اسرائیل ہر اعتبار سے ایک ناجائز ریاست ہے، چنانچہ ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے والے، فلسطینیوں کی آزادی کے سوال اور ان کی بے پناہ قربانیوں سے غداری کے مرتکب ہورہے ہیں
امریکہ اور اسرائیل امن سمجھوتوں اور معاہدوں کو روندنے کے لیے بدنام ہیں
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل ایک ’’امن سمجھوتے‘‘ پر متفق ہوگئے ہیں۔ معاہدے کے تحت دونوں ملک اگلے ہفتے سفارت خانوں کے قیام، سرمایہ کاری، سیاحت، براہِ راست پروازوں، سیکورٹی، ٹیکنالوجی اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون کے حوالے سے مزید معاہدے کریں گے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اور کئی دیگر عرب ممالک کے درمیان بھی ’’سفارتی کامیابیوں‘‘ کی توقع ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے بھی معاہدے کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیا ہے لیکن صاف کہا ہے کہ وہ غزہ کی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے عمل سے دست بردار نہیں ہوئے ہیں، انہوں نے ان بستیوں کے انضمام کو صرف ملتوی کیا ہے۔ حماس نے معاہدے کو مسترد کردیا ہے اور اسے فلسطینی عوام کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ محمود عباس نے امارات سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ ترکی نے بھی نام نہاد امن معاہدے کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ امارات سے اپنے سفیر کو واپس بلانے کے امکان پر غور کررہا ہے۔ پاکستان نے معاہدے پر ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ سے ملتا جلتا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق معاہدہ دوررس مضمرات کی حامل پیش رفت ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ فلسطین میں دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کا امن معاہدہ ہر اعتبار سے ایک ’’تاریخی غداری‘‘ ہے۔ فلسطین کا مسئلہ ایک سطح پر مسلمانوں کے قبلۂ اوّل کی بازیافت کا مسئلہ ہے۔ ایک بار امام مالکؒ سے کسی نے پوچھا کہ اگر گستاخِ رسول زندہ ہو تو امت کو کیا کرنا چاہیے؟ امام مالکؒ نے کہا کہ اگر گستاخِ رسول زندہ ہو تو امت کو مرجانا چاہیے۔ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل کا ’’مقبوضہ‘‘ ہونا مذاق نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امت، بالخصوص عرب ممالک کی قیادتوں پر سات دہائیوں سے موت طاری ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو قبلۂ اوّل کب کا آزاد ہوچکا ہوتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جتنے عرب ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے انہوں نے قبلۂ اوّل سے غداری کی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ دوسری سطح پر فلسطین کی آزادی کا مسئلہ ہے۔ اسرائیل ہر اعتبار سے ایک ناجائز ریاست ہے، چنانچہ ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے والے، فلسطینیوں کی آزادی کے سوال اور ان کی بے پناہ قربانیوں سے غداری کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ دوہزار سال پہلے ارضِ فلسطین یہودیوں کی ملکیت تھی چنانچہ یہودیوں کو اپنی زمین پر تسلط کا حق حاصل ہے۔ اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو امریکہ سے ایک ایک سفید فام کو نکال باہر کیا جانا چاہیے، اس لیے کہ امریکہ 300 سال پہلے ریڈانڈینز کا ملک تھا۔ اسی طرح کچھ عرصہ پہلے آسٹریلیا ایب اوریجنلز کا ملک تھا۔ آسٹریلیا پر بھی سفید فام قابض ہوگئے، چنانچہ آسٹریلیا سے بھی سفید فاموں کو نکال باہر کیا جانا چاہیے۔ ہندوستان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ہندوستان دراوڑوں کا ملک تھا اور آریہ باہر سے ہندوستان میں وارد ہوئے تھے، چنانچہ ہندوستان سے تمام آریوں کو بھی نکال باہر کیا جانا چاہیے اور ہندوستان کو اُس کے اصل باشندوں دراوڑوں کے حوالے کردیا جانا چاہیے۔ یہودی ایک جرائم پیشہ قوم ہے۔ اس نے انبیاء کو قتل کیا ہے۔ دنیوی فائدے کے لیے یہودیوں نے اپنی آسمانی کتاب کو تبدیل کیا ہے۔ یہودیوں نے گزشتہ 75 سال میں فلسطینیوں پر جو ظلم کیا ہے اس کے آگے “Holocaust” کا تجربہ بھی کچھ نہیں۔ ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو مارڈالا تھا، اور یہودیوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو قتل بھی کیا ہے اور لاکھوں فلسطینیوں کو زندہ درگور بھی کیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اب مسلمان ہی نہیں مغرب کے ذرائع ابلاغ بھی غزہ کو دنیاکی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ کوئی اسرائیل کے ساتھ ’’امن معاہدے‘‘ کے بارے میں سوچ نہیں سکتا۔ زیربحث معاہدے کے مسلمان دشمن ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ امریکہ کے صدر اور اسرائیل کے وزیراعظم نے اسے ’’تاریخی‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس معاہدے سے زیادہ ’’غیرتاریخی‘‘ چیز اور کوئی نہیں۔ امریکہ اور اسرائیل مسلمانوں سے صرف اُس وقت خوش ہوتے ہیں جب کوئی مسلم حکمران ان کے جوتے چاٹتا ہے، ان کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ جو مسلم حکمران، جو مسلم تحریک امریکہ اور اسرائیل کی مزاحمت کرتی ہے اسے تو یہ لوگ انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں کے لیے حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ طالبان بھی امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے لیے دہشت گرد تھے۔ حد تو یہ ہے کہ اخوان جیسی پُرامن سیاسی تنظیم کو بھی امریکہ نے عرب حکمرانوں کے ذریعے دہشت گرد قرار دلوا دیا ہے۔ بلاشبہ جنگ خطرناک ہے، مگر ’’اندھا امن‘‘ تو جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے، اس لیے کہ ایسے امن سے زیادہ ہولناک جنگ اور کشمکش کے نمودار ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔
بدقسمتی سے امریکہ اور اسرائیل امن سمجھوتوں اور معاہدوں کو روندنے کے لیے بدنام ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ یاسرعرفات نے 1993ء میں اسرائیل کے ساتھ اوسلو امن سمجھوتے پر دستخط کیے تھے۔ یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ یاسرعرفات کو اس سمجھوتے پر امن کے نوبیل انعام سے بھی نواز دیا گیا تھا۔ لیکن اسرائیل نے ایک ڈیڑھ سال میں اس معاہدے کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا، حالانکہ اس معاہدے کی پشت پر امریکہ بھی تھا، روس بھی… چین بھی تھا، برطانیہ اور فرانس بھی۔ پورا عالمِ عرب بھی اوسلو امن معاہدے کا ضامن تھا، مگر اسرائیل نے کسی ایک کی بھی نہ چلنے دی۔ انتہا یہ کہ اسرائیل نے جس یاسرعرفات کے ساتھ امن سمجھوتے پر دستخط کیے تھے اس یاسرعرفات کو ساڑھے تین سال تک ان کے دفتر میں محصور رکھا۔ یاسرعرفات کو رہائی ملی بھی تو انہیں اسرائیل نے زہر دے کر مار ڈالا۔ امریکہ کی تاریخ یہ ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما نے ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتا کیا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سمجھوتے کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیا، حالانکہ امریکہ کے اتحادی برطانیہ، فرانس اور جرمنی امریکہ کو سمجھاتے رہے کہ معاہدے کو باقی رہنا چاہیے، مگر امریکہ نے اپنے اتحادیوں کی بھی نہ سنی۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے سمجھوتے کی کیا ’’اوقات‘‘ ہے؟ کیا متحدہ عرب امارات کے پاس کوئی ایسی گیدڑ سنگھی ہے جس سے وہ اسرائیل کو قابو میں رکھ سکے؟ اسرائیل جب چاہے گا اس معاہدے کو بھی اٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے گا۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے فلسطین کا مسئلہ ایک سطح پر قبلۂ اوّل کی بازیافت کا معاملہ ہے، دوسری سطح پر یہ فلسطینیوں کی سیاسی بقا اور تقدیر سے متعلق مسئلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی عرب ملک کو اسرائیل کے ساتھ مفاہمت سے پہلے پوری امتِ مسلمہ کو اعتماد میں لینا چاہیے، دوسرے دائرے میں عرب ملکوں کو فلسطینیوں کی رضامندی سے کوئی اقدام کرنا چاہیے۔ مگر مصر نے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں سمجھوتا کیا تو اُس نے امتِ مسلمہ اور فلسطینیوں سے مشورہ کرنا ضروری نہ سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے طویل عرصے تک مصر کی رکنیت معطل رکھی تھی۔ اب یہی روش متحدہ عرب امارات نے اختیار کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی قیادت نے نہ امتِ مسلمہ سے مشورہ کیا، نہ فلسطینیوں سے پوچھا کہ اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کے حوالے سے تمہاری رائے کیا ہے؟ متحدہ عرب امارات کی قیادت اور کچھ نہیں تو اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا خصوصی اجلاس ہی بلا لیتی۔ اجلاس میں اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات کا امن سمجھوتا زیر بحث آتا تو معلوم ہوجاتا کہ امت کی غالب اکثریت کیا چاہتی ہے۔ مگر متحدہ عرب امارات نے او آئی سی جیسی لایعنی تنظیم کا اجلاس بلانا بھی ضروری نہ سمجھا۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے سمجھوتے کا امریکہ اور اسرائیل کی داخلی سیاست سے بھی گہرا تعلق ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کورونا سے پہلے عوام میں خاصے مقبول تھے، مگر کورونا نے ان کی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اب وہ انتخابی دوڑ میں اپنے حریف جوبائیڈن سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسرائیل میں بنجامن نیتن یاہو کو بدعنوانی کے سنگین الزامات کا سامنا ہے، چنانچہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سمجھوتا ہوتے ہی امریکہ میں آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ ٹرمپ امن کے نوبیل انعام کے مستحق ہوگئے ہیں۔ اسرائیل میں بنجامن نیتن یاہو کو اس سمجھوتے سے کچھ نہ کچھ سیاسی تقویت حاصل ہوگی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کو اس معاہدے سے سوائے بدنامی کے اور کیا حاصل ہوگا؟ اگرچہ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ متحدہ عرب امارات نے کیا ہے، مگر مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کی مرکزیت اتنی زیادہ ہے کہ متحدہ عرب امارات سعودی عرب کی رائے کو نظرانداز کرکے نہ کچھ سوچ سکتا ہے، نہ عمل کرسکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب سے مشورے کے بعد ہی اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اومان بھی بہت جلد اسرائیل کو تسلیم کرکے اُس کے ساتھ معاہدہ کرنے والا ہے۔ سعودی عرب حالات و واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے، اگر امتِ مسلمہ نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے پر شدید ردعمل ظاہر نہ کیا تو سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرکے اُس کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات استوار کرسکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے پر رائے عامہ کا ردعمل بہت اہم ہے۔
مسلم دنیا کا یہ منظر عجیب ہے کہ مسلم عوام کی اکثریت جذباتی سطح پر سہی اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور اس کی حرکیات سے جڑی ہوئی ہے۔ آپ مسلم دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں اور عوام سے پوچھیں کہ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے: صرف اسلام۔ مگر مسلم دنیا کے حکمرانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نہ اپنے مذہب کے ہیں، نہ اپنی تہذیب کے ہیں، نہ اپنی تاریخ کے ہیں، نہ اپنے عوام کے ہیں۔ ان کے لیے شخصی، خاندانی، گروہی اور اداراتی مفادات ہی سب کچھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے مسلم دنیا کا زوال ختم ہی نہیں ہو پارہا۔ تاریخ کا تجربہ شاہد ہے کہ جو شخص اپنے مذہب، تہذیب اور تاریخ سے منسلک نہیں ہوتا وہ آسانی کے ساتھ غیر ملکی طاقتوں کا آلۂ کار بن جاتا ہے۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل بادشاہ ہی تھے مگر انہیں اپنا مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کچھ نہ کچھ عزیز تھی، چنانچہ انہوں نے ایک دن امریکی سفیر کو ظہرانے پر بلا لیا۔ شاہ فیصل نے صحرا میں خیمہ لگایا اور امریکی سفیر کی تواضع کے لیے کھجوریں اور قہوہ پیش کیا۔ شاہ فیصل نے کہا کہ ہمارے آباء و اجداد انہی دو چیزوں پر زندگی گزارتے تھے، تم ہمیں چھوڑ بھی دو تو ہم کھجوروں اور قہوے پر گزارہ کرلیں گے۔ انہوں نے امریکی سفیر سے کہا کہ تم ہمارے تیل کے کنووں پر قبضے کی دھمکی دیتے ہو، تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ تمہارے قبضے سے پہلے ہم اپنے تیل کے کنووں کو خود آگ لگا دیں گے۔ شاہ فیصل نے یہ کہا ہی نہیں بلکہ انہوں نے مغربی دنیا کو تیل کی فراہمی معطل کرکے اسے دہلا دیا۔ لیکن اب سعودی عرب کا یہ حال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال فرمایا تھا کہ اگر ہم سعودی حکمرانوں کا تحفظ نہ کریں تو اُن کی حکومت کا صرف پندرہ دن میں دھڑن تختہ ہوجائے گا۔ بلاشبہ شاہ فیصل شہید ہوگئے مگر کوئی امریکی صدر انہیں یہ طعنہ نہ دے سکا کہ تمہارا اقتدار ہمارے سہارے قائم ہے۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے پر سب سے اچھا ردعمل ترکی سے آیا ہے، مگر اسرائیل کے حوالے سے ترکی کی ساکھ بھی اچھی نہیں۔ ترکی اسرائیل کو تسلیم کیے ہوئے ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان دو ارب ڈالر سالانہ کی تجارت بھی ہورہی ہے۔ یہ صورتِ حال ترکی کے شایانِ شان نہیں۔ ترکی کو صرف متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر واپس نہیں بلانا چاہیے بلکہ اسے اسرائیل سے بھی اپنا سفیر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے واپس بلا لینا چاہیے، اس سے طیب اردوان کی ساکھ بہت بڑھ جائے گی۔