سفید فام اہلِ مغرب صرف افراد کو گلا گھونٹ کر نہیں مارتے، انہوں نے قوموں اور تہذیبوں کو بھی گلا گھونٹ کر قتل کیا ہے
ہم نے ایک بار لکھا تھا کہ اگر ہمیں امریکہ اور شیطان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو ہم شیطان کا انتخاب کریں گے۔ یہ محض ’’ایک بات‘‘ نہیں ہے، اس بات کی ایک بہت مضبوط اخلاقی اور علمی دلیل بھی ہے۔ دلیل یہ ہے کہ شیطان کا شیطان ہونا سب پر واضح ہے، مگر امریکہ کا شیطان ہونا سب پر واضح نہیں۔ چناں چہ بہت سے لوگ امریکہ کو مہذب، انسانی حقوق کا علَم بردار، روشن خیال، جمہوری، انسانی اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ معاملہ صرف امریکہ تک محدود نہیں۔ شیطنت پورے مغرب کی پہچان ہے۔ ابھی چند روز پیشتر امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر مینیا پولیس مین ایک سفید فام پولیس افسر ڈیرک شوون نے ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کی گردن دباکر اسے ہلاک کرڈالا۔ جارج فلائیڈ کہتا رہا کہ تمہارے پائوں کے دبائو سے میرا ادم گھٹ رہا ہے، مگر سفید فام پولیس افسر پر جارج فلائیڈ کی آہ و بکا کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بدقسمتی سے سفید فام اہلِ مغرب صرف افراد کو گلا گھونٹ کر نہیں مارتے، انہوں نے قوموں اور تہذیبوں کو بھی گلا گھونٹ کر قتل کیا ہے۔ اس بھیانک انسانیت سوزی کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کردینے والی ہیں۔ اہلِ مغرب نے صرف ’’Americas‘‘ میں 10 کروڑ ریڈ انڈینز اور دیگر اقوام کے باشندوں ہی کو قتل نہیں کیا، انہوں نے چار کروڑ افریقی سیاہ فاموں اور ایک کروڑ افریقی مسلمانوں کو بھی قتل کیا ہے (’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘۔ از ڈاکٹر حقی حق۔ صفحہ 314)۔ یہ اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں، مگر ان اعداد و شمار کی تفصیلات سے روح تک فنا ہوسکتی ہے۔
امریکہ دریافت کرنے والے کولمبس کو لوگ بحری سیاح سمجھتے ہیں، مگر کولمبس ایک ’’صلیبی‘‘ تھا۔ مغرب کی ممتاز دانش ور کیرن آرم اسٹرانگ لکھتی ہیں:۔
’’کولمبس نئی دنیا میں عیسائی دنیا کے لیے ایک ایسا مرکز بنانا چاہتا تھا جہاں سے اسلام کے خلاف صلیبی لشکر روانہ ہوں۔ اس کی ذاتی یادداشتوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ بیت المقدس کی فتح کا آرزومند تھا۔ گو کہ یورپ نئے دور میں داخل ہوچکا تھا مگر صلیبی جنون اب بھی اس پر طاری تھا۔ جدید مغرب صلیبی جنگوں کے خوابوں اور اندیشوں میں الجھا ہوا تھا۔ یہ خواب اور اندیشے کولمبس کے ساتھ بحراوقیانوس پار کرکے امریکہ بھی پہنچ گئے۔‘‘ (کیرن آرم اسٹرانگ۔ Holywar۔1992۔ بحوالہ ’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘۔ صفحہ 39)۔
اس سلسلے میں اسپین کا مؤرخ لاس کیسس لکھتا ہے:۔
