جدید مغربی تہذیب کا ایک ہولناک اثر اور نتیجہ یہ ہے کہ اس نے امارت اور خوشحالی کے تصور کو صرف مادی اور معاشی بنادیا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا:
نہیں پرسش کچھ اس کی الفتِ اللہ کتنی ہے
یہی سب پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
اکبر نے جب یہ شکایت کی تھی اُس وقت معاشی اور مادی خوشحالی کا آغاز تھا۔ چنانچہ معاشی خوشحالی اُس وقت صرف ایک ’’تصور‘‘ تھی۔ مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ ایک ’’عقیدہ‘‘ بن گئی ہے۔ ہماری دنیا میں انسان کی عزت ہے تو اُس کی آمدنی یا مالی خوشحالی کی بنیاد پر۔ معاشرے میں ’’طبقاتی تقسیم‘‘ کی بنیاد یہی معاشی یا مالی خوشحالی ہے۔ ایک طرف بالائی طبقہ ہے، اور یہ طبقہ بالائی صرف مالی خوشحالی کی بنیاد پر ہے۔ دوسری جانب متوسط طبقہ ہے۔ یہ طبقہ بھی متوسط صرف مالی پیمانے کی بنیاد پر کہلاتا ہے۔ تیسری طرف غریب طبقہ ہے۔ اس کی غربت بھی صرف معاشی بنیاد پر متعین ہوتی ہے۔ جدید مغربی تہذیب نے انسانوں کو نہیں، پوری دنیا کو ہی اسی بنیاد پر منقسم کیا ہوا ہے۔ چنانچہ ایک ’’ترقی یافتہ‘‘ دنیا ہے۔ ایک ’’ترقی پذیر‘‘ دنیا ہے۔ اور ایک ’’پسماندہ‘‘ دنیا ہے۔ اس منظرنامے میں روحانی، اخلاقی اور علمی امارت کا خیال کہیں موجود نہیں، بالخصوص ’’روحانی امارت‘‘ کا خیال تو اب مغربی انسان کیا، مسلمانوں تک کے ذہن میں نہیں آتا۔ اب مسلمان بھی مادی اور مالی خوشحالی ہی کو اصل خوشحالی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ایک غریب ملک سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ پاکستان کی ’’عزت افزائی‘‘ کرتے ہیں تو اسے ’’ترقی پذیر‘‘ قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان روحانی اعتبار سے ایک دولت مند ملک ہے۔ جس ملک اور جس قوم کے پاس خدا کا تصور ہو وہ بھلا غریب کیسے ہوسکتی ہے! اللہ پر ایمان انسان کو کس طرح امیر بناتا ہے اس کا بیان مولانا مودودیؒ کی زبانی سنیے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’ایمان باللہ انسان کے زاویۂ نظر کو اتنا وسیع کردیتا ہے جتنی خدا کی غیر محدود سلطنت وسیع ہے۔ انسان جب تک دنیا کو اپنے نفس کے تعلق کا اعتبار کرتے ہوئے دیکھتا ہے، اس کی نگاہ اسی تنگ دائرے میں محدود رہتی ہے جس کے اندر اس کی اپنی قدرت، اس کا اپنا علم اور اس کے اپنے مطلوبات محدود ہیں۔ اسی دائرے میں وہ اپنے لیے حاجت روا تلاش کرتا ہے۔ اسی دائرے میں جو قوت والے ہیں اُن سے ڈرتا اور دبتا ہے، اور جو کمزور ہیں اُن پر فوقیت جتاتا ہے۔ اسی دائرے میں اس کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت، تعظیم اور تحقیر محدود رہتی ہے، جس کے لیے بجز اس کے اپنے نفس کے اور کوئی معیار نہیں ہوتا۔ لیکن خدا پر ایمان لانے کے بعد اس کی نظر اپنے ماحول سے نکل کر تمام کائنات پر پھیل جاتی ہے۔ اب وہ کائنات پر اپنے نفس کے تعلق سے نہیں بلکہ خداوندِ عالم کے تعلق سے نگاہ ڈالتا ہے۔ اب اس وسیع جہان کی ہر چیز سے اس کا ایک ہی رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ اب اس کو ان میں کوئی حاجت روا، کوئی قوت والا، کوئی ضار یا نافع نظر نہیں آتا۔ اب وہ کسی کو تعظیم یا تحقیر، خوف یا امید کے قابل نہیں پاتا۔ اب اس کی دوستی یا دشمنی، محبت یا نفرت اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ میں جس خدا کو مانتا ہوں وہ صرف میرا یا میرے خاندان یا میری قوم ہی کا خالق اور پروردگار نہیں ہے، بلکہ خالق السماوات والارض اور رب العالمین ہے۔ اس کی حکومت صرف میرے ملک تک محدود نہیں، بلکہ وہ مالکِ ارض و سما اور رب المشرق والمغرب ہے۔ اس کی عبادت صرف میں ہی نہیں کررہا ہوں بلکہ زمین و آسمان کی ساری چیزیں اسی کے آگے جھکی ہوئی ہیں۔ سب اسی کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہیں۔ اس لحاظ سے جب وہ کائنات کو دیکھتا ہے تو کوئی اس کو غیر نظر نہیں آتا۔ سب اپنے ہی اپنے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ہمدردی، اس کی محبت، اس کی خدمت کسی ایسے دائرے کی پابند نہیں رہتی جس کی حد بندی اس کے اپنے نفس کے تعلقات کے لحاظ سے کی گئی ہو۔ پس جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ کبھی تنگ نظر نہیں ہوسکتا‘‘۔
