ہمارے معاشرے کے کروڑوں لوگ علمی اور اخلاقی سطح پر عہدِ جاہلیت میں سانس لے رہے ہیں
پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں خواتین اور بچوں کے خلاف ظلم و زیادتی کے واقعات میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ صورتِ حال کو دھماکہ خیز قرار دیا جا سکتا ہے۔ لاہور کے علاقے گوجر پورہ میں سیالکوٹ موٹروے پر گوجرانوالہ واپس جانے والی کار سوار خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ خاتون رات دو بجے گوجرانوالہ جاتے ہوئے پیٹرل ختم ہوجانے کی وجہ سے کار روک کر شوہر کا انتظار کررہی تھی۔ ملزمان ایک لاکھ روپے، طلائی زیورات اور اے ٹی ایم کارڈ لوٹ کر فرار ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق ملزمان نے کار کا شیشہ توڑ کر عورت اور بچوں کو باہر نکالا اور بچوں کے سامنے عورت کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ خاتون نے موٹروے پولیس سے رابطہ کرکے مدد کرنے کو کہا تو جواب ملا کہ گوجر پورہ کی بیٹ کسی کو الاٹ نہیں ہوئی۔ اس سے قبل کراچی کے علاقے عیسیٰ نگری میں پانچ سالہ مروہ کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ زیادتی کا ارتکاب کرنے والا مروہ کا پڑوسی تھا جو پشاور سے حال ہی میں کراچی آیا تھا اور خاندان کے بغیر علاقے میں رہائش پذیر تھا۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے پشاور میں کم سن بچی پانڑہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ موٹروے کے واقعے نے معاشرے میں شدید ردعمل پیدا کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے موٹروے کے واقعے اور مروہ کے ساتھ زیادتی اور اس کے قتل کا نوٹس لے لیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ظلم و زیادتی پر صرف چیخنے کی صلاحیت باقی رہ گئی ہے۔
خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی کے واقعات صرف پاکستان میں ہی نہیں بڑھ رہے، بلکہ دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں ایسے واقعات کی تعداد بڑھ رہی ہے، بلکہ کچھ ممالک میں تو یہ تعداد ہولناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کووڈ۔19 کے حوالے سے ہونے والے لاک ڈائون کے دوران فرانس میں خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی کے واقعات میں 30 فیصد، ارجنٹائن میں 25 فیصد اور سنگاپور میں 33 فیصد اضافہ ہوا۔ اعداد وشمار کے مطابق 2020ء کے دوران دنیا میں 25 کروڑ خواتین اور لڑکیوں کو جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا (دی نیوز کراچی۔ 11 ستمبر 2020ء)۔ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے تو پاکستان جیسے ’’مسلم معاشرے‘‘ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ سماجی تنظیم ’ساحل‘ کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ چھے ماہ کے دوران پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 1489 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سے 704 لڑکے اور 785 لڑکیاں تھیں۔ ان واقعات میں 331 بچوں کو اغوا کیا گیا۔ 233 لڑکوں اور 160 لڑکیوں سے انفرادی، جب کہ 104 لڑکوں اور 69 لڑکیوں سے اجتماعی زیادتی کے واقعات ہوئے (روزنامہ دنیا۔ 12 ستمبر 2020ء)۔ سوال یہ ہے کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے واقعات کیوں ہوتے ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ کیوں ہورہا ہے؟
