خود فہمی اور دشمن شناسی سے محروم پاکستانی حکمران
پاکستان کا حکمراں طبقہ بھارت کے چیلنج کے مقابلے کے سلسلے میں صرف بیانات، اعلانات اورنیوز کانفرنسوں کے ڈھول پیٹتا رہتا ہے
بہت سال پہلے کسی دانا کا قول پڑھا تھا۔ قول کا مفہوم یہ تھا کہ اگر آپ خود کو اور اپنے دشمن کو جانتے ہیں تو پھر دشمن کے خلاف جنگ میں آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ اگر آپ دشمن کو نہیں جانتے مگر اپنے آپ کو جانتے ہیں تو بھی جنگ میں آپ کی کامیابی کا امکان ہے۔ لیکن اگر آپ نہ خود کو جانتے ہیں، نہ دشمن سے آگاہ ہیں تو پھر آپ کی شکست یقینی ہے۔
پاک بھارت کشمکش کے تناظر میں پاکستان کے حکمران طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ خود کو جانتا ہے، نہ بھارت سے آگاہ ہے۔ چنانچہ وہ 1971ء سے اب تک بھارت سے مسلسل مار کھا رہا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کی ہندو قیادت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خود کو بھی جانتی ہے اور پاکستان سے بھی آگاہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ زیر بحث مسئلے کے تناظر میں خود کو جاننے کا مفہوم کیا ہے؟
پاک بھارت تعلقات کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات دو ملکوں کے تعلقات نہیں ہیں۔ یہ دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں، نفسیات کے دو دائروں اور دو قوموں کے تعلقات ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھارت کے تناظر میں پاکستان کے حکمران طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ اپنے مذہب سے جڑا ہوا ہے، نہ اپنی تہذیب کا ترجمان ہے، نہ وہ اپنی تاریخ اور اس کی حرکیات سے منسلک ہے، اور نہ وہ اس بات سے آگاہ ہے کہ برصغیر پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے اس غلبے نے جنوبی ایشیا میں دو قومی نظریے کی ایسی کشمکش برپا کی ہے جو اُس وقت ختم ہوگی جب جنوبی ایشیا پر یا تو اسلام مکمل طور پر غالب آجائے گا، یا ہندوئوں کو پورے خطے پر فیصلہ کن برتری حاصل ہوجائے گی۔ بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ ان میں سے کسی بات کا شعور نہیں رکھتا۔ اقبال نے کہا تھا:
یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر میں ہےپیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
افسوس ناک بات یہ ہے کہ اقبال کی اس بات کا ہمارے حکمران طبقے پر کوئی اثر نہیں۔ چنانچہ وہ بھارت کے ہر چیلنج کے جواب میں ’’عمل‘‘ کے بجائے ایک عدد تقریر، ایک عدد بیان، یا ایک عدد پریس کانفرنس داغ دیتا ہے اور خود کو رستم زماں سمجھتا ہے۔ 17 نومبر 2020ء کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہی کیا۔ انہوں نے بھارت کے ’’عملی چیلنج‘‘ کے جواب میں ایک پریس کانفرنس داغی، اور اس میں انہوں نے فرمایاکہ نومبر اور دسمبر میں ملک کے کئی بڑے شہروں میں بھارتی دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں بھارتی سفارت خانہ سازشوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور بھارتی سفارت کار کرنل راجیش پاکستان کے خلاف اب تک کروڑوں روپے بانٹ چکا ہے۔ اس نے دہشت گردوں سے چار ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے 700 افراد پر مشتمل ایک ملیشیا بھی بنائی ہوئی ہے۔ الطاف گروپ، طالبان اور کالعدم بلوچ تنظیموں کو اسلحہ اور رقوم فراہم کی جارہی ہیں۔ انہوں نے انکشاف فرمایا کہ بھارت آزاد کشمیر، بلوچستان، گلگت اور فاٹا میں قوم پرستی کو ہوا دے رہا ہے۔ اس موقع پر بھارتی دہشت گردوں اور ان کے بھارتی معاونین کی ایک آڈیو بھی میڈیا کے نمائندوں کو سنوائی گئی۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ ساری باتیں بڑی اہم ہیں، مگر ان تمام باتوں کی اہمیت ’’بیاناتی جہاد‘‘ سے زیادہ نہیں۔ سلیم احمد کا شعر ہے:
