اسلام کے خلاف ’’عالمِ باطل‘‘ کا یہ ’’اجماع‘‘ کہیں ہمیں یہ تو نہیں بتا رہا کہ اسلام کے عالمگیر غلبے کی منزل اب دور نہیں؟
فرانس کے صدر ایمانویل ماکروں نے اسلام اور مسلمانوں پر حملوں کو عادت بنا لیا ہے۔ ابھی چند روز پیشتر انہوں نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کو فرانس میں رہنا ہے تو انہیں اپنے مذہب کی توہین کو برداشت اور قبول کرنا ہوگا۔ اب انہوں نے فرمایا ہے کہ فرانس ایک سیکولر ملک ہے، چنانچہ فرانس میں مذہب کا سہارا لے کر علیحدہ اور متوازی معاشرہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد تربیت یافتہ شہری پیدا کرنا ہے، مذہبی پیروکار نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام دنیا میں بحران سے دوچار ہے۔ فرانس کے صدر نے فرمایا کہ مسلم انتہا پسندی قبول نہیں، مدارس اور حجاب پر پابندی برقرار رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ علیحدہ اور متوازی معاشرہ فرانس کی اقدار سے متصادم ہوگا اس لیے اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت ایک نیا قانون لا رہی ہے جس کے تحت مذہبی اور سماجی تنظیموں کے مالی معاملات کی کڑی نگرانی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کے نام پر بچیوں اور خواتین پر پابندی لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اب نجی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو حجاب پر پابندی کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔ (روزنامہ جسارت۔ 3 اکتوبر 2020ء)
مغرب اسلام اور مسلمانوں کو ناپسند ہی نہیں کرتا بلکہ اسے اسلام اور مسلمانوں سے نفرت ہے۔ نفرت ایک اندھا جذبہ ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ مغرب نے آج تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دلیل سے بات نہیں کی۔ وہ ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں پروپیگنڈے کی زبان میں گفتگو کرتا ہے۔ نفرت کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ اس سے خوف پیدا ہوتا ہے، اور خوف سے اکثر جارحیت جنم لیتی ہے۔ چنانچہ یہ محض اتفاق نہیں کہ مغرب نے گزشتہ ایک ہزار سال کی تاریخ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تین بڑی جارحیتیں کی ہیں۔ مغرب کی پہلی جارحیت صلیبی جنگیں تھیں، ان جنگوں کی شدت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ دو سو سال تک جاری رہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی دوسری جارحیت مغرب کا نوآبادیاتی تجربہ تھا۔ اس تجربے میں مغرب نے کم و بیش پوری مسلم دنیا کو اپنا غلام بنا لیا تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی تیسری جارحیت نائن الیون کے بعد سامنے آئی۔ اس جارحیت کا تسلسل اب تک برقرار ہے، اور فرانس کے صدر کے مذکورہ خیالات اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔ لیکن مغرب کو اسلام اور مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں ہے؟
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام کا ظہور عیسائیت سے تقریباً چھے سو سال بعد ہوا، مگر اسلام دیکھتے ہی دیکھتے ابتدا میں عیسائیت کے مساوی، اور بعد ازاں اس سے بھی بڑی قوت بن گیا۔ چنانچہ عیسائی دنیا اسلام اور مسلمانوں کے فروغ کو حیرت اور حسد سے دیکھتی ہے۔ مغرب اور اسلام کے باہمی تعلق کی ایک بنیادی بات یہ ہے کہ اہلِ مغرب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کچھ مانتے ہیں مگر پیغمبر نہیں مانتے، چنانچہ جب وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو ہر طرف پھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں تو حسد سے اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں۔ وہ اسلام، پیغمبرِ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے لگتے ہیں۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ اسلام کی ایک ایک بنیادی دستاویز محفوظ ہے۔ قرآن محفوظ ہے، احادیث محفوظ ہیں، عبادات کا پورا نظام محفوظ ہے۔ اس کے برعکس عیسائیت کا یہ عالم ہے کہ اُس کی آسمانی کتاب تک محفوظ نہیں رہی، اس کی زبان کو نہ بچایا جا سکا، اس کے بیان کو نہ بچایا جا سکا۔ چنانچہ اب بائبل کو بہ مشکل ہی “Word of God” کہا جا سکتا ہے۔ اس بات کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک بار ایک محفل میں پوپ بینی ڈکٹ شش دہم سے کسی عیسائی نے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس قرآن کی صورت میں “Word of God” ہے۔ یعنی عیسائیوں کو اس بات کا قلق ہے کہ اُن کے پاس خدا کا کلام اپنی اصل حالت میں نہیں ہے، لیکن مسلمانوں کے پاس کلامِ الٰہی اصل حالت میں موجود ہے۔
اسلام سے مغرب کی نفرت اور دشمنی کا ایک بہت ہی بڑا سبب یہ ہے کہ مغرب اسلام کو اپنا ’’متبادل‘‘ سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس کی اپنی ایک الٰہیات ہے۔ اس کی اپنی کتاب ہے۔ سنت کی صورت میں مسلمانوں کے پاس ایک بہترین نمونۂ عمل ہے۔ اسلام کا اپنا سیاسی نظام ہے۔ اسلام کا اپنا معاشی نظام ہے۔ اسلام انفرادی، اجتماعی اور قومی زندگی کو اصولِ توحید سے منسلک کرتا ہے۔ چنانچہ جس دن مسلمانوں کے اصل نمائندوں کے پاس اقتدار اور اختیار آئے گا، پوری دنیا میں اسلام مغرب کا متبادل بن کر ابھرے گا اور مسلم دنیا میں مغرب کو منہ لگانے والا کوئی نہ ہوگا۔
اسلام تو خیر بہت ہی بڑی چیز ہے، مغرب کمیونزم سے بھی اس لیے خوف زدہ تھا کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل بن کر ابھر رہا تھا۔ ورنہ کمیونزم اور مغرب کی الٰہیات بھی ایک تھی۔ تصورِ علم بھی ایک تھا۔ تصورِ انسان بھی ایک تھا۔ ان کے درمیان صرف وسائل کی تقسیم اور استعمال پر جھگڑا تھا، مگر چونکہ کمیونزم خود کو سرمایہ داری کے متبادل کے طور پر پیش کررہا تھا اس لیے مغرب نے کمیونزم کے مقابلے کے لیے اپنی پوری قوت صرف کردی۔ کمیونزم اور سوشلزم کو ختم ہوئے عرصہ ہوچکا ہے۔ چین پوری طرح سرمایہ دارانہ نظام کو اختیار کرچکا ہے، مگر چونکہ وہ معیشت کے دائرے میں خود کو امریکہ کیا، پورے مغرب کا متبادل بنا رہا ہے، اس لیے مغربی دنیا پنجے جھاڑ کر چین کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ چین کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں لانے والا امریکہ تھا۔ امریکہ کو اُس وقت امید تھی کہ وہ چین کو سرمایہ دار بنا کر اُسے اندر سے بدل دے گا اور چین مغرب کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن جائے گا، مگر چین نے سرمایہ دارانہ نظام کو اختیار کرنے کے باوجود خود کو سیاسی سطح پر کمیونزم ہی سے وابستہ رکھا اور اپنے کمیونسٹ تشخص پر اصرار کیا۔ اس لیے آج مغربی دنیا، بالخصوص مغرب کا رہنما امریکہ چین کا جانی دشمن بن چکا ہے۔ چین امریکہ اور مغرب کا متبادل نہ بنتا تو امریکہ اور مغرب کو چین سے کوئی شکایت نہ ہوتی۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر چین کا معاشی متبادل ہونا مغرب کو خوف میں مبتلا کررہا ہے تو اسلام اور مسلمانوں کا ’’نظریاتی متبادل‘‘ ہونا مغرب کے لیے کتنا بڑا خوف ہوگا! فرانس کے صدر نے بھی اپنے بیان میں سب سے اہم بات یہی کہی ہے کہ فرانس ایک سیکولر ملک ہے، چنانچہ مسلمانوں کو ایک سیکولر ملک میں علیحدہ اور متوازی نظام تخلیق کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تجزیہ کیا جائے تو یہ مغرب کی منافقت کی انتہا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، چنانچہ پاکستان میں کسی سیکولرازم اور کسی لبرل ازم کو ایک متوازی قوت بننے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، مگر مغرب صرف پاکستان میں نہیں پوری مسلم دنیا میں سیکولرازم اور لبرل ازم کو اسلام کی متوازی قوت بنانے میں لگا ہوا ہے۔ وہ مسلم دنیا میں ہر جگہ سیکولر اور لبرل عناصر کی پشت پناہی کرتا ہے۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی حمایت کی گئی تو اس لیے کہ وہ سیکولر اور لبرل تھیں۔ اب امریکہ و یورپ میاں نوازشریف کی حمایت کررہے ہیں تو اس لیے کہ وہ خود کو لبرل یا روشن خیال ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مغرب کو جنرل پرویزمشرف کی آمریت کبھی نظر نہ آئی، اس لیے کہ جنرل پرویزمشرف لبرل اور مغرب کے آلۂ کار تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب مغرب مسلم دنیا میں سیکولرازم اور لبرل ازم کو اسلام کا متبادل بناکر پیش کرسکتا ہے تو اسلام مغرب کے سیکولر اور لبرل معاشرے اور خود اسلامی ریاستوں میں خود کو سیکولرازم اور لبرل ازم کے متبادل کے طور پر کیوں نہیں ابھار سکتا؟ یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ مغرب متبادل کے خوف میں کیوں مبتلا ہے؟ اس سوال کا ایک فقرے میں جواب یہ ہے کہ مغرب کے لیے متبادل کا خوف دراصل موت کا خوف ہے۔ مغرب کا متبادل ابھر آیا تو پھر مغرب کو کون گھاس ڈالے گا؟ مغرب کو معلوم ہے کہ اسلام مغرب سے زیادہ ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے۔ مغربی فکر انسان کی صرف مادی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے، لیکن اسلام انسان کی مادی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے اور اس کی روحانی، اخلاقی، نفسیاتی اور جذباتی تسکین کا سامان بھی مہیا کرتا ہے۔ چنانچہ جب اسلام مغرب کا متبادل بن کر ابھرے گا تو ہر طرف اسلام ہی اسلام ہوگا۔ مغرب کہیں بھی نہیں ہوگا۔ جب حق آتا ہے تو باطل کو چلے جانا ہوتا ہے… انفرادی زندگی کے اسٹیج سے بھی، قومی زندگی کے اسٹیج سے بھی، اور بین الاقوامی زندگی کے اسٹیج سے بھی۔
فرانس کے صدر نے یہ بھی فرمایا کہ تعلیم کا مقصد تربیت یافتہ افراد پیدا کرنا ہے، مذہبی پیروکار نہیں۔ اس سلسلے میں دو باتیں عرض ہیں۔ ایک یہ کہ فرانس آزادی کا علَم بردار ہے، اور فرد کی آزادی مغرب کے نزدیک یہ ہے کہ وہ مذہبی انسان بننا چاہے تو مذہبی انسان بن جائے، وہ سیکولر اور لبرل انسان بننا چاہے تو سیکولر اور لبرل انسان بن جائے۔ مگر فرانس کے صدر اپنے نظام تعلیم کو آزادی سے ’’پاک‘‘ کررہے ہیں۔ وہ زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ فرانس میں مسلمانوں کو صرف سیکولر اور لبرل بننا ہوگا۔ صرف وہ تربیت حاصل کرنی ہوگی جو سیکولرازم اور لبرل ازم مہیا کرتا ہے۔ انہیں اپنے مذہب سے دور رہنا ہوگا۔ اہلِ مغرب خود کو تکثیر پسند یا Pluralist بھی کہتے ہیں۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ ایک معاشرے میں نظریاتی تنوع ہوسکتا ہے۔ کچھ لوگ مذہبی اور کچھ غیر مذہبی ہوسکتے ہیں۔ معاشرے میں ایک سے زیادہ تہذیبیں اور ایک سے زیادہ ثقافتیں ہوسکتی ہیں۔ مگر اب مغرب کہہ رہا ہے کہ معاشرے میں صرف ایک ہی تہذیب ہوگی، مغربی تہذیب۔ صرف ایک ہی ثقافت ہوگی، مغربی ثقافت۔ یہ تکثیر پسندی یا Pluralism کے خلاف رویہ ہے، اور مغرب نے اسلام کے خوف کی وجہ سے خود اپنی اقدار پر تھوک دیا ہے۔ اب مغرب کو نہ اپنی آزادی عزیز ہے، نہ تکثیر پسندی۔ اہلِ مغرب مسلمانوں کو تنگ نظر کہتے ہیں، مگر مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے جس طرح تنوع کا تحفظ کیا ہے اور اسے پھلنے پھولنے دیا ہے اس کی پوری انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مسلمانوں نے 600 سال تک اسپین پر حکومت کی، اور وہ کبھی عیسائیت یا یہودیت کے خوف میں مبتلا نہیں ہوئے۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کی، اور وہ کبھی ہندوازم کے خوف میں مبتلا نہیں ہوئے۔ مگر آج ’’روشن خیال‘‘ مغرب بھی ’’اسلاموفوبیا‘‘ کا شکار ہے اور ہندو بھی ’’اسلاموفوبیا‘‘ میں مبتلا ہیں۔ عیسائیت کے لیے بھی اسلام ایک خوف ہے، ہندو ازم کے لیے بھی اسلام ایک خوف ہے۔ یہودی بھی اسلام سے خوف زدہ ہیں اور بدھسٹ بھی اسلام سے خوف زدہ ہیں۔ اسلام کے خلاف ’’عالمِ باطل‘‘ کا یہ ’’اجماع‘‘ کہیں ہمیں یہ تو نہیں بتا رہا کہ اسلام کے عالمگیر غلبے کی منزل اب دور نہیں؟