(’’اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی‘‘۔صفحہ 156، 157)
یوں تو تصورِ خدا کے حوالے سے اسلامی دنیا کے تمام ممالک ہی امیر ہیں، مگر پاکستان تو اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہے، چنانچہ خدا کا تصور پاکستان کے آئین کا مرکزی حوالہ ہے، اور اس حوالے سے پاکستان کی امارت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔
تصورِ خدا میں مضمر ’’امارت‘‘ پر اقبال نے ایک اور حوالے سے نظر ڈالی ہے۔ اقبال کا مشہورِ زمانہ شعر ہے:
یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
انسان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت ساری زندگی جھوٹے خدائوں کو پوجتی رہتی ہے۔ آپ اپنی دنیا پر نظر ڈالیے۔ کوئی امریکہ کو پوج رہا ہے، کوئی یورپ کو خدا بنائے ہوئے ہے، کوئی روس کی خدائی کے گن گا رہا ہے، اور کوئی چین کے آگے سجدہ ریز ہے۔ لیکن جب کوئی شخص یا قوم خدا کے آگے جھک جاتی ہے تو وہ پھر کسی جھوٹے خدا کے آگے سر جھکانے کی ذلت سے نجات حاصل کرلیتی ہے۔ کروڑوں انسان ایسے ہیں جو دولت کو خدا بنائے ہوئے ہیں، وہ دولت کے خدا کو پوج رہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دولت کا خالق انسان ہے، اور دولت اور انسان کے درمیان یہ تعلق ہے کہ انسان خالق ہے اور دولت مخلوق، مگر انسان کی ذلت ملاحظہ کیجیے کہ دولت کا خالق خود اپنی پیدا کی ہوئی مخلوق کو پوج رہا ہے۔ انسان ایک سچے خدا کے آگے جھک جائے تو اسے دولت کے جھوٹے خدا کے آگے سر جھکانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ دنیا میں کروڑوں انسان ہیں جنہوں نے اپنے نفس کو خدا بنایا ہوا ہے۔ وہ اپنے نفس کی خواہشات کو پوجتے ہیں۔ جو نفسِ امّارہ کے آگے سر جھکاتے ہیں، وہ کبھی اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کرپاتے۔ انسان خدا کے آگے جھک جاتا ہے تو وہ نفس اور اس کی خواہشات کے بتوں کے آگے سر جھکانے سے بچ جاتا ہے۔ دنیا کے کروڑوں لوگ ہیں جو اپنی نسل، اپنی قوم، اپنے جغرافیے، اپنی ذات، برادری، اپنے صوبے، اپنے لسانی تشخص کے بتوں کو پوج رہے ہیں۔ جبکہ سچے خدا کے آگے کیا گیا ایک سچا سجدہ آدمی کو ان تمام بتوں کی پوجا سے بھی بچا لیتا ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اگر خدائے حقیقی کے آگے سر جھکانے والا ہوتا تو ہم نہ امریکہ کی خدائی کے علَم بردار ہوتے، نہ یورپ کے آگے سر جھکا رہے ہوتے، نہ ہمارے اندر ذات، برادری، صوبے اور زبان کے تعصبات کے بت موجود ہوتے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ آج بھی خدا کے آگے سر جھکا دے تو ایک انقلاب برپا ہوجائے اور دیکھتے ہی دیکھتے قوم لوہے سے سونا بن جائے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ توحید کے بعد پوری امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اس اسوۂ حسنہ کے لاکھوں پہلو ہیں، مگر دنیا پرستی سے نجات ہمارے لیے اس اسوۂ حسنہ کا سب سے بڑا تحفہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ مغرب نے ہمیں ایسی دنیا پرستی سکھا دی ہے جس کی وجہ سے ہم نہ خدا کے رہے ہیں، نہ ہمارا اپنے دین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے کوئی تعلق ہے۔ اس سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو احادیث ِ مبارکہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار صحابہ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے، راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ کر ٹھیر گئے۔ صحابہ بھی کھڑے ہوگئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے مرے ہوئے بچے کی طرف اشارہ کرکے صحابہ سے پوچھا: تم میں سے کوئی اسے خریدنا پسند کرے گا؟ صحابہ نے کہا: ایک تو یہ بچہ ہے، پھر مرا ہوا بھی ہے، اسے تو کوئی مفت بھی لینا پسند نہیں کرے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھو دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری حدیث ِ مبارکہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر دنیا مچھر کے پَر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔
پاکستان کو اگر حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنادیا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا احادیث ہمیں دنیا کی محبت اور اس کی پرستش سے نجات دلانے اور ہمیں روحانی اعتبار سے کھرب پتی بنانے کے لیے کافی ہیں۔
پاکستان پر قرآنِ حکیم فرقانِ حمید کا سایہ ہے، اس لیے کہ پاکستان 27 ویں رمضان کو وجود میں آیا جو نزولِ قرآن کی رات ہے۔ قرآن مجید اور اس سے میسر آنے والی دوسری نعمتوں کی امارت کو دیکھنا ہو تو حضرت عمرؓ کا وہ خط ملاحظہ کرنا چاہیے جو انہوں نے ابوموسیٰ اشعریؓ اور حفاظِ قرآن کے نام لکھا اور جو کنزالعمال جلد اول میں موجود ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس سلسلے میں کیا فرمایا، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ کے بندے عمر بن الخطاب کی طرف سے عبداللہ بن قیس (ابو موسیٰ اشعری) اور حفاظِ قرآن کے نام۔ السلام علیکم۔
واضح ہو کہ یہ قرآن کریم تمہارے لیے باعثِ اجر و ثواب ہونے والا ہے، لہٰذا اس کی تعلیم پر عمل کرو اور اسے اپنے مقاصد کا آلہ کار نہ بنائو۔ جو قرآن کریم کو اپنا قائد و متبوع بنائے گا قرآن کریم اسے جنت کی سیر کرائے گا۔ قرآن کریم کو خدا کے حضور تمہارا سفارشی ہونا چاہیے، نہ کہ تمہارے خلاف شکایت کرنے والا، کیونکہ قرآن جس کا سفارشی ہوگا وہ جنت میں جائے گا، اور جس کے خلاف شکایت کرے گا وہ دوزخ میں جلے گا۔ جب خدا کا بندہ رات میں اٹھتا ہے اور مسواک کرکے وضو کرتا ہے، پھر تکبیر کہہ کر نماز پڑھتا ہے تو فرشتہ اس کا منہ چومتا ہے اور کہتا ہے کہ پڑھو پڑھو تم پاک و صاف ہوگئے، قرآن کریم پڑھ کر تمہیں لطف آئے گا۔ قرآن کریم ہدایت کا سرچشمہ، علم کا پھول اور رحمٰن کا تازہ کلام ہے۔ اگر رات میں اٹھنے والا بغیر مسواک کے وضو کرتا ہے تو فرشتہ اس کی نگرانی تو کرتا ہے لیکن منہ نہیں چومتا۔ نماز میں قرآن پڑھنا ایسا ہے جیسے کسی کو چھپا ہوا خزانہ مل جائے اور مخفی دولت حاصل ہوجائے۔ قرآن کریم پڑھا کرو، نماز نور ہے، زکوٰۃ برہان ہے، صبر روشنی ہے، روزہ ڈھال ہے اور قرآن تمہارے بارے میں ایک دلیل ہے۔ قرآن کریم کا احترام کرو اور اس سے بے اعتنائی نہ برتو،کیونکہ خدا اُس کی عزت کرتا ہے جو قرآن کریم کی عزت کرتا ہے، اور اس کو بے آبرو کردیتا ہے جو قرآن کریم کی بے حرمتی کرتا ہے۔ جو شخص قرآن کریم پڑھے، اس کو یاد کرے اور پھر اس کے مطابق عمل کرے، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔ چاہے تو خدا دنیا میں اس کی دعا کو پورا کردیتا ہے، ورنہ اس کی مانگی ہوئی چیز آخرت کے لیے جمع ہوجاتی ہے۔ یاد رکھو خدا کا انعام بہترین اور ہمیشہ رہنے والا ہے، اور یہ اُن لوگوں کو نصیب ہوگا جو صاحبِ ایمان ہیں اور اپنے مالک پر بھروسا کرتے ہیں‘‘۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اگر واقعتاً قرآن مجید سے ہم آہنگ کردیا جائے تو پاکستان دنیا کا امیر ترین ملک بن جائے۔
