سقراط کو موت کی سزا سنائی گئی تو اُس کا ایک شاگرد رونے لگا۔ سقراط نے پوچھا: ’’روتا کیوں ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’رونا اس بات پر آرہا ہے کہ آپ نے کوئی جرم نہیں کیا پھر بھی مرنے والے ہیں‘‘۔ سقراط نے کہا: ’’تو کیا تُو یہ چاہتا ہے کہ میں جرم کرکے مارا جاتا؟‘‘ سقراط انسانی تاریخ میں صداقت کا استعارہ ہے۔ اس نے سچ اُس وقت بولا جب بولا جانا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے بعض لوگوں کا معاملہ اس حوالے سے یہ ہوتا ہے:
سچ اچھا پر اس کے ساتھ زہر کا ایک پیالہ بھی
کیا پاگل ہو، ناحق کیوں سقراط بنو، خاموش رہو
پاکستانی جرنیلوں کو سچ بولنے کا بہت شوق ہے، مگر وہ سچ اُس وقت بولتے ہیں جب سچ بولنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ میجر صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ اُس وقت لکھی جب ڈھاکا ڈوب چکا تھا۔ جنرل شاہد عزیز نے جنرل پرویزمشرف کے خلاف سچ اُس وقت کہا جب جنرل پرویز ہماری آزادی اور خودمختاری کا سودا کرچکے تھے۔ جنرل اسد درانی نے ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں لکھا کہ میاں شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ دونوں پنجابوں کو ایک کرنے کے منصوبے پر بات چیت کررہے تھے۔ مگر یہ بات انہوں نے اُس وقت لکھی جب شہبازشریف اپنا کام مکمل کرچکے تھے۔ بدقسمتی سے جنرل اسد درانی نے ملک میں فوجی مداخلت کے خلاف اُس وقت آواز اٹھائی ہے جب فوجی مداخلت 62 سال مکمل کرچکی ہے۔ اس کے باوجود بی بی سی کو دیا گیا اُن کا انٹرویو کئی اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ جنرل اسد درانی نے اپنے انٹرویو میں پہلی اہم بات یہ کہی کہ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت ہے، اور یہ مداخلت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت لوگ سیاست میں فوج کی مداخلت پر خفا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ اُن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ خود نہیں آئے بلکہ یہ تو ’’خاکی بوجھ‘‘ لے کر آئے ہیں۔ بدقسمتی سے بعض لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم خود اپنی تاریخ بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فوج نے جب بھی مداخلت کی تو دیکھنے میں یہ آیا کہ جن سیاسی جماعتوں کو سیاسی نظام سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی وہ واپس آگئیں۔ جنرل ایوب نے ذوالفقار علی بھٹو کو باہر رکھنا تھا، وہ واپس آگئے۔ جنرل ضیا کے بعد بے نظیر اور پیپلز پارٹی آگئی۔ جنرل پرویز پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو باہر رکھنا چاہتے تھے، نہ رکھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب فوج اقتدار میں نہیں ہوتی تب بھی لگتا ہے کہ ان کا کوئی کردار ہے۔ انہوں نے ’’انکشاف‘‘ کیا کہ اب ہندوستان پاکستان کے لیے بڑا خطرہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کے بعد بھارت کے لیے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ البتہ بالا کوٹ جیسا واقعہ ہوسکتا ہے، چناں چہ آپ اس سے نمٹنے کی تیاری کرلیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ون یونٹ بے ایمانی سے بنایا کیونکہ ہم بنگالیوں کی اکثریت کو منہ توڑ جواب دینا چاہتے تھے۔
یہ بارہ چودہ سال پرانی بات ہے، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمیدگل سے ایک انٹرویو کے سلسلے میں ملاقات ہوئی تو ہم نے اُن سے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں فوج ملک کے لیے ہے یا ملک فوج کے لیے ہے؟ کہنے لگے: میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں۔ یہ کوئی مشکل سوال نہ تھا، لیکن اس سوال کے جواب کے ممکنات بھی ہیں اور مضمرات بھی۔ بدقسمتی سے جنرل حمیدگل بہادر ہونے کے باوجود ان ممکنات اور مضمرات سے ڈرے ہوئے تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان کرتے۔ ہمارے جرنیلوں کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ ذہنی تحفظات کے ساتھ بات کرتے ہیں اور بعدازوقت سچ بولتے ہیں۔ جنرل اسد درانی نے بھی یہ سچ بعد از وقت ہی بولا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔ بلاشبہ یہ مداخلت بہت اہم مسئلہ ہے، مگر اس مداخلت سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت کرتی ہی کیوں ہے؟
ہم نے اپنے کالم میں جنرل حمیدگل کے جس انٹرویو کا ذکر کیا ہے اُس میں انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ ہماری فوج برٹش آرمی کا تسلسل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تو کہتا ہوں کہ فوجیوں کو اقبال پڑھائو، مگر انہیں بائرن اور شیلے پڑھائے جاتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ آپ نے طاقت ور ہونے کے باوجود فوجیوں کے نصاب میں اقبال کو کیوں شامل نہیں کردیا؟ اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ان کی ترجیح اقبال، اُن کا مردِ مومن اور شاہین نہیں تھے، بلکہ ان کا کیریئر تھا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ وہ بھی برٹش آرمی کے ذہنی سانچے کے زیراثر تھے۔ اس ذہنی سانچے کے تحت فوجی ایک ’’برترنسل‘‘ ہیں، اور سویلین ایک ’’کمتر نسل‘‘ ہیں۔ ظاہر ہے کہ برتر نسل کو کمتر نسل پر حکمرانی کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ آقا اور غلام کی یہی نفسیات اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں مداخلت کی اصل وجہ ہے۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا، مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے اور امریکیوں کو بتارہے تھے کہ سویلین ملک کو تباہ کررہے ہیں اور فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ اس ’’تجزیے‘‘ میں ’’آقا‘‘ اور ’’غلام‘‘ کی نفسیات کو پوری طرح کلام کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ جنرل ایوب نے کسی دلیل کے بغیر یہ ’’فرض‘‘ کیا ہوا تھا کہ ملک کے مالک ’’جرنیل‘‘ ہیں، ’’سول قیادت‘‘ نہیں۔ دیکھا جائے تو اس تجزیے کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ پاکستان سول قیادت کی سول جدوجہد کا حاصل ہے۔ اس جدوجہد کے وقت کوئی فوج موجود نہ تھی۔ چنانچہ قوم خود ’’فوج‘‘ کا کردار ادا کررہی تھی۔
فوجی مداخلت کے سلسلے میں جرنیلوں کا احساس تفاخر بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستانی جرنیلوں کی خود پسندی بتاتی ہے کہ وہ خود کو آسمانی مخلوق سمجھتے ہیں۔ حسن ظہیر نے بنگلہ دیش سے متعلق اپنی تصنیف میں جنرل یحییٰ کا ایک واقعہ لکھا ہے۔ اس واقعے کے مطابق جنرل یحییٰ نے کہا کہ انہوں نے فوج میں مختلف عہدوں پر کام کیا اور ہزاروں فوجیوں کے مسائل حل کیے۔ چنانچہ ان کا خیال تھا کہ وہ اگر فوج کو ’’Manage‘‘ کرسکتے ہیں تو ملک کو ’’Manage‘‘ کرنا بھی دشوار نہیں ہوگا۔ یہ امر عیاں ہے کہ فوج ایک چھوٹا سا منظم ادارہ ہے، اس کے برعکس ملک اور معاشرہ ایک بہت ہی بڑی وحدت ہے، اور اسے فوج کی طرح نہیں چلایا جاسکتا۔ مگر جنرل یحییٰ نے فوج کو چلانے کی اہلیت کو ملک چلانے کی اہلیت کے برابر سمجھا اور ملک کے دو ٹکڑے کردیے۔ جنرل یحییٰ سے ایک بار امریکی رسالے ’’ٹائم‘‘ نے کہا کہ کیا آپ آئین کے مطابق ملک چلا رہے ہیں؟ جنرل یحییٰ نے کہا: مجھے آئین کی ضرورت ہی نہیں، میرا ذہن ہی آئین ہے۔ یہ خودپسندی اور احساسِ برتری کی انتہا ہے، اور ایسے ذہن کو سیاست میں مداخلت سے باز رکھا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ صرف جنرل یحییٰ کا معاملہ نہیں… جنرل ایوب ہوں، جنرل ضیا ہوں یا جنرل پرویز مشرف… انہوں نے اپنی خواہشات ہی کو ملک کے آئین کا درجہ دیا۔
