مسلمانوں میں ایک چھوٹا سا طبقہ ایسا ہے جسے اسلام اور امت مسلمہ سے چڑ ہے۔ اس طبقہ کے لوگوں کے دلوں میں اسلام کے خلاف بغض بھرا رہتا ہے مگر یہ لوگ اسلام کے خلاف اپنے حقیقی خیالات کا اظہار نہیں کرسکتے اس لیے کہ وہ ایسا کریں گے تو ازخود دائرہ اسلام سے باہر چلے جائیں گے اور معاشرے کا دبائو ان کا جینا حرام کردے گا۔ چنانچہ یہ لوگ اسلام کے خلاف کھل کر کچھ نہیں کہتے۔ البتہ اسلام کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کا انہوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے کہ انہیں اسلام کو برا بھلا کہنا ہوتا ہے تو وہ ملائوں اور مولویوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔ ملائوں اور مولویوں میں بہت خرابیاں ہونگی۔ مگر اسلام ملائوں اور مولویوں کی ایجاد نہیں ہے۔ اسلام کے مقاصد، اس کا نظام عبادات اور اس کی اخلاقیات اللہ تعالیٰ کا حکم ہیں مگر مذکورہ طبقے کے لوگ ان حقائق پر بھی اس طرح کلام کرتے ہیں جیسے پورا کا پورا اسلام ملائوں کی تعبیر کا حاصل ہو اور وہ اسی لیے اسلام پر عمل نہ کرتے ہوں۔ تاہم امت کا معاملہ اسلام سے قدرے مختلف ہے۔ امت کا تصور اسلام کی طرح مذہبی محسوس نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ لوگ امت کے تصور کا مذاق اڑاتے ہیں اور انہیں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے کروڑوں مظلوم مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اور اگر یہ لوگ مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی ظاہر بھی کرتے ہیں تو دکھاوے کے لیے اور یہ دکھاوا خود ان کی اپنی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے۔ البتہ ان لوگوں کو مسلم معاشروں میں آباد دوسرے مذاہب اور اقلیتی مذہبی طبقات کے ساتھ ہونے والے سلوک کا غم کھائے جاتا ہے۔
اس طرز عمل کا ایک اشتہار 2 دسمبر سن 2012 کی اشاعت میں شائع ہونے والا عبدالرئوف کا کالم ہے۔
یہ کالم روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کے حوالے سے لکھا گیا ہے اور اس کا ابتدائی حصہ پڑھ کر کوئی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ لکھنے والے کو روہنگیا مسلمانوں کی المناک صورت حال پر گہرا دکھ ہے لیکن کالم کے دوسرے ہی پیراگراف میں یہ غلط فہمی دور ہوجاتی ہے۔ عبدالرئوف صاحب لکھتے ہیں۔
’’ برما کے مسلمانوں کے ایسے حالات پڑھ کر پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کے دلوں پر کیا نہیں گزرتی۔ آئے دن ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے ہمارے دوست (اگرچہ بعض اوقات فرضی قصے گھڑ اور نسل کشی کی فرضی تصاویر چھاپ کر) ہمیں اور اہل اقتدار کو یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کے مستقبل کے لیے کچھ کیا جانا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اپنے وطن میں مسلمانوں نے اپنے بھائی بندوں کے لیے ایسے حالات پیدا کر رکھے ہیں کہ جہاں ان کے مسلک سے الگ مسلک رکھنے والے سکون سے جی سکیں؟ آج ہی فیس بک پر ایک مسلک کے مارے جانے والے لوگوں کی تصاویر کے ساتھ جو کمنٹس لکھے نظر آتے ہیں وہ اس ملک میں پھیلائی جانے والی نفرت کا اظہار ہیں۔ ہم روہنگیا مسلمانوں کا کیا رونا روئیں ہم نے خود اپنے بھائیوں کو برابری کے حق سے محروم کر رکھا ہے‘‘
عبدالرئوف صاحب کے اس تبصرے کو پڑھ کر خیال آتا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کو ’’مبالغے کی ساتھ بیان‘‘ کیا جاتا ہے ورنہ ان کی حالت خراب ہونے کے باوجود اتنی خراب نہیں جتنی بیان کی جاتی ہے۔ یہ صرف روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ نہیں۔ اسلام اور امت مسلمہ سے کد رکھنے والے لوگ پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے بارے میں کم وبیش ایسی ہی آراء کا اظہار کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مظلوم مسلمانوں کی صورت حال ہمیشہ سے Over Reporting نہیں ہولناک Under Reporting کا شکار ہے۔ فلسطین، کشمیر، بوسنا، چیچنیا اوربرما کے مسلمانوں کی مظلومیت کا 90 فیصد آج تک رپورٹ ہی نہیں ہوا۔ روہنگیا مسلمان گزشتہ 65 سال سے بدترین نسل کشی کا شکار ہیں۔ انہیں برما کا شہری تسلیم نہیں کیاجاتا۔ ان کے سیاسی، معاشی اور انسانی حقوق کا کوئی تصور موجود نہیں۔ انہیں شادی کرنے کے لیے بھی حکومت کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اجازت انہیں بسا اوقات برسوں تک نہیں دی جاتی۔ وہ برما کے کسی ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ ایک ہی شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جانا چاہیں تو انہیں پولیس کو مطلع کرنا پڑتا ہے۔ ان کی سیکڑوں عبادت گاہوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ عصمت دری کے متعدد واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ لیکن عبدالرئوف صاحب نے نام لیے بغیر پاکستان کے شیعوں کی حالت کو روہنگیا مسلمانوں کی حالت سے بدتر قرار دے دیا ہے۔ شیعہ سنی اختلافات کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن پاکستان میں شیعہ سنی تعلقات ’’بحران‘‘ کیا کبھی ’’خرابی‘‘ کا شکار بھی نہیں ہوئے۔ وہ پاکستانی سیاست کا مرکزی حوالہ ہیں۔ فوج میں وہ اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچتے ہیں۔ مالیات اور ابلاغ عامہ میں ان کی موجودگی اور کردار ’’مرکزی‘‘ ہے۔ انہیں اپنی عبادت گاہیں اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کی کامل آزادی ہے۔ وہ مذہب اور تاریخ کی تعبیر میں آزاد ہیں اور اس کے خلاف کوئی صدائے احتجاج تک بلند نہیں کرتا۔ کیا ’’امتیازی سلوک‘‘ اور ’’ظلم‘‘اسی کو کہتے ہیں؟ پاکستان کی سماجی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو شیعہ سنی تعلقات انتہائی خوشگوار ہیں۔ ہم ایسے کسی سنی مرد یا عورت سے واقف نہیں جس نے کسی شیعہ سے اپنی دوستی یا تعلق محض اس لیے ترک کیا ہو کہ وہ شیعہ ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں شیعہ فرقے کے لوگ قتل ہورہے ہیں مگر اس سلسلے میں دو باتیں بنیادی ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان میں قتل وغارت گری ایک ’’عمومی صورت حال‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مطلب یہ کہ پاکستان میں اگر ایک سنی کے ہاتھوں ایک شیعہ قتل ہورہا ہے تو ایک سنی کے ہاتھوں 500 سنی قتل ہورہے ہیں۔ اس سلسلے کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو سنی شیعوں کے قتل میں ملوث ہیں وہ سنی آبادی کا اعشاریہ ایک فیصد بھی نہیں ہیں اور ان کا معاشرے کے ’’مرکز‘‘ کیا اس کے ’’مضافات‘‘ سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ ہوتا تو پاکستان کی گلی گلی میں شیعہ سنی ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہوتے۔ لیکن عبدالرئوف اور ان جیسے لوگوں کو ان حقائق میں سے کسی کا ادارک اور اعتراف نہیں ہے۔ بعض لوگ پاکستان میں ہندوئوں اور عیسائیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے حوالے سے بھی بڑا واویلا کرتے ہیں لیکن اس سلسلے میں ان کی حساسیت اور حس انصاف کا یہ عالم ہے کہ انہیں بھارت میں 20 کروڑ مسلمان دیوار سے لگے نظر نہیں آتے۔ البتہ انہیں پانچ ، سات لاکھ ہندوئوں کے ساتھ امتیازی سلوک خوب نظر آتا ہے۔ خیر اگر پانچ سات لاکھ ہندوئوں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک ہوتا ہے تو اس کا کوئی جواز نہیں۔ اسلام کسی مذہبی اقلیت کے ساتھ ظلم کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن کیا ’’واقعتاً‘‘ پاکستان میں ہندوئوں کے ساتھ ’’منصوبہ بندی‘‘ کے تحت امتیازی سلوک ہورہا ہے؟ بادی النظر میں ایسا نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہندوئوں کی آبادی اتنی کم ہے کہ مسلمان ان کے بارے میں سوچتے تک نہیں اور امتیازی سلوک بہت سوچ بچار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جہاں تک ہمیں علم ہے پاکستان میں ہندوئوں کے ہاتھ واحد امتیازی سلوک یہ ہوتا ہے کہ انہیں مسلح افواج میں قبول نہیں کیا جاتا اور اس کی وجہ شاید مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہندو آبادی کا کردار ہے۔ اس سے قطع نظر کر لیا جائے تو ہم نے معاشرے کے کسی طبقے کو کبھی یہ کہتے نہیں سنا کہ ہندوئوں کو آگے بڑھنے سے روکنا ہے۔ دیہی سندھ میں ہندوئوں کی بڑی آبادیاں ہیں اور یہاں ہندو سیاسی، معاشی اور تعلیمی اعتبار طاقت ور اور فعال ہیں۔ حال ہی میں دیہی سندھ میں چند ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کیا تو اسے اس طرح پیش کیا گیا جیسے انہیں جبراً مسلمان کیا گیا ہو۔ حالانکہ اسلام نہ کسی کو جبر کے ساتھ مذہب بدلنے پر مائل کرتا ہے اور نہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں کبھی یہ کیا ہے۔ مسلمانوں نے ایسا کیا ہوتا تو ایک ہزار سال کے دور اقتدار میں وہ پورے بھارت کو مشرف بہ اسلام کرچکے ہوتے۔ اس معاملے کا عجیب پہلو یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے یہ تک نہیں دیکھ رہے کہ مغرب میں ہرسال ہزاروں افراد مسلمان ہورہے ہیں اور مسلمان ہونے والوں میں 60 فیصد خواتین ہیں۔ تو اگر مغرب میں لامذہب یا عیسائی لڑکیاں جبر کے بغیر اسلام قبول کرسکتی ہیں تو پاکستان میں دو چار ہندو لڑکیاں اپنی مرضی سے کیوں اسلام قبول نہیں کرسکتیں۔ مگر جن لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں سے چڑ ہے وہ ان پہلوئوں پر غور ہی نہیں کرتے۔ انہیں تو بس اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑانے کے لیے موقع کا انتظار رہتا ہے۔