پاکستان کو پاکستان کے حکمران طبقے نے حقیر بنادیا ہے، ورنہ پاکستان دنیاوی معنوں میں بھی ’’غریب‘‘ نہیں۔ اس وقت عالمی برادری 200 سے زیادہ ملکوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان 200 ملکوں کی برادری میں آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ہمارا رقبہ بھی کم نہیں۔ پاکستان رقبے کے اعتبار سے دنیا کا 34 واں بڑا ملک ہے۔ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے، کپاس کی پیداوار میں بھی پاکستان کا چوتھا نمبر ہے، آم اور امرود کی پیداوار میں پاکستان دنیا کا ساتواں اہم ملک ہے۔ گندم، گنا، کھجور اور کینو کی پیداوار میں پاکستان دنیا کے دس بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ یہ صورتِ حال اس وقت ہے جب پاکستان کا حکمران طبقہ 70 سال سے پاکستان کو تباہ کررہا ہے۔ اگر پاکستان کو تعمیر کرنے والی قیادت میسر آجائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر کہاں کھڑا ہوگا۔
مغربی دنیا نے آبادی کو سازش کے تحت ایک بوجھ باور کرایا ہے، مگر چین نے آبادی کو ایک ’’اثاثے‘‘ میں ڈھال کر دکھایا ہے۔ چین اس وقت ایک ارب 30 کروڑ کی آبادی نہیں بلکہ ایک ارب 30 کروڑ کی ’’مارکیٹ‘‘ ہے۔ اس نے 40 برسوں میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ یعنی ہم 22 کروڑ کی منڈی ہیں۔ اس آبادی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ہماری آبادی کا تقریباً 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان نوجوانوں کو علم اور ہنر سے آراستہ کردیا جائے تو پاکستان صنعتی اور معاشی طور پر بھی دنیا کے دس اہم ترین ملکوں میں سے ایک ملک بن سکتا ہے۔
امارت کا ایک پہلو علم، ذہانت اور صلاحیت ہے۔ اتفاق سے پاکستان میں یہ تینوں چیزیں بھی موجود ہیں۔ پاکستان دنیا کی آٹھ ایٹمی طاقتوں میں سے ایک طاقت ہے۔ ایٹم بم بنانا مذاق نہیں۔ ایک ملک جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ سوئی بھی نہیں بناتا اُس نے ایٹم بم بنا کر دکھا دیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے طے کرلیا تھا کہ ایٹم بم ضرور بنانا ہے، اس لیے کہ ہماری بقا اور سلامتی اسی میں ہے۔ اس سلسلے میں سول اور فوجی قیادت میں کوئی تفریق نہ رہی۔ بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور جنرل ضیا الحق کے زمانے میں پاکستان نے ایٹم بم بنایا۔ ان دونوں کے درمیانی عرصے میں جو بھی حکمران آئے انہوں نے ایٹم بم پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ چنانچہ پاکستان نے ایٹم بم بناکر دکھا دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو ملک ایٹم بم بناسکتا ہے وہ صنعتی اور زرعی انقلاب بھی برپا کرسکتا ہے۔ مغربی دنیا نے صنعتی انقلاب کو ایک ’’خواب‘‘ بنایا ہوا تھا، مگر چین کے صنعتی انقلاب نے ثابت کردیا کہ صنعتی انقلاب برپا کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ مغرب نے جو مادی ترقی ڈیڑھ سو سال میں کی، چین نے وہی ترقی 40 سال میں کرکے دکھادی۔ اس سے ثابت ہوا کہ مادی ترقی اور مادی خوشحالی کوئی بڑی بات نہیں۔ مشکل بات روحانی، اخلاقی، علمی اور تخلیقی ترقی ہے۔ ان تمام حقائق کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان ہرگز غریب ملک نہیں۔ اسے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کی روحانی، اخلاقی، علمی، تہذیبی اور تخلیقی غربت نے غریب بنایا ہوا ہے۔ جس دن پاکستان کو اس کے اصل وارث فراہم ہوگئے پاکستان ایک عالمی طاقت بن کر ابھرے گا۔