یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ مغرب نے جو عالمی سیاسی، معاشی، مالیاتی، علمی اور ابلاغی نظام بنایا وہ بھی پوری دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کو اپنا غلام بنانے کے لیے ہی بروئے کار آیا
فرانس میں توہینِ رسالتؐ کی ہولناک واردات پر سب سے صحیح ردعمل ترکی سے آیا ہے۔ ترکی کی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی اور فرانس کے صدر ایمانویل ماکروں کو ’’ملعون‘‘ قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے فرمایا کہ مغرب عالمِ اسلام پر صلیبی جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے۔ ترکی کی پارلیمنٹ مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے فرانس کے صدر ایمانویل ماکروں کی اصل کو پہچان لیا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ صرف فرانس کا صدر ’’ملعون‘‘ نہیں ہے، بلکہ اسلام، پیغمبرِ اسلام اور امتِ مسلمہ کے سلسلے میں مغرب کا ہر رہنما ہی ملعون ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مغرب کی پوری جدید تہذیب ہی ملعون ہے۔ ملعون لعنت زدہ کو کہتے ہیں۔ جیسے ابلیس کو لعنت زدہ قرار دیا گیا، مغرب کی تہذیب بھی ابلیس کی طرح لعنت زدہ ہے، اس لیے کہ وہ خدا کی منکر ہے، رسالت کے ادارے کی منکر ہے، وحی کی منکر ہے، آسمانی صحائف کی منکر ہے، آخرت کی منکر ہے۔ جہاں تک رجب طیب اردوان کے اس بیان کا تعلق ہے کہ مغرب مسلمانوں پر ایک نئی صلیبی جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے تو یہ بیان سیاسی اعتبار سے تو درست ہے، تاریخی اعتبار سے درست نہیں۔ اس لیے کہ مغرب کو عالمِ اسلام پر ایک نئی صلیبی جنگ مسلط کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کی اصل یا پرانی صلیبی جنگ تو ختم ہی نہیں ہوئی۔ مغرب نے 1095ء میں مسلمانوں پر پہلی صلیبی جنگ مسلط کی۔ یہ صلیبی جنگ مختلف ادوار میں دو سو سال تک جاری رہی۔ صلیبی جنگ کا یہ مرحلہ ختم ہوا تو مغربی اقوام کا نوآبادیاتی دور مسلمانوں پر مسلط ہوگیا۔ یہ نوآبادیاتی دور امتِ مسلمہ کی کم و بیش دو صدیاں کھا گیا۔ نوآبادیاتی دور ختم ہوا تو مسلم دنیا میں مغرب کے غلام بادشاہوں، جرنیلوں اور سیاست دانوں کا دور شروع ہوگیا۔ رہی سہی کسر امریکہ کے عالمگیر غلبے نے پوری کردی۔ امریکہ کے عالمگیر غلبے نے سرد جنگ کو پیدا کیا۔ سرد جنگ میں مسلم دنیا کے کچھ ملک امریکہ کے پٹھو بن گئے، اور کچھ ملکوں نے سوویت یونین کی غلامی قبول کرلی۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ مغرب نے جو عالمی سیاسی، معاشی، مالیاتی، علمی اور ابلاغی نظام بنایا وہ بھی پوری دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کو اپنا غلام بنانے کے لیے ہی بروئے کار آیا۔ مسلم دنیا کے کتنے ہی ملک ہیں جو امریکہ کے عسکری غلام ہیں۔ مسلم دنیا کے کتنے ہی ملک ہیں جو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی مٹھی میں ہیں۔ چنانچہ ہمارا زمانہ ایک نئی قسم کے نوآبادیاتی دور کا زمانہ ہے۔ نائن الیون کے بعد مغرب کی صلیبی یلغار میں اضافہ ہوا۔ مغربی اقوام نے جمع ہوکر افغانستان کے خلاف لشکر کشی کی، ٹھیک اسی طرح جس طرح 1095ء میں تمام یورپی اقوام نے ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوکر بیت المقدس پر لشکر کشی کی تھی۔ مغرب نے افغانستان میں اپنے قبضے کو مستحکم کرتے ہی عراق پر حملہ کیا اور اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مغرب کی صلیبی جنگ کے نئے مرحلے نے پاکستان میں ایسی خانہ جنگی برپا کی جو 75 ہزار لوگوں کو نگل گئی، اور جس سے پاکستان کو 200 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پاکستان اس خانہ جنگی سے نکل آیا، ورنہ اس خانہ جنگی میں یہ اندیشہ موجود تھا کہ یہ پاکستان کو منہ کے بل گرا سکتی تھی۔ صلیبی جنگ کے اس مرحلے پر جنرل پرویزمشرف اور ان کی اسٹیبلشمنٹ مغرب کا ایک مہرہ بن کر ابھری۔ جنرل پرویزمشرف کی مغرب پرستی کا یہ عالم تھا کہ جارج بش کے جوتے چاٹنے کی وجہ سے مغرب کا پریس مشرف کے بجائے ’’بشرف‘‘ کہتا تھا، اور اسرائیل کا صدر رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویزمشرف کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کرتا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب کو عالمِ اسلام کے خلاف ایک نئی صلیبی جنگ ایجاد کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ مغرب کی صلیبی جنگ مدتوں سے ایک نئے عنوان کے تحت جاری ہے۔ لیکن مغرب کی صلیبی جنگ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ جنگ تہذیبوں کے تصادم کے وسیع تر تصور اور وسیع تر دائرے کا حصہ ہے۔
تہذیبوں کا تصادم فکری بھی ہے اور عملی بھی۔ امام غزالیؒ کے بارے میں مشہورِ زمانہ بات یہ ہے کہ انہوں نے تنِ تنہا مغرب کے فکر و فلسفے کے چیلنج کا جواب دیا، اور مسلم دنیا میں مغربی فلسفے کا بیج مارکر رکھ دیا۔ غزالی نے جب یونانی فلسفے کے خلاف اپنے بے مثال فکری جہاد کا آغاز کیا تو مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقات، یہاں تک کہ مسلم دنیا کے بڑے بڑے مفکرین اور دانش ور یونانی فلسفے کے زیراثر جا چکے تھے اور انہوں نے کفر کو اختیار کرلیا تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ابن رشد اور ابن سینا جیسے لوگ ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یونانی فکر کے زیراثر ابن رشد اور ابن سینا جیسے لوگوں کے مذہبی معتقدات تقریباً بدل گئے تھے۔ مثلاً ابن رشد اور ابن سینا کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ خدا کلیّات کا علم تو رکھتا ہے مگر جزیات کا علم نہیں رکھتا۔ ابن رشد اور ابن سینا کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ یہ عالم قدیم ہے۔ ابن رشد اور ابن سینا کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ وحی عقل پر بالادست نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھنے لگے کہ خدا کلیّات کا علم تو رکھتا ہے مگر جزیات کا علم نہیں رکھتا تو معاذ اللہ وہ خدا کے علم کو ناقص قرار دیتا ہے، اور یہ کفر ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے تو وہ کائنات کو خدا کے برابر لاکھڑا کرتا ہے، اس لیے کہ ہمیشہ سے موجود ہونے کی صفت صرف خدا سے وابستہ کی جا سکتی ہے۔ یہ امر بھی عیاں ہے کہ جو شخص عقل پر وحی کی فوقیت کا قائل نہ رہے وہ وحی کو اس کے مرتبے سے گرا دیتا ہے، اس لیے کہ حقیقی اور دائمی صداقت وحی ہے، انسانی عقل نہیں۔ وحی کی روشنی سے محروم ہوکر عقل اسی طرح ناکارہ ہوجاتی ہے جیسے روشنی سے محروم ہوتے ہی آنکھیں دیکھنے کی صلاحیت بڑی حد تک کھو دیتی ہیں۔ امام غزالیؒ نے یونانی فکر سے پیدا ہونے والے فلسفیانہ فتنوں کو نہ صرف یہ کہ مذہبی بنیادوں پر، بلکہ عقلی بنیادوں پر بھی رد کردیا۔ لیکن یہ فتنے تہذیبوں کے تصادم کا شاخسانہ تھے، ان کی پشت پر کوئی سیاسی یا عسکری قوت موجود نہ تھی۔ ایک تہذیب جب دوسری تہذیب کے مقابل آتی ہے تو اس سے تصادم کی کیفیت ضرور پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ تہذیبوں کے تصادم اور اس کی معنویت کو سمجھنا قوموں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے 12 ویں صدی میں امام غزالیؒ اور 20 ویں صدی میں اکبر الہٰ آبادی، اقبال اور مولانا مودودیؒ کے سوا کسی نے وسیع تر علمی تناظر میں تہذیبوں کے تصادم کی معنویت کو سمجھ کر نہ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو تہذیبوں کے تصادم کی معنویت اور مضمرات کا علم ہی نہیں۔ رجب طیب اردوان تک اگر غزالی، اکبر، اقبال یا مولانا مودودی کا فکری سرمایہ پہنچا ہوتا تو وہ فرانس کے صدر کو ملعون قرار دینے کے بعد یہ نہ کہتے کہ مغرب مسلمانوں پر ایک نئی صلیبی جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کبھی ختم ہی نہیں ہوئی۔ بدقسمتی سے پڑھے لکھے مسلمانوں کی اکثریت کو آج بھی معلوم نہیں کہ اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان کن بنیادوں پر تصادم برپا ہے۔ ہم امریکہ اور یورپ کو تو کچھ نہ کچھ سمجھتے ہیں، مگر ان کے ان تہذیبی تصورات کو نہیں سمجھتے جو ہمارے بنیادی تہذیبی تصورات سے ٹکرا کر صدیوں سے تصادم پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے تہذیبوں کے تصادم کے فہم کا یہ عالم ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کی بات شروع ہوتی ہے تو لوگ کہنے لگتے ہیں کہ واقعتاً اسلامی اور مغربی تہذیبیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مغربی تہذیب کی علامت پینٹ شرٹ ہے، ہماری تہذیب کی علامت عمامہ اور شلوار قمیص ہے۔ مغربی کلچر میں بے حیائی بہت ہے، ہمارے کلچر میں شرم و حیا کا تصور موجود ہے۔ مغرب میں لوگ شراب پیتے ہیں، ہمارے کلچر میں شراب حرام ہے۔ یہ امتیازات اپنی جگہ اہم ہیں، مگر ان چیزوں سے تہذیب Define نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ تہذیبیں کن تصورات سے Define ہوتی ہیں؟
اس سلسلے میں چند تصورات کی نوعیت بنیادی ہے۔ ان تصورات میں سب سے اہم تصور الٰہیات ہے، جس کو آسان کرنے کے لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر تہذیب خدا کا ایک مخصوص تصور رکھتی ہے اور اس تصور کا اثر پوری تہذیب پر پڑتا ہے، یا اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی تہذیب ایک خدا پر ایمان رکھتی ہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ایک ہے، وہی ہمارا خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے۔ اسی کی طرف سے ہم آئے ہیں، اسی کی وجہ سے ہم دنیا میں مقیم ہیں، اور بالآخر ایک دن ہمیں خدا کی طرف ہی لوٹ جانا ہے۔ اس کے برعکس ہم جب جدید مغربی تہذیب سے پوچھتے ہیں کہ تمہارا تصور الٰہ کیا ہے، یا تمہاری الہٰیات کیا ہے، یا تمہاری Onotlogy کیا ہے؟ تو جدید مغربی تہذیب ہمیں بتاتی ہے کہ اس کا خدا مادہ ہے۔ جدید مغربی تہذیب نے مادے کے ساتھ وہی تصورات وابستہ کررکھے ہیں جو ہم خدا کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں۔ مثلاً ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جدید مغربی تہذیب مادے کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ مادہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کا خیال ہے کہ مادہ شکل تو بدلتا ہے، کہیں وہ برف بن جاتا ہے، کہیں پانی بن جاتا ہے، کہیں بھاپ بن جاتا ہے، مگر وہ فنا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ایک صاحبِ شعور اور صاحبِ ارادہ ہستی ہے۔ جدید مغربی تہذیب بھی مادے کے بارے میں اس خیال کو پیش کرتی ہے کہ اگر مادہ شعور کا حامل نہ ہوتا تو زندگی میں اتنا تنوع نہ ہوتا۔ یہ جو کہیں جمادات ہیں، کہیں نباتات ہیں، کہیں حیوانات ہیں اور انسان ہے تو یہ مادے کے شعور پر دلالت کرتے ہیں۔ جدید مغربی تہذیب ایک سطح پر مادے کو خدا مانتی ہے اور اسی اصول کے ذریعے پوری زندگی کی تشریح کرتی ہے۔ دوسری سطح پر اس کا عقیدہ ہے: ’’لاالٰہ الانسان‘‘… یعنی نہیں ہے الٰہ سوائے انسان کے۔ اس تہذیب نے خدا کا انکار کرکے انسان کو خدا کے منصب پر فائز کردیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی تہذیب اور جدید مغربی تہذیب کا تصورِ الٰہ، ان کی الٰہیات یا ان کی Ontology ایک دوسرے کی ضد ہے، اور ان تہذیبوں کے درمیان کوئی مطابقت ممکن نہیں ہوسکتی۔
اسی طرح تہذیب Define ہوتی ہے کسی تہذیب کے تصورِ علم سے۔ جب ہم اسلامی تہذیب سے پوچھتے ہیں کہ کس علم کو برتر اور کامل ترین سمجھتی ہو؟ تو وہ کہتی ہے وحی سے زیادہ کامل اور برتر علم کا تصور محال ہے۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب سائنسی علم کو کامل ترین اور برتر علم سمجھتی ہے، مگر اقبال نے اس علم کے بارے میں کہا ہے: ۔
محسوس پر بِنا ہے علومِ جدید کی
اس دور میں شیشہ عقاید کا پاش پاش
سائنس مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہونے والے علم پر کھڑی ہے۔ جو چیز سائنسی مشاہدے اور سائنسی تجربے سے ثابت نہ ہوسکے سائنس اس چیز کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی۔ چونکہ خدا، آخرت، وحی، فرشتے نہ سائنسی مشاہدے کی گرفت میں آتے ہیں، نہ انہیں کسی سائنسی تجربے سے ثابت کیا جا سکتا ہے اس لیے سائنس ان میں سے کسی کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہاں بھی اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب ایک دوسرے کی ضد بن کر سامنے آتی ہیں۔
تہذیبوں کو Define کرنے کے سلسلے میں ان کا تصورِ انسان بھی اہم ہوتا ہے۔ ایک سطح پر اسلامی تہذیب کا تصورِ انسان یہ ہے کہ انسان زمین پر اللہ کا نائب اور اس کا خلیفہ ہے۔ وہ مخلوقات میں افضل ترین ہے۔ وہ اپنے شعورِ بندگی سے پہچانا جاتا ہے۔ دوسری سطح پر اسلامی تہذیب انسان کو روح، نفس اور جسم کا مجموعہ سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب انسان کو صرف جسمانی حقیقت تسلیم کرتی ہے۔ دوسری سطح پر اس کا تصورِ انسان یہ ہے کہ انسان ایک حیوان کے سوا کچھ نہیں۔ مغرب کی عمرانیات کہتی ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ مغرب کی معاشیات کہتی ہے کہ انسان ایک معاشی حیوان ہے۔ مغرب کا علمِ سیاست کہتا ہے کہ انسان ایک سیاسی حیوان ہے۔ مغرب کی حیاتیات کہتی ہے کہ انسان صرف ایک حیاتیاتی وجود ہے۔ مغرب کی نفسیات کہتی ہے انسان صرف جبلتوں کا مجموعہ ہے، اور جبلتیں انسان اور حیوان دونوں کا مشترک پہلو ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلامی تہذیب اور جدید مغربی تہذیب کا تصورِ انسان بھی ایک دوسرے سے براہِ راست متصادم ہے۔