پاکستان میں جرنیلوں کی، سیاست میں مداخلت کا ایک سبب امریکہ ہے۔ امریکہ خود کو جمہوریت کا علَم بردار کہتا ہے، مگر تاریخ کے ریکارڈ سے ثابت ہے کہ امریکہ نے تمام مسلم ملکوں بالخصوص پاکستان میں فوجی مداخلت کا ہمیشہ خیرمقدم کیا۔ جنرل ایوب نے امریکہ کی آشیرباد سے اقتدار پر قبضہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سلسلے میں یہ تجزیہ اپنی جگہ موجود ہے کہ امریکہ نے بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی سزا دی، اور اس سلسلے میں جنرل ضیا الحق کو استعمال کیا۔ جنرل پرویزمشرف امریکہ کی مدد سے نہیں آئے تھے، مگر نائن الیون کے بعد وہ امریکہ کے ایجنٹ بن کر اُبھرے، اور جو امریکہ جنرل پرویز کی طرف دیکھنے کا بھی روادار نہ تھا وہ جنرل پرویز کو ’’مدبر‘‘ کہتا نظر آیا۔ امریکہ نے پاکستان میں جرنیلوں کی پشت پناہی نہ کی ہوتی تو جنرل اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے دس بار سوچتے۔ اس لیے کہ امریکہ سپر پاور تھا، اور پاکستان کا دفاع اور معیشت 60 سال سے امریکہ مرکز ہے۔ چنانچہ کوئی فوجی آمر امریکہ کی ناراضی کو نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔
بدقسمتی سے پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں خود فوجی مداخلت کو دعوت دیتی ہیں۔ بھٹو صاحب جنرل ایوب کی پیداوار تھے، وہ جنرل ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے۔ بھٹو 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے بغیر بھی فتح یاب رہتے۔ مگر انہیں Full، Total، Complete اقتدار کی ہوس لاحق تھی۔ چنانچہ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کرائی اور اپنے خلاف تحریک چلوائی۔ بدقسمتی سے انہوں نے حزبِ اختلاف کے ساتھ بات چیت میں تاخیر کی۔ ہمیں پروفیسر غفور نے خود بتایا کہ بھٹو حزبِ اختلاف کے ساتھ سمجھوتے میں مخلص نہیں تھے، وہ صرف وقت گزار رہے تھے۔ چنانچہ جنرل ضیا کو اقتدار پر قبضے کا موقع مل گیا۔ پیپلز پارٹی اگر حقیقی معنوں میں جمہوری پارٹی ہوتی اور عوامی سطح پر منظم ہوتی تو جنرل ضیا الحق نہ بھٹو کو پھانسی دے سکتے تھے اور نہ ان کا اقتدار دس سال پر محیط ہوسکتا تھا۔ پیپلز پارٹی کی کمزوریوں نے جنرل ضیا الحق کی طاقت میں اضافہ کیا۔ بھٹو کا خیال تھا کہ ان کی پھانسی سے ملک میں طوفان آجائے گا، مگر کہیں اور کیا، خود سندھ میں بھی چھوٹے موٹے احتجاج کے سوا کچھ نہ ہوا۔ میاں نوازشریف خود جرنیلوں کی نرسری سے نمودار ہوئے، وہ پچیس سال تک جرنیلوں کے سائے میں کھڑے رہے۔ ان کے اقتدار کے ایک ایک مرحلے پر جرنیلوں کی مہر لگی ہوئی ہے۔ اِس وقت بھی ان کی جماعت کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی بنیاد پر دس ہزار لوگوں کو مزاحمت کے لیے سڑکوں پر نہیں لاسکتی۔ چنانچہ میاں صاحب مزاحمت کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کی طاقت پر انحصار کررہے ہیں۔ دوسری طرف ان کی بیٹی اسٹیبلشمنٹ سے کہہ رہی ہے کہ پہلے عمران کی حکومت کو برطرف کرو پھر ہم آپ سے مکالمہ کریں گے۔ مگر ظالم اور مظلوم میں مکالمے کا کیا سوال؟ ’’خلائی مخلوق‘‘ اور ’’زمینی مخلوق‘‘ میں مکالمے کا کیا جواز؟
پاکستان کی سیاست کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ یہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گھر کی باندی ہے۔ دنیا بھر میں فوجی آمروں اور فوجی آمریتوں کے خلاف جہاں بھی مزاحمت ہوئی ہے وہاں متوسط طبقے نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مگر پاکستان میں متوسط طبقہ متحرک اور منظم ہی نہیں ہے۔ چنانچہ ہر فوجی آمر پورے اعتماد کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کرتا ہے اور دس دس سال تک اقتدار پر قابض رہتا ہے۔ جنرل ایوب رخصت ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ کی اندرونی تقسیم اس کا سبب تھی۔ جنرل ضیا الحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا تو اس کا سبب بھی اسٹیبلشمنٹ کے داخلی مسائل تھے۔ جنرل پرویزمشرف کے خلاف وکلا تحریک جنرل کیانی کا ’’کرشمہ‘‘ تھی۔ جہاں تک پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت کا تعلق ہے، اسے فوجی اور سول آمریت سے کوئی غرض ہی نہیں۔ عوام کی اکثریت صوبائی، لسانی، فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصبات کے ’’نشے‘‘ کی عادی ہے۔ وہ اس نشے سے کبھی نکل ہی نہیں پاتی۔ چنانچہ پاکستان میں کبھی فوجی آمریت کے خلاف عوام کو احتجاج کرتے نہیں دیکھا جاسکا۔
