کینیڈا کے وحشت ناک سانحے کے تناظر میں اسباب کا جائزہ
دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کا دائرہ اتنا وسیع اور ظلم اتنا شدید ہوگیا ہے کہ اکثر مقامات پر مسلمانوں کے لیے ایک دن ایک مہینے کے برابر، ایک مہینہ ایک سال کے برابر، اور ایک سال ایک دہائی کے برابر بن گیا ہے۔ بدقسمتی سے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں بھی ان پر ظلم ہورہا ہے، اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں بھی ان پر ظلم ہورہا ہے۔ کینیڈا کو اب تک مسلمانوں کے لیے ’’محفوظ‘‘ سمجھا جاتا رہا ہے، مگر چند روز پیشتر کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ایک شخص نے ایک مسلمان خاندان پر ٹرک چڑھاکر چار افراد کو شہید اور ایک 9 سالہ بچے کو بری طرح زخمی کردیا۔ مسلمانوں کو کچلنے والے شخص کو گرفتار کرلیا گیا۔ اُس کے گھر سے ایسا لٹریچر برآمد ہوا جس سے اُس کا انتہا پسند ہونا ثابت ہوتا ہے۔ وہ ہٹلر سے متاثر ہے، اور اس نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم خاندان کو نشانہ بنایا۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اسے اسلاموفوبیا کا کیس باور کردیا ہے اور کہا ہے کہ اسلاموفوبیا اور انتہا پسندی ایک حقیقت ہیں۔ اُن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کینیڈا کے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ وہ تنہا نہیں ہیں اور حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن یہ سب کہنے کی باتیں ہیں اور صرف Public Consumption کے لیے کہی جاتی ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان جہاں جہاں اقلیت ہیں وہ تنہا ہیں، اور کوئی حکومت حقیقی معنوں میں ان کے ساتھ نہیں ہے۔ امریکہ مغربی دنیا کا رہنما ہے، وہ دنیا کی واحد سپرپاور ہے، مگر نائن الیون کے بعد سے حکومت نے امریکی مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ ان کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جارہے ہیں، ان کی ڈاک سینسر کی جارہی ہے، ایف بی آئی مسلمانوں سے مسلمانوں کی مخبری کروا رہی ہے۔ پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت کسی بھی مسلمان کو اٹھا لیا جاتا ہے، اور اسے کئی کئی ماہ تک عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔ فرانس یورپ کا سب سے لبرل، سب سے ’’روشن خیال‘‘ ملک ہے، مگر اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں اُس کی تاریک خیالی کا یہ عالم ہے کہ اس نے اپنے ہاں پردے پر پابندی عاید کر ی ہے، بچوں کی مذہبی تعلیم کو خلافِ قانون قرار دے دیا ہے۔ فرانس میں مساجد پر تالے ڈالے جارہے ہیں، وہاں مسلمانوں کا معاشی قتلِ عام ہورہا ہے۔ فرانس میں بے روزگاری کی قومی شرح اگر 10 فیصد ہے تو مسلمانوں میں یہ شرح 20 فیصد ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کے لیے ملازمت کا حصول بہت مشکل ہے۔ فرانسیسی، ملازمت کی درخواست پر مسلمان کا نام دیکھتے ہی اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ فرانس میں مسلمانوں کے لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی بے معنی ہے۔ فرانس کے شہروں میں مسلمانوں کو مخصوص علاقوں تک محدود کردیا گیا ہے، اور فرانس کے مسلمان ہر علاقے میں گھر نہیں خرید سکتے۔ فرانس اور ڈنمارک جیسے ملکوں میں صرف مسلمانوں پر ظلم نہیں ہورہا، وہاں تواتر کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون شائع کیے جارہے ہیں۔ فرانس میں اس عمل کو صدر ماکروں کی صورت میں سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ یورپ کے کئی ملک ہیں جہاں مساجد تعمیر کرنا ناممکن بنادیا گیا ہے۔ وہاں مساجد کے بلند میناروں پر یہ کہہ کر اعتراض کیا جارہا ہے کہ جب ہم یورپ کے کسی شہر کے ہوائی اڈے پر طیارے سے اتر رہے ہوتے ہیں تو افق پر مینار سب سے نمایاں نظر آتے ہیں اور اس سے ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یورپ کے شہر دراصل اسلام اور مسلمانوں کے مراکز ہیں۔ یورپ کے بعض ملکوں کی انتخابی مہم میں مساجد کے میناروں کو ’’میزائلوں‘‘ کی صورت میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ بھارت ہندو ملک ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی حالتِ زار ہمارے سامنے ہے۔ مسلم کُش فسادات بھارت کی سرکاری پالیسی ہے، چنانچہ گزشتہ 73 سال میں بھارت میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کُش فسادات ہوچکے ہیں۔ بھارت کی ہندو قیادت نے مسلمانوں کی تعلیم اور اقتصادیات کو تباہ کردیا ہے۔ 1947ء سے پہلے بھارت کے مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم عام تھی جو کہ اب ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ مسلمانوں پر تعلیم کے حوالے سے یہ خیال غالب آگیا ہے کہ جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بھی نوکری نہیں ملنی تو پھر تعلیم پر پیسہ کیوں خرچ کیا جائے! ہم نے خود بھارت میں ایم اے کی ڈگری کے حامل نوجوانوں کو پان کے کھوکھے پر بیٹھے ہوئے، اور پرچون کی دکان پر پتا ماری کرتے دیکھا ہے۔
چنانچہ اقتصادی اعتبار سے بھارت کے مسلمان بھارت کے نئے شودر بن کر ابھرے ہیں۔ بھارت میں مسلمان کاروبار کی طرف تھے تو ہندو قیادت نے مسلم کُش فسادات کے ذریعے ان کے کاروبار کو تباہ کردیا۔ بھارت میں دن دہاڑے بابری مسجد شہید کردی گئی، اور اب بھارت کی ہندو قیادت عام مساجد کو نشانے پر رکھے ہوئے ہے۔ چین میں مسلمانوں کی نسل کُشی ہورہی ہے۔ چینی مسلمانوں سے ان کا مذہب اور تہذیب چھینی جارہی ہے۔ چین کے مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ چین ہی کو اپنا خدا سمجھیں۔ چین کے لاکھوں مسلمانوں کو کیمپوں میں محدود کرکے اُن سے اُن کی مذہبیت چھینی جارہی ہے، بچوں کو ان کے والدین سے جدا کیا جارہا ہے، چین کی مسلم عورتوں کو سائنسی طریقوں سے ’’بانجھ‘‘ بنایا جارہا ہے، مساجد بند کی جارہی ہیں، مذہبی تعلیم کو ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ جو مساجد کھلی ہوئی ہیں ان کی نگرانی کی جارہی ہے۔ اسرائیل اور مقبوضہ کشمیر مسلمانوں کی بڑی بڑی قتل گاہیں ہیں۔ یہاں بچے محفوظ ہیں نہ خواتین۔ اسرائیل نے غزہ پر حالیہ حملوں میں چاردرجن سے زیادہ بچوں کو شہید کردیا۔ مقبوضہ کشمیر میں سیکڑوں نوجوان پیلٹ گنوں کے چھروں سے اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ بدھ ازم میں چیونٹی کو مارنا بھی ’’گناہ‘‘ ہے، مگر میانمر میں بدھسٹوں نے ہزاروں مسلمانوںکو قتل کردیا، سیکڑوں خواتین کی عزتیں لوٹ لیں، سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں کو میانمر سے نکال پھینکا۔
امریکہ واحد سپرپاور ہے، مسلمان اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چین ابھرتی ہوئی سپرپاور ہے، مسلمان اُس کا بھی کوئی نقصان نہیں کر سکتے۔ مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کے لیے تو برما یا میانمر بھی ایک سپرپاور ہے، اس لیے کہ مسلم ریاستیں میانمر کی مسلم کُشی پر اس کا بھی کچھ نہیں بگاڑ پائیں۔
یہ مسلمانوں پر ظلم کے حالیہ منظرنامے کی چند جھلکیاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں پر ظلم کے اس منظرنامے کے اسباب کیا ہیں؟
سیرتِ طیبہ کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ کہیں تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے کہ میں نے آج تک اتنا حسین چہرہ نہیں دیکھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ نے فرمایا: آپ نے ٹھیک کہا۔ کچھ دیر بعد وہاں سے ابوجہل کا گزر ہوا۔ اُس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور میں عیب نکالا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تُو نے صحیح کہا۔ صحابہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپؐ نے ابوبکرؓ اور ابوجہل دونوں کو بیک وقت صحیح فرمایا، اس کی وجہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک آئینے کی طرح ہوں، ہر شخص کو اس آئینے میں اپنا عکس نظر آتا ہے۔ اسلام حق ہے اور وہ باطل پرستوں کے لیے ایک آئینہ ہے۔ چنانچہ جب کفار اور مشرکین کہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں، مسلمان انتہا پسند ہیں، مسلمان ترقی کے دشمن ہیں، مسلمان ظلمت پرست ہیں تو انہیں مسلمانوں کے اسلام کے آئینے میں دراصل اپنا چہرہ نظر آتا ہے۔ بلاشبہ مسلمانوں میں بڑے نقائص ہیں، مگر ان کے پاس دین اور نظریہ بڑا شاندار ہے۔ امریکہ، یورپ، اسرائیل اور بھارت کو مسلمانوں سے نفرت ہے تو اس کی وجہ مسلمان نہیں بلکہ اُن کا اسلامی پس منظر ہے، ان کا دین ہے، ان کی اسلامی شناخت ہے۔ مسلمان جب مغرب کے ایجنٹ بن جاتے ہیں تو جنرل پرویزمشرف کو امریکہ اور یورپ ’’مدبر‘‘ قرار دیتے ہیں، اور اسرائیل کا صدر رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویز کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کرتا ہے۔ مولانا وحید الدین خان جب امریکہ اور بھارت کی گڈ بکس میں آجاتے ہیں تو امریکہ کا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، اور بھارت کے قومی سلامتی سے متعلق ادارے ان کو “Promote” کرتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں پر جہاں جہاں ظلم ہورہا ہے اُن کے خدا پرست، اور قرآن مرکز اور اسلام پسند ہونے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ مسلمان آج سیکولر یا لبرل ہوجائیں تو امریکہ اور یورپ بھی ان کی واہ واہ کریں گے، بھارت اور اسرائیل بھی انہیں سینے سے لگائیں گے، اور وہ چین کے لیے بھی ’’قابلِ ہضم‘‘ ہوجائیں گے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید صاف کہتا ہے کہ یہ جو یہودی اور اور عیسائی ہیں تمہارے لیے ان کی زبانوں پر جو بغض ہے اس سے زیادہ بغض ان کے سینوں میں ہے۔ اس بغض کی وجہ بھی اسلام ہے۔ لیکن مسلمانوں پر ظلم کا ایک اور سبب بھی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب دوسری قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہ نے سوال کیا کہ کیا اُس وقت ہماری تعدادکم ہوگی؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم تعداد میں بہت ہوگے مگر تمہارے اندر دو بیماریاں پیدا ہوجائیں گی، ایک یہ کہ تم دنیا سے محبت کرنے لگو گے، اور دوسری یہ کہ تمہیں موت سے کراہت محسوس ہونے لگے گی۔ اس وقت دنیا میں ایک ارب 80 کروڑ مسلمان موجود ہیں اور ان کی عظیم اکثریت دنیا پرست ہے۔ اکبر الہٰ آبادی نے ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا:
نہیں پرسش کچھ اس کی الفتِ اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
مسلمانوں کا حال اسی شعر کے مصداق ہے۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو الفت ِاللہ کی فکر نہیں ہے۔ انہیں فکر ہے تو تنخواہ کی۔ ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں تو تنخواہ کے لیے۔ خود کو اچھا انسان بنانے کے لیے نہیں۔ ہم شادی بیاہ کرتے ہیں تو لڑکے کی تنخواہ دیکھ کر… اس کی دین داری، اس کا حسب نسب اور اس کا کردار دیکھ کر نہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے، ایک تقویٰ کو اور دوسرا علم کو۔ لیکن مسلم معاشروں میں تقویٰ اور علم کا کوئی خریدار نہیں۔ مسلم معاشروں میں فضیلت حاصل ہے تو طاقت اور سرمائے کو۔ جس کے پاس طاقت ہے وہ محترم ہے، یا جس کے پاس دولت ہے وہ محترم ہے۔ ہمارے لیے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نمونہ نہیں، صحابہ کی زندگی نمونہ نہیں، اکابر صوفیہ اور علما کی زندگی نمونہ نہیں… ہمارے لیے نمونہ ہے تو امریکہ اور یورپ کے لوگوں کی زندگی، جس میں Cash اور عیش کی فراوانی ہے۔ اس صورتِ حال میں مسلمان ذلیل و خوار نہ ہوں گے تو اور کیا ہوں گے! یہ امر بھی ثابت شدہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت موت سے کراہت محسوس کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں خدا سے ملاقات کا کوئی شوق نہیں۔ نہ ہمارے اعمال ایسے ہیںکہ ہمیں خدا سے ملاقات کا شوق لاحق ہو۔ اپنے اعمال کی خرابی کا ہمیں لاشعوری طور پر احساس ہے، چنانچہ ہم کسی صورت میں مرنا نہیں چاہتے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ’’لیلیٰ‘‘ دنیا ہے۔ ہم اس لیلیٰ کے ’’مجنوں‘‘ ہیں اور اس لیلیٰ کا عشق ہمیں موت سے ڈراتا ہے، ہمارے دل میں موت کی کراہت پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کا مجموعی وزن جنگِ بدر کے 313 صحابہ کے برابر بھی نہیں جو موت کے خوف پر غالب آکر میدانِ بدر میں جاکھڑے ہوئے تھے اور ایک ہزار کے لشکر پر غالب آگئے تھے۔ اس سلسلے میں عہدِ حاضر کے ٹھوس اور ناقابلِ تردید تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ جن لوگوں نے افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کے خلاف جہاد کیا وہ دنیا پرست اور موت سے کراہت محسوس کرنے والے نہیں تھے، بلکہ وہ خدا پرست اور شوقِ شہادت سے ہمکنار لوگ تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں سوویت یونین اور امریکہ کو پٹوادیا۔ امت کا 20 فیصد بھی دنیا کی محبت سے آزاد اور موت کی کراہت سے بے نیاز ہوجائے تو مسلمان عالمی طاقت بن کر سامنے آجائیں گے۔
مسلمان مغرب سے اتنے مرعوب ہیں کہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ مغرب مسلمانوں سے ’’حسد‘‘ کرتا ہے۔ اس کی ایک ناقابلِ تردید مثال یہ ہے کہ 2009ء میں اُس وقت کے پوپ بینی ڈکٹ شش دہم کی ایک خفیہ گفتگو منظرعام پر آئی۔ اس گفتگو میں ایک صاحب نے پوپ سے سوال کیا کہ کیا ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان اچھے تعلقات قائم نہیں ہوسکتے؟ پوپ نے کہا: ایسا ممکن نہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس Word of God ہے، یعنی قرآن۔ گویا مسلمان ہمارے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ ہمارے پاس Word of God نہیں ہے۔ اس گفتگو کا علمی اور نفسیاتی پس منظر یہ ہے کہ بائبل کی اصل زبان باقی رہی نہ اس کی اصل تعلیمات باقی رہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بہت عرصے بعد موجودہ بائبل مرتب ہوئی۔ نہیں معلوم اس میں کتنا اصل ہے اور کتنا غیر اصل ہے۔ اس کے برعکس قرآن مجید کا ایک ایک حرف محفوظ چلا آتا ہے۔ مسلمانوں کو یہ تمام حقائق معلوم تو ہیں مگر وہ عیسائیوں سے ان باتوں کا تذکرہ نہیں کرتے۔ البتہ خود عیسائی اس حوالے سے احساسِ کمتری کا شکار ہیں اور وہ مسلمانوں کو ایک برتر قوم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایسی قوم جس کے پاس پیغام ربانی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ مغربی دنیا کا یہ حسد بھی انہیں مسلمانوں کے خلاف اکساتا ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو مسلمانوں پر ظلم کا ایک سبب خود مسلم دنیا کے حکمران ہیں۔ مسلم دنیا کے تمام حکمران خواہ بادشاہ ہوں یا جرنیل یا جمہوری حکمران، سب مغرب کے ایجنٹ ہیں۔ وہ امریکہ اور یورپ سے پوچھ کر پالیسیاں بناتے ہیں۔ ان کے اثاثے اور بینک اکائونٹس مغرب میں ہیں۔ ان کی معاشی پالیسی آئی ایم ایف اور عالمی بینک وضع کرتے ہیں۔ امریکہ کہتا ہے تو مسلم حکمران ’’جہادی‘‘ ہوجاتے ہیں۔ امریکہ جہاد کو ’’فساد‘‘ کہتا ہے تو مسلم حکمران بھی اسے فساد کہنے لگتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے کبھی اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کا حق ادا نہیں کیا۔ مغرب توہینِ رسالت کی واردات بھی کر گزرے تو ان حکمرانوں کے کان پر جوں نہیں رینگتی اور وہ مذمتی بیان سے آگے نہیں بڑھتے۔ بلکہ بعض تو مذمتی بیان بھی جاری نہیں کرتے۔ چنانچہ مسلم حکمرانوں کی پستی مسلمانوں کی پستی بن گئی ہے۔ مسلم حکمرانوں کی بزدلی مسلم عوام کی بزدلی بن گئی ہے۔ اور مسلم حکمرانوں کا وزن پوری امتِ مسلمہ کا وزن بنا ہوا ہے۔ اس صورت میں اسلام اور مسلمان دشمن طاقتیں مسلمانوں پر جو ظلم کر گزریں، کم ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
اگر ملک ہاتھوں جاتا ہے، جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
مگر مسلم دنیا کے حکمران ملک کیا اپنے اقتدار کے چلے جانے سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ 21 ویں صدی میں اقبال کے مذکورہ مشورے پر کسی نے عمل کیا ہے تو وہ مُلاّ عمر تھے۔ انہوں نے افغانستان کو دائو پر لگادیا اور امریکہ کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ چنانچہ بالآخر امریکہ کو طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑ گئے۔