امریکہ، بھارت اور پاکستان کی عملی مثالیں کیا کہتی ہیں؟
آپ کو مغربی جمہوریت کے سومناتھ پر اقبال کے تین مشہورِ زمانہ حملے تو یاد ہوں گے۔ نہیں ہیں تو ہم آپ کو یاد دلا دیتے ہیں۔
اقبال کا پہلا حملہ یہ تھا:۔
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اقبال کا دوسرا حملہ یہ تھا:۔
تُو نے کیا دیکھا نہیں یورپ کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
اقبال کا تیسرا حملہ یہ تھا:۔
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
مغربی جمہوریت کے سومناتھ پر اقبال کا پہلا حملہ شدید ہے۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت ’’مقداری‘‘ ہے ’’معیاری‘‘ نہیں۔ اسلام میں ہر جگہ اہمیت ’’معیار‘‘ کی ہے، ’’مقدار‘‘ کی نہیں۔ ذرا اندازہ تو کیجیے جمہوریت میں نوازشریف، آصف علی زرداری اور الطاف حسین کا بھی ایک ووٹ ہے اور امام غزالیؒ، مجدد الف ثانیؒ اور مولانا مودودیؒ کا بھی ایک ووٹ ہے۔ اگر کسی مجلس میں امام غزالی، میاں نوازشریف، آصف علی زرداری اور الطاف حسین جمع ہوں اور کسی مسئلے پر رائے شماری کی نوبت آجائے تو میاں نوازشریف، آصف علی زرداری اور الطاف حسین کا ’’جمہوری اتحاد‘‘ امام غزالیؒ کو ہرا دے گا۔ بیچارے امام غزالی، ان کا بے پناہ علم اور ان کی بے پناہ ذہانت اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گی۔
مغربی جمہوریت کے سومناتھ پر اقبال کے دوسرے حملے کا مفہوم یہ ہے کہ یورپ کے جمہوری نظام کا چہرہ ہی صرف روشن ہے، اس کا باطن چنگیزیت کے اندھیرے سے بھرا ہوا ہے۔ بلکہ اقبال کے الفاظ میں مغربی جمہوریت کا باطن چنگیزیت سے بھی آگے کی چیز ہے۔
مغربی جمہوریت کے سومناتھ پر اقبال کے تیسرے حملے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ آمریت جمہوریت کا لباس اوڑھ کر آگئی ہے۔ جو لوگ اسے نیا نظام سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ انہیں جمہوریت کے لباس نے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔ آپ جمہوریت کا لباس اتروائیں گے تو اندر سے جبر و استبداد ہی نکلے گا۔
معاف کیجیے گا مغربی جمہوریت کے سومناتھ پر اقبال کے تین حملوں کے ذکر سے کالم کی فضا کچھ ’’نظری‘‘ یا Theoretical سی ہوگئی ہے۔ اس لیے آئیے اب جمہوریت کی ایک عملی یعنی Practical مثال کا ذکر ہوجائے۔
روزنامہ جنگ کراچی کی ایک خبر کے مطابق امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر 2020ء کے صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے چین کے صدر شی جن پنگ سے مدد مانگی ہے۔ جان بولٹن کے بقول امریکہ کے موجودہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے انہیں ایک بار ایک چٹ پر لکھ کر دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دماغ میں گوبر بھرا ہوا ہے۔ جان بولٹن کے بقول ٹرمپ کا ذاتی عملہ ان کی نقلیں اتارتا ہے۔ جان بولٹن کے بقول صدر ٹرمپ اپنے عہدے کے لیے فٹ نہیں ہیں۔ جان بولٹن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ نے جاپان کے دورے میں ہونے والی ملاقات میں کہا کہ آپ چینی مصنوعات خریدیں۔ انہوں نے چینی صدر سے کہا کہ آپ ایغور مسلمانوں کے ساتھ جو بہتر سمجھیں، کریں۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 19 جون 2020ء)
