بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اب میاں نوازشریف اپنی قوت پر کھڑے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے۔ میاں نوازشریف کے سارے احتجاج اور شورو غوغا کی بنیاد یہ خیال ہے کہ اب وہ کیوں ’’سلیکٹڈ‘‘ نہیں رہے؟ عمران خان کیوں ’’سلیکٹڈ‘‘ ہوگئے؟ اسٹیبلشمنٹ آج بھی میاں صاحب کو جمہوریت کی بارات کا دولہا بنانے پر آمادہ ہوجائے تو میاں صاحب ایک لمحے میں سہرا باندھ کر کھڑے ہوجائیں گے
پاکستان کی سیاست سوتنوں کی لڑائی کا منظر پیش کرتی رہتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ عمران خان کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کہتے ہیں، اور عمران خان کا کیمپ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو سلیکٹڈ کہتا ہے۔ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو دونوں ہی سلیکٹڈ ہیں۔ فرق یہ ہے کہ عمران خان دو سال سے سلیکٹڈ ہیں، جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت 50 سال سے اور نواز لیگ کی قیادت 40 سال سے سلیکٹڈ چلی آتی ہے۔ لیکن پاکستان کے سیاسی نظام کا ایک پہلو اس سے بھی زیادہ ہولناک اور شرمناک ہے، اور وہ یہ کہ پاکستان کے سیاسی نظام کی ہر چیز ’’سلیکٹڈ‘‘ ہے۔
پاکستان کے سیاسی نظام کی سب سے طاقت ور چیز فوجی آمریت ہے، مگر پاکستان کی فوجی آمریت بھی ’’حقیقی‘‘ نہیں۔ وہ بھی سلیکٹڈ ہے۔ امریکہ کی خفیہ دستاویز ’’امریکن پیپرز‘‘ سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا، مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ رابطے استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت پاکستان کو تباہ کررہی ہے اور فوج اسے ہرگز ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ صورتِ حال پاکستان میں فوجی آمریت کو امریکی پشت پناہی فراہم کرنے کی کوششوں کا حصہ تھی۔ چنانچہ 1958ء میں جب جنرل ایوب نے مارشل لا لگایا تو امریکہ پوری طرح جنرل ایوب کے ساتھ تھا۔ اِس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ جنرل ایوب کی فوجی آمریت امریکی گملے میں لگے ہوئے ایک پودے کے سوا کچھ نہ تھی۔ جنرل ایوب کی آمریت اگر حقیقی ہوتی تو وہ اپنی قوت کی بنیاد پر مارشل لا لگاتے۔ وہ کبھی بھی امریکہ کو اپنا حامی، مددگار اور پشت پناہ نہ بناتے۔ جنرل ایوب کی آمریت کا ہولناک ترین نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان دائمی طور پر امریکی کیمپ اور امریکہ کے تزویراتی منصوبوں کا حصہ بن گیا۔ اس طرح ہمارا دفاع پچاس ساٹھ سال کے لیے امریکہ مرکز یا America centric ہوگیا۔ جنرل ایوب کے بعد جو جنرل بھی آیا، وہ یا تو امریکہ کی آشیرباد سے آیا، یا اُس نے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ کی آشیرباد حاصل کی۔ اس کے بغیر نہ جنرل ضیا دس سال تک حکمران رہ سکتے تھے، نہ جنرل پرویز دس سال کے لیے ہماری گردنوں پر مسلط رہنے کی جرأت کرسکتے تھے۔ جنرل پرویزمشرف جب اقتدار میں آئے تھے تو وہ امریکہ کی گود میں نہیں بیٹھے ہوئے تھے، مگر نائن الیون کے بعد وہ اس حد تک ’’امریکی‘‘ ہوئے کہ مغربی ذرائع ابلاغ تحقیر کے طور پر انہیں صدربش کے نام کی رعایت سے ’’بشرف‘‘ کہنے لگے۔ جب پرویزمشرف کے ’’سلیکٹڈ‘‘ ہونے کا یہ عالم تھا کہ نائن الیون کے بعد اسرائیل کا صدر رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویز کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کرنا نہیں بھولتا تھا۔ یہ کوئی قیاسی بات نہیں۔ اخبار میں شائع ہونے والی خبر سے اس امر کی تصدیق ہوئی کہ اسرائیل کا صدر جنرل پرویز کے لیے رات کو سونے سے پہلے دعا کرتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا ہر فوجی آمر سلیکٹڈ تھا۔
پاکستان کے سول حکمرانوں اور پاکستان کی جمہوریت کا حال اور بھی پتلا ہے۔ پاکستان کی جمہوریت ایک سطح پر امریکہ کی ’’سلیکٹڈ‘‘ ہے، دوسری سطح پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ’’سلیکٹڈ‘‘ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی جمہوریت کا سب سے نمایاں چہرہ ہیں، مگر بھٹو صاحب جنرل ایوب کی کابینہ میں وزیر تھے اور وہ عقیدت سے جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ ڈیڈی کی اصطلاح ملک میں فوجی آمریت کے ’’غلبے‘‘ ہی کو نہیں، جمہوریت کی ’’مغلوبیت‘‘ کو بھی بیان کرتی ہے۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر بڑا آدمی اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے۔ قائداعظم کبھی کانگریس کے رہنما تھے، مگر پھر وہ وقت آیا کہ انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی اور اپنی دنیا آپ پیدا کرکے دکھائی۔ مگر پاکستان کے سول رہنما اور حکمران کبھی اپنی دنیا آپ پیدا نہ کرسکے۔ ان کی دنیا ہمیشہ امریکہ یا اسٹیبلشمنٹ نے خلق کی۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسا ذہین آدمی بھی سیاست میں آیا تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پر چڑھ کر اس نے اپنا قدو قامت پیدا کیا۔ میاں نوازشریف اور ان کا پورا سیاسی کیریئر بھی اسٹیبلشمنٹ کی ’’سلیکشن‘‘ کا حامل ہے۔ وہ اپنی اہلیت سے وزیراعظم کیا ایک کونسلر بھی منتخب نہیں ہوسکتے تھے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اب میاں نوازشریف اپنی قوت پر کھڑے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے۔ میاں نوازشریف کے سارے احتجاج اور شورو غوغا کی بنیاد یہ خیال ہے کہ اب وہ کیوں ’’سلیکٹڈ‘‘ نہیں رہے؟ عمران خان کیوں ’’سلیکٹڈ‘‘ ہوگئے؟ اسٹیبلشمنٹ آج بھی میاں صاحب کو جمہوریت کی بارات کا دولہا بنانے پر آمادہ ہوجائے تو میاں صاحب ایک لمحے میں سہرا باندھ کر کھڑے ہوجائیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری سلیکٹڈ، سلیکٹڈ کا سب سے زیادہ شور مچا رہے ہیں، لیکن آج اسٹیبلشمنٹ آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو کو ’’سلیکٹ‘‘ کرلے تو بلاول سلیکٹڈ کا راگ بھول کر خود سلیکٹڈ بننے پر آمادہ ہوجائیں گے۔
محمد خان جونیجو بڑے شریف النفس انسان تھے۔ وہ ایمان دار تھے، مگر وہ تھے جنرل ضیا الحق کے ’’سلیکٹڈ‘‘۔ الطاف حسین اور ان کی جماعت ایک ’’مافیا‘‘ ہے مگر الطاف حسین بھی ’’سلیکٹڈ‘‘ ہی تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی ’’کاشت کارانہ صلاحیت‘‘ کے بغیر الطاف حسین، الطاف حسین اور ایم کیو ایم، ایم کیو ایم نہیں ہوسکتی تھی۔