قومی صحافت میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے اسباب کبھی کبھی زیر بحث آبھی جاتے ہیں۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کا سب سے بڑا قومی نقصان یہ ہوا ہے کہ ہمارا سیاسی ارتقا رُک گیا۔ نہ ہمارے سیاسی لیڈر ’’بڑے‘‘ ہوسکے، نہ ہماری سیاسی جماعتیں ’’بڑی‘‘ ہوئیں، نہ ہماری قوم ’’بڑی‘‘ ہوسکی۔ ملک میں اگر کوئی ’’بڑا‘‘ ہے تو اسٹیبلشمنٹ۔ انسانی جسم کو ایک ہم آہنگ ارتقا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ انسان کا سر تو دو سال کے بچے کے سر کے برابر رہ جائے، آنکھیں اور ناک پانچ سال کے بچے کی آنکھوں اور ناک جیسی ہوں، مگر ہاتھ بیس سال کے نوجوان کی طرح بڑے ہوجائیں۔ بدقسمتی سے ہمارا قومی وجود ایک غیر ہم آہنگ ارتقا کا منظر پیش کررہا ہے۔ اس منظر میں ہر چیز چھوٹی ہے، صرف اسٹیبلشمنٹ بڑی ہے۔ سیاست دانوں کو کرپٹ ہونے کے لیے کسی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہندوستان میں کبھی جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا مگر وہاں کے سیاست دان بدعنوان ہیں۔ جب کہ پاکستان میں سیاست دانوں کو کرپٹ بنانے میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں بینکوں سے لیے ہوئے 200 ارب روپے کے قرضے معاف کیے گئے۔ جن لوگوں کے قرضے معاف کیے گئے اُن میں سیاست دان بھی شامل تھے۔ یہی کام جنرل پرویز کے دور میں ہوا۔ ہمارے جرنیل پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی برائیاں تو بہت کرتے ہیں مگر وہ کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کرتے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اگر شخصی، خاندانی اور موروثی ہیں تو اس سلسلے میں جرنیلوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جرنیل اگر سیاسی جماعتوں کو ’’جمہوری‘‘ بنانا چاہتے تو انہیں ایسا کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ مگر ہمارے جرنیلوں کو جمہوری جماعتیں ’’سوٹ‘‘ ہی نہیں کرتیں۔ کرتیں تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوری ہوتیں۔
ہماری سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ملک جنرل ایوب کے زمانے سے اب تک سیاسی عدم استحکام کا شکار چلا آرہا ہے۔ جنرل ایوب ملک میں سیاسی عدم استحکام کا رونا روتے ہوئے اقتدار میں آئے تھے، مگر جب وہ گیارہ سال کے بعد اقتدار سے محروم ہوئے تو ملک پہلے سے کہیں زیادہ سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا، یہاں تک کہ سیاسی عدم استحکام 1971ء میں آدھے ملک کو کھا گیا۔ جنرل ضیا رخصت ہوئے تو وہ بھی ایک سیاسی عدم استحکام ملک پر مسلط کرکے گئے۔ ان کے بعد بے نظیر اور میاں نوازشریف کی حکومتیں دو دو سال کے بعد برطرف ہوتی رہیں۔ جنرل پرویز کی آمریت بھی ملک کو سیاسی استحکام فراہم نہ کرسکی۔ اِس وقت بھی ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ یہ ہمارے جرنیلوں کی سیاست میں مداخلت ہی کا شاخسانہ ہے کہ وطنِ عزیز میں آئین کی کوئی قدروقیمت ہی نہیں۔ عوام کو شعور ہی نہیں کہ آئین قوموں کی زندگی میں کیا کردار ادا کرتا ہے اور اس کا تحفظ کیوں ضروری ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں آئین کے مؤثر ہونے کی بات بھی کوئی نہیں کرتا۔ ملک اگر آئین کے تحت مسلسل چلتا رہتا تو آئین ہمارے اجتماعی شعور میں ایک اہم دستاویز کی حیثیت اختیار کرچکا ہوتا۔