پاکستان میں خوش قسمت حکمران وہ نہیں ہوتا جو اقتدار میں ہو، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کی پشت پر امریکہ یا اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہو، اور جس کی حزبِ اختلاف انتشار کا شکار ہو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان پاکستان کے خوش قسمت حکمران ہیں۔ انہیں اپنی تین سالہ بدترین کارکردگی کے باوجود ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل ہے، اور ان کے سامنے کھڑی ہوئی حزبِ اختلاف بدترین انتشار کا شکار ہے۔
حزبِ اختلاف کے انتشار کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم نے 29 اگست 2021ء کو کراچی میں ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا۔ اس جلسے سے مولانا فضل الرحمٰن نے ’’انقلابی‘‘ خطاب کیا۔ انہوں نے عمران خان کو ’’یزید‘‘ قرار دیا اور اعلان کیا کہ حزبِ اختلاف یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی کہتے ہیں کہ یہ حکومت ناجائز ہے، اس نے کشمیر بیچ دیا ہے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اٹھیں اور انقلاب برپا کردیں۔ انہوں نے کہا کہ اب جلسے نہیں ہوں گے، اب ہم اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب انقلاب کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ انہوں نے لوگوں کو یقین دلایا کہ حزبِ اختلاف اپنے عہد و پیمان کو پورا کرے گی اور ہم عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو ’’لوگ‘‘ حکمرانوں کی پشت پناہی کررہے ہیں ہم اُن کا بھی مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ادارہ سیاست میں مداخلت کرتا ہے تو وہ آئین سے روگردانی کرتا ہے۔ انہوں نے پی ڈی ایم کے جلسے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جلسے نے ثابت کردیا کہ پی ڈی ایم زندہ ہے۔ (روزنامہ دنیا، کراچی۔ 30 اگست 2021ء)
مولانا فضل الرحمٰن کے اس خطاب کی علامتی معنویت غیر معمولی ہے۔ انہوں نے عمران خان کو وقت کا ’’یزید‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ عمران خان سے مولانا فضل الرحمٰن کی نفرت کی انتہا ہے۔ عمران خان بدترین حکمران ہوں گے، مگر وہ وقت کے یزید نہیں ہیں، اور نہ ہی مولانا فضل الرحمٰن وقت کے حسین ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان میں یزید کی کوئی برائی، اور مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نوازشریف میں امام حسینؓ کی کوئی خوبی موجود نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نوازشریف اقتدار پرست سیاست دان ہیں، وہ حق و باطل کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ اقتدار پر قبضے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمٰن کو اس جنگ کے لیے مذہبی علامتوں کا استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ سیاست کے لیے مذہب کے استعمال کی بدترین مثال ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اگر عمران خان کو ان معنوں میں یزید قرار دیا ہے کہ وہ غاصب ہیں تو اس بات میں بھی صداقت نہیں ہے۔ تین سال پہلے عمران خان واقعتاً عوام میں مقبول تھے۔ وہ تبدیلی کی علامت بن کر ابھرے تھے، اور لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں عمران خان کی صورت میں ایک انقلابی رہنما میسر آگیا ہے۔ بلاشبہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدار میں نہیں آسکتے تھے، مگر خود میاں نوازشریف پر ایک طویل زمانہ ایسا گزرا ہے جب وہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر ایک بہت بڑے ’’سیاسی صفر‘‘ کے سوا کچھ نہ تھے۔ جلسے سے مولانا فضل الرحمٰن کے خطاب کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اب انقلاب آیا ہی چاہتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور نوازشریف مل کر اسلام آباد پر کامیاب یلغار کرنے ہی والے ہیں۔ وہ اس یلغار کے سلسلے میں عمران خان کو کیا، فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی خاطر میں نہ لائیں گے۔ مگر پی ڈی ایم کے کراچی میں جلسے کے اگلے دن ہی میاں شہبازشریف نے ایک انٹرویو میں قومی حکومت کا نعرہ بلند کردیا۔ انہوں نے کہا کہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی جماعت ملک و قوم کو مشکل سے نہیں نکال سکی۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ اب ایک قومی حکومت بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کراچی میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ابھی خود ان پر قومی حکومت کا آئیڈیا پوری طرح واضح نہیں ہے مگر انہیں یقین ہے کہ اِس وقت قومی مسائل کا حل قومی حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ بڑے بڑے قومی مسائل کو دیکھتے ہیں تو انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ ان کے حل کے لیے ’’اجتماعی دانش‘‘ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر نواز لیگ آئندہ انتخابات جیت جاتی ہے تو بھی وہ تنہا تمام قومی مسائل حل نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ معیشت ہو یا ہماری بین الاقوامی تنہائی، یا سماجی شعبے کی اصلاح… ہر جگہ اجتماعی دانش کی حاجت ہے۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 31 اگست 2021ء)
شہبازشریف کے اِس بیان کی سیاہی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ نواز لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے شہبازشریف کے بیان کی تردید کردی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ شہبازشریف نے قومی حکومت کی بات ہی نہیں کی، انہوں نے قومی مفاہمت کی بات کی ہے، اور شہبازشریف نے قومی حکومت کا کوئی خیال پیش نہیں کیا۔ (روزنامہ جنگ کراچی، 2 ستمبر 2021ء)
نواز لیگ کے دونوں رہنمائوں کے بیانات کو ایک تناظر میں دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ مریم نواز کتنی بڑی جھوٹی اور مکار ہیں۔ قومی حکومت سے متعلق شہبازشریف کا بیان روزنامہ ڈان کراچی نے بہت تفصیل سے شائع کیا ہے۔ اس بیان میں کوئی ابہام اور پیچیدگی نہیں ہے۔ شہبازشریف نے صاف کہا ہے کہ ملک و قوم کو درپیش مسائل بہت بڑے ہیں اور انہیں نواز لیگ بھی تن تنہا حل نہیں کرسکتی۔ مگر مریم نواز نے جو نواز لیگ میں شہبازشریف سے زیادہ بڑی اور مؤثر لیڈر ہیں، اس بیان کی تردید کی اور اپنا جھوٹا اور مکار ہونا ثابت کیا۔
شہبازشریف کے قومی حکومت سے متعلق بیان کو مولانا فضل الرحمٰن کے ’’انقلابی‘‘ خطاب کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو حزبِ اختلاف بالخصوص پی ڈی ایم کی فکری یتیمی پر ترس آتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ پی ڈی ایم ایک جانب ’’انقلابی‘‘ بن رہی ہے، دوسری جانب وہ ’’روایتی ذہنیت‘‘ کا شکار ہے۔ ایک جانب وہ یزید اور امام حسینؓ کی علامتوں کو بروئے کار لا رہی ہے، دوسری جانب وہ یزید کے ساتھ مل کر قومی حکومت تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دے رہی ہے۔ ایک جانب وہ اسلام آباد پر یلغار کا اعلان کررہی ہے، دوسری جانب وہ قومی حکومت کے آئیڈیے کی پوجا کررہی ہے۔
حزبِ اختلاف کا انتشار بلاول کے 31 اگست کو روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونے والے اس بیان سے بھی ظاہر ہے جس میں انہوں نے صاف کہا ہے کہ حکومت کے لیے پٹواری یعنی نوازشریف یا مولانا یعنی فضل الرحمٰن خطرہ نہیں بلکہ حکومت کے لیے جیالے خطرہ ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ پیپلزپارٹی کا قائد حزب اختلاف ہو تو وہ جیل میں ہوتا ہے، لاہور کا قائد حزبِ اختلاف ہو تو وہ باہر مزے کرتا ہے۔