’’کولمبس نے جب امریکہ اچھی طرح دریافت کرلیا اور وہ جزیرہ غرب الہند میں اوسطاً 12 لاکھ ریڈ انڈینز سالانہ تہِ تیغ کرنے لگا تو عیسائیت، چرچ، ملکہ اور کولمبس کا کام چل نکلا۔ اس کے پائوں امریکہ میں جم گئے۔ مال و زر اور غلاموں سے بھرے جہاز اسپین پہنچنے لگے۔ اس صورتِ حال میں ملکہ ازابیلا نے قتل ہونے والوں کو بھی ’’مراعات‘‘ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان مراعات میں مقتولوں کو قتل کی وجہ بتانے اور قتل کی پیشگی اطلاع دینے کی ’’مراعات‘‘ شامل تھیں۔
(The Devastation of Indies by Bartolome Causes-1552… بحوالہ: ’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘(۔
کولمبس کی شیطنت کی کچھ جھلکیاں آپ کے سامنے آچکیں۔ کچھ جھلکیاں مزید ملاحظہ فرمائیے۔ کولمبس امریکہ پہنچا اور اس نے ریڈ انڈینز کو دیکھا تو اپنے روزنامچے میں لکھا:۔
’’وہ (ریڈ انڈینز) ہمارے لیے رنگ برنگ پرندے، روئی کے گٹھے، کمانیں اور دوسری اشیاء لے کر آئے، اور ہم سے بدلے میں بیلوں کے گلے میں باندھنے والی گھنٹیاں اور شیشے کی لڑیاں لے گئے۔ یہ لوگ اشیاء کے بدلے اشیاء پر ہمیشہ تیار رہتے ہیں، ان کے جسم مضبوط اور صحت مند ہیں۔ یہ لوگ سادہ، جفاکش اور بے ضرر نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کو نہ تو ہتھیاروں کے استعمال کا علم ہے، نہ ہی یہ کسی ہتھیار سے مسلح ہوتے ہیں۔ جب میں نے اپنی تلوار انہیں دکھائی تو بیشتر نے تیز تلوار سے اپنی انگلیوں اور ہاتھوں کو زخمی کرلیا۔ یہاں پر ابھی لوہے کا استعمال شروع نہیں ہوا ہے۔ ان کے تیرکمان لکڑی، گنے اور بانس سے بنے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ بہترین خدمت گار اور اچھے غلام ثابت ہوں گے۔ ہم صرف پچاس لوگوں کے ذریعے تمام مقامی آبادی پر غلبہ حاصل کرکے انہیں باآسانی غلام بنا سکتے ہیں۔‘‘
۔(کرسٹو فرکولمبس…1492۔ بحوالہ ’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘۔ صفحہ 147)۔
آپ نے ’’مغربی انسان‘‘ کی ’’شیطنت‘‘ ملاحظہ کی! کولمبس ریڈ انڈینز سے پہلی ملاقات کررہا ہے اور پہلی ملاقات ہی میں اُسے خیال آرہا ہے کہ ریڈ انڈینز بہت اچھے غلام ثابت ہوسکتے ہیں اور ہم بہتر ہتھیاروں کی وجہ سے صرف پچاس لوگوں کے ذریعے پوری آبادی کو اپنا غلام بنا سکتے ہیں۔ کولمبس کے لیے ریڈانڈینز کی ’’معصومیت‘‘ بے معنی تھی۔ ان کی ’’تہذیب‘‘ لایعنی تھی۔ اس کے ذہن پر آقا اور غلام کا کھیل اور لوٹ مار کے خیالات غالب تھے۔
اس سلسلے میں کولمبس کے روزنامچے کا ایک اور اقتباس بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ شیطان صفت کولمبس لکھتا ہے:۔
’’ریڈ انڈینز اپنے دفاع کے قابل نہیں۔ ان کے رسم و رواج میں ذاتی ملکیت کا تصور ناپید ہے۔ یہ لوگ سادہ اور بے ضرر ہیں۔ ان کو دیکھے بغیر ان کی سادگی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ان سے جب بھی کچھ مانگا جائے، دینے سے انکار نہیں کرتے۔ اگر بادشاہ اور ملکہ میری مدد کریں تو میں ان کے لیے اس نئی دریافت کردہ دنیا سے اتنا سونا لاسکتا ہوں کہ جو ضرورت سے سوا ہو، اور اتنے غلام لادوں گا جتنے کا حکم ہو۔‘‘
۔(کرسٹوفر کولمبس 1493۔ بحوالہ ’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘۔ صفحہ 151)۔
