اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی آگ میں جلتا ہوا ہندوستان

پوری انسانیت کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اس تاریخ میں کبھی کسی قوم نے بیماری کو ’’جہاد‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ قرار نہ دیا، مگر ہندوستان کا پورا ہندو سماج مسلمانوں کے حوالے سے ’’کورونا جہاد‘‘ اور’’کورونا دہشت گردی‘‘ کے نعرے بلند کررہا ہے

ہندوستان مدتوں سے ’’معکوس ارتقا‘‘ یا Regressive evolution کی زد میں ہے۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سال کا جنوبی ایشیا ’’بھارت‘‘ تھا۔ انگریزوں کا جنوبی ایشیا ’’انڈیا‘‘ تھا۔ مگر گزشتہ 72 سال سے اب تک کا بھارت صرف ’’ہندوستان‘‘ ہے۔ ہزاروں سال پہلے کا بھارت ’’رام‘‘ کا بھارت تھا، مگر مودی کا ہندوستان ’’راون‘‘ کا ہندوستان ہے۔ رام بھارت کا ’’ہیرو‘‘ ہے اور راون بھارت کا ’’ولن‘‘ ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آج کروڑوں ہندو راون کے ہندوستان پر فخر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ڈارون کہتا ہے کہ انسان کا ارتقا یہ ہے کہ وہ بندر سے انسان بنا ہے۔ مودی کا ہندوستان کہہ رہا ہے کہ میرا ارتقا یہ ہے کہ میں ’’انسان‘‘ سے ’’شیطان‘‘ بن گیا ہوں۔
یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی، مگر اتنی طویل مدت میں انہوں نے ہندوئوں کے مذہب کو چھیڑا، نہ تہذیب کو ہاتھ لگایا… نہ ہندوئوں کو اُن کی تاریخ سے الگ کیا، نہ ہندوئوں کی زبان اُن سے چھینی… نہ انہیں معاشی اور سماجی اعتبار سے شودر بناکر کھڑا کیا۔ مگر ہندوئوں کی قیادت نے صرف 72 سال میں اسلام پر سیکڑوں حملے کیے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے پرسنل لا پر تیر چلائے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے فارسی اور اردو چھین لی ہے۔ انہوں نے 72 سال میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کُش فسادات کرا ڈالے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے بھارت کا ’’نیا شودر‘‘ بنادیا ہے۔

اسلام اور مسلمانوں سے ہندوئوں کی نفرت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ نتھورام گوڈسے نے گاندھی کو اس لیے قتل نہیں کیا کہ وہ بدکردار تھے۔ ممتاز مغربی مؤرخ اسٹینلے والپرٹ کی تصنیف Gandhi’s Passion کے مطابق وہ رات کو ننگی نوجوان لڑکیوں کے ساتھ سوتے تھے۔ نتھورام گوڈسے نے گاندھی کو اس لیے بھی قتل نہیں کیا کہ وہ بدعنوان تھے، بلکہ نتھو رام نے گاندھی کو اس لیے قتل کیا کہ اس کے نزدیک گاندھی مسلمانوں کے لیے ’’نرم‘‘ تھے۔ انہوں نے پاکستان کو قبول کرلیا تھا۔ گاندھی مسلمانوں کے لیے جتنے ’’نرم‘‘ تھے وہ تاریخ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ سرسید ہندو مسلم اتحاد کے علَم بردار تھے، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ گاندھی فارسی اور اردو کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں تو انہوں نے مسلمانوں سے کہاکہ تمہیں اپنا سیاسی مفاد عزیز ہے تو کانگریس میں نہ جائو، اپنی جماعت بنائو۔ گاندھی مسلمانوں کے لیے اتنے ’’نرم‘‘ تھے کہ ہندو شدھی کی تحریک چلا کر مقامی مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنارہے تھے اور 1930ء میں مولانا محمد علی جوہر گاندھی سے پوچھ رہے تھے کہ آپ شدھی کی تحریک چلانے والوں کو کچھ کیوں نہیں کہتے؟ ان حقائق کے باوجود نتھورام گوڈسے کو گاندھی مسلمانوں کے لیے ’’نرم‘‘ نظر آتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ بی جے پی نے اپنے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو صرف اس لیے بی جے پی سے نکالا کہ انہوں نے قائداعظم کے حوالے سے جو کتاب لکھی ہے اس میں انہوں نے قائداعظم کی تھوڑی سی تعریف کردی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بلاشبہ ہندوستان جناح کی وجہ سے تقسیم ہوا، مگر اس تقسیم کے ذمے دار نہرو اور سردار پٹیل بھی ہیں جنہوں نے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے جناح کے کسی منصوبے کو قبول نہیں کیا۔ بس اتنی سی بات پر جسونت سنگھ کو بی جے پی سے نکال باہر کیا گیا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بی جے پی کے ابتدائی رہنمائوں میں لعل کرشن ایڈوانی اہم ترین تھے۔ مودی سے کہیں زیادہ اہم۔ یہ ایڈوانی ہی تھے جنہوں نے بابری مسجد کی شہادت کی راہ ہموار کی۔ مگر آج لعل کرشن ایڈوانی بی جے پی میں کہیں بھی نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ سال پہلے ایڈوانی نے کراچی کا دورہ کیا تھا۔ وہ اپنے دورے میں قائداعظم کے مزار پر بھی گئے۔ اس سے بھی بڑا ’’جرم‘‘ انہوں نے یہ کیاکہ مہمانوں کی کتاب میں قائداعظم کی تعریف کردی۔ چنانچہ بی جے پی نے لعل کرشن ایڈوانی کو اُگل دیا، اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہیرو سے زیرو ہوگئے۔

تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ اندھی نفرت کی آگ میں جلنے والے جھوٹ بھی بہت بولتے ہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ جھوٹ ہی کو صداقت بنادیتے ہیں۔ بھارت کے ممتاز مؤرخ اور دانش ور عرفان حبیب نے ثابت کیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی نفرت میں جلنے والی ہندو قیادت اور ان کے کل پرزے تاریخی حقائق کو نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے مسخ کرتے رہے ہیں۔ عرفان حبیب نے لکھا ہے:
’’سب سے پہلے تو یہ سمجھیے، موجودہ شدت پسند بھارتی حکمران طبقے کا طریقِ واردات یہ ہے کہ وہ تاریخ کے نام پر جھوٹ بول کر اپنے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے علمِ تاریخ کو بھی اپنا آلہ کار بنا چکے۔ ریاست جموں و کشمیر ہی کو لیجیے۔ سنگھ پریوار (آر ایس ایس، بی جے پی وغیرہ) کے رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں ہندو بادشاہ ریاست جموں و کشمیر پر حکمرانی کرتے رہے، اس لیے یہ ریاست ہندو راشٹریہ کا ضرور حصہ بنے گی۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ ان لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں سال پہلے ہندوئوں نے ریاست میں بستیاں بسائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تین ہزار سال قبل وسطی ایشیا سے آنے والے قبائل نے کشمیر میں اوّلین انسانی بستیاں قائم کیں۔ یہ قبائل مظاہر پرست تھے اور بت پرست بھی۔ دو ہزار سال قبل بدھ مت کے نام لیوا بادشاہ کشمیر پر حکمرانی کرنے لگے۔ پھر شیوا دیوتا کے پیروکاروں نے وہاں حکمرانی قائم کرلی۔ بارہویں صدی کے بعد ریاست پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی۔ اس دوران یونانی اور افغان بھی کشمیر میں آتے جاتے رہے۔

بھارت کی جدید تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک ہندو انتہا پسند حکومتی ڈھانچے سے دور رہے، اکادکا فرقہ وارانہ فساد چھوڑ کر بھارتی معاشرے میں بالعموم رواداری اور برداشت موجود تھی۔ ہر رنگ، نسل اور مذہب کے لوگ مل جل کر رہتے۔ مگر 1980ء کے بعد ہندو انتہا پسندی نے تیزی سے فروغ پایا تو یہ ملک مذہبی دنگے فساد کا مرکز بن گیا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں بی جے پی نے حکومت سنبھال لی۔ تب سے پوری سرکاری مشینری یعنی فوج، انتظامیہ، عدلیہ، افسر شاہی اور پولیس میں انتہا پسندانہ ہندو نظریات سے متاثر مرد و زن اہم عہدوں پر تعینات ہوچکے۔ یہ لوگ علی الاعلان یا چوری چھپے بی جے پی اور آر ایس ایس کے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ انہی میں عدالتوں کے جج اور وکیل بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2014ء میں انتہا پسندوں کو دوبارہ اقتدار ملا تو عدلیہ ان کی مرضی کے فیصلے سنانے لگی۔ مثلاً مساجد میں بم دھماکے کرنے والے ہندو انتہا پسند رہا کردیے گئے۔ آسام میں نیشنل رجسٹر کی مہم چلانے کا حکم دیا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرڈالا، حتیٰ کہ بھارتی سپریم کورٹ کشمیر میں حکومتی ظلم و ستم روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکی۔ سچ یہ ہے کہ عدالتیں بھی انتہا پسندوں کے سامنے سرنگوں ہوچکیں۔
سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ 1949ء میں بابری مسجد پر قبضہ ناجائز تھا، اسی طرح 1992ء میں مسجد غیر قانونی طور پر ڈھادی گئی، اس کے باوجود اسے ازسرنو تعمیر کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ سراسر غلط اور نامنصفانہ فیصلہ تھا جس نے مسلمانوں ہی کو نہیں، پوری بھارتی قوم کو نقصان پہنچایا۔ بابری مسجد 1528ء میں تعمیر ہوئی۔ وہ مشرقی مغل فنِ تعمیر کا خوب صورت نمونہ تھی۔ یہ مسجد کسی اور ملک میں ہوتی تو حکومت بڑے اہتمام سے اس کی حفاظت کرتی، اسے تحفظ دینے کے لیے خاص اقدامات کیے جاتے۔ مگر بھارت میں مذہبی جنونیوں نے دیوانہ وار اسے ڈھا دیا۔ ڈھانے کا عمل پورے دو دن جاری رہا اور بھارتی فوجی بھی غنڈوں کو نہ روک سکے۔ بابری مسجد شہید کرنے کا عمل کھلی غنڈہ گردی تھی۔ اگر سپریم کورٹ کے جج انصاف پسند اور باضمیر ہوتے تو اس انہدام کو غیر قانونی قرار دے کر مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیتے۔ مسجد کے نیچے سے کسی قدیم عمارت کی بنیادیں نکل بھی آئیں تو یہ غیر متعلقہ معاملہ تھا۔ کیونکہ بابری مسجد شہید نہ ہوتی تو یہ بنیادیں بھی برآمد نہیں ہوپاتیں۔ بھارت شاید دنیا کا اکلوتا ملک ہے جہاں پوری حکومتی مشینری نے غنڈوں اور بلوائیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور ان کی مانگیں قبول کرلیں۔

سپریم کورٹ کے جج تاریخ دان نہیں ہوتے۔ اور بابری مسجد کیس کے فیصلے سے عیاں ہے کہ وہ علمِ تاریخ پر بہت کم دسترس رکھتے ہیں۔ فیصلے نے تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے علوم سے انصاف نہیں کیا۔ نجانے کیوں ان کی نگاہوں سے یہ سچ اوجھل رہا کہ مغل دورِ حکومت میں ایودھیا علاقہ اودھ کا صدر مقام بن گیا تھا۔ اور اس علاقے یا صوبے میں مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ اسی لیے انہوں نے نہ صرف ایودھیا میں مساجد تعمیر کیں بلکہ قریب ہی ایک نئے شہر (فیض آباد) کی بنیاد رکھی۔ لیکن سپریم کورٹ کے ججوں نے یہ مفروضہ گھڑلیا کہ مغل دورِ حکومت میں مسلمان بابری مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ یہ محض ایک خیالی بات اور ہوائی ہے جو ججوں نے اڑائی۔ ان ججوں نے پھر محکمہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین سے بھی تفتیش نہیں کی۔ ان ماہرین کی مہارت و علم کا یہ عالم تھا کہ وہ بابری مسجد کو بطور مسجد نہیں پہچان سکے اور پورے کیس میں اسے ’’متنازع عمارت‘‘ کہتے رہے۔ انہی سرکاری مؤرخین نے یہ نظریہ پیش کیاکہ ماضی میں بابری مسجد کے نیچے پچاس ستونوں والا (رام) مندر کھڑا تھا۔ حیرت انگیز طور پر وہ کسی ستون کی بنیاد بطور ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ بس مٹی کی ڈھیریاں دکھا کر انہیں بنیادیں بنادیا گیا۔
