اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ جاری ہے
مسلم دنیا کے حکمران مغرب کے آلۂ کار، اور مسلم دنیا کے دانش وروں کی عظیم اکثریت نااہلوں کی سردار ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو مسلم دنیا کو معلوم ہوتا کہ مغرب نے اسلام، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کبھی ترک نہیں کی
مغربی دنیا ایک بار پھر صلیبی جھنڈا لہراتی ہوئی مسلمانوں کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ فرانس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون رسالے کے صفحات سے نکل کر دیواروں پر آگئے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمونیل ماکرون نے کھل کر اس عمل کی حمایت کی ہے۔ اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے فرانس کے صدر نے فرمایا تھا کہ اسلام داخلی بحران کا شکار ہے۔ فرانسیسی صدر کی تازہ ترین اسلام دشمنی پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے فرانس کے صدر کو پاگل قرار دیا ہے کیونکہ انہوں نے فرانس کے صدر کو اپنے دماغی معائنے کا مشورہ دیا ہے۔ فرانس نے ترکی کے صدر کے اس مشورے کا سخت برا منایا ہے اور اس نے ترکی سے اپنا سفیر واپس بلالیا ہے۔ ترکی کے صدر کے بعد عمران خان نے بھی کھل کر فرانس کے صدر کے رویّے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے فرانس کے صدر کے طرزِعمل کو اسلام پر حملہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ فرانس کے صدر نے کروڑوں مسلمانوں کو مشتعل کرکے ان کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ پاکستان نے فرانس کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا ہے اور ان سے فرانس کی جانب سے اسلام دشمنی پر احتجاج کیا ہے۔ مسلم دنیا کے کئی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم جاری ہے۔ فرانس نے مسلم دنیا کے حکمرانوں سے اس مہم کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے ’’فرانس پر حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔
مسلم دنیا کے حکمران مغرب کے آلۂ کار، اور مسلم دنیا کے دانش وروں کی عظیم اکثریت نااہلوں کی سردار ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو مسلم دنیا کو معلوم ہوتا کہ مغرب نے اسلام، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کبھی ترک نہیں کی۔ صلیبی جنگیں مسلمانوں کی ایجاد نہیں تھیں۔ پوپ اربن دوئم نے 1095ء میں اسلام کو شیطانی مذہب قرار دے کر انہیں ایجاد کیا تھا۔ صلیبی جنگیں دو سو سال تک جاری رہیں۔ یہ جنگیں مسلمانوں کی صلیبیوں پر فتح کے بعد ختم ہوئیں تو 18 ویں صدی میں مغرب ایک نوآبادیاتی طاقت بن کر پورے عالمِ اسلام پر قابض ہوگیا۔ اس نے ڈیڑھ سو، دو سو سال تک نوآبادیاتی تجربے کو جاری رکھا، اور اس عرصے میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام پر حملے جاری رکھے۔ اس نے اسلام کو کبھی آسمانی مذہب اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی رسول تسلیم نہیں کیا۔ دو عالمی جنگوں کے بعد مغربی طاقتیں مسلم دنیا سے رخصت ہوئیں تو انہوں نے اپنے پیدا کردہ حکمران طبقے کے ذریعے مسلمانوں پر اپنے تسلط کو برقرار رکھا۔ چنانچہ مسلمان سیاسی طور پر آزاد ہوکر بھی مغرب کے غلام رہے۔ مسلم دنیا کی سیاست پر مغرب کا مکمل غلبہ ہے۔ مسلم دنیا میں فوجی آمریت آتی ہے تو مغرب کی مرضی سے۔ جمہوریت آتی ہے تو مغرب کی اجازت سے۔ مسلم دنیا کے اکثر ملکوں کی معیشتیں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہیں۔ مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ مغرب زدہ ہیں۔ ہمارے آرٹ اور کلچر پر مغرب کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ ہم غذائیں بھی مغرب کی استعمال کررہے ہیں۔ ہماری خواہشوں، آرزوئوں، تمنائوں اور ہمارے خوابوں تک پر مغرب کی مہر لگی ہوئی ہے۔ نائن الیون کے بعد مغرب نے صلیبی جنگوں کے جوش و جذبے کو ایک بار پھر پوری قوت سے بحال کیا۔ اس نے افغانستان اور عراق کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا۔ امریکہ کے صدر جارج بش نے نائن الیون کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وہ ’’کروسیڈ‘‘ کا آغاز کرچکے ہیں۔ اٹلی کے وزیراعظم سلویو برلسکونی نے کہاکہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ امریکہ کے صدر جارج بش کے اٹارنی جنرل نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلام اور عیسائیت کے تصورِ خدا کا موازنہ کرڈالا۔ انہوں نے فرمایا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے۔ یہ تمام باتیں اس امر کا مظہر تھیںکہ مغرب کا مسئلہ ملا عمر، اسامہ بن لادن، طالبان یا القاعدہ نہیں، بلکہ اسلام، پیغمبر اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمان ہیں۔ اب مغرب عرصے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنا اور شائع کررہا ہے۔ اب تک اس گھنائونے فعل کو سرکاری سرپرستی حاصل نہیں تھی، مگر فرانس کے صدر نے کھل کر ان کارٹونوں کی حمایت کی ہے۔ اس پر طیب اردوان نے بجاطور پر فرانس کے صدر کو پاگل قرار دیا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ صرف فرانس کا صدر پاگل تھوڑی ہے۔ پوری جدید مغربی تہذیب پاگل ہے۔ آخر ایسی تہذیب پاگل نہیں تو اور کیا ہے جس نے خدا کا انکار کردیا ہے، جس نے اپنے آسمانی صحیفے کو مسترد کردیا ہے، جس نے حضرت عیسیٰؑ کو بحیثیت پیغمبر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یہ تہذیب مذہبی اخلاق کی دشمن ہے اور ہم جنس پرستی جیسے انحراف کو سر کا تاج بنائے ہوئے ہے۔ مذہبی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تمام باتیں مغربی تہذیب کے پاگل پن کی گواہ ہیں۔ اس تہذیب نے مادی ترقی کو اپنا سب سے بڑا Ideal بنا لیا ہے۔ یہ بجائے خود ایک پاگل پن ہے۔ اس لیے کہ انسان صرف مادی وجود نہیں ہے۔ وہ ایک روحانی اور اخلاقی وجود بھی ہے۔ چنانچہ اسے صرف مادی ترقی تک محدود کرنا کھلا پاگل پن ہے۔ مغرب کے اجتماعی پاگل پن کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ خود کو ’’سیکولر‘‘ کہتا ہے، مگر اسلام، پیغمبرِ اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں جب چاہتا ہے ’’صلیبی‘‘ بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ یعنی مغرب خود کو کہتا سیکولر ہے مگر اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے سلسلے میں اس کا سارا جوش و جذبہ ’’صلیبیت‘‘ میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔
مغرب ایک جانب مسلمانوں سے کہتا ہے کہ تم صاحبِ عقل یا Rationalist نہیں ہو۔ دوسری جانب اس کی عقل پرستی کا یہ عالم ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہوئے رتی برابر بھی عقل سے کام نہیں لے رہا۔ مغرب مسلمانوں سے کہتا ہے کہ تم آزادیٔ اظہار کے قائل نہیں ہو، مگر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے فرانس کے صدر کو اپنے دماغ کے معائنے کا مشورہ دیا تو فرانس نے ناراض ہوکر اپنا سفیر ترکی سے واپس بلالیا۔ مغرب مسلمانوں کے بارے میںکہتا ہے کہ وہ بہت پُرتشدد ہیں، وہ احتجاج تک پُرامن نہیں کرتے۔ مگر فرانس نے توہینِ رسالت کی تو بعض مسلم ملکوں میں فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوگیا۔ یہ ہر اعتبار سے ایک پُرامن ردعمل ہے، مگر فرانس اس ردعمل کو فرانس پر حملہ قرار دے رہا ہے۔ فرانس ایک جانب ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کے محبوب پیغمبر کی توہین کا حق طلب کرتا ہے، دوسری جانب وہ اپنی مصنوعات کا بائیکاٹ تک قبول نہیں کرپاتا۔ مغرب کے یہ تضاد ہولناک اور شرمناک ہیں۔ بدقسمتی سے مسلم معاشرے جدید مغربی تہذیب کے سلسلے میں پوری طرح بیدار نہیں ہیں، ورنہ مغرب کو اسلام، پیغمبرِ اسلام اور مسلمانوں کی توہین کی جرأت نہ ہوتی۔ وقت آگیا ہے کہ مسلمان مغرب اور اس کی ابلیسیت کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنے کی راہ ہموار کریں۔