ہر انسان کا ایک تصورِ ذات ہوتا ہے اور اس کی ایک اصل حقیقت ہوتی ہے۔ تصورِ ذات کی سطح پر انسان خود کو فرشتہ سمجھتا ہے، مگر حقیقت میں وہ ایک شیطان ہوتا ہے۔ فرد کی یہ مثال قوموں پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ ہر قوم کا ایک تصورِ ذات یا Self Image ہوتا ہے، لیکن اس کی ایک ’’اصل‘‘ ہوتی ہے۔ تصورِ ذات کی سطح پر قوم فرشتہ ہوتی ہے مگر ’’اصل‘‘ کی سطح پر ابلیس ہوتی ہے۔ ہندوستان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس کا چہرہ روشن ہے مگر اندروں چنگیز سے تاریک تر ہے۔ وہ ’’دعوے‘‘ کی سطح پر ’’انسان‘‘ اور اصل کی سطح پر ’’شیطان‘‘ نظر آتا ہے۔ بھارت کے تصورِ ذات یا Self Image کا مظہر بھارت کا یہ فلمی گیت ہے:
جب زیرو دیا مرے بھارت نے
دنیا کو تب گنتی آئی
تاروں کی بھاشا بھارت نے
دنیا کو پہلے سکھلائی
دیتا نہ دشملو (اعشاریہ) بھارت تو
یوں چاند پہ جانا مشکل تھا
دھرتی اور چاند کی دوری کا
اندازہ لگانا مشکل تھا
سبھے تا (تہذیب) جہاں آئی پہلے
پہلے جنمی ہے جہاں پہ کلا (آرٹ)
اپنا بھارت وہ بھارت ہے
جس کے پیچھے سنسار (عالم) چلا
سنسار چلا
اور آگے بڑھا
یوں آگے بڑھا، بڑھتا ہی گیا
بھگوان کرے یہ اور بڑھے
بڑھتا ہی رہے اور پھولے پھلے
ہے پریت جہاں کی ریت سدا
میں گیت وہاں کے گاتا ہوں
بھارت کا رہنے والا ہوں
بھارت کی بات سناتا ہوں
……٭٭٭……
کالے گورے کا بھید نہیں
ہر دل سے ہمارا ناتا ہے
کچھ اور نہ آتا ہو ہم کو
ہمیں پیار نبھانا آتا ہے
جسے جان چکی ساری دنیا
میں بات وہی دہراتا ہوں
بھارت کا رہنے والا ہوں
بھارت کی بات سناتا ہوں
……٭٭٭……
جیتے ہوں کسی نے دیش تو کیا
ہم نے تو دلوں کو جیتا ہے
ہے رام ابھی تک ہر نر (مرد) میں
ناری (عورت) میں ابھی تک سیتا ہے
اتنے یاون (مقدس) ہیں لوگ جہاں
میں نت نت شیش (سر) جھکاتا ہوں
بھارت کا رہنے والا ہوں
بھارت کی بات سناتا ہوں
جیسا کہ ظاہر ہے یہ ایک Fantacy ہے۔ بھارت کی ’’حقیقت‘‘ سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اس لیے کہ اب بھارت کی ریت یا رواج پریت یعنی محبت نہیں ہے۔ اب بھارت کا رواج نفرت ہے۔ بھارت میں صرف کالے اور گورے کے درمیان فرق نہیں ہے۔ ہندو اور مسلمان، ہندو اور عیسائی، یہاں تک کہ برہمن اور شودر کے درمیان بھی فرق ہے۔ بھارت کی گزشتہ 73 سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسے پیار کیا، ہمسائیگی نبھانی بھی نہیں آتی۔ جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ کسی نے ملک جیتے ہوں گے مگر ہندوئوں نے دلوں کو جیتا ہے، تو اس دعوے پر ہنسنے کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے! جہاں تک بھارت کے مردوں کا تعلق ہے تو اُن میں اب رام نہیں راون نظر آتا ہے، اور عورتوں میں سیتا کے بجائے فلمی اداکارائیں نظر آتی ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں کہ بھارت تصورِ ذات کی سطح پر فرشتہ اور حقیقتِ احوال کی سطح پر ابلیس نظر آتا ہے۔
