسلے میں جو نظریہ سازی کی اُس کی مثال نہیں ملتی۔ عسکری صاحب نے سب سے پہلے یہ بات کہی کہ پاکستان ایک نظریے کا نام ہے تو پاکستان میں تخلیق ہونے والے ادب کو بھی پاکستانیت کا مظہر ہونا چاہیے۔ عسکری صاحب نے اس سلسلے میں تواتر کے ساتھ مضامین لکھے اور پاکستانی ادب کے خیال کو پختہ کیا۔ سلیم احمد نے اپنے ایک معرکہ آرا مضمون میں پاکستانی ادب کے تشخص کو اشتراکی اور سرمایہ دارانہ ادب سے الگ کرکے دکھایا، اور اس کی بنیاد صداقت پر رکھی۔ عسکری صاحب نے صرف پاکستانی ادب کا پرچم ہی بلند نہیں کیا انہوں نے ادب میں مغربیت کی مزاحمت کی تحریک بھی برپا کی۔ عسکری صاحب نے اس خیال کو عام کیا کہ ادب کو مغرب کے تنقیدی اصولوں کی روشنی میں دیکھنا اور پرکھنا پرلے درجے کی جہالت اور حماقت ہے۔ کراچی کے اہلِ فکر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے پاکستانی ثقافت کی جڑوں کا سراغ لگانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی تصنیف ’’پاکستانی کلچر‘‘ کو ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