تہذیبیں اپنے تصورِ تخلیق سے بھی پہچانی جاتی ہیں۔ اسلامی تہذیب کا تصورِ تخلیق یہ ہے کہ خدا نے انسان کو خود اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اس میں روح پھونکی۔ یعنی انسان پہلے لمحے ہی سے انسان تھا۔ مغربی تہذیب کہتی ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے۔ وہ بندر سے ارتقا پاکر انسان بنا ہے۔ کائنات کے سلسلے میں اسلامی تہذیب کا تصورِ تخلیق یہ ہے کہ خدا نے ’کن‘ کہا اور یہ کائنات وجود میں آگئی۔ جدید مغربی تہذیب کہتی ہے کہ یہ کائنات Big Bang کا نتیجہ ہے۔ اس اعتبار سے اسلامی اور مغربی تہذیب کا تصورِ تخلیق بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔
تہذیبوں کی تعریف متعین کرنے کے سلسلے میں اس تصور کی بھی بنیادی اہمیت ہوتی ہے کہ کوئی تہذیب انسان کی کامیابی یا ناکامی کا کیا تصور رکھتی ہے۔ اسلامی تہذیب کہتی ہے کہ ’’کامیاب انسان‘‘ وہ ہے جس نے اپنے رب کو راضی کرلیا، خواہ ایسے انسان کے پاس رہنے کو گھر بھی نہ ہو، پہننے کے لیے مناسب لباس بھی نہ ہو، کھانے کے لیے مناسب غذا بھی نہ ہو۔ دوسری طرف وہ شخص ناکام ہے جس نے اپنے رب کو راضی نہ کیا، خواہ وہ شخص کھرب پتی ہو، خواہ اس نے ساری دنیا کو فتح کرلیا ہو، خواہ وہ آئن اسٹائن سے زیادہ ذہین ہو۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب کہتی ہے کہ کامیاب انسان وہ ہے جو مادی معنوں میں کامیاب ہو، جس کے پاس زیادہ دولت اور زیادہ طاقت ہو۔ اس بنیاد پر جدید مغربی تہذیب انسانوں کوطبقات میں بانٹتی ہے، اور پورے عالمِ انسانی کو اس نے ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ دنیا میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ اس تناظر میں بھی اسلامی اور مغربی تہذیب ایک دوسرے سے یکسر مختلف بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اسلامی تہذیب اور جدید مغربی تہذیب میں کوئی قدر مشترک ہی نہیں۔ یہ تہذیبیں ایک دوسرے سے اتنی مختلف ہیں کہ ان میں سے ایک درست ہے تو دوسری یقیناً غلط ہے۔ ایک حق ہے تو دوسری باطل ہے۔ اور بلاشبہ حق اسلامی تہذیب ہے اور باطل جدید مغربی تہذیب۔ مسلمانوں نے یہ باتیں دو سو سال پہلے ہی سمجھ لی ہوتیں تو آج مسلمانوں کی حالت بہت مختلف ہوتی۔ مگر مسلمان نہ خود کو پہچانتے ہیں اور نہ وہ اپنے دشمن کی بنیادوں سے آگاہ ہیں۔ چنانچہ مسلمان مغرب کے مقابلے کے لیے نہ یکسو ہیں، نہ ان کی تیاری اس پائے کی ہے، جس کے بغیر مغرب کا مقابلہ ممکن ہی نہیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان صرف حق ہی کو نہ پہچانیں، باطل کو بھی پہچانیں، کیونکہ اگر وہ باطل کو نہیں پہچانیں گے تو اس سے دھوکہ کھا جائیں گے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ہے کہ جو شخص باطل کو نہیں پہچانتا وہ حق کے پرخچے اڑا دے گا۔