خدا پر بھروسا کریں اور ایمان کی قوت پر اعتبار کریں تو امریکہ کے چنگل سے مکمل آزادی حاصل کی جا سکتی ہے، اور جس طرح امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگی،وہ پاکستان سے بھی مذاکرات کی بھیک مانگ سکتا ہے
پاکستان عظیم ترین مثالیوں، عظیم ترین آدرشوں کے سائے میں تخلیق ہوا تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست تھی۔ قائداعظم اسے اسلام کا قلعہ دیکھنا چاہتے تھے۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان ایک پریمیئر اسلامی ریاست ہوگا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے اور انسانی روح عظیم ترین تخلیقی کارناموں کے لیے پوری طرح آزاد ہوگئی ہے۔ پاکستان کی عظمت یہ تھی کہ اسے عہدِ جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ بن کر یہ ثابت کرنا تھا کہ اسلام چودہ سو سال پہلے کا فلسفہ نہیں ہے، بلکہ وہ جتنا ماضی کے لیے تھا اتنا ہی حال اور مستقبل کے لیے ہے۔ مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کے بلند مقاصد پر تھوک دیا۔ انہوں نے اسے امریکہ کی کالونی بنادیا۔ نہ صرف بنادیا بلکہ بنائے رکھا۔ اس ناپاک عمل کا آغاز جنرل ایوب خان نے کیا۔ جنرل ایوب خان نے اگرچہ 1958ء میں مارشل لا لگایا، مگر امریکہ کی خفیہ دستاویزات کے مطابق جو چند سال پہلے سامنے آئی ہیں، جنرل ایوب 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سول حکمران نااہل ہیں اور وہ پاکستان کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب امریکہ کو باور کرا رہے تھے کہ فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب امریکیوں کو خوامخواہ پاکستان کے بارے میں آگاہ نہیں کررہے تھے، وہ بلاواسطہ طور پر امریکیوں کو اعتماد میں لے رہے تھے۔ وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کا اصل انچارج اس کا نظریہ، اس کی تاریخ، اس کے بلند آدرش، قوم اور سیاست دان نہیں بلکہ جرنیل ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو جنرل ایوب اپنے مارشل لا کے لیے امریکی حمایت کی راہ بھی ہموار کررہے تھے۔ جنرل ایوب اپنے مقاصد میں پوری طرح کامیاب رہے۔ انہوں نے 1958ء میں ملک پر مارشل لا مسلط کیا تو امریکہ بہادر نے جنرل ایوب کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔ امریکہ کے پیٹ میں جمہوریت کے مروڑ اٹھے، نہ اس کے دل میں سول بالادستی کا درد اٹھا۔ اسے پاکستانی قوم کی آزادی یاد آئی، نہ پاکستان میں مارشل لا کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر آئیں۔ جنرل ایوب امریکہ کے تابعدار تھے، اور امریکہ کے لیے یہی بات اہم اور کافی تھی۔ جنرل ایوب پاکستان کو امریکہ کے دائرے میں لے گئے تو آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے ’سیٹو‘ اور ’سینٹو‘ کا حصہ بننا قبول کیا۔ انہوں نے امریکہ کو سوویت یونین کی نگرانی کے لیے خفیہ اڈہ مہیا کیا۔ انہوں نے عالمی بینک جیسے استعماری ادارے کو پاکستان کے معاشی معاملات میں دخیل کیا۔ جنرل ایوب خود کو امریکہ کا ’’اتحادی‘‘ کہتے تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے اتحادی نہیں تھے، ان کے درمیان ’’آقا‘‘ اور ’’غلام‘‘ کا رشتہ تھا۔ یہ تلخ حقیقت جنرل ایوب پر بھی بالآخر آشکار ہوگئی، چنانچہ انہوں نے اس تلخ حقیقت کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھوائی، لیکن بقول ظفر اقبال ؎
کہیں چھپائے سے چھپتی ہے بے حسی دل کی
ہزار کہتا پھرے مست ہے قلندر ہے
چنانچہ جنرل ایوب کی کتاب پاکستان کی غلامی اور امریکہ کی آقائیت پر پردہ ڈالنے میں ناکام رہی۔ جنرل ایوب دس سال تک اقتدار میں رہے، مگر اُن کے بعد بھی پاکستانی ریاست اور معاشرے کی Americanization جاری رہی۔
