پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ دو قومی نظریے کے بانی سرسید تھے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دو قومی نظریہ اسلام ہے۔ اس اعتبار سے اسلام کی پوری تاریخ ہی دو قومی نظریے کی تاریخ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ مکہ ’’تقسیم کرنے والا‘‘ یا Devider کہا کرتے تھے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی بنیاد پر بیٹے کو باپ کے، بیوی کو شوہر کے، بھائی کو بھائی کے، اور قبیلے کو قبیلے کے خلاف کھڑا کردیا تھا۔ قرآن کا ایک نام ’’فرقان‘‘ بھی ہے، یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا، حق و باطل کی بنیاد پر لوگوں کو define کرنے والا۔ اس تناظر میں قرآن بھی دو قومی نظریے کا علَم بردار ہے۔ غزوۂ بدر کے دن کو بھی ’’یوم فرقان‘‘ کہا جاتا ہے، اس لیے کہ بدر میں حق و باطل کا فرق بالکل عیاں ہوگیا تھا۔ اسلام صاف کہتا ہے کہ اہلِ کفر امتِ واحدہ ہیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح مسلمان امتِ واحد ہیں اور اہلِ شرک امتِ واحدہ ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کی تاریخ کا آغاز ہی دو قومی نظریے سے ہوا۔
غور کیا جائے تو دو قومی نظریہ قیامِ پاکستان کے مطالبے سے بہت پہلے برصغیر کی تاریخ پر چھایا ہوا تھا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے جہانگیر کے خلاف جو علَمِ بغاوت بلند کیا اُس کی پشت پر دو قومی نظریے کا شعور موجود تھا۔ مجدد الف ثانیؒ نے جہانگیر سے کہا کہ تمہارے دربار میں بادشاہ کو سجدۂ تعظیمی کیا جاتا ہے اور یہ خلافِ اسلام ہے، اس لیے کہ اسلام میں خدا کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس سجدۂ تعظیمی کو ختم کرو۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے کہا کہ تم نے ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحے پر پابندی لگائی ہوئی ہے، حالانکہ اسلام کی رو سے گائے کا ذبیحہ حلال ہے۔ چنانچہ گائے کے ذبیحے پر پابندی دراصل اسلام کے حکم پر پابندی ہے، یہ پابندی ختم کرو۔ جہانگیر بادشاہِ وقت تھا، اُس کو ایک صوفی کی باتیں ناگوار محسوس ہوئیں، چنانچہ اُس نے مجدد الف ثانیؒ کو گرفتار کرلیا۔ لیکن مجدد الف ثانیؒ کی پشت پر حق کی طاقت تھی اور وہ عوام میں بھی بے حد مقبول تھے، چنانچہ جہانگیر کو عوامی بغاوت کا خطرہ لاحق ہوا۔ پھر اُس نے مجدد الف ثانیؒ کی بعض کرامات بھی ملاحظہ کرلی تھیں، چنانچہ اُس نے نہ صرف یہ کہ مجدد الف ثانیؒ کو رہا کردیا بلکہ ان کے دونوں مطالبات بھی پورے کردیے۔
بعض لوگ کم فہمی کی وجہ سے اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش کو اقتدار کی کشمکش سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ ایک قومی نظریے اور دو قومی نظریے کی کشمکش تھی۔ داراشکوہ ہندوازم سے بہت زیادہ متاثر ہوگیا تھا۔ اُسے گیتا قرآن سے بڑی کتاب نظر آتی تھی۔ اُس کے زمانے میں ہندو اتنے دلیر ہوگئے تھے کہ مساجد کو شہید کردیتے تھے، اور ریاست دارا کے اثر سے انھیں کچھ نہ کہتی تھی۔ اورنگ زیب اس کے برعکس دو قومی نظریے کا علَم بردار تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر داراشکوہ بادشاہ بن گیا تو وہ برصغیر میں اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا اور ایک قومی نظریہ پورے ملک پر غالب آجائے گا، اور مسلمان اپنا مذہبی اور تہذیبی تشخص کھو دیں گے۔ چنانچہ وہ دارا کے مقابل آیا اور اُسے زیر کرکے خود مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوا۔
ہندوستان کی تاریخ یہ ہے کہ ہندوستان میں جو آیا، یا جو ابھرا، ہندوازم نے اُسے جذب کرلیا۔ ہندوستان میں کُشان آئے اور ہندوازم نے انھیں ہڑپ کرلیا۔ بدھ ازم برہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت تھی، مگر ہندوازم نے اس پر اتنا دبائو ڈالا کہ آج بدھ ازم ہندوازم کی شاخ محسوس ہوتا ہے۔ سکھ ازم ہندوازم سے مختلف ہے، مگر ہندوازم نے اسے اس طرح بدل دیا ہے کہ سکھ ازم ہندوازم کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس دو قومی نظریے کے شعور نے مسلمانوں کو ہندوازم میں جذب ہونے سے بچائے رکھا۔ مسلمان ہندوستان میں ایک اقلیت رہے، مگر وہ کبھی ہندوازم میں جذب نہیں ہوئے۔ ہندوستان کے شہروں میں ہی نہیں بلکہ قصبات اور دیہات میں بھی مسلمانوں کے محلے ہندوئوں کے محلوں سے الگ ہوتے تھے اور ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں سب سے پہلے مسجد تعمیر کرتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان کے اکثر قصبوں اور دیہات میں بھی مساجد موجود ہیں۔ مسلمانوں کا لباس ہمیشہ ہندوئوں کے لباس سے مختلف رہا۔ مسلمانوں کی غذا ہمیشہ ہندوئوں کی غذا سے الگ رہی۔ غرضیکہ مسلمانوں نے دو قومی نظریے کے سیاسی اظہار سے بہت پہلے دو قومی نظریے کو گلے لگایا ہوا تھا۔
دو قومی نظریے کی طاقت یہ ہے کہ اس نے برصغیر کی تین بڑی مسلم شخصیات کی قلبِ ماہیت کی۔ سرسید ایک زمانے میں ایک قومی نظریے کے قائل تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ایک دلہن کی دو خوبصورت آنکھیں ہیں۔ مگر جب سرسید نے دیکھا کہ کانگریس ہندو نوازی پر اتر آئی ہے اور وہ فارسی اور اردو کو پس منظر میں دھکیل رہی ہے اور ہندی کو آگے بڑھا رہی ہے تو انھوں نے مسلمانوں سے کہا کہ کانگریس میں نہ جائو، تمہیں اپنے مفادات کا دفاع درکار ہے تو اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرو۔
اقبال سرسید سے زیادہ وسیع المشرب تھے، اور وہ ایک زمانے میں ’’قوم پرست‘‘ شاعر تھے۔ ان کے لبوں پر یہ ترانہ تھا:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے یہ شعر کہا:
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
یہ شعر کوئی مسلمان کہہ ہی نہیں سکتا۔ یہ شعر صرف قوم پرست ہندو کہہ سکتا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک زمانے میں اقبال کے شعور کا کیا حال تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اقبال پر کرم کیا اور اُن کی آرزو بدل ڈالی۔ چنانچہ جو شاعر ’’سارے جہاں سے اچھا…‘‘ کا راگ الاپ رہا تھا، وہ
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
گاتا ہوا پایا گیا، اور بہت جلد شاعرِ اسلام بن کر پورے ادبی افق پر چھا گیا۔
اس سلسلے میں محمد علی جناح کا معاملہ اور بھی ابتر تھا۔ وہ کانگریس کے رہنما تھے اور سروجنی نائیڈو انھیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہتی تھیں۔ محمد علی جناح کی پوزیشن یہی تھی۔ وہ کانگریس میں پوری طرح جذب تھے۔ گاندھی جب جنوبی افریقہ سے ممبئی لوٹے تو اُن کے اعزاز میں جو استقبالیہ دیا گیا اُس کی صدارت محمد علی جناح نے کی۔ مگر اقبال کی طرح اللہ تعالیٰ نے محمد علی جناح پر بھی کرم کیا اور اُن کی آرزو کو بدل ڈالا۔ چنانچہ محمد علی جناح قائداعظم بن کر ابھرے۔ وہ پہلے عدالت کے وکیل تھے، پھر وہ ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کے وکیل بن کر ابھرے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے دو قومی نظریے کی تشریح و تعبیر میں باقی ماندہ زندگی صرف کردی۔ بالآخر ان کی جدوجہد کامیاب ہوئی، اور دو قومی نظریے نے پاکستان کی صورت میں عہدِ حاضر کی سب سے بڑی اسلامی ریاست خلق کرکے دکھا دی۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل افراد اپنے خبثِ باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں نہیں آیا، اور دو قومی نظریے کا مفہوم اسلام نہیں ہے بلکہ خدانخواستہ قائداعظم تو پاکستان کو سیکولر دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر قائداعظم نے دو قومی نظریے پر اس تواتر اور وضاحت کے ساتھ کلام کیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قائداعظم کے دو قومی نظریے کی جڑیں اسلام میں کس حد تک پیوست تھیں۔ قائداعظم نے فرمایا:
’’تمام دشواریوں کے باوجود مجھے یقین ہے کہ مسلمان کسی دوسرے فرقے کی نسبت ’’بہتر سیاسی دماغ‘‘ رکھتے ہیں۔ سیاسی شعور مسلمانوں کے خون میں ملا ہوا ان کی رگوں اور شریانوں میں دوڑ رہا ہے، اور اسلام کی باقی ماندہ عظمت ان کے دلوں میں دھڑک رہی ہے۔‘‘ (عربک کالج، دہلی 1939ء)
جیسا کہ ظاہر ہے قائداعظم یہاں مسلمانوں کے ’’سیاسی شعور‘‘ پر کلام کررہے ہیں۔ مگر وہ صرف سیاسی شعور کا ذکر کرکے نہیں رہ گئے، بلکہ انھوں نے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو اسلام کی عظمت کے شعور سے ملا دیا۔ یہی قائداعظم کا دو قومی نظریہ تھا۔ قائداعظم نے ایک اور مقام پر ارشاد کیا:
’’دو سال ہوئے، میںنے شملہ میں کہا تھا کہ ہندوستان کے لیے پارلیمانی جمہوری نظامِ حکومت غیرموزوں ہے۔ اس پر کانگریسی اخبارات نے میرے خلاف طعن و تشنیع سے کام لیا اور مجھے بتایا کہ ’’تم اسلام کو نقصان پہنچانے کے مجرم ہو کیونکہ وہ جمہوریت کی تلقین کرتا ہے‘‘۔ مگر جہاں تک مجھے اسلام کا علم ہے، وہ ایسی جمہوریت کی وکالت نہیں کرتا جو غیرمسلم اکثریت کو مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے۔ ہم کوئی ایسا نظامِ حکومت قبول نہیں کرسکتے جس کی رو سے ایک غیرمسلم اکثریت محض تعداد کی بناء پر ہم مسلمانوں پر حکومت کرے اور ہمیں اپنا فرماں بردار بنا لے۔‘‘ (مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔ 1940ء)
قائداعظم کو جمہوریت بہت عزیز تھی۔ اُن کی پوری جدوجہد جمہوری تھی، مگر انھیں اسلام جمہوریت سے زیادہ عزیز تھا۔ ان کے لیے مسلمانوں کا مذہبی تشخص جمہوریت سے کہیں زیادہ اہم تھا۔ چنانچہ قائداعظم صاف کہہ رہے ہیں کہ وہ ایسی جمہوریت کو قبول نہیں کرسکتے جو اکثریت کی بنیاد پر ایک جداگانہ قوم کو اپنا فرماں بردار بنا لے۔ قائداعظم نے دو قومی نظریے کے حوالے سے ایک اور جگہ فرمایا:
’’انھوں نے سمجھا کہ مسلمان محض ایک اقلیت ہیں جن پر ہندو اکثریت کو حکومت کرنا چاہیے، اور ادھر مسلمان ایک جھوٹے احساسِ سلامتی میں مسلسل مبتلائے فریب رہے، اور اقلیت کی اصطلاح کو تاریخی، آئینی اور قانونی سمجھا جانے لگا۔ لیکن مسلمان کسی حیثیت سے بھی یورپی ممالک کی اقلیتوں کی طرح اقلیت نہیں۔ ایک چیز قطعی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم کسی طرح اقلیت نہیں ہیں، بلکہ ہم اپنے نصب العین کے ساتھ، بجائے خود ایک علیحدہ اور ممتاز قوم ہیں۔‘‘ (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ 6 مارچ 1940ء)
