دنیا بھر میں حکمران ’’امید‘‘ کی علامت ہوتے ہیں، مگر پاکستان کے حکمران ’’مایوسی‘‘ کی علامت ہیں۔ دنیا بھر میں حکمران ’’ذہانت‘‘ کا استعارہ ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں حکمران ’’کند ذہنی‘‘ کا استعارہ ہیں۔ دنیا بھر میں حکمرانوں کا تشخص ’’اہلیت‘‘ ہوتا ہے، مگر پاکستان میں حکمرانوں کا تشخص ’’نااہلی‘‘ ہے۔ دنیا بھر میں حکمران ’’کامیابیوں‘‘ کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں، مگر پاکستان میں حکمران ’’ناکامیوں‘‘ کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں حکمرانوں سے غلطیاں اور کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں، مگر پاکستان کے حکمران غلطیوں اور کوتاہیوں سے بنے ہوتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان آج ایک عالمی طاقت ہوتا۔
پاکستان کے حکمرانوں کی سب سے بڑی ناکامی ’’نظریاتی‘‘ ہے۔ پاکستان دنیا میں واحد نظریاتی ریاست نہیں ہے۔ سوویت یونین بھی ایک نظریاتی ریاست تھا۔ اسلام تو پاکستان سے پہلے بھی روبہ عمل آچکا تھا، سوشلزم تاریخ میں کبھی روبہ عمل نہیں آیا تھا، مگر لینن اور اسٹالن نے سوویت یونین میں سوشلزم کو ایک کامیاب نظریہ ثابت کرکے دکھایا۔ سوشلسٹ انقلاب سے پہلے روس ایک ناقابلِ ذکر ملک تھا، مگر سوویت یونین کے نظریے نے روس کو دنیا کی دوسری سپر پاور بنادیا۔ سوویت یونین میں خواندگی کی شرح سو فیصد تھی۔ تعلیم اور علاج مفت تھا۔ سوویت یونین میں کوئی شخص بے روزگار نہیں تھا۔ سوویت یونین میں کوئی بھکاری نہیں تھا۔ سوویت یونین میں کوئی طوائف نہیں تھی۔ سوویت یونین سے ڈیڑھ اور دو کروڑ کی اشاعت رکھنے والے اخبارات شائع ہوتے تھے۔ سوویت یونین میں ہر شخص کے پاس رہنے کے لیے ایک مکان تھا۔ سوشلزم کے خلاف امریکہ اور یورپ کے پروپیگنڈے نے سوویت یونین کی اس تصویر کو کبھی سامنے نہ آنے دیا، ورنہ مادی معنوں میں سوویت یونین 70 سال تک ایک مثالی ریاست کا منظر پیش کرتا رہا۔
چین بھی ایک سوشلسٹ ریاست ہے۔ سوشلسٹ انقلاب سے پہلے چینی قوم افیون کے نشے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ سوشلسٹ انقلاب سے پہلے چین استعمار کی کالونی تھا۔ مگر سوشلزم کی نظریاتی قوت نے چینی قوم کو زندہ کردیا۔ اسے خواب ِغفلت سے بیدار کردیا۔ اسے محنت کرنے والی قوم بنادیا۔ اِس وقت دنیا کے تحقیقی جرائد میں سب سے زیادہ مقالے امریکہ اور یورپ کے ماہرین کے نہیں بلکہ چینی ماہرین کے شائع ہورہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ نے چین میں بغاوت کرانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ چین نے تیان من اسکوائر کی بغاوت کو طاقت سے کچل کر چین کی وحدت و سلامتی کو یقینی بنا لیا۔
یہودیت اسرائیل کا نظریہ ہے۔ اس نظریے کی طاقت نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت بناکر کھڑا کردیا ہے۔ عرب ریاستیں تین بڑی جنگیں لڑ چکی ہیں۔ تینوں جنگوں میں اسرائیل نے عربوں کے دانت کھٹے کردیے۔
پاکستان کا نظریہ سوویت یونین، چین اور اسرائیل کے نظریے سے لاکھوں گنا طاقت ور تھا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے ملک کے نظریے سے غداری کی۔ پاکستان کے بعض حکمرانوں کی رال سیکولر ازم پر ٹپکتی دیکھی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اسلامی سوشلزم کا ہیضہ ہوگیا۔ جنرل پرویزمشرف کو لبرل ازم کے طاعون نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ جنرل ضیاء الحق ذاتی زندگی میں مذہبی آدمی تھے، مگر انہوں نے ریاستی زندگی میں اسلام کو صرف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان ایک پریمیئر اسلامی ریاست ہوگی اور ہمیں آئین بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن کی صورت میں آئین ہمارے پاس ہے۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے ریاستی دائرے میں اسلام کو کبھی بالادست نہ ہونے دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی زندگی پر اسلام کا کوئی اثر نہیں۔ ہماری معیشت سود اور قرضوں پر چل رہی ہے۔ ہمارا عدالتی نظام اسلام سے بے نیاز ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں اسلام کی روح موجود نہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ وہ مواد نشر کررہے ہیں جو اسلام اور اس کے تہذیبی و تاریخی تجربے کے خلاف ایک کھلی سازش ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو ایک اسلامی آئین دیا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو آج تک 1973ء کے آئین سے نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ پاکستان کا آئین اسلام کے لیے ایک قید خانہ ہے۔ اسلام کی قوت نے پاکستان کے ناممکن کو ممکن بنایا تھا۔ اسلام کی قوت نے ایک بھیڑ کو قوم میں ڈھالا تھا۔ اسلام کی طاقت نے محمد علی جناح کو قائداعظم کا روپ دیا تھا۔ چنانچہ اسلام کی طاقت پاکستان کو عالمی طاقت بھی بنا سکتی تھی۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ اپنی اصل میں اسلام دشمن ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس کا اسلامی تہذیب سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ اس کو اسلامی تاریخ سے کچھ لینا دینا ہی نہیں۔ چنانچہ اسلام کی کوئی نعمت اور کوئی برکت پاکستان کے ریاستی نظام کے اندر موجود نہیں۔
پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو جو سیاسی نظام دیا ہے وہ دنیا کا ناکام ترین سیاسی نظام ہے۔ پاکستان کے عوام 70 سال سے ’’فوجی آمریت‘‘ اور ’’سول آمریت‘‘ میں سے کسی ایک کو ہضم کرنے پر مجبور ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی فوجی آمریت بھی جعلی ہے اور پاکستان کی جمہوریت بھی جعلی ہے۔ آمریت جمہوری تناظر میں بری چیز ہوگی، ورنہ بادشاہت کے پرچم کے سائے میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کی ہے، اور ایک چھوٹی سی اقلیت ہونے کے باوجود حکومت کی ہے۔ مسلمانوں کی بادشاہت نے ہندوستان کو ’’سونے کی چڑیا‘‘ بنا دیا تھا۔ برطانوی مؤرخ ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی کتاب ’’دی انارکی‘‘ میں لکھا ہے کہ ہندوستان کی مغل سلطنت اتنی طاقت ور اور اتنی امیر تھی کہ وہ عالمی پیداوار کا 25 فیصد پیدا کررہی تھی۔ بھارت کی ممتاز محقق اُتساپٹنائیک نے ثابت کیا ہے کہ انگریز مسلم برصغیر سے 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے۔ مسلمانوں کی بادشاہت عرف آمریت نے برصغیر کو اتنا امیر بنایا تھا کہ انگریزوں کی 45 ہزار ارب ڈالر کی لوٹ مار کے باوجود ہندوستان غریب نہیں ہوا۔
سوویت یونین بھی ایک سوشلسٹ آمریت تھا، مگر اس آمریت نے سوویت یونین کو سپر پاور بناکر کھڑا کردیا۔ چین بھی کمیونسٹ پارٹی کی آمریت کا استعارہ ہے، مگر اس آمریت نے چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنادیا ہے۔ سنگاپورکا ’لی کوان‘ بھی ایک آمرتھا، مگر اُس نے سنگاپور کو دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شامل کردیا۔ ملائشیا کے مہاتیر محمد بھی تقریباً ایک آمر ہی تھے، مگر انہوں نے ملائشیا کو معیشت کے حوالے سے ایک پسماندہ ملک سے ترقی یافتہ ملک بنادیا۔ مگر پاکستان کی فوجی آمریت پاکستان کو کچھ نہ دے سکی۔ پاکستان کی جمہوریت کے جعلی ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں نوازشریف، بھٹو خاندان اور عمران خان جمہوریت کی علامتیں ہیں۔