فرانس کے صدر نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ ’’اسلام بحران کا شکار ہے‘‘۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اگر اسلام واقعتاً بحران کا شکار ہوتا تو ساری دنیا ’’اسلاموفوبیا‘‘ میں مبتلا نہ ہوتی۔ آخر ایک بحران زدہ حریف سے کون ڈرتا ہے؟ صورتِ حال اس کے برعکس یہ ہے کہ مغرب اور اس کے اتحادی ہزار کوششوں کے باوجود اسلام کو دبانے، کچلنے اور فنا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بلکہ ہوا یہ ہے کہ جیسے جیسے مغرب کا چیلنج ابھرا، مسلمان زیادہ تیزی اور زیادہ گہرائی کے ساتھ اپنے دین کی طرف دوڑے۔ اقبال نے اسی لیے کہا ہے ؎۔
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ حقیقی مسلمان کبھی چیلنج سے نہیں گھبراتا۔ غزالیؒ کے سامنے یونانی فلسفے کا چیلنج تھا، غزالیؒ نے تن تنہا اس چیلنج کا جواب دیا اور یونانی فکر کو زندہ دفن کرکے دکھا دیا۔ مغرب کا چیلنج اقبالؒ کے سامنے آیا تو اقبالؒ نے عظیم الشان شاعری پیدا کرکے دکھائی۔ مغرب کا چیلنج مولانا مودودیؒ کے سامنے آیا تو انہوں نےوہ علمِ کلام پیدا کیا جس پر آج نہیں تو کل مسلم تاریخ کو ناز ہوگا۔ برصغیر کے مسلمان غلام تھے مگر قائداعظم نے نہ صرف یہ کہ آزادی کا خواب دیکھا بلکہ اسے تعبیر بھی مہیا کی، اور پاکستان کے نام سے دنیا میں سب سے بڑی اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ اگر اسلام بحران کا شکار ہوتا تو مسلمان کبھی یہ کارنامے انجام نہ دے سکتے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ مسلمان ضرور بحران کا شکار ہیں۔ وہ کہیں فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، کہیں مسلکوں کو بت بنا کر پوجا جارہا ہے، کہیں مسلمانوں میں مذہبی اور سیکولر کی تفریق موجود ہے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اسلام مسلمانوں کے لیے صرف ایک ’’جذبہ‘‘ ہے، ’’شعور‘‘ نہیں۔ جس دن مسلمانوں کا جذبہ شعور بن گیا اُس دن مسلمان ایک نئی دنیا تخلیق کرکے دکھائیں گے۔ ایسی دنیا، جس میں مغرب کا غلبہ دیکھتے ہی دیکھتے ماضی کا قصہ بن جائے گا۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں فرما دیا ہے کہ وہ دنیا میں اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا، خواہ یہ بات کافروں اور مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ محسوس ہو۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیثِ مبارک بھی یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد خلافت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو منظور ہوگا، اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا دور رہے گا جب تک اللہ کو پسند ہوگا، اس کے بعدکاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا چلن رہے گا جب تک اللہ کی مرضی ہوگی، مگر اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تو ایسا ہوکر رہے گا۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں غلبۂ اسلام کے سلسلے میں اپنی ذمے داری پوری کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے جذبے کو شعور میں ڈھالنا ہوگا۔ ہمیں مغرب کے فکری اور عملی چیلنج کو قبول کرنا ہوگا۔ ٹائن بی نے کہیں لکھا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو ہی صورتین ہیں، کچھ لوگ چیلنج کو ایک قوتِ محرکہ میں ڈھال لیتے ہیں، اور کچھ لوگ چیلنج کو اپنے لیے بوجھ بنا لیتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مغرب کے چیلنج کو قوتِ محرکہ بنائیں، اسے ایک بوجھ میں نہ ڈھالیں، اور اس بوجھ کے نیچے دبنے سے صاف انکار کردیں۔