عظیم مجاہد اور کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کی سب سے توانا علامت سید علی گیلانی 92 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ سید علی گیلانی کہنے کو ایک مجاہد اور سیاسی رہنما تھے، مگر اصل میں وہ اقبال کے مردِ مومن تھے۔ اقبال کے یہاں مردِ مومن کا تصور اتنا بلند ہے کہ اکثر بڑے بڑے لوگ مردِ مومن کے تصور سے کم نظر آتے ہیں۔ مگر اقبال کی شاعری پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ سید علی گیلانی اقبال کے مردِ مومن کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایۂ جبریلِ امیں بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
دنیا میں انسانوں کی کئی قسمیں ہیں۔ کچھ لوگ آزاد ہوکر بھی غلام ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ غلام ہوکر بھی آزاد ہوتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی غلام ملک میں پیدا ہوئے تھے مگر اُن کی شاعری پر غلامی کا کوئی اثر نہیں۔ اقبالؒ بھی غلام ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے مگر اُن کی شاعری آزادی کا ترانہ ہے۔ مولانا مودودیؒ نے بھی غلام ہندوستان میں آنکھیں کھولی تھیں مگر مولانا کی ہر چیز آزاد تھی۔ ان کی روح بھی، ان کا قلب بھی اور ان کا ذہن بھی۔ کہنے کو سید علی گیلانی کی پوری زندگی ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ میں بسر ہوئی، مگر وہ سر سے پائوں تک آزادی کا استعارہ تھے۔ وہ نہ صرف یہ کہ خود آزادی کا استعارہ تھے بلکہ انہوں نے لاکھوں انسانوں کے دلوں میں آزادی کی شمع کو روشن کر کے دکھایا۔ سید علی گیلانی اور ان کی جدوجہد کو دیکھ کر اقبال کی نظم الہام و آزادی بے ساختہ یاد آجاتی تھی۔ اقبال کی نظم یہ ہے:
ہو بندۂ آزاد اگر صاحبِ الہام
ہے اس کی نگہ فکر و عمل کے لیے مہمیز
اس کے نفسِ گرم کی تاثیر ہے ایسی
ہو جاتی ہے خاکِ چمنستاں شرر آمیز
شاہیں کی نوا ہوتی ہے بلبل میں نمودار
کس درجہ بدل جاتے ہیں مرغانِ سحر خیز
اس مردِ خود آگاہ و خدا مست کی صحبت
دیتی ہے گدائوں کو شکوہِ جم و پرویز
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گرِ اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز
حقیقت یہ ہے کہ سید علی گیلانی مردِ خود آگاہ بھی تھے اور مردِ خدا مست بھی۔ جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کی ہدایت پر کشمیر فروخت کرنے کے لیے بھارت سے آگرہ میں مذاکرات کیے تو دہلی کے پاکستانی سفارت خانے میں سید علی گیلانی نے اُن سے ملاقات کی۔ جنرل پرویزمشرف اقتدار کے نشے میں مست تھے۔ انہوں نے گیلانی صاحب سے کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے عمل کی حمایت کریں۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ آپ کا Peace Proces برسرزمین تو کہیں نظر نہیں آرہا، اور یہ کہ بھارت آپ کو دھوکا دے رہا ہے۔ جنرل پرویزمشرف سید علی گیلانی کی حق گوئی پر سخت برہم ہوئے اور انہوں نے گیلانی صاحب کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کسی کی پروا نہیں، میرے ساتھ جارج بش بھی ہے اور ٹونی بلیئر بھی۔ گیلانی صاحب نے فرمایا: آپ کے ساتھ جارج بش اور ٹونی بلیئر ہے تو ہمارے ساتھ اللہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گیلانی صاحب کی پوری زندگی اللہ والے کی زندگی تھی۔ ہندوستان ایک ارب 30 کروڑ انسانوں کا 33 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ملک ہے، مگر علی گیلانی جب تک زندہ رہے بھارت اُن سے خوف زدہ رہا۔ یہاں تک کہ اس اللہ والے کی موت اور اس اللہ والے کے جنازے نے بھی بھارت کو خوف زدہ کردیا۔ چنانچہ اس نے علی گیلانی کے لواحقین کو ان کا جنازہ اٹھانے اور انہیں دن میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی۔ بھارت نے رات چار بجے کے آس پاس علی گیلانی کی تدفین کرا دی۔ اس طرح بھارت زندگی میں علی گیلانی کا مقابلہ کر سکا نہ وہ اُن کی رحلت کے بعد اُن کی موت سے نبرد آزما ہوسکا۔ گیلانی صاحب نے زندگی میں بھی بھارت کو ہزیمت سے دوچار کیا اور موت کے بعد بھی انہوں نے بھارت کو شکست سے ہم کنار کیا۔ بلاشبہ اللہ والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔
سید علی گیلانی کے دو ہیروز تھے: اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ۔ قیامِ پاکستان سے پہلے سید علی گیلانی صاحب لاہور میں تعلیم کی غرض سے مقیم تھے تو اُن کا اقبال سے عشق انہیں اقبال کے مزار پر کھینچ کر لے جاتا جہاں وہ دیر تک گریہ کرتے رہتے۔ سید علی گیلانی نوجوانی ہی میں مولانا مودودیؒ کی شخصیت اور فکر سے متاثر ہوئے، اور 1941ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو سید صاحب جماعت کا حصہ بن گئے۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی فکر سے وابستگی مذاق نہیں۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی فکر سے وہی شخص وابستہ ہوسکتا ہے جو فرقوں اور مسلکوں سے بلند ہوکر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام سکتا ہو۔ اقبالؒ اور مولاناؒ کی فکر اپنی اصل میں انقلابی ہے۔ کارل مارکس کا مشہورِ زمانہ فقرہ ہے کہ اب تک فلسفیوں نے زندگی کی تعبیر کی ہے حالانکہ اصل مسئلہ زندگی کی تعبیر کا نہیں، بلکہ زندگی کو بدلنے کا ہے۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی فکر بلاشبہ زندگی کی تعبیر بھی بیان کرتی ہے، مگر اس سے آگے بڑھ کر وہ مسلمانوں کو عمل پر آمادہ کرکے انقلاب برپا کرنے کا درس دیتی ہے۔ اقبالؒ نے کہا:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں عشقِ محمدؐ سے اجالا کر دے