سپریم کورٹ نے بابری مسجد پر مسلمانوں کا حق اس لیے مسترد کردیا کہ مسلمان یہ ثابت نہیں کرسکے کہ 1857ء سے قبل وہاں نماز پڑھی جاتی تھی۔ جبکہ بابری مسجد (کے صحن) میں ہندو طویل عرصے سے رام کی پوجا کررہے تھے۔ یہ بات بطور ثبوت تسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ دے ڈالا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے ثبوت کی بنیاد پر ماضی میں تعمیر کردہ مذہبی عمارات کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ممکن ہے؟ سپریم کورٹ کے ایک جج نے فیصلہ لکھتے ہوئے لکھا: ’’ہندوئوں کا دھرم ہے، جس جگہ بابری مسجد تعمیر ہوئی وہاں شری رام نے جنم لیا تھا‘‘۔ گویا جج صاحبان نے فیصلہ سناتے ہوئے دیومالا کو حقائق پر ترجیح دی۔ جبکہ جادوگروں کی طرح ماضی کے واقعات بطور سچ بیان کیے جاتے رہے۔ کیا اب عدالتی فیصلے اسی انداز میں ہوں گے؟ تب تو بھارتی عدلیہ کا خدا ہی حافظ ہے۔

سچ یہ ہے کہ یہ محض خیالی بات ہے کہ بابری مسجد کی جگہ شری رام نے جنم لیا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ ایودھیا کو رام کی جنم گاہ قرار دینا کوئی پرانا نظریہ نہیں۔ یہ دعویٰ سب سے پہلے اسکندپران میں ملتا ہے۔ پروفیسر ٹی پی ورما، پروفیسر نارائن جھا اور دیگر ماہرینِ تاریخ تسلیم کرچکے کہ اسکندپران سولہویں صدی میں لکھا گیا۔ گویا تب تک بابری مسجد تعمیر ہوچکی تھی۔ مگر اسکندپران میں بھی یہ ذکر موجود نہیں کہ رام جی کے جنم استھان پر مسجد بنائی جاچکی۔ اس میں صرف یہ درج ہے کہ شری رام ایودھیا میں پیدا ہوئے۔ یہ درج نہیں کہ ان کا جنم استھان بابری مسجد کے مقام پر واقع ہے۔ دورِ جدید کے شدت پسند ہندو لیڈروں نے مسلسل پروپیگنڈے سے اپنے ناخواندہ عوام کے ذہنوں میں یہ نظریہ جما دیا کہ بابری مسجد ہی رام جنم استھان ہے۔ یہ نظریہ اتنا راسخ ہوچکا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج بھی اسے رد نہ کرسکے۔ علم آثارِ قدیمہ میں ریڈیائی کاربن اور دیگر سائنسی طریقوں سے جانا جاتا ہے کہ ایک شے کتنی پرانی ہے۔ مگر اب محض دیومالا کی بنیاد پر فیصلے ہونے لگے تو کوئی سچا و کھرا ماہرِ آثارِ قدیمہ عدالت کا رخ نہیں کرے گا۔ وہاں جھوٹ بولنا اُس کے نزدیک علمی بددیانتی ہوگی۔
علمِ تاریخ میں اثریاتی حقائق سامنے رکھ کر دلائل دیے جاتے ہیں۔ اگر یہ بہت تھوڑے ہوں تو تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن دیانت دار مؤرخ کبھی اثریاتی حقائق کے برخلاف نہیں جاتا۔ مثال کے طور پر آر سی موجمدار مشہور تاریخ داں گزرے ہیں۔ یہ فرقہ پرست دانشور تھے۔ (موصوف ہی یہ نظریہ سامنے لائے کہ ہندوستان میں مسلمان اجنبی تھے، اسی لیے مسلمانوں اور ہندوئوں کے مابین کبھی ہم آہنگی اور دوستی پیدا نہیں ہوسکی)۔ 1970ء میں آر ایس ایس نے آر سی موجمدار پر دبائو ڈالا کہ وہ تنظیم کے ترجمان رسالے ’آرگنائزر‘ میں ایک خصوصی مضمون تحریر کریں۔ مضمون میں دعویٰ کیا جائے کہ بھارت میں جو آثار اور عمارتیں مغل بادشاہوں سے منسوب ہیں وہ ان کی تعمیر کردہ نہیں بلکہ انہیں ہندو حکمرانوں نے تعمیر کرایا تھا۔ آرسی موجمدار نے یہ مضمون لکھنے سے انکار کردیا۔ آر ایس ایس کے شدت پسند لیڈر بہت جزبز ہوئے مگر موجمدار کا کہنا تھا کہ یہ دعویٰ کرنا علمی بددیانتی ہوگی جسے وہ کبھی نہیں اپناسکتے۔ آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو جماعتیں جھوٹ اور افسانوی قصوں کو ’’تاریخی حقائق‘‘ کا نام دے کر بھارتی قوم پر ٹھونس رہی ہیں۔ مثلاً دریائے سرسوتی کا قصہ ہی لیجیے۔ ممکن ہے کہ اس قسم کا وسیع و عریض دریا پچاس لاکھ سال قبل بہتا ہو۔ مگر یہ کہنا کہ صحرائے تھر میں محض پانچ ہزار سال پہلے سرسوتی بہہ رہا تھا، سراسر دیومالائی قصہ اور تصوراتی بات ہے۔

ماضی کے ہندوستان میں مختلف بت پرست گروہ آباد تھے۔ ان کے اپنے اپنے مخصوص دیوی دیوتا اور مذہبی رسم و رواج تھے۔ کوئی شیوا کا پرستار تھا، تو کوئی بدھا کو پوجنے والا۔ بہت سے ہندوستانی بیک وقت دو تین مذاہب کی پیروی کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد نے مقامی باشندوں کا طرزِ فکر بدل ڈالا۔ بت پرستوں نے دیکھا کہ مسلمان ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں، ان کے مذہبی اصول بھی معین و متعین ہیں۔ چنانچہ بت پرستوں کے بعض لیڈروں میں اس خواہش نے جنم لیا کہ سبھی مقامی باشندوں کو بھی ایک مذہب کے پلیٹ فارم پر جمع کردیا جائے۔ اس طرح ہندو مت کی بنیاد پڑی۔ گویا نئے مذہب کی تخلیق میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن آج ہندو مت شدت پسند رہنما اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تلواریں سونت کر کھڑے ہیں۔ یہ سراسر احسان فراموشی ہے۔‘‘
(سنڈے ایکسپریس، 16فروری 2020ء)