جمہوریت کی تعریف کے اعتبار سے مسلمان ہندوستان میں اقلیت تھے، مگر قائداعظم فرما رہے ہیں کہ ہمیں اقلیت نہیں ایک قوم سمجھا جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے پوری شدت کے ساتھ مسلمانوں کے نصب العین پر اصرار کیا ہے، اور مسلمانوں کا نصب العین اسلام کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ قائداعظم نے ایک اور جگہ کلام کرتے ہوئے صاف کہا:
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ’’قومی تصور‘‘ اور ہندو دھرم کے سماجی طور طریقوں کے باہمی اختلاف کو محض وہم و گمان بتانا ہندوستان کی تاریخ کو جھٹلانا ہے۔ ایک ہزار سال سے ہندوئوں کی تہذیب اور مسلمانوں کی تہذیب ایک دوسرے سے دوچار ہیں، اور دونوں قومیں آپس میں میل جول رکھتی چلی آئی ہیں، مگر ان کے اختلافات اسی پرانی شدت سے موجود ہیں۔ ان کے متعلق یہ توقع رکھنا کہ ان میں محض اس وجہ سے انقلاب آجائے گا اور ہندو اور مسلمان ایک قوم بن جائیں گے کہ ان پر ایک جمہوری آئین کا دبائو ڈالا گیا، سراسر غلطی ہے۔ جب ہندوستان میں ڈیڑھ سو سال سے قائم شدہ برطانوی وحدانی حکومت اس کام میں کامیاب نہ ہوسکی تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہندوستان کی مرکزی حکومت میں فیڈرل نظام کے جبری قیام سے وہ کامیابی حاصل ہوجائے گی۔ ہندوستان کا سیاسی مسئلہ فرقوں سے متعلق نہیں، بلکہ قوموں سے متعلق ہے۔ بلاشبہ اسے ایک بین الاقوامی مسئلہ قرار دینا چاہیے، اور اسی نقطہ نگاہ سے اس کا حل تلاش کرنا لازم ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اس بنیادی امرِ واقع کی صحت تسلیم کر یں۔ جب تک ہم اسے درست نہ مانیں گے، ہمارا وضع کردہ آئین ناکام رہے گا اور تباہی لائے گا۔‘‘ (اجلاس مسلم لیگ، لاہور۔ 23 مارچ 1940ء)
اس طویل اقتباس میں قائداعظم لفظ چبائے بغیر کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں اور ہندوئوں کا امتیاز وہم و گمان نہیں ہے۔ ایک ہزار سال سے دونوں قوموں کی تہذیب جس کی بنیاد اسلام اور ہندو دھرم ہے، ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ چنانچہ دونوں قوموں کو ’’ایک قوم‘‘ بنانا ممکن ہی نہیں۔ اس سلسلے میں وضع کیا جانے والا ہر بندوبست باطل ہوگا۔ ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم یوں گویا ہوئے:
’’اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں ہیں بلکہ درحقیقت وہ دو مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ چنانچہ اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکیں گے۔
یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، نہ ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ میں واشگاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں، اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں، بلکہ اکثر متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی زندگی کے متعلق ہندوئوں اور مسلمانوں کے خیالات اور تصورات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان اپنی اپنی ترقی کی تمنائوں کے لیے مختلف تاریخوں سے نسبت رکھتے ہیں۔ ان کے تاریخی وسائل اور ماخذ مختلف ہیں۔ ان کی رزمیہ نظمیں، ان کے سربرآوردہ بزرگ اور قابلِ فخر تاریخی کارنامے سب مختلف اور الگ الگ ہیں۔ اکثر اوقات ایک قوم کا زعیم اور رہنما دوسری قوم کی بزرگ اور برتر ہستیوں کا دشمن ثابت ہوتا ہے۔ ایک قوم کی فتح دوسری قوم کی شکست ہوتی ہے۔ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست، ایک حکومت کی مشترکہ گاڑی کے دو بیل بنانے اور ان کو باہمی تعاون کے ساتھ قدم بڑھانے پر آمادہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں کے دلوں میں بے صبری روزبروز بڑھتی رہے گی جو انجامِ کار تباہی لائے گی۔ خاص کر اس صورت میں کہ ان میں سے ایک قوم تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہو اور دوسری کو اکثریت حاصل ہو۔ ایسی ریاست کے آئین کا عمل خاک میں مل کر رہے گا۔‘‘ (اجلاس مسلم لیگ، لاہور۔ 23 مارچ 1940ء)
قائداعظم کے یہ خیالات ثابت کرتے ہیں کہ وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کو مذہبی، تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے الگ قومیں سمجھتے تھے، مگر ان کے تمام امتیازات کی بنیاد ان کا ’’مذہب‘‘ تھا۔ اسی مذہب کی وجہ سے ان کی ہر چیز الگ تھی، ہے، اور رہے گی۔ قائداعظم نے ایک اور مقام پر ارشاد کیا:
’’قومیت کی تعریف چاہے جس طرح کی جائے، مسلمان اس تعریف کی رو سے ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اس لیے اس بات کے مستحق ہیں کہ ملک میں ان کی اپنی الگ مملکت اور اپنی جداگانہ خودمختار ریاست ہو۔ ہم مسلمان چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر ہم ایک آزاد قوم بن کر اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہم آہنگی اور امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ ہماری تمنا ہے کہ ہماری قوم اپنی روحانی، اخلاقی، تمدنی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو کامل ترین نشوونما بخشے، اور اس کام کے لیے وہ طریقِ عمل اختیار کرے جو اس کے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ ہو‘‘۔ (اجلاس مسلم لیگ، لاہور۔ 23 ،مارچ 1940ء)
قائداعظم کے اس خطاب سے ثابت ہے کہ ان کے لیے اسلام کی روحانیت سب سے اہم تھی، چنانچہ انھوں نے روحانی نشوونما کا ذکر سب سے پہلے کیا۔ پھر ان کے لیے اسلام سے نمودار ہونے والا ’’اخلاق‘‘ اہم تھا، چنانچہ انھوں نے اس کا ذکر دوسرے نمبر پر کیا۔ پھر ان کے لیے اسلام سے ظہور میں آنے والا تمدن اہم تھا، چنانچہ انھوں نے اس کا ذکر تیسرے نمبر پر کیا۔ تقریر کا اختتام نصب العین پر ہورہا ہے جو اسلام کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ قائداعظم نے ایک جگہ گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں کئی بار کہہ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ جناب گاندھی دیانت داری سے تسلیم کرلیں کہ کانگریس ہندو جماعت ہے اور وہ صرف ہندوئوں کے نمائندہ ہیں۔ جناب گاندھی کیوں یہ بات فخریہ نہیں کہتے کہ ’’میں ہندو ہوں اور کانگریس کو ہندوئوں کی حمایت حاصل ہے‘‘۔ مجھے تو یہ کہنے میں کہ میں مسلمان ہوں، شرم محسوس نہیں ہوتی‘‘۔ (اجلاس مسلم لیگ، لاہور۔ 23 مارچ 1940ء)
قائداعظم کا یہ خطاب ثابت کرتا ہے کہ وہ کانگریس اور مسلم لیگ کو سیاسی یا جمہوری تناظر میں نہیں دیکھتے تھے، وہ ان کو صرف مذہبی تناظر میں دیکھتے تھے۔ کانگریس ان کے نزدیک ہندوئوں کی جماعت تھی، اور مسلم لیگ مسلمانوں کی جماعت۔ یہی قائداعظم کا دو قومی نظریہ تھا۔ اس کے سوا دو قومی نظریے کی ہر تشریح جھوٹ ہے، مکر ہے، فریب ہے، دھوکا ہے۔