جنرل یحییٰ نے پاکستان توڑنے میں اہم کردار ادا کیا، مگر اُن کے خلاف کچھ بھی نہ ہوسکا۔ اس سلسلے میں پاکستان کے ایک ممتاز صحافی نے ذوالفقار علی بھٹو سے سوال کیا، تو انہوں نے آف دی ریکارڈ کہا کہ امریکیوں نے جنرل یحییٰ کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے پاکستانی حکمرانوں کو منع کردیا تھا، اس لیے کہ امریکی جنرل یحییٰ کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ انہوں نے امریکہ اور چین کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کو اس حد تک امریکی کالونی بنایا کہ ملک میں مارشل لا آتا ہے تو امریکی آشیر باد سے۔ جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امریکہ کے حکم پر۔ جہاد ہوتا ہے تو امریکی اشارے پر۔ جہاد کو جرنیل فساد قرار دیتے ہیں تو امریکی خوشنودی کے لیے۔ امریکہ کی مداخلت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ جنرل پرویزمشرف اور بے نظیر کے درمیان این آر او ہوتا ہے تو اس کے پیچھے جارج بش کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزا رائس ہوتی ہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دیتا ہے تو امریکی اشارے پر۔ قرض روکتا ہے تو امریکی اشارے پر۔ پاک بھارت مذاکرات ہوتے ہیں تو امریکہ کے کہنے پر۔ پاکستان کے گلے میں فیٹف (FATF) کا پھندا ڈالا جاتا ہے تو امریکہ کے کہنے پر۔ جہادی تنظیموں پر پابندی لگتی ہے تو امریکی دھمکی پر۔ پاکستان کے امریکہ کی کالونی بننے کا عمل جنرل پرویزمشرف کے دور میں انتہا پر پہنچ گیا۔ جنرل پرویزمشرف نے کولن پاول کی ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ انہوں نے امریکہ کو تین ہوائی اڈے دے دیے۔ انہوں نے بندرگاہ امریکہ کے حوالے کردی۔ انہوں نے ہزاروں مجاہدوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔ انہوں نے پاکستان میں افغانستان کے سفیر مُلاّ ضعیف تک کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کردیا، حالانکہ ملا ضعیف کو پورا سفارتی تحفظ حاصل تھا۔ امریکیوں نے ملا ضعیف کو ننگا کرکے ان پر تشدد کیا۔ جنرل پرویز اور ان کے زیراثر فوجی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو اس حد تک امریکہ کا غلام بنایا کہ ملک میں خانہ جنگی جیسی صورتِ حال پیدا ہوگئی، اور یہ صورتِ حال 70 ہزار افراد کو نگل گئی۔ امریکہ کی کالونی بننے اور امریکی جنگ کو گود لینے سے ہمیں 120 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے ان تمام حقائق سے بھی کچھ سیکھ کر نہ دیا۔ چنانچہ آج بھی پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنائے رکھنے کا عمل پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ جاری ہے۔
یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور وہ بالآخر طالبان سے کیے گئے معاہدے کے تحت افغانستان سے واپس جارہا ہے۔ مگر افغانستان سے واپس جانے والا امریکہ پاکستان میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ چنانچہ ہر طرف شور برپا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو اڈے دینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ ایک خبر کے مطابق امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان اسے ایک فوجی اڈہ دے دے، تاکہ وہ افغانستان کے ساتھ ساتھ چین اور ایران پر بھی نظر رکھ سکے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ نے پاکستان سے شمسی ائیربیس دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ بریگیڈیئر آصف ہارون کے مطابق امریکہ پاکستان کو جن شرائط پر اپنی گڈ بک میں لینا چاہتا ہے اُن میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ پاکستان اپنے آئین اور آئیڈیالوجی کو سیکولر بنائے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام اور میزائل پروگرام کو رول بیک کرے۔ تیسرے یہ کہ وہ سی پیک کی رفتار سست کر دے۔ چوتھے یہ کہ پاکستان چین اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کی گرمجوشی ختم کرے۔ پانچواں یہ کہ روس سے دور رہے، اور چھٹا یہ کہ بھارت کی بالادستی تسلیم کرے۔
پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان اہم ہے کہ عمران خان کی موجودگی میں امریکہ کو پاکستان میں فوجی اڈے نہیں مل سکتے۔ بریگیڈیئر(ر) آصف ہارون کا کہنا بھی یہ ہے کہ پاکستان نے اڈے دینے سے انکار کردیا ہے، لیکن اس سلسلے میں پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ کا بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلم بیگ صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے کولن پاول کی فون کال پر ڈھیر ہوکر امریکہ کی تمام شرائط تسلیم کرلی تھیں۔ ان شرائط میں گرائونڈ لائن آف کمیونی کیشن (جی ایل او سی) اور ائیر لائن آف کمیونی کیشن (اے ایل او سی) کی شرائط بھی شامل تھیں۔ ان شرائط کی موجودگی میں امریکہ کو اڈے دیے جائیں یا نہ دے جائیں اس کی اہمیت نہیں رہتی۔ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کے بقول وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ کے ساتھ 2001ء میں کیا گیا معاہدہ ابھی برقرار ہے۔ جنرل (ر) بیگ کے بقول یہ اعتراف امریکہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی توثیق کے مترادف ہے، گویا ہم آج تک افغانستان پر امریکہ کے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے اُس کی مدد کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاہدے کو ختم کیا جائے، کیونکہ اس معاہدے کے تحت امریکہ افغانستان پر حملے کے لیے پاکستان کی فضائی حدود اور زمینی راستوں کو استعمال کرسکتا ہے۔ جنرل بیگ نے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ ہماری سرزمین کسی ملک کی آزادی اور خودمختاری کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتی، لیکن امریکہ نے ہمارے اس مؤقف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو امریکہ اسے ناکام بنانے کے لیے افغانستان پر فضائی حملہ کرسکتا ہے۔ جنرل بیگ نے نشاندہی کی کہ جنرل پرویز کے دور میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو جنرل پرویز کے بعد آنے والے جمہوری حکمرانوں مثلاً نوازشریف، آصف زرداری اور عمران خان نے بھی برقرار رکھا۔
جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کا یہ تجزیہ چشم کشا ہے، اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کو فوجی اڈے دیے بغیر بھی ہم اُس وقت تک امریکہ کی کالونی بنے رہیں گے جب تک ہم جنرل پرویزمشرف کے دور میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو منسوخ نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ان معاہدوں کو منسوخ کریں گے؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اگر وہ ان معاہدوں کو منسوخ نہیں کریں گے تو کس منہ سے یہ کہیں گے کہ پاکستان امریکہ کا آلۂ کار نہیں ہے۔ غور کیا جائے تو امریکہ کے ساتھ جنرل پرویز کے دور میں کیے گئے معاہدوں کی موجودگی بھی پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنائے رکھنے کا منصوبہ ہے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ طالبان کو پاکستان میں امریکی اڈوں کی موجودگی کے مضمرات کا پوری طرح اندازہ ہے، چنانچہ انہوں نے صاف کہا ہے کہ خطے میں امریکی اڈوں کا قیام تاریخی غلطی ہوگی اور افغان قوم اس پر خاموش نہیں رہے گی۔ طالبان نے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا ہے کہ امریکہ حملوں کے لیے ہمارے پڑوس میں موجود رہنا چاہتا ہے، چنانچہ اسے فضائی اور زمینی راستہ نہ دیا جائے۔
نائن الیون کے بعد پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کرتے ہوئے جنرل پرویز نے کہا تھا کہ ہم نے ایسا کرتے ہوئے ایک طرف اپنے ایٹمی اثاثوں کا دفاع کرلیا ہے اور دوسری جانب کشمیر کاز کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے۔ مگر جیسا کہ ظاہر ہے امریکہ آج بھی ہمارے ایٹمی اثاثوں کے تعاقب میں ہے اور وہ ہم سے تقاضا کررہا ہے کہ ہم اپنا ایٹمی اور میزائل پروگرام رول بیک کریں۔ کشمیر کاز کا یہ حال ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرلیا ہے اور ہم اُس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے۔ اس کے برعکس صورتِ حال یہ ہے کہ مٹھی بھر طالبان نے وقت کی واحد سپر پاور امریکہ کو افغانستان میں منہ کے بل گرا دیا ہے۔ طالبان کی امریکہ پر فتح دراصل ایمان کی ٹیکنالوجی پر فتح ہے، اور اس فتح سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اگر ایمان ہو تو آج بھی غزوۂ بدر کی تاریخ کو دہرایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے حکمران امریکہ کے کاسہ لیس ہیں۔ ان کا نہ کوئی خدا ہے، نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی دین ہے، نہ کوئی تاریخ ہے، نہ کوئی تہذیب ہے۔ چنانچہ انہوں نے پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنایا ہوا ہے، اوروہ پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ خدا پر بھروسا کریں اور ایمان کی قوت پر اعتبار کریں تو امریکہ کے چنگل سے مکمل آزادی حاصل کی جا سکتی ہے، اور جس طرح امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگی، وہ پاکستان سے بھی مذاکرات کی بھیک مانگ سکتا ہے۔ اقبال نے آج سے ایک صدی قبل کتنا درست کہا تھا:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا