سوال یہ ہے کہ وہ ’’ٹولہ‘‘ کون تھا جو پاکستان توڑنے کے لیے کام کررہا تھا اور جس نے مشرقی پاکستان کے سیاسی مسئلے کو طاقت کے زور سے حل کرنے کی کوشش کی؟ بدقسمتی سے اس ٹولے کی نشاندہی نہ یحییٰ نے کی، نہ جنرل نیازی نے کی
پاکستان 20 ویں صدی کا سیاسی ’’معجزہ‘‘ تھا، لیکن مغربی پاکستان کے نااہل اور بددیانت حکمران طبقے نے صرف 24 سال میں اس ’’معجزے‘‘ کو ’’مسئلہ‘‘ بنا کر رکھ دیا، یہاں تک کہ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان ٹوٹ گیا۔ آج دنیا کے نقشے پر جو پاکستان موجود ہے وہ قائداعظم کا ’’اوریجنل پاکستان‘‘ نہیں ہے۔ یہ قائداعظم کا بچاکچھا پاکستان ہے۔ پاکستان کے معجزہ ہونے کی بات کوئی سیاسی بیان نہیں ہے۔ پاکستان کا قیام تاریخ کے ’’ناممکنات‘‘ میں سے تھا۔ ایک طرف وقت کی واحد سپر پاور یعنی سلطنتِ برطانیہ تھی، دوسری طرف ہندو اکثریت تھی، مگر پاکستان کا نظریہ بڑا قوی تھا۔ چنانچہ اس نے پاکستان کو تاریخ کے عدم سے وجود میں لاکر دکھادیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اللہ تعالیٰ کی عطا تھا، اور ہمیں اس عطا کا شکر بھی ادا کرنا تھا اور اسے مزید مضبوط اور خوب صورت بھی بنانا تھا۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر کرنے کے بجائے کفرانِ نعمت کیا، چنانچہ صرف 24 سال کی بھری جوانی میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ زندہ قومیں فتح ہی سے نہیں، شکست سے بھی بہت کچھ سیکھتی ہیں، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے سقوطِ ڈھاکہ سے کچھ بھی سیکھ کر نہ دیا۔ گھر میں بچہ ایک گلاس توڑ دیتا ہے تو گھر والے تحقیق کرتے ہیں کہ گلاس کیوں ٹوٹا؟ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے ملک ٹوٹنے کی بھی تحقیق نہ کی، یہاں تک کہ اس نے حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو بھی طویل عرصے تک منظرعام پر نہ آنے دیا۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے طرح طرح کی کہانیاں ایجاد کیں۔ کبھی کہا گیا کہ سقوطِ ڈھاکہ بھارت کی مداخلت کا نتیجہ ہے، بھارت مداخلت نہ کرتا تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ ’’حالات‘‘ بھی بھارت نے تخلیق کیے تھے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنے؟ ایسا نہیں تھا۔ یہ حالات پاکستان کے حکمرانوں بالخصوص جرنیلوں کے پیدا کردہ تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے یہ کہانی بھی گھڑی گئی کہ اس سانحے کے ذمے دار تین لوگ ہیں: اندرا گاندھی، شیخ مجیب اور بھٹو۔ تاریخ شاہد ہے کہ ملک تین لوگ بناتے ہیں نہ تین لوگ ملک توڑ سکتے ہیں۔ بقول شاعر ؎ ۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
بنگالی پاکستان کے خالق تھے۔ وہ بیدار مغز تھے۔ برصغیر میں مسلم سیاست کی داغ بیل بنگالیوں نے ڈالی تھی۔ مسلم لیگ لاہور، کراچی، پشاور یا کوئٹہ میں نہیں بلکہ 1906ء کے ڈھاکہ میں تخلیق ہوئی۔ تحریک ِ پاکستان کے اہم رہنمائوں میں کئی بنگالی زعما شامل تھے۔ بنگالی، آبادی کا 56 فیصد تھے مگر انہیں 1960ء تک فوج میں لیا ہی نہیں جاتا تھا۔ انہیں فوج میں لینے کا عمل شروع ہوا تو 1970ء تک فوج میں ان کی موجودگی آٹھ دس فیصد تھی، حالانکہ وہ آبادی کا 56 فیصد تھے۔ میجر صدیق سالک نے اپنی تصنیف ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1971ء کے بحران میں ایک فوجی چھائونی میں پہنچے تو ایک بنگالی فوجی افسر نے کہا کہ تمہارا صدر جنرل یحییٰ کیا کہہ رہا ہے؟ وہ کہہ رہا ہے کہ ہم فوج میں بنگالیوں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ کردیں گے۔ بنگالی افسر نے کہاکہ اگر جنرل یحییٰ کے اس بیان پر سو فیصد عمل ہوگیا تو بھی فوج میں بنگالیوں کی موجودگی بیس پچیس فیصد ہوگی حالانکہ ہم آبادی کا 56 فیصد ہیں۔ سول اداروں میں بھی بنگالیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کا 60 فیصد مشرقی پاکستان کی پٹ سن سے آتا تھا، مگر مشرقی پاکستان کو اُس کے حصے کے وسائل مہیا نہ کیے گئے، چنانچہ 1954ء ہی میں مشرقی پاکستان کے اندر مرکز گریز رجحانات پیدا ہونے شروع ہوگئے تھے۔ حسن ظہیر نے بنگلہ دیش سے متعلق اپنی کتاب میں مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں کی جانے والی کئی تقریروں کا حوالہ دیا ہے۔ ان تقریروں میں بنگالی رہنما کہہ رہے تھے کہ اگر مشرقی پاکستان کو اس کا حق نہ دیا گیا تو پاکستان کی وحدت و سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ بہرحال 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ ہوکر رہا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ اس سوال کے جواب کے سلسلے میں جنرل نیازی کی کتاب ’’میں نے ہتھیار نہیں ڈالے‘‘ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ جنرل نیازی ہماری قومی تاریخ کے شرمناک کرداروں میں سے ایک کردار ہے، لیکن جنرل نیازی کی اہمیت یہ ہے کہ وہ واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ چنانچہ اس کالم میں ہم جنرل نیازی کی مذکورہ کتاب کی روشنی میں یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کیوں ٹوٹا؟
ہمارے جرنیلوں کی سیاست دانوں سے نفرت کوئی راز نہیں۔ یہ نفرت جنرل نیازی میں بھی موجود تھی۔ اس نفرت کے اظہار کے طور پر انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا:۔
’’مشرقی پاکستان کا بحران کوتاہ بین اور قوم پرست سیاست دانوں نے پیدا کیا تھا۔ انہوں نے عوام کی ’’جائز شکایات‘‘ کو خوب خوب اچھالا‘‘ (’’میں نے ہتھیار نہیں ڈالے‘‘، جنرل نیازی، صفحہ 13)۔
جنرل نیازی کا یہ تجزیہ درست نہیں۔ جنرل ایوب 11 سال اور جنرل یحییٰ تین سال تک تواتر کے ساتھ پاکستان کے حکمران رہے۔ چنانچہ 1971ء کے بحران کے بارے میں یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ وہ سیاست دانوں کا پیدا کردہ تھا۔ پاکستان اگر 1958ء سے 1971ء تک سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہوتا تو سیاست دانوں کو بحران کا ذمے دار قرار دینا بالکل ٹھیک ہوتا۔ مگر اس طویل عرصے کے دوران جرنیل ملک چلاتے رہے، چنانچہ بحران کے ذمے دار وہی تھے۔ جنرل نیازی کا یہ بیان بھی خوب ہے کہ قوم پرست سیاست دانوں نے ’’جائز شکایات‘‘ کو خوب خوب اچھالا۔ سیاست دان اگر ’’ناجائز شکایات‘‘ کو خوب خوب اچھالتے تو انہیں بحران کا ذمے دار قرار دیا جاسکتا تھا، مگر جنرل نیازی خود تسلیم کررہے ہیں کہ جن شکایات کو اچھالا گیا وہ ’’جائز‘‘ تھیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ جائز شکایات سیاست دانوں نے پیدا کی تھیں؟ یا ان کی ذمے دار فوجی قیادت تھی؟ آپ اس سوال سے پریشان نہ ہوں۔ یہ تو جنرل نیازی کی گفتگو کا آغاز ہے، جیسے جیسے گفتگو آگے بڑھے گی حقیقت خودبخود عیاں ہوتی چلی جائے گی، اور وہ بھی جنرل نیازی کے اپنے بیانات سے۔ ذرا دیکھیے تو جنرل نیازی نے اپنے چار بیانات میں کیا فرمایا ہے، وہ لکھتے ہیں:۔
(1)’’ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے انہوں نے (یعنی جنرل ٹکا خان نے) قتل و غارت گری، املاک کی تباہی، زمین جھلسا ڈالنے اور معصوم عوام کو دہشت زدہ کرنے کی پالیسی کو جاری رکھا۔‘‘ (صفحہ 12۔13)۔
جنرل نیازی کا دوسرا بیان یہ ہے:۔
(2)’’ٹکا خان کو مشرقی پاکستان اور بلوچستان دونوں جگہ ’’بوچر‘‘ (یعنی قسائی) کا خطاب ملا۔‘‘ (صفحہ 13)۔
جنرل نیازی کا تیسرا بیان یہ ہے:۔
(3) ’’جنرل ٹکا خان نے جس بہیمانہ طریقے سے قوت کا استعمال کیا اس نے بنگالیوں کو اتنی دور دھکیل دیا جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ وہ ’’مغربی پاکستان‘‘ کے دشمن بن گئے‘‘۔ (صفحہ 15)۔
جنرل نیازی کا چوتھا بیان یہ ہے:۔
(4) ’’اپنے ہی عوام کے خلاف ٹینکوں، مشین گنوں، اینٹی ٹینک گنوں اور توپ خانے کا پورا پورا اور آزادانہ استعمال کیا گیا۔ یہ غالباً پہلا اور شاید آخری موقع تھا جب حکومت نے اپنے ہی عوام کے خلاف مہلک ہتھیار استعمال کیے۔ فقط اور فقط ’’نوآبادیاتی طاقتیں‘‘ اپنی رعایا کے خلاف اس طرح کی بہیمانہ اور متشددانہ کارروائیاں کرتی ہیں۔‘‘ (’’میں نے ہتھیار نہیں ڈالے‘‘، از جنرل نیازی، صفحہ 15)۔
بنگالی پاکستان کے خالق تھے۔ انہوں نے 56 فیصد ہونے کے باوجود پاکستان کی محبت میں خود کو صرف 50 فیصد ہونا قبول کیا تھا، مگر مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کے ظلم کی انتہا یہ تھی کہ اس نے نوآبادیاتی طاقت کی طرح اپنے ہی عوام کے خلاف ٹینک استعمال کیے، توپ خانہ استعمال کیا، مشین گنیں استعمال کیں۔ مشرقی پاکستان کا مسئلہ سیاسی تھا اور سیاسی مسئلہ مکالمے سے حل ہوتا ہے، مگر پاکستان کا حکمران طبقہ بنگالیوں سے صرف طاقت کی زبان میں بات کررہا تھا۔ بنگالیوں کے خلاف طاقت بھی ہلکی پھلکی استعمال نہیں ہورہی تھی، ٹینک اور توپ خانہ استعمال کیا جارہا تھا، اور جنرل نیازی جیسا شخص یہ کہتا ہوا پایا جاتا ہے کہ صرف غاصب نوآبادیاتی طاقتیں ہی اپنی رعایا کو کچلنے کے لیے اتنی طاقت استعمال کرتی ہیں۔ یہ بیان بتا رہا ہے کہ مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ مشرقی پاکستان کو ایک ’’کالونی‘‘ سمجھے ہوئے تھا۔ اس کے باوجود بھی یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اندرا گاندھی نے توڑا۔ پاکستان شیخ مجیب اور بھٹو نے توڑا۔ بلاشبہ بھٹو اور شیخ مجیب بھی سقوطِ ڈھاکہ کے ذمے دار ہوں گے، مگر اُن کی اہمیت اس سلسلے میں ’’بنیادی‘‘ نہیں ’’ثانوی‘‘ ہے۔ بنیادی اہمیت اُن لوگوں کی ہے جو عملاً ملک چلا رہے تھے اور اپنی ہی قوم کے لوگوں سے نوآبادی کے افراد کی طرح کا سلوک کررہے تھے۔
اس سلسلے میں جنرل نیازی کا ایک اور بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جنرل نیازی نے لکھا:۔
’’جنرل ٹکا خان نے 25 مارچ 1971ء کو تمام غیر ملکی اخبار نویسوں کو ’’توہین آمیز‘‘ طریقے سے اور بعض صورتوں میں ڈرا دھمکا کر مشرقی پاکستان سے مار بھگایا‘‘۔ (صفحہ 16)۔
جیسا کہ ظاہر ہے ابھی سقوطِ ڈھاکہ ہونے میں 9 ماہ تھے مگر جنرل ٹکا خان غیر ملکی صحافیوں کو مشرقی پاکستان سے کھدیڑ کر بھگا رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کا حکمران طبقہ سب کچھ ’’درست‘‘ کررہا تھا تو صحافیوں سے حالات و واقعات کو چھپانے کی کیا تک تھی؟ اصل میں بات یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں ظلم ہورہا تھا اور پاکستان کا حکمران طبقہ اس ظلم پر پردہ ڈالنا چاہتا تھا، چنانچہ اس نے سقوطِ ڈھاکہ سے نو ماہ پہلے ہی مشرقی پاکستان کو غیر ملکی صحافیوں سے ’’پاک‘‘ کردیا۔ رہا پاکستانی پریس، تو وہ مکمل طور پر حکمران طبقے کے ہاتھ میں تھا۔ چنانچہ پاکستانی قوم کو 16 دسمبر 1971ء کے دن تک یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ ان کا ملک ٹوٹنے والا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے حکمران طبقے اور خود پاکستانی پریس کا کردار مجرمانہ ہے۔
کہتے ہیں کہ جمہوریت قوموں اور ملکوں کو مضبوط بناتی ہے، مگر 1970ء میں انتخابات کی وجہ سے پاکستان1971ء میں دولخت ہوگیا۔ لیکن اس میں خطا جمہوریت کی نہیں تھی۔ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ تھا۔ اس کاشعور جنرل نیازی جیسے شخص کو بھی تھا۔ چنانچہ انہوں نے لکھا:۔
’’میں نے چارج سنبھالنے کے بعد افواج کو جو پہلا حکم دیا وہ یہ تھا: جوانو! سرحدوں کی طرف پھیل جائو۔ مکتی باہنی نے سخت مزاحمت کی مگر اُسے سخت نقصان ا ٹھانا پڑا، اور ہمارا دبائو پڑنے پر مکتی باہنی کے لوگ بھارت بھاگ گئے۔ یوں مشرقی پاکستان کی سرحدوں کا قیام دوبارہ عمل میں آیا۔ مگر حکومت حالات سے فائدہ اٹھاکر مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے میں ناکام رہی۔‘‘ (صفحہ 16)۔
جنرل نیازی نے ایک اور جگہ لکھا:۔
’’سیاسی مسائل بزور شمشیر حل نہیں ہوتے۔ میں نے جنرل حمید سے یہ بات کہی۔ انہوں نے میری رائے سے اتفاق کیا اور کہا تمہاری رائے صدر جنرل یحییٰ تک پہنچادی گئی ہے۔ میں نے خود انہیں ڈھاکہ جانے کا مشورہ دیا، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ٹولہ جو پاکستان کو دولخت کرنے والوں سے گٹھ جوڑ کیے ہوئے تھا سدِّراہ ثابت ہوا اور انہیں ڈھاکہ جانے سے روک دیا گیا۔ ایک بار تو صدر ڈھاکہ جانے کے لیے کراچی پہنچے لیکن انہیں واپس بھیج دیا گیا۔‘‘ (صفحہ 20)۔
سوال یہ ہے کہ وہ ’’ٹولہ‘‘ کون تھا جو پاکستان توڑنے کے لیے کام کررہا تھا اور جس نے مشرقی پاکستان کے سیاسی مسئلے کو طاقت کے زور سے حل کرنے کی کوشش کی؟ بدقسمتی سے اس ٹولے کی نشاندہی نہ یحییٰ نے کی، نہ جنرل نیازی نے کی۔
جنرل نیازی نے اپنی کتاب میں اس بات کا رونا بھی رویا ہے کہ بھارت کے پاس پورا عسکری سازو سامان تھا مگر ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ جنرل نیازی کے اپنے الفاظ یہ ہیں:۔
’’ہمارے پاس ایک بھی ہیوی یا میڈیم گن نہ تھی، ٹینک نہ تھے۔ اس کے برعکس بھارتی فوج کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی۔‘‘ (صفحہ23)۔
سوال یہ ہے کہ ہماری عسکری تیاری کیوں نہ تھی؟ بھارت ہمارا ازلی و ابدی دشمن تھا۔ وہ ہمارے وجود کے درپے تھا اور مشرقی پاکستان کے ساتھ اُس کی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کی سرحد تھی۔ مگر ہماری سول اور خاص طور پر عسکری قیادت اس صورتِ حال پر توجہ دینے کے لیے تیار نہ تھی۔ آخر اس کی کیا وجہ تھی؟ اس کی ایک وجہ پر خود جنرل نیازی نے روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے لکھا:۔
’’ہماری پلاننگ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کی جنگ مغربی پاکستان میں لڑی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے ہماری بیشتر افواج مغربی پاکستان میں تعینات تھیں۔ اس کا مطلب تھا کہ مشرقی پاکستان میں صرف دفاعی جنگ لڑی جائے گی جبکہ مغربی پاکستان سے بھرپور حملہ کیا جائے گا۔‘‘ (صفحہ 31)۔
اس سلسلے میں جنرل نیازی نے ایک اور مقام پر لکھا:۔
’’یاد رکھنا چاہیے کہ تخلیقِ پاکستان کے آغاز ہی سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ فوجی منصوبے اس امر کو پیش نظر رکھ کر بنائے جائیں گے کہ مشرقی پاکستان کی جنگ مغربی پاکستان سے لڑی جائے گی۔‘‘ (صفحہ 36)۔
سوال یہ ہے کہ اس بات کا ’’فیصلہ‘‘ کس نے کیا کہ مشرقی پاکستان کی جنگ مغربی پاکستان میں لڑی جائے گی؟ کیا اس سلسلے میں قائداعظم یا لیاقت علی خان کے حوالے سے کوئی شہادت دستیاب ہے؟ ہوتی تو جنرل نیازی نے اس کا ذکر کیا ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کرنے کی منطق کہاں سے آئی؟ کیا یہ پاکستان کی عسکری قیادت کا کوئی خفیہ فیصلہ تھا؟ آخر مشرقی پاکستان کو کس بنیاد پر 24 سال تک دفاعی صلاحیت سے محروم رکھا گیا؟ بدقسمتی سے مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے بھی نہ ہوسکا۔ کہیں اس پوری صورتِ حال کا مطلب یہ تو نہیں کہ بالادست طاقتیں پہلے دن سے مشرقی پاکستان کو ٹھکانے لگانے کی منصوبہ بندی کیے ہوئی تھیں؟
یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ 1971ء کا بحران آدھے سے زیادہ پاکستان کو لے ڈوبا، مگر ہماری عسکری قیادت کے نفسیاتی اور ذہنی سانچے میں اس سانحے کا رتی برابر بھی اثر نظر نہیں آتا۔ اس سلسلے میں جنرل نیازی نے جو کچھ لکھا ہے اسے نرم سے نرم الفاظ میں ’’مجرمانہ‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔ جنرل نیازی نے لکھا:۔
’’شروع ہی سے سب کچھ بھارت کے حق میں تھا۔ میدانِ جنگ، تعدادِ افواج، حالات اور علاقے میں اس قدر حیرت انگیز تفاوت، اس قدر کہ عسکری تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، لیکن اس کے باوجود تاریخ شاہد ہے کہ بھارتی فوج غیر معمولی نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی۔‘‘ (صفحہ 28)۔
بھارت نے ملک توڑ دیا۔ ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ اندرا گاندھی نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا، اور جنرل نیازی فرما رہے ہیں کہ بھارتی فوج ’’غیر معمولی نتائج‘‘ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو جنرل نیازی کی ذہنی حالت مشکوک نظر آنے لگتی ہے۔ انہوں نے ایک اور جگہ لکھا:۔
’’مشکلات کے باوجود ہماری افواج نے خوب جنگ لڑی، اور فقط یہی بات اس امر کی شاہد ہے کہ جنگ کی منصوبہ بندی، جنگی کارروائی اور قیادت کتنی اچھی تھی۔‘‘ (صفحہ 30)۔
کمال ہے، جس قیادت نے آدھا پاکستان گنوا دیا اُسے جنرل نیازی ’’اچھی قیادت‘‘ کہہ رہے ہیں۔ بھارت خدانخواستہ مغربی پاکستان کو بھی ہڑپ کرجاتا تو شاید تب بھی جنرل نیازی یہی فرماتے کہ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔
جنرل نیازی کی اخلاقی حالت اور نفسیاتی کیفیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کتاب کے ایک صفحے پر جنرل یحییٰ کی تعریف فرمائی ہے، اور دوسرے صفحے پر انہیں بدترین انسان قرار دیا ہے۔ جنرل نیازی نے ایک جگہ جنرل یحییٰ کے بارے میں لکھا:۔
’’وہ مثالی افسر تھے۔ وہ پیا بھی کرتے تھے لیکن میں نے انہیں کبھی نشے کے عالم میں نہیں پایا۔ وہ بلند معیارِ قابلیت کے حامل تھے۔ ان کے مشیر انہیں لے ڈوبے۔‘‘ (صفحہ 62)۔
جنرل نیازی فرما رہے ہیں کہ جنرل یحییٰ خود تو اچھے تھے مگر ان کے مشیر برے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان برے مشیروں کا انتخاب کس نے کیا تھا، جنرل یحییٰ نے یا شیخ مجیب الرحمٰن اور بھٹو نے؟ لیکن پھر ایک ایسی بات ہوگئی کہ جنرل یحییٰ کے بارے میں جنرل نیازی کی ’’اصل رائے‘‘ سامنے آگئی۔
جنرل نیازی کو بتایا گیا کہ ایک انٹرویو میں جنرل یحییٰ نے کہا ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کی تمام تر ذمے داری آپ پر ہے۔ آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مگر آپ ڈر گئے۔‘‘ (صفحہ 69)۔
اس کے جواب میں جنرل نیازی نے جو کچھ فرمایا وہ یہ ہے:۔
’’غدارِ قوم ٹولے کے سربراہ کو جس طرح جھاڑ پونچھ کر اور فرشتہ بناکر پیش کرنے کی کوشش ہورہی ہے اس کا یہ قوم ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔‘‘ (صفحہ 69)۔
جنرل نیازی نے مزید لکھا:۔
’’میرے پیچھے کون تھا؟ اس صدی کے محمد شاہ رنگیلے نے بھی شراب و کباب میں غرق ہوکر محض یہ کہنا تھا ہنوز دلی دور است۔ جبکہ اس پاکستانی رنگیلے نے تو مشرقی پاکستان پر بھارتی حملے کی خبر ملنے کے بعد کھلم کھلا یہ کہا کہ میں سوائے دعا کے کیا کرسکتا ہوں۔‘‘ (صفحہ 70)
جنرل نیازی نے مزید لکھا:۔
’’کیا قوم نہیں جانتی کہ بنگلہ دیش کس نے بنایا۔ یحییٰ خان تم خود اس کے خالق ہو۔ تم نے
(1) ون یونٹ توڑا
(2) تم نے ایک آدمی ایک ووٹ کا قانون بنایا
(3) تم نے (شیخ مجیب کو) چھے نکات کی بنیاد پر انتخابات لڑنے کی اجازت دی۔
(4) تم نے اپنے بنائے ہوئے لیگل فریم ورک آرڈر کی دھجیاں اڑائیں
(5) تم نے ہی مشرقی پاکستان کے انتخابات میں بے پناہ دھاندلی ہونے دی۔ تم نے اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے دیا۔