صرف باتوں پر جیو گے تم بھلا کب تک سلیمؔ
زندہ رہنا ہے تو پیارے کچھ ہنر بھی چاہیے
لیکن جیسا کہ ظاہر ہے پاکستان کا حکمران طبقہ بھارت کے سلسلے میں صرف باتوں پر قناعت کررہا ہے، اور وہ بھارت کے سلسلے میں کسی ’’ہنر‘‘ کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے کو اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ اور ان کی حرکیات سے وابستہ ہونے کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔ حالانکہ اس سلسلے میں برصغیر کی تین بڑی مسلم شخصیتوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ سرسید ہندو مسلم اتحاد کے علَم بردار تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ایک خوب صورت دلہن کی دو آنکھیں ہیں۔ مگر جب سرسید نے دیکھا کہ ہندو قیادت اپنے گہرے تعصب کی وجہ سے فارسی اور اردو کے خاتمے پر تل گئی ہے اور ہندی کو فروغ دے رہی ہے تو انہیں خوب صورت دلہن اچانک بدصورت نظر آنے لگی اور انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اگر تمہیں اپنے مفادات عزیز ہیں تو کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کرلو اور اپنے پلیٹ فارم سے اپنے مفادات کے تحفظ کی جدوجہد کرو۔ اقبال سرسید سے زیادہ وسیع المشرب تھے۔ وہ اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے میں ایک ’’قوم پرست‘‘ شاعر تھے۔ انہوں نے ہمالے کی شان میں نظم لکھی ہے۔ انہوں نے خاکِ وطن کے ہر ذرّے کو ’’دیوتا‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے گوتم بدھ کو سراہا ہے، انہوں نے شری کرشن کی تعریف کی ہے، انہوں نے بابا گرونانک کی توصیف فرمائی ہے، اور رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اقبال فرماتے تھے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مگر پھر ایک وقت آیا کہ اسی اقبال نے کہا:
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
قائداعظم سرسید اور اقبال سے زیادہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ اس بنیاد پر انہیں سروجنی نائیڈو نے ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب عطا کیا ہوا تھا۔ سرسید اور اقبال تو کبھی کانگریس کا حصہ نہیں رہے، مگر محمد علی جناح کانگریس کے رہنما تھے۔ کانگریس میں ان کی اہمیت یہ تھی کہ جب گاندھی جنوبی افریقہ سے بیرسٹری کرکے آئے تو ممبئی میں ان کے اعزاز میں جو استقبالیہ دیا گیا، قائداعظم اس کی صدارت کررہے تھے۔ مگر جس دو قومی نظریے نے سرسید اور اقبال کی قلبِ ماہیت کی تھی، اسی دو قومی نظریے نے محمد علی جناح کو بھی بدل ڈالا اور انہیں دیکھتے ہی دیکھتے محمد علی جناح سے قائداعظم بنادیا۔ قائداعظم جب تک زندہ رہے دو قومی نظریے کے ترجمان بنے رہے، اور نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے نظریے کی بنیاد پر پاکستان بنا کر دکھایا۔ برصغیر کی تین بڑی شخصیتوں میں آنے والی یہ تبدیلی مذاق نہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ برصغیر میں ہندو مسلم کشمکش محض سیاسی یا معاشی کشمکش نہیں ہے، بلکہ اس کا ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ان چیزوں کی حرکیات سے بہت گہرا تعلق ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ نہ خود کو جانتا ہے اور نہ اسے اپنے دشمن کا شعور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ 60 سال سے برصغیر کے اسٹیج پر ’’نظریاتی بیانیے‘‘ کے بجائے صرف ’’سیاسی بیانیے‘‘ یا ’’مذاکراتی بیانیے‘‘ پر کھڑا ہے۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہے کہ بھارت صرف پاکستان کا حریف نہیں ہے، وہ پاکستان کا ازلی و ابدی دشمن ہے۔ پاکستان کو اس سے صرف جنگ کا خطرہ لاحق نہیں بلکہ وجودی یا Existential خطرہ بھی لاحق ہے۔ بھارت پاکستان کو صرف دبانا نہیں چاہتا اسے ختم کردینا چاہتا ہے۔ اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی قیادت ہمارے مذہب سے بھی نفرت کرتی ہے اور ہماری تہذیب سے بھی۔ اسے ہماری تاریخ بھی زہر لگتی ہے اور ہمارا سیاسی وجود بھی۔ ہندو قیادت کی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت کی اتنی مثالیں موجود ہیں کہ ان کا شمار بھی مشکل ہے۔
پاکستان میں یہ خیال عام ہے کہ پاکستان کا دردِسر بی جے پی اور اس کی قیادت ہے۔ مگر یہ ایک سطحی اور سرسری خیال ہے۔ پاکستان مودی اور امت شاہ کے زمانے میں نہیں، گاندھی اور نہرو کے زمانے میں بنا۔ پاکستان کی جدوجہد مودی اور امت شاہ کی تنگ نظری اور تعصب کی وجہ سے نہیں ہوئی، گاندھی اور نہرو کی تنگ نظری اور تعصب کی وجہ سے ہوئی۔ پاکستان کو مودی نے دولخت نہیں کیا، پاکستان کو نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے دولخت کیا۔ بابری مسجد بی جے پی کے دورِ اقتدار میں نہیں بلکہ کانگریس کے دورِ اقتدار میں شہید کی گئی۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور پاکستان کے سلسلے میں گاندھی، نہرو، اندرا گاندھی اور سردار پٹیل اور مودی و امت شاہ میں کوئی حقیقی فرق نہیں۔ ہم نے مولانا محمد علی جوہر کا وہ بیان خود پڑھا ہے جو انہوں نے 1930ء میں جاری کیا۔ اس بیان میں مولانا محمد علی جوہر نے فرمایا کہ انتہا پسند ہندو شدھی کی تحریک کے تحت مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا رہے ہیں اور گاندھی انہیں کچھ نہیں کہتے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تصنیف India Wins Freedom میں لکھا ہے کہ جب قیام پاکستان کے وقت دہلی میں مسلم کُش فسادات ہورہے تھے تو انہوں نے کئی بار نہرو سے کہاکہ ان فسادات کو روکو، مگر نہرو نے کہاکہ وہ سردار پٹیل کو اس سلسلے میں ہدایت کرتے ہیں مگر سردار پٹیل میری بات سنتے ہی نہیں۔ سردار پٹیل اُس وقت وزیر داخلہ تھے اور نہرو ہندوستان کے وزیراعظم… مقبول وزیراعظم، محبوب وزیراعظم۔ چنانچہ کیا یہ ممکن تھا کہ وہ فسادات کو روکنے کے سلسلے میں اپنے وزیر داخلہ کو ہدایت دیں اور وہ اس پر عمل نہ کرے؟ مطلب یہ کہ جس طرح سردار پٹیل کو مسلم کُش فسادات روکنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی، اسی طرح نہرو بھی اس سلسلے میں ایک حد سے زیادہ دلچسپی نہ رکھتے تھے۔ 1971ء میں جب سقوطِ ڈھاکہ ہوا تو یہ ہندوستان کی بہت بڑی کامیابی تھی اور ہندوستان کو اس کامیابی پر مطمئن ہوجانا چاہیے تھا۔ مگر اندرا گاندھی صرف سقوطِ ڈھاکہ پر مطمئن نہ ہوسکیں۔ انہوں نے دو مذاہب، دو تہذیبوں اور دو تاریخوں کی علامت دو قومی نظریے پر حملہ کیا اور فرمایا کہ ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے تاریخ کو آواز دی اور کہاکہ آج ہم نے ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندو قیادت پاک بھارت تعلقات کو ایک ہزار سالہ تاریخ کے تناظر میں دیکھتی ہے۔ بھارت کی ہندو قیادت کی تاریخ 14 اگست 1947ء سے نہیں، ایک ہزار سال پہلے سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مودی اور اندرا گاندھی میں کیا اصولی فرق ہے؟ اندرا گاندھی کہتی ہے ہم نے ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا، مودی کہتا ہے کہ مسلمان اور کتے کے پلّے میں کوئی فرق نہیں۔ مودی سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کے مرنے سے دکھ نہیں ہوتا؟ تو اس نے کہا: آپ کی گاڑی کے نیچے کتے کا پلا آئے گا تو آپ کو دکھ تو ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کا تجربہ یہ ہے کہ اس نے برصغیر کے مسلمانوں بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کی ہر کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ اس لیے کہ اس کی اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ سے نفرت حقیقی اور شدید ہے۔ بھارت کی ہندو قیادت اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور پاکستان سے نفرت کی سطح پر خود کو بھی پہچانتی ہے اور اپنے دشمن سے بھی وہ آگاہ ہے۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ جو اپنی قوم سے بھی مکالمہ نہیں کرتا، بھارت کے سلسلے میں وہ ایک ’’مذاکراتی ذہنیت‘‘ کا حامل ہے، اور تاریخ کے ہر دور میں بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتا ہوا پایا جاتا ہے۔بھارت کے چیلنج کے مقابلے کے سلسلے میں صرف بیانات، اعلانات اورنیوز کانفرنسوں کے ڈھول پیٹتا رہتا ہے۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ 1962ء میں چین بھارت جنگ کے موقع پر بھارت اپنی ساری عسکری طاقت کو چین کی سرحد پر لے گیا تھا۔ اُس وقت چین کی قیادت نے پاکستان کو پیغام دیا کہ آگے بڑھو اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لو۔ یہ ایک تاریخی موقع تھا، مگر جنرل ایوب اس سنہرے موقع
(باقی صفحہ 41پر)
سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ وہ امریکہ کے دبائو میں آگئے، ورنہ اس مرحلے پر بھارت کے ’’اٹوٹ انگ‘‘ کو ایک دن میں دس ہزار فوجیوں کے ذریعے توڑا جاسکتا تھا۔ بھارت کو یہ موقع ملا ہوتا تو وہ ساری دنیا کے دبائو کو مسترد کردیتا اور خدانخواستہ پورے پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا۔ بھارتی پنجاب میں سکھوں کی تحریک ِ آزادی قوی تھی اور پاکستان بھارت کو پنجاب سے محروم کرنے کی پوزیشن میں تھا، مگر ہمارے حکمران بھارت سے خوف زدہ ہوگئے اور انہوں نے سکھوں کی فہرستیں خود بھارت کے حوالے کرکے سکھوں کی پوری تحریک کو سبوتاژ کردیا۔ ہم نے کارگل میں بھارت کو گردن سے پکڑلیا تھا اور ہم بھارت کو ایک بہت بڑی ہزیمت سے دوچار کرسکتے تھے، مگر امریکی دبائو پر کارگل سے واپس آگئے۔ آج مقبوضہ کشمیر کے لوگ نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی سطح پر بھارت سے مکمل طور پر الگ ہوگئے ہیں۔ پاکستان چاہے تو کشمیر کو بھارت سے کاٹ سکتا ہے، مگر پاکستان کا مذہب، تہذیب اور تاریخ سے بیگانہ حکمران طبقہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ’’بیانات کی بریانی‘‘ کھلانے میں مصروف ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ نہ خود کو جانتا ہے، نہ اپنے دشمن کا شعور رکھتا ہے۔ ایسے حکمران اپنی قوم کو شکست کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