پیپلزپارٹی کو قائم ہوئے نصف صدی ہوگئی ہے، مگر بھٹو خاندان نے آج تک پیپلزپارٹی میں جمہوریت کو داخل نہیں ہونے دیا۔ میاں نوازشریف 35 سال سے سیاست میں ہیں، مگر انہوں نے آج تک جمہوریت کو نواز لیگ میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔ عمران خان نے پارٹی میں انتخابات کرائے مگر یہ انتخابات جعلی تھے۔ عمران خان نے جسٹس (ر) وجیہ الدین کو معاملے کی چھان بین کے لیے مقرر کیا۔ جسٹس صاحب نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ انتخابات میں واقعتاً دھاندلیاں ہوئی ہیں چنانچہ نئے انتخابات کروائے جائیں۔ عمران خان کو جسٹس (ر) وجیہ کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا، مگر انہوں نے پارٹی میں نئے انتخابات کرانے کے بجائے جسٹس(ر) وجیہ الدین کو فارغ کردیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جو شخص میاں نوازشریف، بھٹو خاندان اور عمران خان کو جمہوریت سے وابستہ کرتا ہے وہ دراصل جمہوریت کو گالی دیتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے نہ صدارتی نظام کو چلنے دیا، نہ پارلیمانی نظام کو چلنے دیا۔ چنانچہ پاکستان کا سیاسی نظام، سیاسی نظام کا ایک ڈھکوسلہ ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو ایک بدترین معیشت کا تحفہ دیا ہے۔ چین نے گزشتہ 35 سال میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ اس نے 40کروڑ کی مڈل کلاس پیدا کی ہے۔ بھارت نے گزشتہ 90 سال میں 25کروڑ کی مڈل کلاس کو جنم دیا ہے۔ بھارت آئی ٹی کے شعبے میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھر چکا ہے۔ چین اور بھارت کی معیشت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے شکنجے سے آزاد ہے۔ پاکستان کی معاشی حالت ابتر ہے۔ ملک کی نصف آبادی یعنی دس کروڑ افراد شدید غربت میں مبتلا ہیں۔ پانچ سے چھے کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ یعنی ان کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر اور دو ڈالر کے درمیان ہے۔ ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر کھڑے ہیں۔ ملک کی صرف دو تین فیصد آبادی اعلیٰ تعلیم تک رسائی رکھتی ہے۔ ریاست نے عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے، چنانچہ تعلیم اور صحت پر نجی شعبے کا غلبہ ہوچکا ہے۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح پندرہ سے بیس فیصد کے درمیان بتائی جارہی ہے۔ ملک پر 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض چڑھ چکا ہے۔ ملک کی معیشت کا یہ حال ہے کہ ہمارے بجٹ کا نصف قرضوں یا سود کی ادائیگی پر صرف ہوجاتا ہے اور ہمیں قرض ادا کرنے کے لیے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے۔ ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف ہمارا بجٹ بناتا ہے، آئی ایم ایف تیل اور گیس کے نرخوں کا تعین کرتا ہے۔ جس طرح ہماری سیاسی آزادی ایک واہمہ ہے اُسی طرح ہماری معاشی آزادی بھی ایک واہمہ ہے۔ پاکستان ایک خواب تھا مگر اسلام کی طاقت نے اسے خواب سے حقیقت بنادیا۔ مگر ہمارے حکمران طبقے نے ہماری سیاسی اور معاشی آزادی کو حقیقت سے واہمے میں تبدیل کردیا۔