مذکورہ بالا تاریخی حقائق میں سبھی کچھ اہم ہے، مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندو انتہا پسندوں نے اپنے ایک اہم مؤرخ پر اس بات کے لیے دبائو ڈالا کہ وہ مغلوں کی تعمیر کی ہوئی عمارتوں کو ہندوئوں کی تعمیر کردہ عمارتیں قرار دے دے۔ ان عمارتوں میں تاج محل بھی ہے اور دہلی کا لال قلعہ بھی۔ سوال یہ ہے کہ تاج محل اور لال قلعہ کو کیونکر ہندوئوں کے کھاتے میں درج کیا جاسکتا ہے؟ تاج محل کا پورا ڈھانچہ مسجد کی طرز پر کھڑا کیا گیا ہے، اور مسجد کو کوئی بھی ہندو فنِ تعمیر کا نمونہ قرار نہیں دے سکتا۔ مگر ہندو انتہا پسند اسلام اور مسلمانوں کی نفرت میں اس حد تک اندھے ہیں کہ انہیں مسجد اور مندر کے ڈیزائن کا فرق بھی یاد نہ رہا۔ اصل میں ہندو بھارت کے چپے چپے پر موجود اسلامی تہذیب کے آثار کو مٹانا چاہتے ہیں۔ اس معاملے سے ہندو نفسیات کا ایک بہت گہرا مسئلہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ انسان کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ ’’بدترین غلام‘‘ اور ’’بہترین آقا‘‘ ہو۔ مسلمانوں کی تاریخ یہی ہے۔ وہ ہمیشہ بدترین غلام اور بہترین آقا رہے ہیں۔ مگر ہندوئوں کی تاریخ اس کے برعکس ہے۔ ہندو ’’بہترین غلام‘‘ اور ’’بدترین آقا‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔ ہندو ازم، ہندو تہذیب، ہندو تاریخ، ہندو نفسیات اور ہندو جذبات میں اگر جان ہوتی تو وہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں اور پونے دو سو سال تک انگریزوں کے غلام تھوڑی رہتے۔ بابر نے صرف 8 ہزار کے لشکر سے ہندوستان کو فتح کیا۔ انگریز صرف ایک لاکھ فوجیوں اور سپاہیوں کی مدد سے ہندوستان پر حکمرانی کرتے رہے۔ بارہ سو سال میں ہندو نہ مسلمانوں کا کچھ بگاڑ سکے اور نہ انگریزوں کو کوئی نقصان پہنچا سکے۔ وہ مسلمانوں ہی کے نہیں انگریزوں کے بھی بہترین غلام ثابت ہوئے، مگر 1947ء میں اقتدار ان کے ہاتھ میں آیا تو انہوں نے بارہ سو سال تک ’’بہترین غلامی‘‘ کے تجربے کا حساب برابر کرنے کا کام شروع کیا۔ ظلم ہر صورت میں شرمناک ہوتا ہے، مگر وہ ظلم شرمناک ترین ہوتا ہے جو کمزوروں اور مجبوروں پر کیا جائے۔ ہندو بہادر ہوتے تو مسلم بادشاہوں اور مسلم سلطنت سے لڑ کر دکھاتے، جس طرح 1857ء میں مسلمانوں نے انگریز سلطنت سے لڑ کر دکھایا، جس طرح مسلمانوں نے 1940ء سے 1947ء تک دنیا کی واحد سپر پاور اور ہندو اکثریت سے لڑ کر دکھایا، اور پاکستان حقیقت بن کر رہا۔ مگر جب تک مسلم سلطنت موجود تھی ہندو مسلمانوں کے آگے سر جھکائے کھڑے رہے۔ اب جبکہ مسلمان کمزور ہیں تو وہ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے درپے ہوگئے ہیں۔ یہ ہندو قیادت اور ہندو سماج کی بدباطنی کی انتہا ہے۔
پوری انسانی تاریخ میں آج تک کسی عظیم اکثریت نے اقلیت پر یہ الزام نہیں لگایا کہ اس اقلیت کے نوجوان Love Jihad کے تصور کے تحت اس کی لڑکیوں کو ورغلا کر ان سے شادی کررہے ہیں۔ مگر ہندوستان کی ہندو قیادت اور ہندو سماج کی یتیم الفکری کا یہ عالم ہے کہ وہ مسلم اقلیت پر الزام لگاتے ہیں کہ اس کے نوجوان Love Jihad کے تصور کے تحت ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر انہیں شادی پر آمادہ کررہے ہیں۔ ہندو انتہا پسندی کا ہندوستان میں جو عالم ہے اس کے دائرے میں کوئی مسلم نوجوان سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ زور زبردستی یا دھوکہ دہی کے ذریعے کسی ہندو لڑکی کو ورغلا کر اپنی بیوی بناسکتا ہے۔ ہماری دنیا میں محبت کی شادیاں بھی ’’دولت مرکز‘‘، ’’طاقت مرکز‘‘ اور ’’ذات مرکز‘‘ ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس نہ ہندوئوں سے زیادہ دولت ہے، نہ ہندوئوں سے زیادہ طاقت ہے۔ یہاں تک کہ ہندو مسلمانوں کو ملیچھ یا ناپاک تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کی ’’ذات‘‘ کبھی ہندو لڑکیوں کے لیے دلکشی کا سبب نہیں ہوسکتی۔ مگر ہندو سماج ان کھلے حقائق کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندو اپنے سماج کی کمزوری کا اعتراف کرنے کے بجائے مسلم دشمنی کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔

ہندو سماج کی کمزوری یہ ہے کہ ہندو ازم اور ہندو سماج میں عورت کی کوئی ’’اوقات‘‘ ہی نہیں۔ وہ نہ ماں باپ کی وراثت میں شریک ہے، نہ شوہر کے ترکے میں اس کا حصہ ہے۔ وہ خلع کا حق رکھتی ہے، نہ دوسری ’’شادی‘‘ کی مجاز سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو سماج میں جہیز ایک بہت بڑی لعنت بن گیا ہے۔ خواتین کی تکریم کے حوالے سے مسلم معاشرے کی حالت بھی اچھی نہیں، مگر ہندو سماج کے مقابلے پر مسلم معاشرے میں عورت کا بڑا مقام اور مرتبہ ہے۔ چنانچہ ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے شادی کرتی ہیں تو ان کے مال و دولت کی وجہ سے نہیں، ان کی طاقت کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ مسلم لڑکا ایک ہندو لڑکے کے مقابلے پر بہتر شوہر ثابت ہوگا، اور ’’مسلم سسرال‘‘ کا تجربہ ’’ہندو سسرال‘‘ سے کہیں زیادہ خوش گوار ہوگا۔ مگر ہندو سماج اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے کے بجائے مسلمانوں کے تعاقب میں نکلا ہوا ہے۔ بلاشبہ یہ ہندو سماج کی مسلمانوں سے اندھی نفرت کا ایک اور ثبوت ہے… ناقابلِ تردید ثبوت۔