امریکہ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ریڈ انڈینز کی آبادی سن 1500ء میں 10 کروڑ تھی۔ ڈاکٹر حق حقی نے اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ 1500ء میں چین کی آبادی 10 سے 15 کروڑ تھی۔ سن 2000ء تک چین کی آبادی بڑھ کر ایک ارب سے زیادہ ہوگئی۔ اس طرح چین کی آبادی میں 940 فیصد اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر حق حقی کے مطابق اس اعتبار سے دیکھا جائے تو 2000ء میں ریڈ انڈینز کی آبادی 73 کروڑ 70 لاکھ ہوتی، اور وہ چین اور بھارت کے بعد دنیا کی تیسری بڑی آبادی ہوتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب کے شیطان صفت انسانوں نے ’’Americas‘‘ میں صرف 10کروڑ لوگ نہیں، 73 کروڑ لوگ قتل کیے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت امریکہ میں ریڈانڈینز کی کُل آبادی صرف ڈھائی لاکھ ہے۔
کولمبس کے ساتھ آئے ہوئے ’’مغربی انسانوں‘‘ یا ہسپانوی باشندوں نے ریڈانڈینز کے ساتھ جو سلوک کیا اُس کی ایک جھلک معروف ہسپانوی مؤرخ لاس کیسس نے دکھائی ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’ہسپانوی آبادکاروں نے ریڈانڈینز کو اجتماعی پھانسی دینے کا سلسلہ شروع کیا، جبکہ یہ لوگ ان کے بچوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں کتوں کے سامنے خوراک کے طور پر پھینک دیتے تھے۔ نوجوان عورتوں کی اکثریت اُس وقت تک جنسی تشدد کا شکار رہتی جب تک وہ مر نہ جاتیں۔ ملکیت سے بے نیاز ان لوگوں کی معمولی قدروقیمت کی اشیاء تک لوٹ لی جاتیں، گھروں کو آگ لگادی جاتی، ریوڑ کی صورت میں بھاگتے ہوئے غیر مسلح اور ناقابلِ دفاع لوگوں کا تیز رفتار گھوڑوں سے تعاقب کیا جاتا اور انہیں تیر اندازی کی مشق کے لیے استعمال کیا جاتا۔ چند ہی گھنٹوں میں شہر کا شہر زندگی سے عاری ہوجاتا اور آبادی نابود ہوجاتی۔ اس طرح ہسپانوی آبادکار ریڈانڈینز کی وسیع زمینوں پر تسلط حاصل کرتے چلے گئے۔‘‘
۔ (لاس کیسس، 1552 بحوالہ ’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘۔ صفحہ 157)۔
دنیا میں ظلم اور جبر کا ذکر ہوتا ہے تو چنگیز خان کا نام لبوں پر آجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان نے ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کو قتل کیا۔ مگر مغربی درندے تو صرف Americas میں 15کروڑ سے زیادہ انسانوں کو نگل گئے، لیکن ظلم و جبر کا ذکر آتا ہے تو کسی زبان پر اہلِ مغرب کی شیطنت کا ذکر نہیں آتا۔ ساری دنیا آج بھی اہلِ مغرب کو مہذب، انسان دوست، علم پرور، امن پسند، عقل پرست، انسانی حقوق کے پاسدار، جمہوری اور نہ جانے کیا کچھ سمجھتی ہے۔ اس سلسلے میں معدودے چند مسلمانوں کے سوا کسی کے یہاں مغرب کی شیطنت کا فہم موجود نہیں۔ شیخ منظور الٰہی اپنی تصنیف ’’نیرنگ اندلس‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’مسلمانوں کے خلاف فتح مندی کے نشے میں سرشار پزارو، کوریٹز اور بلبوا مجسم قہر کی شکل میں وسطی اور جنوبی امریکہ میں وارد ہوئے۔ ان کے ایک ہاتھ میں انجیل اور دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی۔ وہ بجلی کی سرعت کے ساتھ مقامی آبادی پر چڑھ دوڑے۔ ان ہسپانوی فاتحین نے ازٹیک، مایا اور انکاز کی صدیوں پرانی تہذیبیں تہ و بالا کردیں جو میکسیکو سے جنوبی امریکہ کے سرے تک محیط تھیں۔ وہ اپنے جلو میں زنا بالجبر، لوٹ کھسوٹ اور آتشزدگی کی ہولناک داستانیں چھوڑ گئے۔ انہوں نے مقامی باشندوں کی زبان، تمدن اور عزتِ نفس خاک میں ملادی۔ مقامی لوگ حواس باختہ ہوگئے۔ ان کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ وہ اپنے ملکوں میں تیسرے درجے کے شہری بن گئے۔ ان مسمار شدہ معبدوں کا ملبہ کلیسائوں کی بنیادیں پُر کرنے کے کام آیا۔
۔(’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘۔ صفحہ 176)۔
آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ صرف 16 ویں صدی کے یورپی باشندے وحشی، درندے اور زمینوں پر قبضہ کرنے والے تھے۔ ڈاکٹر حق حقی نے لکھا ہے کہ جب 1776ء میں امریکہ وجود میں آگیا تب امریکی حکومت زمینوں پر قبضے کے کام میں ایک فریق بن کر کھڑی ہوگئی۔ امریکی حکومت نے ریڈانڈینز اور دوسری مقامی اقوام کے ساتھ 1778ء سے 1871ء تک 370 معاہدے کیے، اور اس نے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کی اور انہیں توڑ ڈالا، البتہ معاہدوں کی جن شقوں کا تعلق ریڈانڈینز پر پابندی سے تھا اُن شقوں پر سختی کے ساتھ عمل ہوتا رہا۔
اہلِ مغرب کے ’’Creative‘‘ ہونے میں کیا شبہ ہے! بلاشبہ اہلِ مغرب وحشت، سفاکی اور درندگی میں بھی بڑے Creative ثابت ہوئے۔ اِس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ انہوں نے ریڈانڈینز کو ختم کرنے کے لیے 1763ء میں ایک عجیب جرم کیا۔ انہوں نے ریڈانڈینز میں بڑے پیمانے پر ایسے کمبل تقسیم کیے جو چیچک کے جراثیم سے بُری طرح آلودہ تھے۔ یہ کمبل ریڈ انڈینز کے اُن قبائل میں تقسیم کیے گئے جو پُرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت اہلِ مغرب کے ساتھ مصالحت پر آمادہ ہوچکے تھے اور سفید فام شیطانوں کی نگرانی میں آچکے تھے۔ ڈاکٹر حق حقی نے اس واقعے کو پہلی ’’جراثیمی جنگ‘‘ کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔
۔ (’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘۔ صفحہ 223-222)۔
سفید فاموں کے ہاتھوں نسل کُشی کا شکار ہونے والے ریڈ انڈینز اور دیگر مقامی اقوام نے سفید فاموں کے ظلم پر کیا محسوس کیا، تاریخ میں اس کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔ آئیے سفید فاموں کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اترنے والوں کے خیالات، جذبات اور احساسات میں شریک ہوتے ہیں۔
’’تم جب یہاں پہلی بار آئے تھے ہم (تعداد میں) بہت زیادہ تھے اور تم صرف چند ایک‘‘۔ (سیاکس سردار۔ چیف ریڈ کلائوڈ 1822ء۔1909ء)۔
’’ہم جہاں بھی گئے سپاہی ہمیں قتل کرنے آن پہنچے حالانکہ ہم اپنے ہی ملک میں تھے‘‘۔
(فلسفی اور مذہبی پیشوا، بلیک ایلک۔ 1863ء۔1950ء)
’’سفید فام کہتے ہیں کہ آزادی اور انصاف سب کے لیے ہے۔ ہمیں یہ آزادی اور انصاف میسر تھا، ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اس آزادی اور انصاف کی وجہ سے ہمارا خاتمہ کردیا گیا‘‘۔