ہندوستان خود کو سیکولر کہتا ہے مگر وہ سیکولر ریاست کی کوئی ذمے داری ادا نہیں کرتا۔ سیکولرازم کہتا ہے کہ ریاست مذہبی معاملات میں غیر جانب دار ہے۔ مگر بھارت ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ وہ بابری مسجد کو شہید کرتا ہے اور اس کی جگہ مندر کی تعمیر کو ممکن بناتا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کی سپریم کورٹ تک بی جے پی کا ایک ادارہ نظر آتی ہے۔ بھارت عملی سطح پر ایک مذہبی ریاست بنا دکھائی دیتا ہے، مگر اس میں مذہب کی ’’وسیع القلبی‘‘ اور ’’وسیع المشربی‘‘ نہیں ہے۔ مسلمانوں نے بھارت پر ہزار سال حکومت کی مگر کبھی ہندوئوں کے پرسنل لا میں مداخلت نہیں کی۔ ہندوئوں کو بھارت پر راج کرتے ہوئے ابھی صرف سات دہائیاں ہوئی ہیں اور بھارت مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کررہا ہے۔ وہ بتارہا ہے کہ مسلمان اپنی بیویوں کو کس طرح طلاق دیں گے۔ وہ مسلمانوں سے ان کی زبان چھین رہا ہے، حالانکہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال کی حکمرانی میں نہ ہندوئوں سے ان کی سنسکرت چھینی، نہ ان کی ہندی چھینی۔ ہندو، اورنگ زیب کو ہندو دشمن کہتے ہیں مگر Audrey Truschke نے اپنی تصنیف Aurangzeb The Man and The Myth میں ثابت کیا ہے کہ اکبر کے دربار میں ہندوئوں کی نمائندگی صرف 22.05 فیصد تھی، جبکہ اورنگ زیب کے دربار میں ہندوئوں کی نمائندگی 31.6 فیصد تھی۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان ’’غیروں‘‘ کے ساتھ برا ہوتا ہے مگر ’’اپنوں‘‘ کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، لیکن ہندوستان کی تاریخ کا شرمناک ترین پہلو یہ ہے کہ ہندو ازم نے گھر کے لوگوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا۔ شودر ہندوازم کا حصہ ہیں، مگر ہندوازم 6 ہزار سال سے شودروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کررہا ہے۔ اس سلوک کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندو شودروں اور دلتوں کو انسان کیا حیوان بھی نہیں سمجھتے۔ وہ شودروں اور دلتوں کے سائے سے بھی بھاگتے ہیں، اس لیے کہ وہ ان کے سائے کو بھی ’’ناپاک‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس ذلت کو محسوس کرنے کی سب سے بڑی مثال بھارتی آئین کو جنم دینے والے ڈاکٹر امبیدکر تھے۔ ڈاکٹر امبیدکر شودر تھے اور انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ میں پیدا تو شودر ہوا ہوں، اس لیے کہ کسی خاص گھر میں پیدا ہونا میرے اختیار میں نہیں تھا، مگر میں شودر کی حیثیت سے مرنا پسند نہیں کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے انتقال سے پہلے ہندوازم چھوڑ کر بدھ ازم اختیار کرلیا تھا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر ڈاکٹر امبیدکر جیسے دانشور کا یہ حال تھا تو عام شودر کا کیا حال ہوگا۔ اتفاق سے شودر دس بیس لاکھ نہیں، 20 کروڑ ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہندوستان کی شیطنت نے 20کروڑ شودروں کو جیتے جی مارا ہوا ہے، وہ شودر جو ہندوازم کے دائرے کے اندر ہیں۔ گاندھی نے شودروں کی حالت بہتر بنانے کی بڑی کوشش کی۔ انہیں ہری جن یعنی خدا کا بندہ کہہ کر پکارا، مگر اس سے کچھ بھی نہ ہوا۔ کہنے کو ہری جن ناپاک ہیں، مگر اعلیٰ ذات کے ہندو ہری جن عورتوں کے سلسلے میں چھوت چھات کے قائل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ ہری جن خواتین عصمت دری کی وارداتوں کا شکار ہوتی ہیں۔