تیسری دنیا کے جمہوری اور فوجی آمر امریکہ اور یورپ سے اکثر اقتدار کی بھیک مانگتے ہوئے پائے جاتے ہیں، لیکن مذکورہ بالا مثال سے ثابت ہورہا ہے کہ دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت کا صدر بھی اپنے حریف سے اقتدار کی بھیک مانگتا ہوا پایا گیا ہے۔ یہ ہے مغربی جمہوریت کا خوفناک ظاہر اور ہولناک باطن۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ چین انہیں آئندہ صدارتی انتخابات میں ہارتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر اس سے قبل یہ الزام بھی لگ چکا ہے کہ انہوں نے امریکہ کے گزشتہ صدارتی انتخابات میں روس کو مداخلت کا موقع دیا ہے۔ اِس بار صدر ٹرمپ چین کے آگے سجدہ ریز پائے گئے ہیں۔ جان بولٹن کے بقول مائیک پومپیو نے اُن سے کہا کہ صدر ٹرمپ کے دماغ میں گوبر بھرا ہوا ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہوگی، مگر یہاں مسئلہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کا تھوڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر بنایا ہے اُن کے دماغ میں کیا بھرا ہوا ہے؟ جمہوریت یا گوبر؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ امریکہ کے جس انتخابی نظام نے صدر ٹرمپ جیسے شخص کو صدر بننے دیا اس کے دماغ میں کیا بھرا ہوا ہے؟ جمہوریت، یا گوبر؟ ان سوالات کا جواب عیاں ہے۔ جن ووٹرز نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدرِ امریکہ بنایا اُن کے دماغ میں بھی گوبر بھرا ہوا ہے۔ جس انتخابی نظام نے انہیں امریکی صدر کے عہدے تک پہنچایا اُس کے دماغ میں بھی گوبر بھرا ہوا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر نہیں بن سکتے تھے۔
امریکہ کے معروف رسالے ’نیوز ویک‘ کے سابق ایڈیٹر اور سی این این کے اینکر فرید زکریا نے اپنی تصنیف The Future of Freedom میں لکھا ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ کسی گلوکار کے سلسلے میں یہ دیکھا جاتا تھا کہ اسے ’’کون‘‘ سنتا ہے۔ اب یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسے ’’کتنے‘‘ لوگ سنتے ہیں۔ فرید زکریا کے بقول جمہوریت نے ’’مقدار‘‘ ہی کو ’’معیار‘‘ بنادیا ہے۔ فرید زکریا کے بقول اسی لیے امریکہ میں جمہوریت اور آزادی اکثر ایک دوسرے کی حریف بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ (صفحہ 21)
فرید زکریا نے اپنی کتاب میں ’’جمہوریت پسند‘‘ ہونے کے باوجود امریکی جمہوریت کا مذاق اڑایا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کیلی فورنیا کی آبادی 3 کروڑ ہے، اس کے برعکس امریکی ریاست ایری زونا کی آبادی صرف 37 لاکھ ہے، مگر سینیٹ میں دونوں ریاستوں کے مساوی ووٹ ہیں (صفحہ 22)۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟
جمہوری نظام کا تصور سیاسی جماعتوں کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ فرید زکریا کے بقول انہوں نے دسمبر 2000ء میں امریکہ کے معروف صحافی اسٹیفن اویونوس سے پوچھا کہ کیا ڈیموکریٹک پارٹی 2004ء کے صدارتی انتخابات میں سابق نائب صدر ایلگور کو صدارت کے لیے آگے لائے گی؟ فرید زکریا کے بقول اسٹیفن نے جواب دیا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کا کوئی وجود ہی نہیں (صفحہ 180)۔ فرید زکریا کے بقول امریکہ میں انتخابی عمل کے لیے اہمیت پارٹی کی نہیں بلکہ دو چیزوں کی ہے: امیدوار ٹیلی وژن کی اسکرین پر اچھا لگتا ہے یا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ وہ انتخابی مہم کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسہ جمع کرسکتا ہے یا نہیں۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کے سیاسی نظام کو اس کے منتخب ایوان چلاتے ہیں۔ فرید زکریا کا اصرار ہے کہ اس نظام میں ’’لابیوں‘‘ کی اہمیت بنیادی ہے۔ فرید زکریا کے بقول 1950ء میں امریکہ کے اندر صرف 5ہزار لابیاں تھیں، جو 1970ء میں 10 ہزار، اور 1990ء میں 20 ہزار ہوگئیں (صفحہ 173)۔ یہ لابیاں اپنے مفادات کے لیے منتخب نمائندوں پر دبائو ڈالتی ہیں اور انہیں سیاسی رشوت دیتی ہیں۔ امریکہ میں بڑی بڑی کارپوریشنوں کا کردار اس کے علاوہ ہے۔ اس بنیاد پر امریکی جمہوریت کو ’’کارپوریٹ ڈیموکریسی‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ ’’کارپوریٹ ڈیموکریسی‘‘ کا آسان زبان میں ترجمہ ہے ’’No Democracy‘‘۔
بدقسمتی سے یہ مسائل صرف ’’امریکی ڈیموکریسی‘‘ کے ساتھ نہیں ہیں۔ ہندوستان خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے، مگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی قیادت کے خیالات ایسے ہیں کہ اس کے بارے میں بھی کوئی ’’مقامی جان بولٹن‘‘ آسانی کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اس قیادت کے دماغ میں گوبر بھرا ہوا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ایک بار پوچھا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کے مرنے کا دکھ نہیں ہوتا؟ مودی نے کہا: آپ کی کار کے نیچے ’’کتے کا پِلّا‘‘ آجائے گا تو آپ کو دکھ تو ہوگا۔ اس کے معنی ہوئے کہ مودی کے نزدیک ہندوستان کے تمام مسلمان کتے کے پلے ہیں۔ اترپردیش عرف یوپی بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے، اتنی بڑی ریاست کہ اُس کی آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کے برابر ہے۔ اس ریاست کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی ہیں۔ وہ ایک جلسہ عام میں موجود تھے کہ بی جے پی کے ایک مقامی رہنما نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر مسلمان خواتین کو قبروں سے نکال کر بھی Rape کرنا پڑے تو ہمیں ایسا ضرور کرنا چاہیے۔ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ مسلمانوں کو ’’دیمک‘‘ کہتے ہیں۔ کیا یہ خیالات جن دماغوں میں موجود ہیں اُن میں گوبر نہیں بھرا ہوا ہے؟ اور کیا جن لوگوں نے نریندر مودی اور بی جے پی کو ووٹ دے کر کرسیِ اقتدار عطا کی اُن کے دماغوں میں بھی گوبر نہیں بھرا ہوا؟ اس سے ثابت ہے کہ ’’جمہوری رہنمائوں‘‘ اور ’’جمہوری عوام‘‘ کے دماغوں میں گوبر کا بھرا ہونا ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہ ہے جمہوریت کا خوفناک ظاہر اور ہولناک باطن۔
جمہوریت کے سلسلے میں ’’عوام‘‘ کے تصور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کی حکومت ہے، عوام کے ذریعے وجود میں آتی ہے اور عوام کے لیے ہوتی ہے۔ لیکن پوری انسانی تاریخ میں عوام کا کوئی کردار ہی نہیں۔ پوری انسانی تاریخ خواص کی تاریخ ہے۔ عوام کی حیثیت تاریخ کے ایندھن سے زیادہ نہیں ہوتی۔ عوام نہ ’’صاحبِ تقویٰ‘‘ ہوتے ہیں، نہ ’’صاحبِ علم‘‘ ہوتے ہیں، نہ ’’صاحبِ شعور‘‘ ہوتے ہیں، نہ اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں، نہ ان میں کردار کی بلندی ہوتی ہے، نہ وہ اپنی ’’خواہشات‘‘ سے بلند ہوتے ہیں، نہ وہ اپنے ’’تعصبات‘‘ سے بلند ہوتے ہیں، نہ وہ اپنے ’’مفادات‘‘ سے اوپر اُٹھ سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر ایسے لوگ ایک ’’بہترین قیادت‘‘ کو کس طرح سامنے لاسکتے ہیں؟ یہ لوگ کس طرح ایک ’’بہترین حکومت‘‘ کو وجود بخش سکتے ہیں؟ وہ کس طرح ایک بہترین نظام ایجاد کرسکتے ہیں؟ اسی حوالے سے درجنوں ’’جمہوریتوں‘‘ کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، مگر ہم یہاں صرف پاکستان کی مثال کے جائزے پر اکتفا کررہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کے ایک ’’ہیرو‘‘ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ پاکستان کے عوام کے ایک ’’ہیرو‘‘ میاں نوازشریف ہیں۔ پاکستان کے عوام کے ایک ’’ہیرو‘‘ عمران خان ہیں۔ پاکستان کے عوام کے ایک ’’ہیرو‘‘ الطاف حسین تھے یا ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی اصل میں ایک Populist سیاسی رہنما تھے۔ پاپولسٹ سیاسی رہنما کے لیے اس کی اپنی ذات اہم ہوتی ہے، قوم یا عوام نہیں۔ پاپولسٹ رہنما اپنے نعروں میں زندہ رہتا ہے، اپنے عمل میں نہیں۔ بھٹو صاحب کا ایک نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان تھا، مگر بھٹو صاحب نے عوام کو روٹی نعرے میں کھلائی، کپڑا نعرے میں پہنایا اور مکان بھی انہوں نے عوام کو نعرے ہی میں بنا کر دیا۔ بھٹو صاحب نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نعرہ بھی وضع کیا، حالانکہ وہ نہ ’’اسلامی‘‘ تھے، نہ ’’سوشلسٹ‘‘ تھے۔ وہ صرف ایک وڈیرے تھے۔ اس اعتبار سے وہ ایک ’’اسلامی وڈیرے‘‘ اور ’’سوشلسٹ وڈیرے‘‘ تھے۔ یہ اصطلاحیں جتنی مضحکہ خیز نظر آتی ہیں بھٹو صاحب کی سیاست بھی اتنی ہی مضحکہ خیز تھی۔ بھٹو صاحب خود کو ’’جمہوری‘‘ کہتے تھے، مگر وہ جب تک زندہ رہے انہوں نے اپنی پارٹی میں کبھی جمہوریت کو داخل نہ ہونے دیا۔ بلاشبہ بھٹو صاحب اور ان کے زمانے کی پیپلز پارٹی کا تشخص وفاقی تھا، مگر سندھ میں کوٹا سسٹم بھٹو صاحب ہی نے ایجاد کیا۔ سندھی اور اردو کو بھی وہی ایک دوسرے کے مقابل لائے۔ یہ ہے عوام کی انتخابی اہلیت کا ایک ’’اشتہار‘‘۔
ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے مقابلے پر میاں نوازشریف کو ’’اسلامی تشخص‘‘ کی علامت کے طور پر اُبھارا گیا۔ انہیں ’’شہری تمدن‘‘ کا ’’استعارہ‘‘ باور کرایا گیا۔ انہیں وڈیرہ شاہی کے مقابلے پر کاروباری طبقے کے نمائندے کے طور پر سامنے لایا گیا۔ مگر میاں صاحب نے ثابت کیا کہ وہ نہ ’’اسلامی‘‘ تھے، نہ شہری تمدن انہیں چھو کر گزرا تھا، اور نہ ہی وہ جدید کاروباری طبقے کے کلچر سے کوئی تعلق رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کا کردار ’’وفاقی‘‘ بھی نہیں تھا۔ انہوں نے آئی جے آئی کی سیاست کے زمانے میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔ بے نظیر کو شکست دینے کے لیے وہ اس حد تک گرے کہ بے نظیر کی خودساختہ ننگی تصویریں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پنجاب میں گروائی گئیں۔ ہم نے جماعت اسلامی کے سابق امراء قاضی حسین احمد اور سید منور حسن سے ان دونوں الزامات کی تصدیق چاہی تو انہوں نے فرمایا کہ بلاشبہ میاں صاحب نے یہ دونوں ’’نیک کام‘‘ کیے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں صاحب پاکستان کی سیاست میں ’’پنجابیت‘‘ کی علامت کے سوا کچھ بھی نہیں، بالکل اسی طرح جس طرح الطاف حسین ’’مہاجریت‘‘ کی علامت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میاں صاحب ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں، ووٹ جمہوریت کی علامت ہے مگر میاں نوازشریف اتنے جمہوری ہیں کہ گزشتہ 30 سال سے انہوں نے اپنی جماعت میں جمہوریت کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔
الطاف حسین شہری سندھ میں ’’متوسط طبقے‘‘ کی علامت کے طور پر ابھرے، لیکن وہ اپنی ’’قوم‘‘ کو مہاجریت کے تعصب کے سوا کچھ نہ دے سکے۔ مہاجر تہذیب، علم، شعور، تاریخی کردار اور تخلیق کی علامت تھے، الطاف حسین نے انہیں دہشت گردی، بوری بند لاشوں کے کلچر اور بھتہ خوری کی علامت بنادیا۔ وہ اول و آخر ایک Populist لیڈر تھے۔ انہوں نے مہاجروں کو جو دیا صرف نعروں میں دیا۔ انہوں نے ساری زندگی غصے اور نفرت کی فصل کاشت کی- وہ شہری تمدن سے اُبھرے تھے، وہ خود کو جمہوری رہنما کہتے تھے، مگر انہوں نے 30 سال تک کبھی جمہوریت کو ایم کیو ایم میں داخل نہ ہونے دیا۔ یہ ہے عوام کی ’’انتخابی اہلیت‘‘ کا ایک اور اشتہار۔
عمران خان اور ان کی جماعت بھٹوئوں، شریفوں اور ان کی جماعتوں کا متبادل بن کر اُبھرے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ملک میں حقیقی تبدیلی لاکر دکھائیں گے، مگر عمران خان بھی بھٹو، میاں نوازشریف، بے نظیر بھٹو اور الطاف حسین کی طرح صرفPopulist بن کر اُبھرے ہیں۔ انہوں نے اب تک ’’تبدیلی‘‘ صرف نعروں ہی میں لاکر دکھائی ہے۔ کبھی وہ کہا کرتے تھے کہ میں نہ Electables کی سیاست کروں گا، نہ سرمائے کی… مگر گزشتہ انتخابات سے ذرا پہلے انہوں نے روزنامہ ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ وہ Electables کی سیاست بھی کریں گے اور سرمائے کی سیاست بھی کریں گے۔ بلاشبہ انہوں نے یہ دونوں کام کیے، یہاں تک کہ انہوں نے یوٹرن کو ایک ’’نظریہ‘‘ بنادیا۔ یہ ہے عوام کی انتخابی اہلیت کا ایک اور اشتہار۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام تقریباً ہر ملک میں عقل و شعور، فہم و فراست کو نہیں بلکہ اپنے تعصبات، اپنے مفادات اور اپنے پست خیالات و جذبات کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہ ہے مغربی جمہوریت کا خوفناک ظاہر اور ہولناک باطن۔
عوام جمہوریت کے ذریعے اگر تقویٰ، علم، عقل، فہم و فراست، ایمان داری اور خدمت کو ووٹ دیتے تو پاکستان میں جماعت اسلامی ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت ہوتی، اس لیے کہ جماعت اسلامی مذکورہ بالا تمام خوبیوں کی مظہر ہے۔ مگر عوام انتخابات میں جماعت اسلامی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ وہ دیکھتے ہیں تو اپنے لسانی اور صوبائی تعصبات کی طرف۔ وہ ووٹ دیتے ہیں تو پنجابیت، مہاجریت، سندھیت، پشتونیت، بلوچیت، فرقے اور مسلک کو۔ یہ ہے مغربی جمہوریت کا خوفناک ظاہر اور ہولناک باطن۔ اس منظرنامے میں امید کی صرف ایک ہی کرن موجود ہے، اور وہ یہ کہ معاشرے کو نظریاتی شعور سے آراستہ کیا جائے۔ انہیں ان کے ہرطرح کے تعصبات اور پست مفادات سے اوپر اٹھاکر صرف نظریے سے وابستہ کیا جائے۔ یہ کام ماضی میں بھی صرف جماعت اسلامی نے کیا ہے اور اب بھی یہ کام صرف جماعت اسلامی کرسکتی ہے۔ مگر اب تو خود جماعت اسلامی کو نظریاتی بنانے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی ماضی کی طرح خود نظریاتی بنے گی تو معاشرے کو نظریاتی بنائے گی۔ جماعت اسلامی کا خود کوئی نظریاتی بیانیہ ہوگا تو وہ معاشرے کو نظریاتی بیانیہ مہیا کرے گی۔ ایسا بیانیہ جو مولانا مودودیؒ کی فکری و علمی روایت کے شایانِ شان ہو۔ا