امریکہ کے ممتاز ہفت روزہ ’ٹائم‘ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں پہلے ہی مسلمان ہونا خطرناک بات تھی کہ اس پر کورونا کی وبا بھی چلی آئی۔ پوری انسانیت کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اس تاریخ میں کبھی کسی قوم نے بیماری کو ’’جہاد‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ قرار نہ دیا، مگر ہندوستان کا پورا ہندو سماج مسلمانوں کے حوالے سے ’’کورونا جہاد‘‘ اور’’کورونا دہشت گردی‘‘ کے نعرے بلند کررہا ہے۔ ایک خبر کے مطابق بعض ہندو ایک ہندو خاندان کے گھر میں مزدوری کررہے تھے کہ ایک مزدور کو کھانسی آگئی۔ ایک ہندو عورت نے پوچھا کہ تمہیں کورونا تو نہیں؟ مزدور نے کہا ’’میں مسلمان نہیں ہوں‘‘۔ ایک مزدور کی کیا معلومات اور اُس کی کیا ذہنی سطح ہوسکتی ہے یہ بات راز نہیں۔ مگر بھارت کے ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی نفرت میں ان کے خلاف اتنا پروپیگنڈا کیا کہ ایک ہندو مزدور کو بھی یہ معلوم ہوگیا کہ مسلمان کورونا پھیلا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں تبلیغی جماعت کو سب سے پہلے نشانہ بنایا گیا۔ کہا گیا کہ دہلی کے علاقے نظام الدین میں اس کا اجتماع کورونا پھیلانے کا سبب بنا۔ حالانکہ اب یہ بات شہادتوں سے ثابت ہوچکی ہے کہ تبلیغی جماعت کا یہ اجتماع انتظامیہ کی اجازت سے ہورہا تھا، اور تبلیغی جماعت کے ذمے دار اس سلسلے میں پولیس سے مسلسل رابطے میں تھے، مگر کسی نے بھی تبلیغی جماعت کے اجتماع پر اعتراض نہ کیا، تاہم حتمی مرحلے میں تبلیغی جماعت کو نشانے پر رکھ لیا۔ تبلیغی جماعت غلط یا صحیح ایک غیر سیاسی تنظیم ہے۔ اس کے غیر سیاسی ہونے کا اندازہ اس واقعے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ اندراگاندھی نے جب 1977ء میں اقتدار بچانے کے لیے ایمرجنسی نافذ کی تو انہوں نے تمام سیاسی تنظیموں پر پابندی لگادی۔ کسی نے اندرا گاندھی سے کہاکہ آپ نے تبلیغی جماعت پر پابندی نہیں لگائی۔ اندرا گاندھی نے کہا کہ یہ جماعت یا تو قبر کے معاملات پر گفتگو کرتی ہے یا آسمان کے معاملات پر۔ ایسی جماعت بھلا کیونکر ہمارے لیے خطرناک اور پابندی کی مستحق ہوسکتی ہے! مگر بی جے پی کے عہد میں ہندوئوں نے تبلیغی جماعت کو بھی تقریباً ’’سیاسی‘‘ بنا کر کھڑا کردیا اور اُن سے ’’کورونا جہاد‘‘ اور ’’کورونا دہشت گردی‘‘ وابستہ کردی۔ یہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی انتہا کی بھی انتہا ہے۔ اس انتہا کی انتہا نے ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کی راہ ہموار کردی ہے۔ اطلاعات کے مطابق دہلی کے کئی علاقوں میں مسلم سبزی فروشوں کو ہندو علاقوں سے بھگایا جا رہا ہے اورسوشل میڈیاکے ذریعے ایسی ویڈیوز شیئر کی جارہی ہیں جن میں ہندوئوں کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ اپنے علاقے میں مسلمانوں کو نہ گھسنے دیں اور اگر کوئی سبزی فروش آئے تو پہلے اس کا شناختی کارڈ جسے وہ’’آدھار کارڈ‘‘کہتے ہیں دیکھیں، اگر وہ مسلمان ہے تو اسے فوراً وہاں سے بھگا دیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں14اپریل منگل کو دہلی میں مسلم سبزی فروش محمد سلیم کی ہڈی پسلی ایک کردی گئی۔ انگریزی ویب سائٹ The Citizen پر راجیو کھنہ کی ایک بہت بڑی اسٹوری شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ کس طرح بھارتی پنجاب اور ہماچل پردیش کے مسلم گوجروں (دودھ فروشوں) کا اقتصادی بائیکاٹ کردیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ لوگ دودھ کا بزنس کرتے ہیں، لیکن تبلیغی جماعت کے واقعے کے بعد ایک تو اُن سے دودھ نہیں خریدا جا رہا ہے، دوسرے اُن پر حملے بھی ہورہے ہیں۔ مجبور ہوکر بہت سے لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا ہے اور دوسری جگہ جاکر خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں بہت سے مسلم گوجر خاندانوں نے ہندوئوں کے حملوں کے باعث اپنا گھر بار چھوڑ دیا ہے۔ ایسی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مسلمانوں سے رابطہ رکھیں اور نہ ہی ان سے دودھ خریدیں، جس کے نتیجے میں ان سے دودھ لینے والا کوئی نہیں ہے، اورانہیںمجبوراً دودھ نہروں میں بہانا پڑرہا ہے۔ پٹھان کوٹ اور گورداس پور میں چاروں طرف یہ پیغام پھیلایا جا رہا ہے کہ کورونا پھیلنے کے ذمہ دار مسلمان ہیں، اس لیے ان کے ساتھ کوئی لین دین نہ کریں۔ جبکہ ہماچل پردیش کے چمبا میں مسلم گوجروں کا خاموش بائیکاٹ کردیا گیا ہے۔ سنڈلا، سلونی اور بانی کھیت میں مسلمان گوجروں سے کوئی بھی دودھ نہیں خرید رہا ہے۔ چمبا میں مسلمانوں کے ساتھ صورت حال یہ ہے کہ جو لوگ گھر گھر راشن پہنچا رہے ہیں اُن سے کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے گھروں میں راشن نہ دیں اور انہیں بھوکا پیاسا مرنے دیں۔ بنارس کے مسلم اکثریتی علاقے مدن پورہ کی ایک حاملہ خاتون فوزیہ شاہین دردِ زہ میں مبتلا ہوئی۔ اہلِ خانہ اسے بی ایچ یو اسپتال لے کر پہنچے، لیکن وہاں موجود طبی عملے کے سامنے بطور مسلمان اس کی شناخت ہوئی تو اسے کہاگیا کہ یہاں سے فوراً بھاگ جائو، تم لوگ کورونا لے کر چلے آئے ہو۔ مسلمان خاتون درد سے چیختی اور تڑپتی رہی مگر اسپتال میں داخلہ نہیں ملا۔
(روزنامہ 92 نیوز، 19 اپریل 2020ء)
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد بھی ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایسی فضا نہیں تھی کہ اذان پر بھی پابندی لگادی جائے۔ لیکن روزنامہ 92 نیوز کے مطابق مودی نے رمضان المبارک میں اذان پر پابندی لگادی ہے۔ کئی اضلاع میں مساجد پر تالے لگادیے گئے ہیں، یا مسلمانوں کو بتادیا گیا ہے کہ جس مسجد میں اذان کی آواز آئے گی اس کے امام کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ مساجد سے نہ صرف اذان دینا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے بلکہ سحری اور افطار کے اعلانات بھی بند کردیے گئے ہیں۔ کئی مساجد کے اماموں نے اذان دینے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں ہندو انتہا پسندوں کے حوالے کردیا جس سے 15 امام شدید زخمی ہوگئے ہیں۔
