پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا عیب اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے
ہماری اکثر جماعتیں شخصی، خاندانی یا موروثی ہیں۔ حالانکہ سیاسی جماعت کا اوریجنل آئیڈیا یہ ہے کہ اسے ایک نظریے اور ایک دستور کا پابند ہونا چاہیے
ملک کے معروف صحافی سلیم صافی نے اپنے ٹیلی وژن پروگرام ’جرگہ‘ میں یہ سوال اٹھایا کہ پاکستانی سیاست بے توقیر کیوں ہوگئی ہے؟ پروگرام کے شرکا میں سے کسی نے کہا: اس کا سبب سیاسی جماعتیں ہیں۔ کسی نے کہا کہ پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ حکومت حکومت نہیں رہی، اور اپوزیشن اپوزیشن نہیں رہی۔ یہ باتیں بھی اپنی جگہ اہم ہیں، مگر پاکستانی سیاست کے بے توقیر ہونے کے ایک دو نہیں، آٹھ دس اسباب ہیں، اور ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں ان اسباب کی گرفت میں ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا عیب اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ وہ نہ ’’اسلامی‘‘ ہیں، نہ ’’سیکولر‘‘ ہیں، نہ ’’لبرل‘‘ ہیں، نہ ’’سوشلسٹ‘‘ ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ملک کا بایاں بازو نظریے کے معنوں میں سوویت یونین کے زیرِاثر تھا۔ پھر بائیں بازو میں روس اور چین کی تقسیم ہوگئی۔ بائیں بازو کا ایک حصہ روس کے ساتھ وابستہ رہا اور ایک حصہ چین کا حامی ہوگیا۔ بھٹو صاحب ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کے حامی تھے، مگر اسلامی سوشلزم ایک دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس لیے کہ اسلام کا سوشلزم سے، اور سوشلزم کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر اب تو کوئی دھوکا دینے کے لیے بھی نہیں کہتا کہ اس کا کوئی نظریہ ہے۔ آپ میاں نوازشریف سے پوچھیں کہ کیا اُن کا کوئی نظریہ ہے؟ وہ ایمان داری سے کام لیں گے تو آپ سے پوچھیں گے کہ یہ نظریہ کس چڑیا کا نام ہے؟ ایک زمانہ تھا کہ میاں صاحب ’’اسلامی‘‘ سمجھے جاتے تھے۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ ’’لبرل‘‘ ہوگئے ہیں۔ خود میاں صاحب نے کئی بار کہا کہ وہ ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے ہیں۔ مگر ہم نے کئی بار عرض کیا کہ میاں صاحب ’’نظریاتی شخصیت‘‘ نہیں، ’’نظر آتی شخصیت‘‘ ہیں۔ آپ پیپلزپارٹی والوں سے پوچھیں کہ آپ کا کوئی نظریہ ہے؟ جواب ملے گا کہ ہم ’’نظریۂ بھٹو‘‘ اور ’’جیے بھٹو‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن بھٹو ازم، بھٹو کے زمانے میں کوئی نظریہ نہیں تھا تو اب کیسے نظریہ ہوسکتا ہے! ایم کیو ایم کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کا ایک نظریہ ’’دہشت گردی‘‘ تھا، دوسرا نظریہ ’’بھتہ خوری‘‘ تھا، تیسرا نظریہ بوری بند لاشوں کا ’’کلچر‘‘ تھا، چوتھا نظریہ ’’پُرتشدد ہڑتالیں‘‘ تھیں۔ اس سلسلے میں مذہبی جماعتوں تک کا حال پتلا ہے۔ ان میں سے کسی پر ’’فرقے‘‘ کا غلبہ ہے، کسی پر ’’مسلک‘‘ طاری ہے۔ ملک میں صرف جماعت اسلامی ہے جس کی تاریخ نظریاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جماعت اسلامی نے بیک وقت مغربی تہذیب اور اس کے سیکولرازم اور لبرل ازم کو بھی چیلنج کیا اور سوشلزم کی بھی خبر لی۔ مگر اب مدتوں سے خود جماعت اسلامی کا حال اس حوالے سے اچھا نہیں۔ اس کے پاس نظریہ تو ہے مگر اب وہ نہ مغربی تہذیب کو چیلنج کررہی ہے، نہ سیکولرازم کو چیلنج کررہی ہے، نہ لبرل ازم کو للکار رہی ہے، نہ کوئی ’’نظریاتی بیانیہ‘‘ تخلیق کررہی ہے۔ لیکن چونکہ جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہے اور اس کی تاریخ نظریاتی جدوجہد کی تاریخ ہے، اس لیے جماعت جب چاہے نظریاتی جدوجہد اور نظریاتی بیانیے کی جانب لوٹ سکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے نظریاتی ہونے سے نہ صرف یہ کہ قومی سیاست کو وقار حاصل ہوتا ہے بلکہ سیاست بھی شخصی اور لسانی و صوبائی تعصبات سے بلند ہوجاتی ہے۔ بعض احمق لوگ کہتے ہیں کہ نظریات کا زمانہ لد چکا۔ لیکن ایک مسلمان کے لیے حق و باطل کی کشمکش کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نظریات کی سیاست ایک دائمی سیاست ہے۔ جب تک دنیا رہے گی، حق و باطل کی پنجہ آزمائی جاری رہے گی اور نظریاتی سیاست بھی۔ بعض لوگ کم علمی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ ہم لیفٹ اور رائٹ کی سیاست نہیں کرتے بلکہ ’’رائٹ‘‘ اور ’’رانگ‘‘ کی سیاست کرتے ہیں۔ یہ ایک غلط بیانیہ ہے۔ لیفٹ کل بھی موجود تھا، آج بھی موجود ہے، صرف اس کا چولا بدل گیا ہے۔ لیکن چولا بدلنے سے اس کی اصل نہیں بدلی، اس کا تشخص نہیں بدلا۔
پاکستانی سیاست کے بے توقیر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری اکثر جماعتیں شخصی، خاندانی یا موروثی ہیں۔ حالانکہ سیاسی جماعت کا اوریجنل آئیڈیا یہ ہے کہ اسے ایک نظریے اور ایک دستور کا پابند ہونا چاہیے۔ لیکن پاکستان کی سیاست پر کہیں بھٹو خاندان کا غلبہ ہے، کہیں شریف خاندان کا۔ جب تک بھٹو صاحب زندہ تھے پیپلزپارٹی بھٹو صاحب کی پارٹی تھی۔ بھٹو صاحب نہیں رہے تو پیپلز پارٹی بے نظیر کی پارٹی بن گئی۔ بے نظیر نہیں رہیں تو پیپلزپارٹی آصف زرداری کی پارٹی بن گئی۔ اب پیپلزپارٹی کے گھوڑے پر بلاول بیٹھے ہیں۔ خدانخواستہ وہ نہیں ہوں گے تو ان کی جگہ بختاور یا آصفہ ہوں گی۔ یعنی پیپلزپارٹی کی بھٹو خاندان سے کبھی جان نہیں چھوٹے گی۔ یہی کہانی میاں نوازشریف کی ہے۔ میاں نوازشریف نہیں رہے تو میاں شہبازشریف نون لیگ کے قائد بن گئے، وہ نہیں ہوں گے تو مریم نواز نون لیگ کی قیادت کررہی ہوں گی، وہ بھی نہیں ہوں گی تو حمزہ شہباز نون لیگ کے گھوڑے کی سواری کررہے ہوں گے۔ نواز لیگ کے ’’خاندانی‘‘ ہونے کا ایک زمانے میں یہ عالم تھا کہ میاں نوازشریف ملک کے وزیراعظم تھے، شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، میاں نوازشریف کے بھتیجے حمزہ شہباز ایم این اے تھے، میاں نوازشریف کی بیٹی مریم نواز یوتھ قرض اسکیم کی چیئرپرسن تھیں، میاں نوازشریف کے داماد کیپٹن(ر) صفدر قومی اسمبلی کے رکن تھے، وزیراعظم کے داماد کے بھائی حاجی طاہر قومی اسمبلی کے رکن تھے، میاں نوازشریف کی بیوی کلثوم نواز کے ایک بھتیجے بلال یٰسین رکن پنجاب اسمبلی اور صوبائی وزیر خوراک تھے، اُن کے دوسرے بھتیجے محسن لطیف پنجاب اسمبلی کے رکن تھے، میاں نوازشریف کی شریک حیات کلثوم نواز کے بھانجے عابد شیر علی پانی و بجلی کے وزیر مملکت تھے، میاں نوازشریف کی بیٹی کے سسر اسحق ڈار وفاقی وزیر خزانہ تھے۔ ذرا بتایئے تو یہ ’’جمہوریت‘‘ ہے یا ’’بادشاہت؟‘‘ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے ’’شخصیت مرکز‘‘ ہونے کا یہ عالم ہے کہ الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک الطاف حسین ایم کیو ایم کے سرپرست تھے ایم کیو ایم کا ووٹ بینک محفوظ تھا۔ الطاف حسین ایم کیو ایم کے سربراہ نہیں رہے تو اس کے لاکھوں ووٹر پی ٹی آئی کی طرف چلے گئے۔ کل الطاف حسین کا انتقال ہوجائے گا تو ایم کیو ایم مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ یہی معاملہ عمران خان کا ہے، جب تک عمران خان ہیں پی ٹی آئی ملک کی بڑی جماعت ہے، جس دن عمران خان منظر سے ہٹ گئے، پی ٹی آئی بھی ختم ہوجائے گی۔