(6) وہ کون تھا جس نے فوجی ایکشن کا حکم دے کر نفرت کی بنیاد رکھی؟
(7) کون تھا جس نے 25 مارچ کے بعد پلٹ کر مشرقی پاکستان کا رخ نہ کیا؟
تم کہتے ہو سب کچھ بھٹو نے کیا، لیکن جناب والا بھٹو کو صرف صلاح کار کہا جاسکتا ہے۔ (سوال یہ ہے)
(1) کون اُس وقت ملک کا صدر تھا؟
(2) کون کمانڈر انچیف تھا؟
(3) کون چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا؟
(4) کون تھا جس نے ملک ٹوٹتے ہوئے دیکھنے کے باوجود پولینڈ کی قرارداد نہ مانی؟
کیا اس سلسلے میں جنرل یحییٰ کے سوا کسی کا نام آسکتا ہے!‘‘
(’’میں نے ہتھیار نہیں ڈالے‘‘، از جنرل نیازی، صفحہ 72۔73)۔
جیسا کہ ظاہر ہے جنرل نیازی نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ساری ذمے داری جنرل یحییٰ پر ڈال دی ہے۔ مگر ایک فرد چاہ کر بھی ملک نہیں توڑ سکتا۔ یقیناً جنرل یحییٰ کے ساتھ اور لوگ بھی ہوں گے۔ وہ لوگ جنہیں بنگالیوں کی اکثریت قبول نہ تھی۔
اس سلسلے میں جنرل نیازی کی کتاب کا ایک اور اقتباس اہم ہے۔ جنرل نیازی لکھتے ہیں:۔
’’انگریزی کی ضرب المثل ہے: بھیڑوں کی وہ فوج بہتر ہے جس کا سربراہ شیر ہو۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ شیروں کی فوج پر بھیڑ سربراہ بن جائے۔ ہماری فوج شیروں کی فوج تھی لیکن اس کا سپریم کمانڈر ایک بھیڑ تھا، اور اس کے ساتھ شامل چالیس چوروں کا ٹولہ یہاں جنگ نہیں کرنا چاہتا تھا، بلکہ مشرقی پاکستان کو الگ کرکے مغربی پاکستان میں مطلق العنان حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہا تھا، اور یہ ساری منصوبہ بندی اسی لیے کی گئی تھی‘‘۔
اس پر صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے اناللہ وانا الیہ راجعون۔
جنرل نیازی نے اپنی کتاب میں البدر اور الشمس کا ذکر بھی کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:۔
’’البدر میں حدر درجہ وفادار لوگ شامل تھے، جنہوں نے خود کو پاکستان کے لیے وقف کررکھا تھا۔ الشمس میں بھی محب وطن اور سرگرم پاکستانی تھے۔ البدر کے رضاکار زیادہ پُرجوش تھے۔ البدر اور الشمس نے دل و جان سے ہماری فوج کے ساتھ تعاون کیا۔ انہوں نے ہمیں کبھی ’’دغا‘‘ نہیں دی، کبھی فریب نہیں دیا، ہمارا ساتھ چھوڑ کر کبھی مکتی باہنی سے نہیں ملے، ہمارے دشمن سے کبھی سازباز نہ کی۔ مجھے اپنے کمانڈوز کو دشمن کے علاقے میں بھیجنے کی اجاز ت نہ تھی۔ چنانچہ دشمن کی سرزمین میں کارروائیاں اکثر و بیشتر البدر کے رضاکار کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اگرتلہ کے ایک تھیٹر میں بم پھینکے تھے۔ اس واقعے سے بھارتی شہریوں کے حوصلے پست ہوگئے تھے۔‘‘ (صفحہ 42)۔
یہاں سوال یہ ہے کہ البدر اور الشمس نے تو ملک اور فوج سے کبھی دغا نہ کی، مگر جب پاک فوج ہتھیار ڈال رہی تھی تو اس نے البدر اور الشمس کے لوگوں کو بچانے کی رتی برابر بھی کوشش نہ کی۔ ہمارے فوجی خود تو ’’جنگی قیدی‘‘ بن کر محفوظ ہوگئے، مگر البدر اور الشمس کے لوگوں کو مکتی باہنی نے چن چن کر شہید کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کیسی ’’بہترین قیادت‘‘ کے ہاتھ میں تھا۔