انسان کی پوری تاریخ کا تجربہ ہمارے سامنے ہے، اور یہ تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ صرف مذہب ہی کے ذریعے تکریمِ انسانیت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ انسان کی فطرت میں خیر اور شر دونوں موجود ہیں، اور اس کی فطرت میں موجود شر کا داعیہ صرف خوفِ خدا سے کنٹرول ہوسکتا ہے۔ یہ صرف خدا اور اس کے سامنے جوابدہی کا تصور ہے جو انسانوں کو انسانوں سے محبت پر مائل کرتا ہے۔ خدا انسانوں کے درمیان تعلق سے نکل جاتا ہے تو انسان کو حیوان بننے میں چنداں دیر نہیں لگتی، بلکہ پھر وہ اسفل السافلین سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے شاعر مولا روم نے فرمایا ہے کہ اصل تہذیب احترامِ آدمیت ہے۔ احترامِ آدمیت نہیں تو پھر نہ کوئی معاشرہ، معاشرہ ہے اور نہ کوئی تہذیب، تہذیب ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ طاقت وروں کا تو سب ہی احترام کرلیتے ہیں، مگر انسان کی اصل تہذیب اُس وقت ظاہر ہوتی ہے جب اُس کا مقابلہ کسی کمزور سے ہوتا ہے۔ معاشرے کے کمزور افراد اور کمزور طبقات کا احترام بتاتا ہے کہ کوئی معاشرہ کتنا مہذب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپا کردہ معاشرے کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ تھی کہ وہ احترامِ انسانیت سے لبریز تھا۔ اس میں عام لوگ ہی نہیں بلکہ غلام تک قابلِ احترام تھے۔ اسلام سے پہلے عورتوں کا حال برا تھا، مگر اسلام نے عورت کو ماں، بیوی، بہن، بیٹی کیا، ہر رشتے میں قابلِ احترام بنایا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اِس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی تاکید فرما رہے تھے، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواتین کے ساتھ بہتر سلوک کی بھی ہدایت فرما رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں جتنی طاقت ور خواتین ہوئی ہیں دنیا کی کسی تہذیب نے اتنی طاقتور خواتین پیدا نہیں کیں۔ ہم تاریخ میں حضرت عائشہؓ کا ذکر پڑھتے ہیں تو ایک لمحے کے لیے بھی ان کے صنفی تشخص کا حوالہ ذہن میں نہیں آتا، اس لیے کہ آپؓ کی فضیلت غیر معمولی تھی۔ اکابر صحابہ تک آپؓ سے مشورے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ آپؓ تقویٰ ہی میں نہیں، علم میں بھی بلند مرتبے پر فائز تھیں۔ کہنے والوں نے اسی لیے کہا ہے کہ ہمارے فقہ کا 25 فیصد ہمیں حضرت عائشہؓ سے ملا ہے۔ حضرت فاطمہؓ ہماری تہذیب کا ایک اور مرکزی حوالہ ہیں۔ آپؓ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی محبت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ پر اتنی شفقت فرماتے تھے کہ آپؓ آتی تھیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے تھے اور آپؓ کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی محبت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ازواج مطہرات میں سے حضرت خدیجہؓ جیسا کوئی نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی والدہ حضرت آمنہ سے ایسی محبت تھی کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہِ محبت فرمایا کہ اگر میں نماز پڑھ رہا ہوتا اور میری والدہ مجھے بلالیتیں تو میں نماز توڑ کر آپ کی بات سنتا۔ اگر کسی مسلمان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوۂ حسنہ کا صرف 10 فیصد بھی پہنچ جائے تو ہر تعلق میں خواتین کی عزت کرے گا اور ان سے محبت و تعلق کا حق ادا کرے گا۔ لیکن ہماری دنیا کا المیہ یہ ہے کہ اس نے خدا اور مذہب کو اپنی زندگی سے نکال باہر کیا ہے۔ دنیا کے 7 ارب انسانوں میں سے ڈھائی ارب انسان کسی خدا اورکسی مذہب کو مانتے ہی نہیں۔ یورپ کی آبادی 50 کروڑ سے زیادہ ہے مگر یورپ کے 75 فیصد سے زیادہ لوگ کسی خدا اور مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ وہ سیکولر ہیں اور سیکولرازم کسی بھی صورت میں احترامِ آدمیت نہیں سکھاتا۔ دنیا کے 7 ارب انسانوں میں سے مزید ڈھائی ارب انسان ایسے ہیں جو مذہب کو مانتے تو ہیں مگر انہوں نے اپنے مذاہب کو مسخ کردیا ہے، انہیں بدل ڈالا ہے، چنانچہ ان کے مذاہب ان کے لیے نفع بخش نہیں۔ مثلاً عیسائیت کا قصہ یہ ہے کہ عیسائیت میں عورت گناہ کا مرکز سمجھی جاتی ہے، کیونکہ عیسائیت کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ جنت میں اماں حواؑ نے حضرت آدمؑ کو بہکایا، حالانکہ قرآن کا بیان یہ ہے کہ حضرت آدمؑ اور اماں حواؑ دونوں کو شیطان نے بہکایا۔ عیسائیت کی ایک مشکل یہ ہے کہ اس کی روحانیت کھوکھلی ہے اور اس میں عورت سے تعلق کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ جب کہ اسلام نکاح کے دائرے میں مرد اور عورت کے تعلق کو انسانی تہذیب کی بنیاد باور کراتا ہے۔ بہرحال عیسائیت کی مسخ شدہ تعلیمات کی وجہ سے عیسائی معاشروں میں عورت کو کبھی بلند مقام حاصل نہ ہوسکا۔
ہندو ازم کے دائرے میں بھی عورت کا مقام بلند نہیں۔ ہندو ازم میں عورت مرد سے الگ کوئی وجود ہی نہیں رکھتی۔ جبکہ اسلام میں عورت کے معاشی تشخص کو تحفظ مہیا کیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلم معاشروں میں بھی عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے کی اکثریت یا بڑی تعداد تک اسلام اپنی حقیقی روح کے ساتھ پہنچا ہی نہیں، اور ہمارے معاشرے کے کروڑوں لوگ علمی اور اخلاقی سطح پر عہدِ جاہلیت میں سانس لے رہے ہیں۔ آخر ایک ایسے معاشرے کا کیا حال ہوگا جس کی آبادی کا نصف ناخواندہ ہو۔ رہے اسکول، کالج اور جامعات جانے والے… تو ہمارے تعلیمی نظام میں اسلام کہیں ایک جامع تصورِ حیات کی حیثیت سے موجود ہی نہیں۔ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ اپنے بچوں کو ایک مضمون کی حیثیت سے اسلامیات پڑھا کر اُن کو اچھا مسلمان بنا لیں گے۔ لیکن یہ خام خیالی ہے۔ ہمارے بچے ایک اسلامی مضمون کے ساتھ آٹھ سیکولر مضامین پڑھتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو اسلامیات بھی جس طرح پڑھاتے ہیں وہ سب کو معلوم ہے، چنانچہ اس سے افرادِ معاشرہ کے کردار کو اسلامی نہیں بنایا جا سکتا۔
پوری انسانی تاریخ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انسان کرداری نمونوں سے بھی سیکھتا ہے، مگر ہمارے معاشرے ہی میں نہیں تمام مسلم معاشروں میں کرداری نمونوں کا کال پڑا ہوا ہے۔ اب نہ مثالی والدین فراوانی سے دستیاب ہیں، نہ مثالی شوہر اور بیوی معاشرے میں عام نظر آتے ہیں۔ اب مثالی استاد کہیں نظر آتے ہیں نہ احترامِ آدمیت کا مشاہدہ اور تجربہ عام ہے۔ چنانچہ اسلامی خطوط پر نئی نسلوں کی تعلیم و تربیت ناممکن نہیں تو بہت دشوار ضرور ہوگئی ہے۔ جن تک تھوڑا بہت اسلام پہنچ بھی جاتا ہے انہیں لگتا ہے اسلام صرف اچھی اچھی باتوں کا مجموعہ ہے مگر ان اچھی اچھی باتوں پر عمل نہیں ہو سکتا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا کردہ معاشرے کی سب سے بڑی قوت یہ تھی کہ جو کچھ زبان پر تھا وہی عمل میں بھی تھا۔ چنانچہ قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ تھا، اس لیے اسلام ایک زندہ حقیقت بن گیا تھا۔ ہمارے عہد کے مسلم معاشروں کا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں، کرتے کچھ ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں یہ بات تک یاد نہیں رہی کہ قرآن سوال اٹھاتا ہے کہ آخر تمہارے قول و فعل میں تضاد کیوں ہے؟ تم جو کچھ کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں؟
اسلام کہتا ہے کہ فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے: تقویٰ کو اور علم کو۔ مگر ہمارے معاشرے میں تقویٰ اور علم کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ ہمارے معاشرے میں قابلِ احترام صرف دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن کے پاس طاقت ہے۔ دوسرے وہ جن کے پاس دولت ہے۔ جب معاشرے میں طاقت اور دولت کی عزت ہوگی تو ان کے مظاہر کا بھی احترام ہو گا۔ اور جب معاشرے میں طاقت اور دولت کے مظاہر کا احترام ہوگا تو پھر تمام اعلیٰ اقدار بے توقیر ضرور ہوں گی۔ ہمارے معاشرے میں یہی ہورہا ہے۔ نااہل اور بدعنوان ترین افراد ہمارے حکمران اور رہنما بنے ہوئے ہیں۔ جنہیں خود رہنمائی کی ضرورت ہے وہ ملک میں دانش ور اور صحافی کہلاتے ہیں۔ جنہیں خود تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے وہ لوگ قوم کو تعلیم و تربیت فراہم کررہے ہیں۔ رہا مذہب، تو وہ صرف ہمارے ظاہر کو اسلامی بنارہا ہے۔ ہمارا مذہب ہمارے باطن پر اثرانداز نہیں۔ ہمارا باطن طاقت اور دولت اور ان کی اقدار کی گرفت میں ہے۔ ایسے معاشرے میں عورتیں اور بچے Rape نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟ کیا ہمارا تجربہ یہ نہیں ہے کہ ایک سہانی صبح اچانک ایک فوجی آمر کہیں سے نمودار ہوجاتا ہے اور وہ ہمارے پورے سیاسی نظام کو Rape کر ڈالتا ہے۔ ہماری حکمران جماعتیں کیا مدتوں سے ہمارے آئین اور اس سے نمودار ہونے والے اداروں کو Rape نہیں کررہیں؟ کیا نائن الیون کے بعد امریکہ نے ہماری قومی آزادی اور وقار کی عصمت دری نہیں کی؟ آخر ایک معاشرے اور ریاست کی حیثیت سے ہم کب وہ اسلامی نظام وضع کریں گے جو ظاہر کے ساتھ ساتھ ہمارے باطن کو بھی اسلامی بنائے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ جو معاشرہ ایک عورت کے ساتھ زیادتی پر احتجاج کررہا ہے اُس معاشرے نے نائن الیون کے بعد امریکہ کے ہاتھوں ہماری آزادی، خودمختاری اور قومی وقار کے Rape پر کوئی احتجاج نہ کیا، بلکہ امریکہ نے جو کچھ کیا اُسے معاشرے کے ہر طبقے نے سراہا، ہر بڑی سیاسی جماعت نے اس کی تعریف کی۔ کیا ایسا معاشرہ ایک عورت اور چند بچوں کے ساتھ زیادتی پر احتجاج کرتا ہوا اچھا لگتا ہے؟
خیر یہ تو ایک طویل جملۂ معترضہ تھا، یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کی ایک بہت ہی بڑی وجہ معاشرے میں مغربیت کا پھیلائو ہے۔ اردو کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے کبھی ایک معرکہ آراء بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا ’’جس مرد کا تصورِ عورت پست ہوتا ہے اُس کا تصورِ خدا بھی پست ہوتا ہے‘‘۔ بدقسمتی سے مغربی تہذیب کا تصورِ عورت اتنا پست ہے کہ اس کی نظر میں عورت ایک Sex Symbol کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں عورت کے جتنے بھی نمونے عام ہیں وہ کسی نہ کسی طرح جنس کی علامت ہیں۔ مثلاً ہمارے معاشرے میں اداکارائیں اہم ہیں تو وہ جنس کی ایک علامت ہیں۔ گلوکارائیں ہیں تو وہ بھی جنس کی علامت بنی نظر آتی ہیں۔ ماڈل گرلز ہیں تو وہ بھی جنس کی علامت ہیں۔ مغرب سے آنے والے تفریحی مواد کا یہ عالم ہے کہ مغرب کی موسیقی ہے تو جنس میں ڈوبی ہوئی۔ ان کی شاعری ہے تو جنسی جذبات کے اظہار سے اٹی ہوئی۔ ان کی فلم ہے تو جنس میں لتھڑی ہوئی۔ ان کا آرٹ ہے تو جنسی جذبات کو بھڑکاتا ہوا۔ چونکہ ان تمام چیزوں کا مرکز عورت ہے، اس لیے مغرب نے تصورِ عورت کو اتنا پست کردیا ہے کہ تاریخ میں کبھی عورت اتنے پست تصور کی حامل نہیں رہی۔ بدقسمتی سے یہ سب کچھ صرف مغرب کی موسیقی یا شاعری، فلم اور آرٹ ہی میں نہیں ہورہا، مغرب کی نقالی بھارت کی فلم انڈسٹری کررہی ہے اور بھارت کی فلم انڈسٹری کو پاکستان کی فلم انڈسٹری “Follow” کررہی ہے۔ حد یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں جو ٹیلی ڈرامہ تخلیق ہورہا ہے اسے این جی اوز نے اچک لیا ہے۔ اس ڈرامے کی پستی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ حسینہ معین جیسی ڈرامہ نگار نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اب پاکستان کا ڈرامہ اتنا پست ہوگیا ہے کہ اسے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ امجد اسلام امجد پاکستان کے ایک اور ممتاز ڈرامہ نگار ہیں۔ وہ کسی بھی اعتبار سے ’’ملّا‘‘ یا ’’مولوی‘‘ نہیں ہیں، مگر انہوں نے پاکستان کے ٹیلی ڈرامے پر حسینہ معین سے زیادہ سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اب پاکستان میں بعض ڈرامے ایسے بھی نشر ہوتے ہیں جنہیں میاں بیوی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ آپ پاکستان کے ہر چینل سے نشر ہونے والے اشتہارات کو دیکھیے، ان میں ماڈل گرلز جنسی جذبات کو پوری طرح بھڑکانے کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہیں۔ اس صورتِ حال نے معاشرے میں جنسی جذبات کو اتنا برانگیختہ کردیا ہے کہ عام لوگوں کی جنسی بھوک بے قابو ہوگئی ہے۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ پر دستیاب فحش مواد نے پوری کردی ہے۔ ہم ایک قوم کی حیثیت سے اس بات کا اندازہ نہیں کر پا رہے کہ ہمارے ماحول میں جنسی اشتعال اتنا بڑھ چکا ہے کہ معمولی اخلاقی ساخت اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ پاکستان کا حکمران طبقہ ہی نہیں ہمارے علماء، ہمارے دانش ور، ہمارے مذہبی طبقات بھی اس صورتِ حال میں اپنا کردار ادا نہیں کر پا رہے۔ اصول ہے کہ نزلہ ہمیشہ عضوِ ضعیف پر گرتا ہے، چنانچہ خواتین اور بچے معاشرے کے کمزور عناصر کی حیثیت سے جنسی جنونیوں کی زد میں آرہے ہیں، مگر جو ماحول جنسی جنونی پیدا کررہا ہے اُس کے خلاف کوئی مؤثر آواز اٹھا رہا ہے نہ حکمران اس کا تدارک کرنے کے لیے کچھ کررہے ہیں۔ کہنے کو جنسی حملوںکے ذمے دار جنسی جنونی ہی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ حکمران بھی جنس کو جنون میں ڈھالنے کے ذمے دار ہیں۔ جنسی زیادتی پر واویلا کرنے والے ذرائع ابلاغ بھی جنسی حملوں کا سبب ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اُس غربت سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کے لیے کہا ہے جو انسانوں کو کفر تک لے جاتی ہے۔ ہمیں اس ’’اخلاقی غربت‘‘ سے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنی چاہیے جو افراد اور معاشرے کو جنسی حملوں تک لے جاتی ہے۔