پاکستان کی سیاست اس لیے بھی بے توقیر ہوئی ہے کہ جماعت اسلامی کے سوا ملک کی ساری جماعتیں غیر جمہوری ہیں۔ بھٹو صاحب بڑے روشن خیال تھے، انہوں نے مغرب کی جامعات میں تعلیم حاصل کی تھی، مگر جمہوریت انہیں چھوکر بھی نہیں گزری تھی، چنانچہ وہ جب تک زندہ رہے انہوں نے کبھی پیپلزپارٹی میں انتخابات نہیں ہونے دیئے، حالانکہ یہ طے تھا کہ اگر پیپلز پارٹی میں انتخابات ہوتے تو بھٹو ہی پیپلزپارٹی کے سربراہ منتخب ہوتے۔ یہی قصہ نواز لیگ کا ہے۔ میاں نوازشریف جب ’’مذہبی‘‘ تھے تب بھی انہوں نے نواز لیگ میں انتخابات نہیں کرائے۔ اب جبکہ وہ ’’لبرل‘‘ یا ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے ہیں تب بھی وہ نواز لیگ کو مشرف بہ جمہوریت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور بلاول بھی جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے تھے، انتخابات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے، مگر جو جمہوریت انہیں ملک میں درکار تھی وہی جمہوریت انہیں پیپلز پارٹی کے اندر درکار نہیں تھی۔ یہ ہے ہماری بڑی پارٹیوں کے سربراہوں کی سیاسی اور جمہوری منافقت۔ الطاف حسین بڑے لبرل اور سیکولر بنتے تھے، انہیں بھی جمہوریت سے عشق تھا، مگر انہوں نے کبھی ایم کیو ایم میں انتخابات کا خطرہ مول نہیں لیا۔ وہ ایک آمرِ مطلق کی حیثیت سے پارٹی چلاتے رہے۔ عمران خان بھی بڑے ڈیموکریٹ بنتے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی میں انتخابات کرائے، اور اس کام کی نگرانی جسٹس(ر) وجیہ کو سونپی۔ جسٹس(ر) وجیہ نے کہا انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، انتخابات دوبارہ کرانے ہوں گے۔ مگر عمران خان نے جسٹس(ر) وجیہ کی بات ماننے کے بجائے انہیں ہی منصب سے ہٹادیا، اور اس سے سب کو معلوم ہوگیا کہ عمران خان کی جمہوریت پسندی بھی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی طرح جعلی ہے۔ صرف ایک جماعت اسلامی ہے جو اپنے قیام سے اب تک جمہوری چلی آتی ہے۔ جماعت اسلامی کے سوا دوسری مذہبی جماعتوں میں بھی کہیں خاندان چل رہا ہے، کہیں شخصیت چل رہی ہے۔
پاکستان کی سیاست کی بے توقیری کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ پاکستان کی تمام بڑی جماعتیں بدعنوان ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کی سیاست کرپشن سے پاک تھی۔ جنرل ایوب سے کسی کو ہزار اختلافات ہوسکتے ہیں مگر وہ شخصی سطح پر کرپٹ نہیں تھے۔ بھٹو صاحب میں ہزار عیب ہوں گے مگر وہ کرپٹ نہیں تھے۔ مگر میاں نوازشریف، آصف زرداری اور الطاف حسین کے تو چہرے پر کرپٹ لکھا ہوا ہے۔ میاں نوازشریف سیاست میں آئے تھے تو کہا گیا تھا کہ وہ تاجر ہیں اور ایک نئے کلچر کے نمائندہ ہیں۔ مگر میاں نوازشریف اور ان کے پورے خاندان نے خود کو سپریم کورٹ کے الفاظ میں گاڈ فادر اور سسلین مافیا ثابت کیا۔ الطاف حسین نے سیاست میں پیسہ بنانے کے سوا کچھ کیا ہی نہیں۔ وہ میاں نوازشریف کے ساتھ گئے تو پیسے کے لیے۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کے ساتھ اقتدار میں حصہ لیا تو پیسے کے لیے۔ بلاشبہ عمران خان خود کرپٹ نہیں مگر ان کی پارٹی کرپٹ لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ عمران خان کہا کرتے تھے کہ میں سرمائے اور Electables کی سیاست نہیں کروں گا، مگر انہوں نے گزشتہ انتخابات سے پہلے ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ میرا مقصد اقتدار میں آنا ہے، چنانچہ میں سرمائے کی سیاست بھی کروں گا اور Electables کی سیاست بھی کروں گا۔ یہ نظریاتی کرپشن کی ایک مثال ہے۔ عمران خان نے جس طرح اپنے نظریات بدلے ہیں اس طرح تو گرگٹ بھی رنگ نہیں بدلتا۔ ملک میں صرف جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس کے ہزاروں لوگ چالیس سال کے دوران منتخب ایوانوں میں گئے ہیں، مگر ان میں سے کسی کے دامن پر بدعنوانی کا داغ نہیں ہے۔
پاکستانی سیاست اس لیے بھی توقیر سے محروم ہوئی ہے کہ ملک کی بڑی جماعتوں نے ہر دور میں خود کو نااہل ثابت کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی جماعتوں کے پاس اہل لوگ ہی نہیں ہیں۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کہتی ہیں کہ ان کی حکومتوں کو مدت ہی پوری نہیں کرنے دی گئی۔ لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھٹو صاحب اور آصف زرداری کے دور میں اپنی مدت مکمل کی، لیکن انہوں نے پاکستان کو کیا دیا؟ عمران خان بڑے دعووں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ وہ ایک کروڑ لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرنے والے تھے۔ ان کے دور میں ملک کے اندر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہونی تھی۔ مگر صورتِ حال یہ ہے کہ ان کے دور میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں، اور بیرونی سرمایہ کاری تقریباً رکی ہوئی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سائیکل چلانے کے لیے بھی اہلیت چاہیے ہوتی ہے، مگر ہماری بڑی جماعتیں ملک چلانے کے لیے بھی اہلیت پیدا کرنا ضروری نہیں سمجھتیں۔ ملک کے تین فوجی آمروں نے ملک پر دس دس سال حکومت کی ہے، مگر وہ بھی ملک کو اٹھانے اور کوئی انقلاب برپا کرنے میں ناکام رہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہلیت کا کوئی نعم البدل نہیں، فوجی آمریت بھی نہیں۔
ہماری سیاست کی عزت اس لیے بھی خراب ہوئی کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتیں کبھی بھی قومی کردار ادا کرتی نظر نہیں آئیں۔ بلاشبہ نواز لیگ ملک کی بڑی جماعت ہے، مگر نواز لیگ پنجاب میں شروع ہوتی ہے، پنجاب میں آگے بڑھتی ہے اور پنجاب ہی میں ختم ہوجاتی ہے۔ پیپلزپارٹی کبھی ایک قومی اور وفاقی جماعت تھی، مگر اب وہ دس پندرہ سال سے سندھ تک محدود ہوگئی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی سندھ میں سفر شروع کرتی ہے، سندھ میں آگے بڑھتی ہے اور سندھ ہی میں اس کا سفر تمام ہوجاتا ہے۔ جس طرح میاں نوازشریف کا پاکستان صرف پنجاب ہے، اسی طرح پیپلزپارٹی کا پاکستان صرف ’’دیہی سندھ‘‘ ہے۔ پی ٹی آئی بلاشبہ ایک وفاقی پارٹی بن کر ابھری ہے، مگر اس پر پشتون تشخص کی مہر لگی ہوئی ہے، اور اس کے سیاسی مستقبل کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایم کیو ایم خود کو متوسط طبقے کی جماعت کہتی ہے، مگر جس طرح میاں نوازشریف کبھی ’’پنجابیت‘‘ کو نہیں پھلانگ سکے، اسی طرح ایم کیو ایم کبھی ’’مہاجریت‘‘ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اگر وہ پورے ملک کے متوسط طبقے کی جماعت بن کر دکھاتی تو کوئی بات ہوتی۔