(روزنامہ 92 نیوز، 26 اپریل 2020ء)
کورونا کے بعد مساجد میں نماز پر پابندی تو کئی مسلم ممالک میں بھی عائد کی گئی، مگر بھارت نے اذان پر پابندی لگاکر بتایا کہ صرف اذان سے بھی کورونا پھیل سکتا ہے، یہاں تک کہ سحر اور افطار کے اوقات کے اعلان سے بھی کورونا کے پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ یہ صرف مسلمانوں سے نہیں اسلام سے بھی ہندو سماج کی نفرت کا اعلان ہے۔
کورونا نے نہ صرف یہ کہ امریکہ اور یورپ کی حقیقت کو طشت ازبام کردیا ہے، بلکہ بھارت کو بھی پوری طرح سے Expose کردیا ہے۔ روزنامہ دنیا اسپیشل کے مطابق نریندر مودی نے ملک بھر میں لاک ڈائون تو کردیا ہے لیکن اور کچھ نہیں کیا۔ علاج پر توجہ مرکوز کی، نہ کھانے پینے کا سامان مہیا کیا۔ رہائشی سہولتیں دیں، نہ فنڈز مہیا کیے۔ کرفیو لگا دیا لیکن مکانات میں پانی اور ٹوائلٹس کی شدید کمی ہے۔ باتھ روم گندے اور غلیظ ہیں، صفائی کے لیے سوئپر ہیں نہ پانی۔ پانی اکثر بند رہتا ہے۔ 60 کروڑ افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ کئی گھروں کے لیے محض ایک باتھ روم ہے۔ ہزاروں غسل خانے اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ہزاروں غسل خانوں کا کوئی دروازہ نہیں۔ دروازے لکڑی کے بنے ہوئے ہیں جن میں جگہ جگہ سوراخ ہوچکے ہیں۔ غسل خانوں میں تولیوں کی کمی ہے، تمام اہلِ خانہ ایک ہی تولیہ استعمال کرتے ہیں۔ کم سے کم 10 افراد ایک ہی تولیے سے جسم خشک کرتے ہیں۔ جب صابن ہفتوں تک نہیں ملتا تو سینی ٹائزر کے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بھارت میں صابن کا فی کس استعمال دنیا میں سب سے کم ہے۔ ہر باتھ روم میں ایک ہی بالٹی پڑی رہتی ہے، سب لوگ اسی سے اشنان کرلیتے ہیں۔ بالٹیاں دھونے کا کوئی انتظام نہیں۔ کئی برس ایک ہی بالٹی چلتی ہے۔ دہلی بھارت کا دارالحکومت ہے لیکن اس کے بغل میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ گڑگائوں کا علاقہ امریکی صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد شہرت حاصل کرگیا ہے۔ مشہورِ زمانہ ٹرمپ ٹاور اس کی ایک اور پہچان ہے۔ ٹاور کی دوسری طرف کالج کے کیمپس میں بھی صاف ستھرے واش روم نہیں ہیں۔ صابن نہیں رکھے جاتے۔ کالج کے ہر غسل خانے میں بھی ایک ہی بالٹی استعمال ہوتی ہے۔ بعض علاقوں میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ واش روم بھی ہیں، لیکن مردوں کے غسل خانوں کی حالت خواتین کے غسل خانوں سے کہیں خراب ہے۔
2011ء میں ہونے والے سروے کے مطابق بھارت میں 17 لاکھ خاندان بے گھر ہیں جن کے سر پر کوئی چھت نہیں، مسلمان اور دیگر اقلیتوں پر حملوں کے بعد سے بے گھر افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ 62 بڑے شہروں میں ایک ایک لاکھ بے گھر افراد کے لیے شیلٹر ہوم بنائے جائیں۔ لیکن نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو مسلمانوں کے قتلِ عام سے فرصت ملے گی تو یہ کام بھی ہوجائے گا۔ حکومت ہارس ٹریڈنگ سے ابھی ابھی فارغ ہوئی ہے جس کے بعد سے لاک ڈائون ہوگیا ہے۔
وہاں ایک کمرے میں کئی کئی لوگ ٹھنسے ہوئے ہیں۔ سانس لینا پہلے سے بھی دشوار ہوگیا ہے۔ کمروں میں بستروں کا درمیانی فاصلہ کم ہے، ساتھ ساتھ بچھے ہیں۔ چادریں گندی اور بدبودار ہیں۔ مہینے میں ایک آدھ بار ہی دھونے کا موقع ملتا ہے۔ نیویادعا (Navya Dua) کے ٹوئٹ کا حوالہ دینا مناسب ہوگا۔ وہ لکھتی ہیں ’’اسی مسئلے پر ایک اور ٹویٹ پیش خدمت ہے، ہم 40 سے زائد لوگوں کو ایک ہی کمرے میں ٹھونسا گیا ہے۔ ہال نما5کمروں میں 3 باتھ روم ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم سینی ٹائزر لیں، لیکن وہ ہمیں ماحول کیا دے رہے ہیں! دوستو یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔ بھارت وائرس کو روک نہیں سکتا بلکہ بڑھا سکتا ہے۔ قرنطینوں کی حالتِ زار پر سجھاتارائو (Sujatha Rao) نے روشنی ڈالی ہے، وہاں بھی موت کا رقص جاری ہے۔‘‘
ایک بڑے ادارے نے نریندر مودی کے کرفیو کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’نریندر مودی نے سیاست پر صحت کو قربان کیا۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت کو گرانے کی کوشش میں درجنوں لاکھ ہندوئوں اور مسلمانوں کی صحت کو دائو پر لگادیا ہے۔ یہ کسی بھی وقت کورونا وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ مئی کے وسط تک بھارت کو جینے کے قابل ممالک کی فہرست سے نکالے جانے کی امید ہے۔ اُس وقت تک بھارت میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 13 لاکھ ہونے کا اندیشہ ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا اسپیشل، 5 اپریل 2020ء)
بھارت خود کو جمہوریت کہتا ہے، اور جمہوریت کا تصور آزاد پریس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا، مگر ہندوستان میں آزاد پریس کو خواب و خیال ہوئے ایک عرصہ ہوچکا ہے۔ بھارت کے ممتاز صحافی اعجاز ذکا نے بھارت کے پریس کی اصلیت کو ظاہر کرنے کے لیے کسی مغربی دانش ور کا ایک فقرہ اپنے کالم میں نقل کیا ہے۔ فقرہ یہ ہے کہ بعض اخبار پرندوں کے پنجروں میں بچھانے کے کام آتے ہیں۔ مطلب یہ کہ بھارت کے اخبارات اب صرف پنجروں میں بچھانے کے لائق رہ گئے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی نفرت اور ہندوتوا کا عشق ان کی آزادی کو چاٹ چکا ہے۔ اس سلسلے میں نیویارک ٹائمز تک چیخ پڑا ہے۔ نیویارک ٹائمز میں جیفری گیٹل مین کا مضمون ’’بھارتی میڈیا پر پابندیاں‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں جیفری نے لکھا ہے:
’’میڈیا ون کے اینکر پرسن ونیش کنیرامن حسب ِمعمول 6 مارچ کوآن ایئر گئے، وہ ریاست کیرالہ میں اپنے چینل کے پچاس لاکھ ناظرین کو بھارت کے ایک معروف کامیڈین کی برسی اور دنیا میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی تازہ ترین صورت ِحال کے بارے میں بتانے والے تھے۔ ابھی ان کے پروگرام کو شروع ہوئے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ انہوں نے اپنے منیجنگ ایڈیٹر کو اسٹوڈیو فلور پر تیزی سے بھاگتے ہوئے دیکھا، جو پاگلوں کی طرح انہیں اشارے کررہا تھا۔ ’’میں سمجھا کہ شاید کوئی غلطی ہوگئی ہے‘‘۔ فوری طور پر اسٹیشن کا سیٹلائٹ سے لنک ختم کردیا گیا،کنیرامن کی تصویر غائب ہوگئی اور اس کی جگہ ٹی وی کی اسکرین نیلی ہوگئی۔ ایک پیغام کے ذریعے ناظرین کو بتادیاگیا کہ ابھی سگنل نہیں آرہے، ہم اس تکلیف پر آپ سے معذرت خواہ ہیں۔ مگر یہ کوئی ٹیکنیکل مسئلہ نہیں تھا۔ بھارت کی وزارت ِاطلاعات و نشریا ت کی طرف سے ملنے والے ایک حکم نامے کی وجہ سے ٹی وی چینل کی نشریات روک دی گئی تھیں۔ حکومت نے چینل کی نشریات اگلے 48گھنٹے کے لیے روکنے کا فیصلہ کرلیا تھا، کیونکہ اس نے فروری کی سب سے بڑی خبرکی کوریج کی تھی، یعنی نئی دلی میں مسلمانوں پر ہونے والے پُرہجوم حملوں کی خبر، جس سے ملک کے طول وعرض میں ایک بے چینی پھیل گئی تھی۔ حکم نامے میں لکھا گیا تھا کہ اس کوریج سے دلی پولیس اور R.S.Sکے لیے کڑی مشکلات پیدا ہوگئیں۔
بھارتی میڈیا انڈسٹری بہت وسیع ہے اور شاید دنیا کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ بھارت میں سترہ ہزار اخبارات شائع ہوتے ہیں، ایک لاکھ سے زائد میگزین شائع ہوتے ہیں، 178نیوز چینل ہیں اور درجنوں زبانوں میں بے شمار ویب سائٹ ہیں، ہزاروں کی تعداد میں فیس بک صفحات اپنے آپ کو نیوز پبلشرز کہتے ہیں۔ یوٹیوب ہر طرح کے مقامی بلیٹنز سے بھری رہتی ہے، جن میں رئیل اسٹیٹ سے لے کر بھارتی پولیس کے کئی قسم کے چھاپوں تک کی کوریج کی جاتی ہے۔ مگر وزیراعظم نریندر مودی کے وزیر ملک کے بڑے بڑے بزنس ٹائیکونز سے ملاقاتیں کررہے ہیں، جن میں ان پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ بھارت میں آزاد میڈیا کی حمایت کرنے سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور رفتہ رفتہ انہیں اپنی نشریات ختم کرنے پر مجبور کردیں۔ نریندر مودی کی حکومت نے میڈیا مالکان پر دبائو ڈال رکھا ہے کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافیوں کو ملازمت سے برطرف کرنے کا حکم دے دیں، اور انہیں یہ حکم بھی دیا ہے کہ وہ ایسا نفرت انگیز مواد نشر ہونے سے روک دیں جس سے نریندر مودی کی سیاسی جماعت کو پریشانی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو آن لائن اتحادیوں کی ایک فوجِ ظفر موج کی حمایت حاصل ہے، جوآزاد منش صحافیوں کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ ہراساں بھی کرتی ہے، خاص طور پرخواتین صحافیوں کا محاصرہ کرکے انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، غلیظ گالیاں دی جاتی ہیں اور اکثر ان کی عزت و آبرو کو خاک میں ملانے کی سنگین دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ بھارتی پولیس کی تفتیش کے مطابق 2017ء میں معروف صحافی اور ایک اخبار کی ایڈیٹر گوری لنکیش کے قتل میں بھی انہی ہندو قوم پرستوں کا ہاتھ ہے۔
بھارت کی بہت سی نیوز تنظیموں نے نریندر مودی کی حمایت شروع کردی ہے، کیونکہ انہوں نے اس بات کا بخوبی ادراک کرلیا ہے کہ اب بھارت میں سیکولرازم کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں رہی، اور نریندر مودی کے ہندو قوم پرستی کے جذبات اور اندازِ سیاست نے سیکولر سوچ کو شکست دے دی ہے۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ٹی وی اینکرز، جنہیں ری پبلک ٹی وی کے اینکر ارناب گوسوامی کی قیادت حاصل ہے، خود کو نریندر مودی کے حامی ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر زورآزمائی کرنے میں مصروف ہیں۔
چھوٹے شہروں اور قصبات میں رہنے والے صحافی بھی اس وقت حکومت کے زیرِ عتاب آچکے ہیں۔ ایک پارٹ ٹائم صحافی پون کمار جیسوال نے جو صحافت کرنے کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی موبائل فون شاپ بھی چلاتے ہیں، پچھلے اگست میں ایک اسٹوری بریک کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ کس طرح نریندر مودی کے پارلیمانی حلقۂ انتخاب ورناسی کے قریب واقع ایک اسکول میں غریب بچوں کو لنچ میں سوکھی روٹی اور نمک دیا جارہا ہے، جو حکومت کے نیوٹریشن رولز کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جیسے ہی پون کمار کی یہ ویڈیو وائرل ہوئی، ریاست کے ایجوکیشن افسر نے فوری طور پر اُس کے خلاف ایک شکایت کا اندرج کرادیا، جس میں پون کمار پر سازش کرنے، جھوٹے ثبوت فراہم کرنے اور دھوکہ دہی جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے، جن کی وجہ سے اسے سات سال قید کی سزا مل سکتی ہے۔ اسکول کے جس شخص نے یہ سارا مواد اور معلومات پون کمار کو مہیا کی تھیں، اسے بھی فوری طور پر گرفتار کرلیا گیا۔ پون کمار کو بھی یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اب اس کی گرفتاری کی باری آنے والی ہے۔ اس لیے وہ نئی دلی فرار ہوگیا جہاں وہ کئی ہفتے چھپا رہا۔ اس نے بتایا کہ میں اتنا خوفزدہ ہوگیا تھا کہ کئی مرتبہ میرے ذہن میں خودکشی کرنے کا بھی خیال آیا۔