۔(ریڈ انڈینز گرینڈ کونسل کا اعلامیہ 1927ء)۔
’’وہ ہمیں آہستگی سے مار رہے ہیں جبکہ ہم نہ لڑسکتے ہیں، نہ بھاگ سکتے ہیں‘‘۔
۔(کیووا قبائلی سردار۔ 1820ء۔1878ء)۔
’’واشنگٹن میں اسے ’’ثقافتی ادغام‘‘ کہا جاتا ہے۔ اوٹاوا میں ’’انڈینز کی ترقی‘‘ اور کیوبک میں مشرف بہ فرانسیسیت ہونا، لیکن ہم جو ان سب کا شکار ہیں اسے نسل کشی کہتے ہیں‘‘۔
۔(اوٹاوا قبائلی سردار۔ چیف یونیٹاک 1720ء۔1769ء)۔
’’جو کچھ ہمارے ملک میں کیا گیا ہے، نہ ہم ایسا چاہتے تھے نہ ہم نے ایسا کرنے کے لیے کہا تھا۔ سفید فام جب ہمارے ملک میں آئے ہیں اپنے پیچھے خونیں لکیر چھوڑ گئے ہیں۔ سفید فاموں نے ہم سے بہت سے وعدے کیے تھے، جتنے مجھے یاد ہیں اس سے بھی زیادہ، لیکن انہوں نے صرف ایک ہی وعدہ نبھایا، اور وہ یہ کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہماری زمین حاصل کرکے رہیں گے جو انہوں نے کرلی‘‘۔
۔(سیالکس قبائلی سردار۔ 1822ء۔1909ء)۔
’’میں نہیں جانتا کہ کیا کچھ ختم ہوچکا ہے، مجھے اپنے بڑھاپے کی بلندی سے ذبح کیے ہوئے بچے اور عورتوں کے کٹے پھٹے اجسام کے ڈھیر اس طرح نظر آتے ہیں جیسا کہ میں نوجوانی میں دیکھتا تھا۔ مجھے اس خون ملی مٹی میں ایک اور مُردہ چیز بھی نظر آتی ہے اور وہ ہیں لوگوں کے خواب۔ یہ بہت خوبصورت خواب تھے‘‘۔
۔(فلسفی اور دانش ور بلیک ایلک۔ 1863ء۔1950ء)۔
ہسپانوی مؤرخ لاس کیسس نے مغربی درندوں کی ایک اور ہولناک تصویر الفاظ میں کھینچی ہے۔ اس تصویر کو حقیقت کیا، الفاظ کے پیرائے میں بھی بمشکل ہی برداشت کیا جاسکتا ہے۔ لاس کیسس لکھتا ہے:۔
’’ہسپانویوں نے اُن بچوں کی ٹانگیں کاٹ دیں جو ان سے ڈر کر بھاگ رہے تھے۔ انہوں نے لوگوں پر کھولتا ہوا صابن انڈیلا۔ پھر وہ شرطیں لگا کر تلوار کے ایک ہی وار میں انسانی جسم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہوگئے۔ خونخوار کتوں کو سراسیمہ لوگوں پر چھوڑ دیا گیا جنہوں نے چشم زدن میں انہیں چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ کتوں کی کارگزاری پر انسانی خوراک کے طور پر نومولود بچوں کو ان کے سامنے پھینک دیا گیا۔‘‘ (’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘۔ صفحہ 218)۔
اس طرح کا ایک اور واقعہ ملاحظہ کرلیجیے:۔
’’ایک دن لاس کیسس کی موجودگی میں تین ہزار مردو زن قتل کیے گئے۔ جوان عورتوں کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ ہسپانویوں کے ہاتھوں ریڈانڈینز کا قتلِ عام ایک مسلسل تفریحی کھیل کے مترادف تھا۔ اس قتلِ عام کے محرکات میں لالچ، مذہبی جنون، جنسی آوارگی اور بے بنیاد احساسِ تفاخر شامل ہے‘‘۔
ایرک فرام نے اپنی کتاب The Anatomy of Human Destructiveness میں لکھا ہے کہ قدیم انسان اپنے دفاع میں دوسرے انسانوں کو قتل کرتا تھا، مگر جدید انسان یعنی مغربی انسان کے لیے دوسرے انسانوں کا قتل ایک کھیل ہے۔
بعض لوگ یہاں اس غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار ہوسکتے ہیں کہ ریڈانڈینز کی نسل کُشی کرنے والے ’’عام لوگ‘‘ ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ لوگ یورپی معاشروں کی ’’کریم‘‘ تھے۔ جارج واشنگٹن امریکہ کا بانی بھی تھا اور پہلا صدر بھی۔ وہ 1789ء سے 1797ء تک امریکہ کا صدر رہا، لیکن اُسے ریڈانڈینز سے سخت نفرت تھی۔ اس نے اپنے ایک خط میں لکھا:۔