جہاں تک نواز لیگ کی داخلی صفوں کا تعلق ہے تو ان میں بھی انتشار برپا ہے۔ مریم نواز نے قومی حکومت سے متعلق میاں شہبازشریف کے بیان کی تردید کی تو میاں شہبازشریف نے اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ملک محمد احمد خان کو اپنا ’’ترجمان‘‘ مقرر کردیا (ڈان کراچی، 3 ستمبر)۔ اس تقرری سے ثابت ہوا کہ میاں شہبازشریف مریم نواز کو اپنا ترجمان تصور نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملک احمد خان کو اپنا ترجمان مقرر کرنا ضروری سمجھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں شہبازشریف اور مریم نواز ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے پر اعتبار نہیں، اور وہ ایک دوسرے کے بیانات کو سرِ عام جھٹلا رہے ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ میاں شہبازشریف نے قومی حکومت کا نعرہ فضا میں کیوں اچھالا ہے؟
یہ حقیقت راز نہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نواز لیگ کو آزما چکی، پیپلزپارٹی کو آزما چکی، عمران خان کو آزما چکی۔ فوجی حکومتوں کا تجربہ کرچکی۔ مگر کوئی بھی تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔ ان تجربات سے نہ قومی مسائل حل ہوئے، اور نہ عوام کی عظیم اکثریت کو مطمئن کیا جا سکا۔ بلاشبہ عمران خان کو بڑے ارمانوں سے لایا گیا تھا، مگر انہوں نے اپنی کارکردگی سے ان تمام ارمانوں کو کچل ڈالا ہے۔ مہنگائی بڑھتی چلی جارہی ہے، غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ملک کے بنیادی امراض کا کوئی شافی علاج دریافت نہیں کیا جا سکا۔ عمران خان نے قرضوں کی معیشت کے تصور کو آگے بڑھایا ہے، اور قرضوں کے سلسلے میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ چنانچہ عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے اور عمران خان کی حکومت کا عوامی امیج تباہی سے دوچار ہے۔ بلاشبہ عوام میں عمران خان کے خلاف نفرت نہیں پائی جاتی، مگر عوام کو عمران خان سے جو توقعات تھیں وہ بہرحال پوری نہیں ہوئی ہیں۔ اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ قومی حکومت کے قیام پر غور کرسکتی ہے۔ چنانچہ ممکن ہے شہبازشریف نے اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کے آئیڈیے کو آگے بڑھایا ہو۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ شہبازشریف ماضی کے تجربات سے اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ ان کی جماعت بھی قومی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب واقعتاً قومی مسائل کو حل کرنے کے لیے اجتماعی دانش کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ شہبازشریف کی قومی حکومت عمران خان اور پی ڈی ایم کی شمولیت سے پاک ہوگی۔ لیکن عمران خان کی عوامی مقبولیت ابھی اتنی کم نہیں ہوئی کہ انہیں اٹھاکر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے۔ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ حزبِ اختلاف کیوں ناکام ہے اور اس میں کیوں انتشار برپا ہے؟
اس سلسلے میں یہ حقیقت عیاں ہے کہ نواز لیگ ہو یا پیپلزپارٹی… فضل الرحمٰن ہوں یا اچکزئی… کوئی بھی اصول کی سیاست نہیں کررہا۔ سب ’’مفادات‘‘ کی سیاست کررہے ہیں۔ میاں نوازشریف، بلاول اور مولانا فضل الرحمٰن عمران خان کی حکومت کو گرانا نہیں چاہتے، وہ دھمکیوں اور سیاسی دبائو کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے بہتر ڈیل حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے مولانا فضل الرحمٰن نے ایک انٹرویو میں پیپلزپارٹی پر کھل کر الزام لگایا ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرلی ہے۔ میاں نوازشریف بلاشبہ پنجاب میں مقبول ہیں، مگر وہ انگلی کٹواکر شہیدوں میں نام شامل کرانا چاہتے ہیں۔ وہ سیاسی تبدیلی کے لیے سنجیدہ ہوتے تو ملک میں ہوتے، ملک سے باہر مزے نہ کررہے ہوتے۔ بلاشبہ میاں صاحب اور بلاول مقبول ہیں، مگر ان کی کوئی اخلاقی ساکھ نہیں ہے۔ لوگ انہیں ووٹ دے سکتے ہیں، نوٹ دے سکتے ہیں… مگر ان کے لیے سڑکوں پر لاٹھیاں نہیں کھا سکتے، ان کے لیے جیل نہیں جا سکتے، ان کے لیے جان نہیں دے سکتے۔