(نیویارک ٹائمز۔ بحوالہ روزنامہ دنیا، 9 تا 10 اپریل 2020ء)
ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ ہندوستان کے علاقائی اور عالمی اتحادی امریکہ نے ہندوستان کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دے دیا ہے۔ امریکہ نے یہ اقدام اپنی ’’خواہش‘‘ سے نہیں، اپنی ’’مجبوری‘‘ سے کیا ہے۔ امریکہ ایسا نہ کرتا تو اُس کا عالمی امیج مزید تباہی سے دوچار ہوجاتا۔ امریکہ کی یہ مجبوری ظاہر کررہی ہے کہ ہندوستان مسلمانوں کے لیے حقیقی معنوں میں جہنم بن چکا ہے۔ بھارت گزشتہ 72 برسوں میں مسلمانوں کے لیے کبھی ’’جنت‘‘ نہیں رہا، مگر وہ جہنم بھی نہیں تھا۔ لیکن اب اس کے جہنم ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں رہا۔ بھارت کے ہندوئوں کا خیال ہے کہ وہ 25 کروڑ مسلمانوں کو جہنم میں ڈال کر اپنی جنت کو انجوائے کرسکتے ہیں، مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ 25 کروڑ بھارتی مسلمانوں کے جہنم پر عالمِ عرب کیا پاکستان بھی خاموش رہے گا تو یقیناً دستِ قدرت کام کرے گا، اور جب اللہ کا ہاتھ کام کرتا ہے تو تاریخ بدل کر رہ جاتی ہے۔ بھارت کی ہندو قیادت نے 72 سال کے ایک ایک لمحے میں ثابت کیا ہے کہ وہ اس اقتدار کے لائق نہیں جو آزادی کے بعد اسے حاصل ہوا۔ اور جب کوئی گروہ خود کو اقتدار کے لائق ثابت نہیں کرپاتا تو پھر اقتدار اُس سے چھن جاتاہے۔ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

مقبوضہ ریاست اور آئین ِ نو
بھارتی وزارتِ داخلہ کا نئے ڈومیسائل ایکٹ کا اعلان

حکومت ِ ہندوستان کی طرف سے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے لیے جاری کردہ نئے قوانین نے ریاستی باشندوں میں ہلچل مچا دی ہے، گزشتہ ماہ بھارتی وزارت ِ داخلی امور نے ڈومیسائل ایکٹ کا اعلان کرکے ریاست جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بعد آبادیاتی تبدیلی کی طرف قدم بڑھا دیا ہے۔
اپریل کے پہلے ہفتے میں جاری کردہ اعلانیے میں دہلی سرکار نے ڈومیسائل کا اجراء لازمی قرار دے دیا ہے۔ جو 15 سال سے ریاست میں مقیم ہیں یا جنہوں نے کسی بھی ریاستی تعلیمی ادارے سے میٹرک یا انٹر کا امتحان پاس کیا ہے، ایسے تمام افراد ڈومیسائل کے حصول کے بعد ریاست کے مستقل باشندے تسلیم کیے جائیں گے۔
اس قانون کا اعلان ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے 8ماہ بعد کیا گیا ہے، اس سے قبل گزشتہ برس 5 اگست کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے ریاست جموں و کشمیر کی ستّر سال سے تسلیم شدہ خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کردیا گیا تھا، آرٹیکل 370 کشمیر کے بھارت سے الحاق کی بنیاد تھا جو ریاستی ذمہ داران کو خارجہ پالیسی، معاشرتی، دفاعی اور مواصلاتی انتظامات کے علاوہ ہر شعبے میں آزادی دینا تھا، جبکہ 35A مقامی مقننہ کو مستقل ریاستی باشندوں کی تعریف کی اجازت دیتا، ریاستی مکینوں کو جائداد، نوکری اور تعلیم جیسے حقوق کی ضمانت بھی دیتا تھا۔
آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد وادی میں دنیا کی تاریخ کا طویل ترین لاک ڈائون کردیا گیا تھا، کمیونی کیشن بلیک آئوٹ نے ریاست کو 7ماہ تک دنیا سے الگ رکھا، اور اب جبکہ ریاست جموں وکشمیر دنیا بھر کی طرح کورونا وائرس جیسی وبا سے نبردآزما ہے ایسے قانون کا اعلان کردیا گیا۔
موجودہ صورتِ حال کے ذریعے نہ صرف تحریک آزادیِ کشمیر کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے، بلکہ دہلی سرکار کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کے لیے ظلم و سفاکی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، اور دوسری طرف یو این ایس سی اور او آئی سی جیسی قوتیں محض تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں۔
ڈومیسائل ایکٹ کے اعلان کے بعد بھی عالمی اداروں اور مسلم قوتوں کی جانب سے محض مذمتی ٹویٹس سامنے آئی ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ مقبوضہ وادی میں بسنے والے ہر مردوزن کی زندگی کو بھارتی آئین اور قانونی درندگی کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔
آرٹیکل370 اور 35A کی منسوخی تو پہلا قدم تھا، ڈومیسائل ایکٹ نے کشمیریوں کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا ہے، کیونکہ یہ ایکٹ غیر ریاستی باشندوں کو ریاست کا مستقل شہری بناکر اسرائیلی طرز پر مسلم آبادی والے خطوں کے جغرافیے کو تبدیل کردے گا، بی جے پی حکومت اپنے پارٹی منشور کے مطابق ایک طرف بھارتی مسلمانوں کے لیے شہریت کے قوانین تبدیل کرکے گریٹر ہندوستان کی طرف گامزن ہے، تو دوسری طرف کشمیر کی آبادیاتی تقسیم کے منصوبوں سے برصغیر میں ایک بار پھر ہندتوا نظریے کو پھیلانے کی کوشش کررہی ہے ۔
ایسی صورتِ حال میں جب ایک طرف دنیا کورونا سے لڑ رہی ہے، کشمیری اپنی بقاء کی جنگ ہارتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں، جبکہ عالمی قوتیں اور پاکستان بیانات کے سوا کشمیر اور کشمیریوں کے لیے کچھ کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔

Leave a Reply