’’ہماری آبادکاری کا تسلسل یقینی طور پر جانوروں (یعنی ریڈانڈینز) کو اس طرح ختم کردے گا جس طرح بھیڑیوں کو بالآخر موت آگھیرتی ہے۔ شکل و صورت میں مختلف ہونے کے باوجود دونوں کا انجام یکساں ہے‘‘۔
(Facing West by Richard drinnon۔ بحوالہ۔ ’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘۔ صفحہ 201)۔
جارج واشنگٹن نے ایک اور جگہ لکھا:۔
’’انڈینز بھیڑیے اور خونخوار تھے جو سفید فاموں سے مراعات کے حق دار نہیں تھے۔ وہ مکمل طور پر تباہ کیے جانے کے حق دار تھے۔‘‘
ایک اور مقام پر جارج واشنگٹن نے کہا: ’’ریڈ انڈینز میں انسانی صورت کے سوا کچھ بھی انسانی نہیں ہے۔‘‘ (صفحہ202)۔
یہاں آپ یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ یہ صرف ایک امریکی صدر کے خیالات ہیں۔ انڈریو جیکسن امریکہ کا ساتواں صدر تھا۔ وہ 1829ء سے 1837ء تک امریکہ کا صدر رہا۔ اس نے کانگریس کے نام ایک پیغام میں کہا:۔
’’اگر غیر مہذب (ریڈ انڈینز) مداخلت کریں تو تہذیب ایک ہاتھ میں بائبل کے دس احکامات اور دوسرے میں تلوار کے ساتھ ان کے فوری قتل کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘ (صفحہ 207)۔
امریکہ کے آٹھویں صدر مارٹن وان بیورون بھی ریڈ انڈینز سے شدید نفرت کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا:۔
’’کوئی ریاست اُس وقت تک مناسب ثقافتی، تہذیبی اور تمدنی ترقی نہیں کرسکتی جب تک کہ ریڈانڈینز کو زندہ رہنے کی اجازت ہے۔‘‘ (صفحہ 206)۔
ہرمن میل ول امریکہ کے ممتاز ادیبوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ناول ’’موبی ڈک‘‘ کو امریکی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ مگر امریکہ کا یہ ’’عظیم ادیب‘‘ بھی ریڈ انڈینز کی نفرت میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے ایک جگہ لکھا: ۔
’’ریڈ انڈینز سے نفرت موجود ہے اور یہ اُس وقت تک موجود رہے گی جب تک ریڈانڈینز موجود ہیں۔‘‘
ہورلیس گریلی کو 19 ویں صدی کے امریکہ میں سب سے بڑے رائے ساز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ وہ نیویارک ٹریبیون کا مدیر رہا۔ اس نے لکھا:۔
’’ریڈ انڈینز ایسی مخلوق ہیں جو انسانی فطرت کے معیار پر کم ہی پورے اترتے ہیں۔ یہ محض پیٹ کا غلام ہے۔ اور یہ نباتات پر زندہ رہنے والے جانور کی طرح ہے… ان لوگوں (ریڈ انڈینز) کو مرجانا چاہیے۔ ان کے لیے کوئی مدد نہیں ہے۔ خدا نے یہ زمین اُن لوگوں کو عنایت کی ہے جو اس پر غلبہ حاصل کرلیں اور اسے کاشت کریں۔‘‘ (صفحہ 211-210)۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام خیالات کی بنیاد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ہے: رنگ اور نسل کا تفاخر۔ اس تفاخر کو ہرمن میل ول نے ان الفاظ میں ظاہر کیا ہے:۔
’’امریکی خون کا ایک قطرہ بھی اُس وقت تک نہیں بہایا جاسکتا جب تک ساری دنیا کا خون نہ بہہ جائے، اس لیے کہ ہم ایک قوم نہیں ایک دنیا ہیں۔‘‘ (صفحہ 209)۔