بدھ ازم بھی ہندوازم کی ایک شاخ ہے۔ گوتم بدھ، گوتم بدھ بننے سے پہلے ہندو ہی تھے۔ مگر ہندوازم نے بدھ ازم کو دل سے قبول نہیں کیا۔ اعلیٰ ذات کے ہندو گوتم کو دیوتا تو مانتے ہیں مگر ملیچھ دیوتا، یعنی ناپاک دیوتا۔ خود بدھ ازم کے سلسلے میں ہندوازم نے بدترین سلوک کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے بدھ ازم کو ہندوستان کے مرکز اور ہندوازم کے گڑھ یوپی اور سی پی میں قدم نہ جمانے دیئے۔ چنانچہ بدھ ازم نے اُن علاقوں میں اپنے مراکز قائم کیے جو ہندوستان کا مضافات تھے، یعنی وہ علاقے جو اب پاکستان کا حصہ ہیں۔ بدھ ازم دنیا میں ہر جگہ پھیلا مگر ہندوستان میں نہ پھیل سکا۔ ہندو کہتے ہیں مسلمانوں کی ہر چیز غیر ملکی ہے۔ ان کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ ہیں، ان کی مذہبی زبان عربی ہے، ان کی تاریخ عرب دنیا کی تاریخ ہے۔ مگر بدھ ازم تو ہندوستان کی اپنی چیز تھا، لیکن اسے بھی اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے گلے نہ لگایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بدھ ازم ذات پات کے خلاف ایک بغاوت تھا، اور ہندو ازم اس بغاوت کو کسی طرح بھی قبول نہیں کرسکتا تھا۔ بدھ ازم کی زبان پالی ہندوستان کی اپنی زبان تھی اور بدھ ازم کے مراکز ہندوستان میں تھے، مگر ہندوئوں نے بدھ ازم کو ہندوستان کے مراکز میں نہ ٹکنے دیا اور اسے تقریباً ’’غیر ملکی مذہب‘‘ بناکر کھڑا کردیا۔
سکھ ازم بھی ہندوستان ہی کی خاک سے اٹھا۔ اس کی زبان بھی ’’مقامی‘‘ تھی، اس کا بیان بھی ’’مقامی‘‘ تھا، مگر ہندوازم نے سکھ ازم کے آزادانہ اور جداگانہ تشخص کو باقی نہ رہنے دیا، اور اب سکھ ازم ایسا لگتا ہے جیسے وہ ہندوازم کا کوئی مسلک ہو۔ سکھ تاریخی اعتبار سے ہندوئوں کے اتحادی تھے، مگر سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کے زمانے میں ہندوستان کی ریاست سکھوں کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ سنت جرنیل سنگھ نے مرکز کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا اور سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل میں پناہ لی تو اندرا گاندھی سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہوا اور انہوں نے سکھوں کے مقدس ترین مقام پر حملہ کیا۔ اندرا گاندھی چاہتیں تو گولڈن ٹیمپل کا محاصرہ کرکے بھی بھنڈراں والا سے نمٹ سکتی تھیں، مگر ان کا برہمنی تکبر باز نہ آیا اور انہوں نے گولڈن ٹیمپل کے تقدس کو مٹی میں ملادیا۔ اس پر سکھوں کی طرف سے ردعمل سامنے آیا۔ اندرا گاندھی کے دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو قتل کردیا۔ یہ صرف ’’دو سکھوں‘‘ کا فعل تھا، پوری سکھ برادری اس کی ذمے دار نہیں تھی، مگر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے اس بات کو رتی برابر اہمیت نہ دی اور انہوں نے ایک دن میں دلی کے اندر دو سے تین ہزار سکھ مار ڈالے۔ یہ کھلی شیطنت تھی، مگر ریاست ہندوستان نے اس شیطنت کو روکنے کی رتی برابر بھی کوشش نہ کی۔
مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ مسلمانوں کی یہ حکومت اس اعتبار سے بے مثال تھی کہ انہوں نے ہندوازم کو چھیڑا، نہ ہندوئوں کی بیخ کنی کو ریاست نے کبھی اپنی پالیسی بنایا۔ مسلمانوں نے جبر کو اختیار کیا ہوتا تو ایک ہزار سال میں پورا ہندوستان مسلمان ہوجاتا۔ پھر گاندھی گاندھی نہ ہوتے، اشرف حسین ہوتے۔ پھر نہرو نہرو نہ ہوتے بشارت احمد ہوتے۔ پھر اندرا گاندھی اندرا گاندھی نہ ہوتیں، عائشہ خاتون ہوتیں۔ پھر مودی مودی نہ ہوتا، محمد شرافت ہوتا۔ لیکن ہندوئوں نے کبھی اس بات کی قدر ہی نہ کی۔ وہ شدھی اور سنگٹھن کی تحریکوں کے ذریعے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بناتے رہے اور انہیں کچلتے رہے۔ عربی اور فارسی بلاشبہ ہندوستان کی خاک سے نہیں اٹھی تھیں مگر اردو تو خالص ہندوستانی زبان تھی، مگر ہندوئوں نے اسے بھی ’’غیر ملکی‘‘ زبان کی سطح پر رکھا۔ ہندوئوں نے انگریزی جیسی زبان کو جو غیر ملکی بھی تھی اور انگریزوں کے جبر کی یادگار بھی تھی، سینے سے لگایا،