پاکستان کا پورا انتخابی نظام بھی اپنی اصل میں ’’سلیکٹڈ‘‘ ہے۔ کہنے والے خوش فہمی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات ’’منصفانہ‘‘ تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ انتخابات بھی منصفانہ نہیں تھے۔ بریگیڈیئر اے آر صدیقی 1970ء میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے جیو کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ مشرقی پاکستان کے دیہی علاقوں میں مولانا بھاشانی اور اُن کی جماعت مقبول تھی اور جنرل یحییٰ خان نے مولانا بھاشانی کو دو کروڑ دینے کا وعدہ کیا تھا تاکہ مولانا بھاشانی مشرقی پاکستان کے دیہی علاقوں میں شیخ مجیب اور ان کی عوامی لیگ کا راستہ روک سکیں۔ صدیقی صاحب کے بقول جنرل یحییٰ نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا اور عوامی لیگ مشرقی پاکستان کے دیہی علاقوں سے بھی جیت گئی۔ انٹرویو لینے والے نے بریگیڈیئر صدیقی سے پوچھا کہ جنرل یحییٰ نے اپنا وعدہ پورا کیوں نہیں کیا؟ بریگیڈیئر صدیقی نے ایک لمحے توقف کیا اور پھر کہاکہ جنرل یحییٰ پاکستان توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ 1970ء کے انتخابات ہی ’’سلیکٹڈ‘‘ نہیں تھے بلکہ سقوطِ ڈھاکا بھی ’’سلیکشن‘‘ کا نتیجہ تھا۔
پاکستان کا پورا انتخابی نظام بھی ’’سلیکٹڈ‘‘ ہے، اور اس کا آغاز انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں سے ہوجاتا ہے۔ حلقہ بندیاں اسٹیبلشمنٹ یا غالب سیاسی جماعت کی مرضی سے ہوتی ہیں اور انتخابی فہرستیں جعل سازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔ پاکستان میں انتخابی عمل کے ’’سلیکٹڈ‘‘ ہونے کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ ہے مگر مردم شماری میں صرف ڈیڑھ کروڑ ظاہر کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی کی آبادی پوری دکھا دی گئی تو صوبائی اور قومی اسمبلی میں کراچی کا وزن بہت بڑھ جائے گا۔
اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں قومی اسمبلی کی 70 سے 75 نشستیں ایسی ہیں جہاں مخصوص خاندانوں کے لوگ ہی منتخب ہوتے ہیں۔ یہ لوگ پیپلز پارٹی میں ہوں تو پیپلزپارٹی جیت جاتی ہے، یہ لوگ نواز لیگ میں ہوں تو نواز لیگ فتح مند ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑتے ہیں تو آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ عرفِ عام میں “Electables” کہلاتے ہیں، اور “Electables” کے بغیر کوئی اسمبلی وجود میں آتی ہے نہ کوئی حکومت تشکیل پاتی ہے۔ عام طور پر یہ Electables اسٹیبلشمنٹ کی مٹھی میں ہوتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر اسمبلی میں 70 سے 75 لوگ تو اسٹیبلشمنٹ کے ہوتے ہی ہیں، رہی سہی کسر سرمایہ پوری کردیتا ہے۔ پاکستان میں سرمائے کے بغیر انتخاب لڑنے کا خیال بھی نہیں آسکتا۔ چنانچہ پاکستان میں امیدوار امیدوار کے، اور پارٹی پارٹی کے مقابل نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ سرمائے کے مقابل ہوتا ہے۔ جہاں زیادہ سرمایہ ہوتا ہے وہاں فتح کے شادیانے بج جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف اور نواز لیگ نے ذرائع ابلاغ میں اپنی مہم پر دس دس ارب روپے خرچ کیے۔ ان اخراجات کی اہمیت یہ ہے کہ کروڑوں لوگ ٹی وی دیکھ رہے ہیں اور تواتر سے اسکرین پر صرف دو جماعتوں یعنی تحریک انصاف اور نواز لیگ کے اشتہارات آتے چلے جارہے ہیں۔ اس عمل میں رائے دہندگان کے لیے پیغام یہ ہے کہ پارٹیاں تو صرف دو ہی ہیں، تحریک انصاف اور نواز لیگ۔ آپ چاہیں تو عمران خان کو وزیراعظم بنادیں، چاہیں تو نوازشریف کو فتح یاب کرادیں۔ یہ سرمائے کی قوت سے ہونے والی ’’سلیکشن‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے اس سلیکشن کو کوئی سلیکشن نہیں کہتا، اور اس سلیکشن سے کامیاب ہونے والا کوئی شخص ’’سلیکٹڈ‘‘ نہیں کہلاتا، حالانکہ وہ ’’سلیکٹڈ‘‘ ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا ’’سلیکٹڈ‘‘ نہیں، سرمائے کا ’’سلیکٹڈ‘‘۔
پاکستان کے سیاسی نظام میں صوبائی، لسانی، فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصبات کا کردار بنیادی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پنجابی، پنجابی کو ووٹ دیتا ہے۔ سندھی، سندھی کے حق میں رائے دیتا ہے۔ مہاجر، مہاجر کو منتخب ایوانوں میں بھیجتا ہے۔ بلوچی، بلوچی کے گلے میں کامیابی کا ہار ڈالتا ہے۔ پشتون، پشتون کے لیے رائے کا استعمال کرتا ہے۔ یہی تقسیم فرقوں اور مسلکوں کے حوالے سے سامنے آتی ہے۔ دیوبندی کبھی بریلوی کو، اور بریلوی کبھی دیوبندی کو ووٹ نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں شیعہ سنی کی تفریق بھی اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے تعصبات بھی سیاسی نظام میں ’’سلیکٹر‘‘ کا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں، اور اکثر منتخب لوگ کسی نہ کسی تعصب کے ’’سلیکٹڈ‘‘ ہوتے ہیں۔ ملک میں صرف جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس کے لوگ “Elected” ہوتے ہیں۔ گاندھی ایک زمانے میں اچھی بات کہا کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر ہم نے سیاسی آزادی حاصل کرلی مگر ہم اپنے نفس کے غلام رہے تو پھر سیاسی آزادی کا کیا فائدہ؟ ہم امریکہ کے سلیکٹڈ ہوں یا اسٹیبلشمنٹ کے… ہم کسی تعصب کے سلیکٹڈ ہوں یا نفسِ امارہ کے، بات تو ایک ہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے سیاسی نظام کی ہر چیز سلیکٹڈ کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارے سیاسی نظام کی پشت پر کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ نظریے کی قوت یہ ہے کہ وہ انسان کو انفرادی، گروہی اور ادارہ جاتی مفادات سے بلند کرتا ہے اور آپ کی زندگی کو کسی پست خیال کی گرفت میں جانے سے بچاتا ہے۔ لیکن ہمارے سیاسی نظام کی پشت پر کوئی نظریہ کیوں نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نظریہ نہ اسٹیبلشمنٹ کو سوٹ کرتا ہے، نہ پیپلزپارٹی، نوازلیگ اور تحریک انصاف کو سوٹ کرتا ہے۔ نظریے کی قوت یہ ہے کہ چین معاشی اعتبار سے سرمایہ دارانہ نظام میں جذب ہوگیا ہے مگر اس نے سیاسی نظام کے دائرے میں اپنے نظریئے کو ترک نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ چین کے سیاسی نظام میں ’’میرٹ‘‘ موجود ہے۔ مگر ہمارے سیاسی نظام میں نہ اسٹیبلشمنٹ میں کوئی میرٹ ہے، نہ سیاسی جماعتوں میں کوئی میرٹ ہے۔ چنانچہ نہ ہمیں فوجی آمریت عظمت اور وقار سے ہم کنار کرپاتی ہے، نہ جمہوریت سے ہمیں کچھ فراہم ہوتا ہے۔