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے مغرب کا تکبر اس کے تفاخر سے جنم لیتا ہے۔ لیکن مغرب جس رنگ اور نسل پرستی پر فخر محسوس کرتا ہے وہ صدیوں تک پستی اور درماندگی میں ڈوبی رہی ہے۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق ’’یورپ پر اسلام کے احسانات‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’قرونِ وسطیٰ میں یورپ کا بیشتر حصہ لق و دق، بیابان یا بے راہ جنگل تھا، کہیں کہیں راہبوں کی خانقاہیں اور چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں، جا بجا دلدلیں اور غلیظ جوہڑ تھے، لندن اور پیرس جیسے شہروں میں لکڑی کے ایسے مکانات تھے جن کی چھتیں گھاس کی تھیں۔ چمنیاں، روشن دان اور کھڑکیاں مفقود… آسودہ حال امراء فرش پر گھاس بچھاتے اور بھینس کے سینگ میں شراب ڈال کر پیتے تھے۔ صفائی کا کوئی انتظام نہ تھا، نہ گندے پانی کو نکالنے کے لیے نالیوں اور بدرئوں کا رواج تھا، گلیوں میں فضلے کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ چونکہ سڑکوں پر بے اندازہ کیچڑ ہوتا تھا، اور روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا، اس لیے رات کے وقت جو شخص گھر سے نکلتا، وہ کیچڑ میں لت پت ہوجاتا۔ تنگیِ رہائش کا یہ عالم تھا کہ گھر کے تمام آدمی اپنے مویشیوں سمیت ایک ہی کمرے میں سوتے تھے۔ عوام ایک لباس سالہا سال تک پہنے رہتے تھے، جسے دھوتے نہیں تھے۔ نہانا اتنا بڑا گناہ تھا کہ جب پاپائے روم نے سسلی اور جرمنی کے بادشاہ فریڈرک ثانی پر کفر کا فتویٰ لگایا تو فہرستِ الزامات میں یہ بھی درج تھا کہ وہ ہر روز مسلمانوں کی طرح غسل کرتا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں فرانس کے ممتاز سرجن اور ماہرِ علم البشریات رابرٹ بریفالٹ کی تصنیف ’’یوروپا‘‘ سے بھی ایک اقتباس پیش کیا جارہا ہے۔ رابرٹ بریفالٹ لکھتے ہیں:۔
’’غلیظ جسم اور میلے لباس کی وجہ سے جوئوں کی ایسی کثرت تھی کہ جب کنٹربری (برطانیہ) کا لاٹ پادری باہر نکلتا تھا تو اس کی قبا پر سیکڑوں جوئیں چلتی پھرتی نظر آتی تھیں۔ فقر و فاقہ کا یہ عالم تھا کہ عام لوگ سبزیاں، پتّے اور درختوں کی چھال اُبال کر کھاتے تھے۔ 1030ء کے قحط میں لندن کے بازاروں میں انسانی گوشت بھی بکتا تھا، اور فرانس کے ایک دریا ’’سائون‘‘ کے کنارے انسانی گوشت کی کتنی ہی دکانیں تھیں۔
جاگیرداروں کے قلعے ڈاکوئوں کے اڈے تھے، جو مسافروں پر چھاپے مارتے اور زرِ فدیہ وصول کرنے کے لیے انہیں پکڑ لاتے، اور حصولِ زر کے لیے وہ مختلف طریقے استعمال کرتے تھے۔ مثلاً پائوں کے انگوٹھوں کو رسّی سے باندھ کر الٹا لٹکادیتے، یا گرم سلاخوں سے جسم کو داغتے، یا گرہ دار رسّی کو سر کے گرد لپیٹ کر پوری طاقت سے مروڑتے۔
رومیوں نے دریائے رائن کے کنارے جتنے شہر آباد کیے تھے وہ رفتہ رفتہ سب اجڑ گئے، نویں صدی میں ان میں سے ایک بھی باقی نہیں تھا۔ ان کے کھنڈروں میں بھیڑیوں، ریچھوں اور خنزیروں کے گلے گھومتے نظر آتے تھے۔ لوگوں کی بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ ڈٹ کر کھاتے، تیز شراب پی کر ہنکارتے، غل مچاتے، فساد کرتے اور ہر روز حرام کاری کے نئے ریکارڈ قائم کرتے تھے۔‘‘