ہماری سیاسی جماعتوں نے پاکستانی سیاست کو اپنے بیرونی حوالوں سے بھی بے توقیر کیا۔ بھٹو صاحب جو کچھ بھی تھے ان کا کوئی غیر ملکی حوالہ نہیں تھا، انہیں کئی طاقتوں نے جیل سے نکال لے جانے کی پیشکش کی مگر بھٹونے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا، مگر یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ Daughter of the east یعنی بے نظیر بھٹو ہمیشہ Daughter of the west ثابت ہوئیں۔ امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزارائس نے اپنی خودنوشت میں انکشاف کیا کہ جنرل پرویز اور بے نظیر کے درمیان این آر او انہوں نے کرایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بے نظیر اور جنرل پرویز دونوں کی ڈور امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب میاں نوازشریف جنرل پرویز سے معاہدہ کرکے ملک سے فرار ہوئے تو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمیدگل نے فرمایا کہ امریکہ اپنے آدمی کو نکال کر لے گیا۔ نواز لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے امریکہ اور یورپ کو خوش کرنے کے لیے ہی یہ فرمایا تھا کہ پی ٹی آئی مذہبی اور نواز لیگ ایک لبرل پارٹی ہے۔ جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے تو وہ بھارت اور برطانیہ کے زیر اثر ثابت ہوئی۔
پاکستانی سیاست کی بے توقیری اس لیے بھی حقیقت بنی کہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی دور میں اسٹیبلشمنٹ سے ہینڈل ہوئی ہے۔ بھٹو صاحب جنرل ایوب کی تخلیق تھے۔ میاں نوازشریف کو جنرل ضیاء اور جنرل جیلانی نے وضع کیا۔ ایم کیو ایم جنرل ضیاء کی ایجاد ہے۔ کہنے کو میاں نوازشریف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے مگر وہ اسٹیبلشمنٹ سے معاہدہ کرکے ملک سے فرار ہوئے۔ اِس وقت بھی نواز لیگ کے لوگ رات کے اندھیروں میں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں سے مل رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ سے این آر او کی طلب گار ہے۔ اس صورتِ حال نے سیاسی جماعتوں کی اخلاقی اور سیاسی ساکھ کو تقریباً ختم کردیا ہے۔ پاکستان کی شاید ہی کوئی جماعت ہو جس میں اسٹیبلشمنٹ کا ’’ونگ‘‘ موجود نہ ہو۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں عوامی خدمت کا کوئی شعبہ ہی نہیں۔ ملک میں زلزلہ آیا، مگر زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں کہیں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کو کام کرتے نہ دیکھا جا سکا۔ سندھ میں دو سال سیلاب آیا مگر نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کہیں بحیثیت جماعت سیلاب زدگان کی مدد کرتی نظر نہ آئیں۔ عمران خان نے شوکت خانم اسپتال بنایا ہے مگر خود ان کی جماعت میں کہیں خدمتِ خلق کا تصور موجود نہیں۔ ایم کیو ایم میں خدمتِ خلق کا شعبہ ہے، مگر یہ صرف دکھاوے کے لیے ہے۔ یہ صرف جماعت اسلامی ہے جو اقتدار میں آئے بغیر قوم کی خدمت پر یقین رکھتی ہے۔ زلزلہ آئے یا سیلاب، جماعت اسلامی ہر جگہ متحرک نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوامی خدمت کے بغیر سیاسی جماعتیں بے توقیر نہیں ہوں گی تو کیا ہوں گی؟