(باقی صفحہ 41پر)
مگر اردو کی بیخ کنی کی۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کی معیشت کو تباہ کردیا۔ ان کی تعلیمی زندگی کو آگ لگادی۔ ان کی سیاست کو تہ و بالا کردیا۔ یہاں تک کہ ان کی عبادت گاہ بابری مسجد کو دن دہاڑے شہید کردیا۔ اس سلسلے میں ہندوستان کی حکومتیں کیا، سپریم کورٹ آف انڈیا بھی انصاف نہ کرسکی اور ہندوئوں کی طرف دار بن کھڑی ہوگئی۔ اگر کسی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی سیاسی جماعت بن جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ملک کتنا بڑا شیطان بن چکا ہے۔ عدالتیں اپنے شہریوں ہی کو نہیں اپنے دشمنوں تک کو انصاف مہیا کرتی ہیں، مگر ہندوستان آئین رکھنے کے باوجود ایک ریاستِ بے آئین ہے، عدالتوں کی موجودگی کے باوجود عدل سے محروم ریاست ہے۔
ہندوستان کی جمہوریت ایک مذاق ہے۔ ہندوستان کے منتخب ایوانوں میں ہزاروں جرائم پیشہ افراد موجود ہیں۔ ان افراد میں قتل، اقدامِ قتل، اغوا اور عصمت دری جیسے سنگین جرائم میں ملوث لوگ شامل ہیں۔ بھارت کہنے کو ایک سیکولر ریاست ہے، مگر صرف بی جے پی ہی نہیں، کانگریس بھی غیر سیکولر ہوگئی ہے۔ راہل گاندھی انتخابی مہم کے دوران مندروں پر حاضری دیتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ وہ مودی سے کم ہندو نہیں۔ ایک وقت تھا کہ کانگریس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود تھی، مگر اب کانگریس میں مسلمان محض دکھاوے کے لیے موجود ہیں۔ بلاشبہ ہندوستان میں انتخابات وقت پر ہوتے ہیں اور فوج نے وہاں آج تک مداخلت نہیں کی ہے، مگر ہندوستان کی سیاست ہندوتوا کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس سیاست میں سرمائے کی اہمیت بنیادی ہے، اور جرائم پیشہ افراد کو ہندوستان کے Electables ہونے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل ہوچکا ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت کا حال یہ ہے کہ برطانیہ کا جریدہ اکنامسٹ تک چیخ پڑا ہے کہ بھارت میں یک جماعتی نظام قائم ہوتا جارہا ہے جو جمہوریت کی نفی ہے۔
وقت اور حالات نے ایک اور کالک ہندوستان کے چہرے پر مَل دی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان ایشیا کا کرپٹ ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں کرپشن 39 فیصد ہے۔ 46 فیصد بھارتی اپنا کام کرانے کے لیے رشوت دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 42 فیصد بھارتیوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے کبھی نہ کبھی پولیس کو رشوت دی ہے۔ اہم دستاویزات حاصل کرنے کے لیے 41 فیصد بھارتی شہریوں نے رشوت کا سہارا لیا۔ 38 فیصد بھارتیوں نے کہاکہ وہ عدالتوں میں رشوت دے چکے ہیں۔ یہ صورتِ حال چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ پورا بھارت کرپشن میں ڈوب چکا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بھارت کا اخلاقی نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ جمہوریت نظام کو بہتر بناتی ہے مگر بھارتی جمہوریت معاشرے کو سڑاند میں مبتلا کررہی ہے۔ اسے ذمے دار بنانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ غیر ذمے دار بنارہی ہے۔ بھارت کو خوب صورت بنانے کے بجائے اس کی بدصورتی اور شیطنت میں اضافہ کررہی ہے۔