…٭…٭…
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مولانا مودودیؒ نے بھی اپنے پیروکاروں سے صاف کہا کہ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جائو۔ یہ کام فکر و عمل کی یکجائی کے بغیر نہ چودہ سو سال پہلے ممکن تھا، نہ آج ممکن ہے، اور نہ آئندہ کبھی ممکن ہوگا۔ سید علی گیلانی، اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی اسی انقلابیت کے اسیر تھے۔ وہ جب تک زندہ رہے، فکر و عمل کی یکجائی کا استعارہ بنے رہے۔ فکر و عمل کی یکجائی نے گیلانی صاحب کو بجائے خود تحریک بنادیا تھا۔ کہنے کو وہ ایک فرد تھے مگر اصل میں وہ ایک مکمل تحریک تھے۔ جس طرح قائداعظمؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ کوئی انہیں خرید سکا، نہ ڈرا سکا، بالکل اسی طرح گیلانی صاحب کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ نہ کوئی قوت انہیں خرید سکی، اور نہ کوئی قوت انہیں ڈرا سکی۔ انہوں نے دس بارہ سال جیلوں میں اور اتنے ہی برس نظربندی میں بسر کیے۔ ان پر ایک درجن سے زیادہ قاتلانہ حملے ہوئے، مگر سید علی گیلانی کی زبان خاموش ہوئی نہ ان کے عمل میںکوئی رخنہ پڑا۔ وہ حقیقی معنوں میں One Man Army یا ایک رکنی فوج تھے۔ انہیں ایک رکنی فوج کی طرح برسرِکار دیکھ کر اقبال کا یہ شعر یاد آجاتا تھا:
بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تُو مصطفوی ہے
اقبالؒ نے ایک صدی قبل مسلمانوں سے ایک عجیب شکایت کی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا:
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
اقبال مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے کہ اے مسلمانو! تمہیں کتاب سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں۔ اس لیے کہ تم کتاب پڑھتے تو ہو مگر کتاب کو سمجھتے نہیں ہو۔ یا تم کتاب پڑھتے تو ہو مگر کتاب پڑھ کر ایک نئی کتاب لکھنے کی صلاحیت کے حامل نہیں ہو۔ سید مودودیؒ کی تحریک بھی صرف سیاسی تحریک نہیں۔ یہ علمی اور تخلیقی تحریک ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ جو شخص مولانا کی دس کتابیں غور سے پڑھ لے گا وہ خود لکھنے والابن جائے گا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ گیلانی صاحب صرف ایک مجاہد اور سیاست دان تھے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کا تخلیقی ذہن بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے 27 کتب تحریر فرمائی ہیں۔ ان میں سے چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
وولر کنارے (جلد اول، جلد دوم)، رودادِ قفس (اول، جلد دوم)، اقبال روحِ دین کا شناسا (جلد اول، دوم)، بھارت کے استعماری حربے، صدائے درد (جلد اول، جلد دوم)، اقبال اپنے پیام کی روشنی میں، تحریکِ حریت کے تین اہداف، معراج کا پیغام نوجوان ملت کے نام، دستور تحریکِ حریت… وغیرہ وغیرہ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سید علی گیلانی اس دائرے میں بھی اقبالؒ اور سید مودودیؒ کے سچے پیروکار تھے۔ ورنہ اب تو یہ حال ہے کہ لوگ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کو پڑھنے کا حق بھی ادا نہیں کررہے ہیں۔ سید علی گیلانی نے ان دونوں کو پڑھنے کا حق بھی ادا کیا اور صاحبِ کتاب بن کر ان دونوں شخصیات کی تخلیقی زندگی کی پیروی بھی کرکے دکھائی۔ اس کو کہتے ہیں حقیقی تقلید۔
سید علی گیلانی کو پاکستان سے محبت نہیں بلکہ عشق تھا۔ بلاشبہ وہ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے پاکستانی تھے۔ یہ اعزاز انہوں نے اپنی تقریروں سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے حاصل کیا تھا۔ ہم پاکستانی تو آزاد فضا میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں، اس سلسلے میں سول اور فوجی کی کوئی تخصیص نہیں، مگر سید علی گیلانی بندوق کی نال کی زد پر ہونے کے باوجود پاکستان زندہ باد کہتے تھے۔ ان کا نعرہ تھا ’’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ وہ کہتے تھے ’’پاکستان سے رشتہ کیا… لاالٰہ الا اللہ‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سید علی گیلانی کا پاکستان سے عشق خالی خولی عشق نہیں تھا، یہ ایک نظریاتی عشق تھا۔ وہ پاکستان سے رشتے کو کلمہ طیبہ کے تناظر میں دیکھتے اور بیان کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد انہیں جنوبی ایشیا کا نیلسن منڈیلا کہا ہے۔ یہ گیلانی صاحب کی تعریف نہیں ان کی تنقید ہے۔ گیلانی صاحب نیلسن منڈیلا سے کہیں زیادہ بڑے انسان تھے۔ چنانچہ ہمیں کہنا یہ چاہیے کہ نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے علی گیلانی تھے۔