پاکستان کے حکمران طبقے کی ناکامی کی انتہا یہ ہے کہ وہ پاکستان کی وحدت کو ہی یقینی نہ بناسکا، چنانچہ قائداعظم کا ’’اوریجنل پاکستان‘‘ صرف 24 سال چل سکا۔ 1971ء میں ملک دولخت ہوگیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں ڈھل گیا۔ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی دو ملک تھے، مگر وہ ایک ہوگئے۔ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کو ایک کرنے کے لیے گفت و شنید ہوتی رہتی ہے، مگر ایک پاکستان دو ملکوں میں تبدیل ہوگیا۔ اس سانحے کی توجیح یہ کی جاتی ہے کہ بھارت اس کا ذمے دار ہے، شیخ مجیب الرحمان کی قوم پرستی اس کی ذمے دار ہے۔ لیکن یہ توجیحات حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے بنگالیوں کی اکثریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ملک خود توڑا۔ اس طبقے نے ملک میں وہ حالات خود پیدا کیے جو ملک کو توڑنے والے تھے۔ متحدہ پاکستان میں بنگالی آبادی کا 56 فیصد اور بعض اعداد و شمار کے مطابق 60 فیصد تھے، مگر اُن سے برابری یا Parity کے اصول کے تحت تقاضا کیا گیا کہ وہ خود کو آبادی کا صرف 50 فیصد تسلیم کریں، اور بنگالیوں نے پاکستان کی محبت میں یہ ظلم ہنسی خوشی برداشت کرلیا۔ لیکن بنگالیوں کو 50 فیصد آبادی کے وسائل بھی مہیا نہ کیے گئے۔ بنگالیوں کی اکثریت سے بچنے کے لیے ملک کو ون یونٹ میں ڈھالا گیا۔ 1960ء کی دہائی تک بنگالیوں کو فوج میں لیا ہی نہیں جاتا تھا حالانکہ وہ آبادی کا 56 یا 60 فیصد تھے۔ 1960ء کے بعد انہیں فوج میں لیا گیا، مگر 1971ء میں جب ملک ٹوٹا تو فوج میں بنگالیوں کی موجودگی صرف دس، پندرہ فیصد تھی حالانکہ وہ آبادی کا 56 یا 60 فیصد تھے، یہی صورتِ حال سول سروس میں تھی۔ بنگالیوں کی تذلیل اس کے سوا تھی۔ صدیق سالک نے اپنی تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1971ء کے بحران میں ڈھاکا گئے تو ایک فوجی ان کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر آیا۔ ایک بنگالی قلی نے صدیق سالک کا سامان گاڑی تک پہنچایا تو صدیق سالک نے اُسے کچھ پیسے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ یہ دیکھ کر صدیق سالک کے استقبال کے لیے آنے والے فوجی نے اُن سے کہا: سر! ان ’’حرام زادوں‘‘ کی عادت خراب نہ کریں۔ بنگالی آبادی کا 56 یا 60 فیصد تھے مگر وہ ’’حرام زادے‘‘ تھے۔ صدیق سالک نے لکھا ہے کہ وہ ڈھاکا پہنچے تو انہوں نے بینک اکائونٹ کھولنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہیں ان کے فوجی دوستوں نے مشورہ دیا کہ بینک اکائونٹ کھولنا ہے تو فوجی چھائونی میں موجود بینک میں کھولیے۔ صدیق سالک نے اس کی وجہ پوچھی تو اُن کو جواب ملا ’’نہ جانے کب اچانک یہاں سے بھاگنا پڑے‘‘۔ یہ بات اُس وقت کہی گئی جب سقوطِ ڈھاکا ہونے میں ابھی ایک سال تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مغربی پاکستان کے حکمران پہلے ہی سے سقوطِ ڈھاکا کی تیاری کیے ہوئے تھے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب مشرقی پاکستان میں محاذ آرائی شروع ہوئی تو جنرل نیازی نے کہاکہ ہم بنگالی عورتوں کو اتنے بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ یہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کا ’’تصورِ بنگالی‘‘ تھا۔ جمہوریت کا اصول اکثریت ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب نے اکثریت حاصل کی، اس لیے اصولاً اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیا جانا چاہیے تھا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے شیخ مجیب کی جمہوری فتح اور اس کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ پاکستان ٹوٹ گیا۔ ہر سانحے کے حوالے سے بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ چنانچہ سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کا فائدہ پنجابیوں کو ہوا۔ اس کا فائدہ پٹھانوں کو ہوا۔ اس کا فائدہ بلوچوں کو ہوا۔ اس کا فائدہ مہاجروں کو ہوا۔ چنانچہ سقوطِ ڈھاکا کے ذمے دار بھی یہی لوگ ہیں۔