۔(’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘۔ صفحہ 301)۔
اہلِ مغرب خود کو جن تہذیبوں سے برتر سمجھتے تھے اور جن تہذیبوں کو انہوں نے حقیر جان کر مار ڈالا اُن میں سے ایک تہذیب ’’مایا‘‘ بھی تھی۔ اس تہذیب کی ترقی کا کیا عالم تھا، ملاحظہ کیجیے:
’’قدیم مایا کی ترقی یافتہ تہذیب کے دیرینہ آثار آہستہ آہستہ ظاہر ہورہے ہیں۔ مایا کی تاریخ 1500 قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے۔ 1500 تا 1000 (ق م) یورپ قرونِ مظلمہ کے دور سے گزر رہا تھا، وہ زمانہ مایا تہذیب کے عروج کا تھا۔ خوشحال شہروں اور تجارتی مراکز کا جال بچھا ہوا تھا اور موجودہ دور کے کولمبیا تک لوگوں کو ایک رشتے میں مربوط کیے ہوئے تھا۔
تمام جزیرہ نما اور ساحلی جزیرے عظیم الجثہ مایا اہرام اور سنگین عبادت گاہوں سے پٹے پڑے ہیں۔ فنِ تعمیر کے حیرت انگیز آثار شاہد ہیں کہ موجودہ دور کی تہذیب سے بہت پہلے مایا نے اپنی انجینئرنگ عبقریت سے فطرت کو مسخر کرلیا تھا، حالانکہ وہ پہیے جیسی ابتدائی ایجاد سے بے خبر تھے اور بار برداری کے لیے جانوروں کا استعمال نہیں جانتے تھے۔ ایسے اہرام بھی ہیں جن کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے ایک سو بیس مدارج طے کرنے پڑتے ہیں۔
مایا نے ریاضی کا ترقی یافتہ نظام دریافت کرلیا تھا۔ وہ باقی اقوام سے صدیوں پیشتر صفر کا استعمال جانتے تھے اور علومِ فلکیات کے ماہر تھے۔ علمِ نجوم میں مہارت کا اندازہ اس سے ہوگا کہ انہوں نے صحیح تقویم یعنی Calendar ایجاد کرلیا تھا، اور حیران کن تفصیل کے ساتھ اجرام فلکی کی رفتار کا اندازہ لگایا تھا۔ بیسویں صدی کی رصدگاہوں سے مایا کی رصدگاہوں کی مماثلت حیرت انگیز ہے۔ مشینی آلات کی مدد کے بغیر سائنس اور انجینئرنگ کے یہ کمالات مغربی تہذیب کی تکنیکی مہارت سے کسی طرح کم نہ تھے۔‘‘
۔(’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘۔ صفحہ 178-177) ۔
ان تمام حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کا تکبر اور تفاخر بے بنیاد ہے۔ رابرٹ بریفالٹ اپنی کتاب The Making of Humanity اور مائیکل مورگن ہملٹن اپنی تصنیف Lost History میں بتا چکے ہیں کہ آج مغرب کے پاس جتنے علوم ہیں وہ سب مسلمانوں کے دیے ہوئے ہیں، اور مسلمانوں کے بغیر مغرب، مغرب نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن ان تمام حقائق کے تناظر میں ایک سوال بہت اہم ہے: آخر مسلم معاشروں میں جو لوگ مغرب کی عظمت، پارسائی، امن پسندی، علم پروری، انسان دوستی، ایمان داری، تہذیب اور ترقی کے گن گاتے ہیں اُن کے پاس مغرب کی شان میں قصیدے پڑھنے کا کیا جواز ہے؟ مغرب شیطان ہے، اور اگر انسان کو شیطان اور مغرب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو اسے شیطان کا انتخاب کرنا چاہیے۔ کیونکہ شیطان کا شیطان ہونا ثابت ہے، مگر مغرب کا شیطان ہونا اربوں لوگوں پر عیاں نہیں ہے۔ اپنا ایک شعر یاد آگیا:۔