کیا مغرب کی بالادستی ختم ہونے والی ہے؟
دنیا اب ایک بہت بڑی ’’انہونی‘‘ کے دور میں داخل ہوچکی ہے۔ یہ ایسی انہونی ہے جسے آج یا کل ’’ہونا‘‘ ہی تھا
اقبال نے کہا تھا: قومیں شاعروں کے دل میں پیدا ہوتی ہیں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں میں فروغ پاتی اور دم توڑتی ہیں۔ اقبال کی نظر میں شاعر کا بڑا مقام ہے۔ اقبال کی نگاہ میں وہ ’’ دانائے راز‘‘ ہے، ’’دیدہ بینائے قوم‘‘ ہے۔ چنانچہ یہ حیرت کی بات نہیں کہ مسلم برصغیر میں مغربی تہذیب کی سب سے شدید مزاحمت تین شاعروں نے کی، یعنی اکبر الٰہ آبادی، اقبال اور مولانا مودودیؒ۔ آپ مولانا کو شاعر قرار دینے پر حیران نہ ہوں۔ وہ اقبال کی اصطلاح میں ’’دانائے راز‘‘ بھی تھے اور ’’دیدہ بینائے قوم‘‘ بھی تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی نثر میں ایک ’’شاعرانہ جمال‘‘ بھی بہ درجۂ اتم موجود ہے۔ بلکہ اگر مولانا کی نثر کو ’نثر میں شاعری‘ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہاں ان باتوں کے بیان کا ایک سبب یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کا اصل جوہر وہ ہے، جو اکبر اور اقبال کی شاعری اور مولانا کے علمِ کلام میں ظاہر ہوا۔ ان باتوں کے بیان کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اکبر، اقبال اور مولانا مودودیؒ نے جس بصیرت اور دلیری کے ساتھ مغرب کی مزاحمت کی اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ یہ تینوں حضرات مغرب کی بالادستی کے خاتمے کے متمنی بھی تھے اور انہیں مغرب کی بالادستی کے خاتمے کا یقین بھی تھا۔ اکبر کی مزاحمتی روح اور بصیرت کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمایئے:۔
خدا کی ہستی میں شبہ کرنا اور اپنی ہستی کو مان لینا
پھر اس پہ طرّہ اس ادّعا کا کہ ہم ہیں اہلِ شعور ایسے
……٭٭٭……
مری ہستی ہے شاہد خود وجود ذاتِ باری کی
دلیل ایسی ہے یہ جو عمر بھر رد ہو نہیں سکتی
……٭٭٭……
روحانیت کے بدلے آنکھوں میں خاک ہے اب
اُس میں وہی وہی تھا اس میں ہمیں ہمیں ہے
……٭٭٭……
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اُڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
……٭٭٭……
علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا
……٭٭٭……
شانِ مذہب پہ رہا فلسفہ حیران مدام
اس قدر جوشِ جنوں اور اس اعزاز کے ساتھ
……٭٭٭……
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جنابِ ڈارون کو حضرتِ انساں سے کیا مطلب
……٭٭٭……
کتابِ دل مجھے کافی ہے اکبرؔ درسِ حکمت کو
میں اسپینسر سے مستغنی ہوں مجھ سے مِل نہیں ملتا
……٭٭٭……
عشق کو دل میں دے جگہ اکبرؔ
علم سے شاعری نہیں آتی
……٭٭٭……
یہاں کی عورتوں کو علم کی پروا نہیں بیشک
مگر یہ شوہروں سے اپنے بے پروا نہیں ہوتیں
ان شعروں میں اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، اسلامی معاشرے اور اسلامی فرد پر اکبر کا یقین بھی کلام کررہا ہے، اور مغربی تہذیب کی بے وقعتی بھی ان شعروں میں پوری طرح ظاہر ہورہی ہے۔ اقبال برصغیر میں مسلمانوں کے اصل جوہر کے ظہور کی اگلی منزل ہیں، اس لیے ان کا اعتماد اوربھی بڑھا ہوا ہے۔ اقبال کی ایک نظم کے چند شعر ملاحظہ کیجیے:۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہو گا
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
آگے بڑھنے سے پہلے اقبال کے دو شعر اور پڑھ لیجیے:۔
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
……٭٭٭……
نیا جہاں ہو رہا ہے پیدا وہ عالمِ پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا تھا قمار خانہ
اقبال کے ان تمام، بالخصوص آخری دو اشعار کو پڑھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ آج سے سو سال پہلے نہیں بلکہ Post Corona World کے حوالے سے لکھے گئے اشعار ہیں۔ اقبال اپنے آخری شعر میں کہہ رہے ہیں کہ نیا جہاں پیدا ہورہا ہے اور مغرب کی تخلیق کردہ وہ پرانی دنیا مر رہی ہے جسے مغرب کے جواریوں نے ایک جوا خانہ بناکر رکھ دیا تھا۔
اس سلسلے میں مولانا کی رائے اکبر اور اقبال سے بھی زیادہ واضح اور اعتماد سے لبریز ہے۔ مولانا نے 1946ء میں سیالکوٹ کے قریب اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:۔
’’ایک وقت آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا، سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی، مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا‘‘۔ (شہادتِ حق۔ از مولانا مودودی۔ صفحہ15)۔
مولانا کی پیشگوئی کا ایک حصہ 1991ء میں اُس وقت پورا ہوگیا جب کمیونزم ختم ہوگیا اور اس کی سب سے بڑی علامت سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب مغربی تہذیب اور اس کی تمام اہم علامتیں اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ مغرب کے زوال، اور بالادستی کے خاتمے کی بحث اب صرف اکبر، اقبال اور مولانا مودودی تک محدود نہیں… مغرب کے دانش وروں اور مغرب کے ذرائع ابلاغ میں اب تواتر کے ساتھ ایسا مواد شائع ہورہا ہے جو کم از کم ’’عالمِ پیر‘‘ کے مرنے کے گہرے اندیشے میں مبتلا ہوچکا ہے۔
لندن سے شائع ہونے والا ممتاز ہفت روزہ جریدہ The Economist مغرب کا اہم ترین فکری رسالہ ہے جو 175 سال سے تواتر کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ دی اکنامسٹ لبرل ازم اور سیکولرازم کا ترجمان بھی ہے اور اِن کے فروغ کا ذریعہ بھی۔ دی اکنامسٹ نے 15سے 21 دسمبر 2018ء کے شمارے میں دس صفحات پر مشتمل ایک طویل مضمون شائع کیا ہے۔ اس مضمون کی فکری اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ یہ مضمون مغرب کے 37 دانش وروں کی 37 کتابوں اور 12 دانش وروں کے 12مضامین کا نچوڑ ہے۔ مضمون کا عنوان ہے:۔
“Reinventing liberalism for the 21st Century”
یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ کسی چیز کی ’’ایجادِ نو‘‘ یا ’’تشکیلِ نو‘‘ یا اسے Reinvent کرنے کی ضرورت اُس وقت ہوتی ہے جب وہ چیز موجودہ حالت میں مُردہ یا بے معنی ہوچکی ہو، یا کم از کم وہ جان لیوا بحران میں مبتلا ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لبرل ازم یا تو مررہا ہے یا بدترین بحران میں مبتلا ہے۔
دی اکنامسٹ نے اپنے زیر بحث شمارے میں لکھا ہے کہ اپنے آغاز میں لبرل ازم سیاسی جمہوریت کے ساتھ اس طرح منسلک نہیں تھا کہ دونوں ایک دوسرے کا جزوِلاینفک نظر آتے۔ البتہ آج ایسا ہی لگتا ہے۔ قدیم زمانے کے لبرلز ایسے سفید فام تھے جو خود کو باقی ماندہ انسانیت سے برتر سمجھتے تھے۔ جان اسٹورٹ مل نے خواتین کے ووٹ کے حق کی حمایت کی، مگر دی اکنامسٹ نے ابتدا میں اس کی مخالفت کی۔ جان اسٹورٹ مل اور کئی دیگر مفکرین لوگوں کو جائداد کے بغیر ووٹ کا حق دینے کے خلاف تھے، ان کا کہنا تھا کہ اس طرح ’’اکثریت کی آمریت‘‘ جنم لے گی۔
اکنامسٹ نے صاف لکھا ہے کہ لبرل ازم کو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جو عروج حاصل ہوا تھا وہ مشکلات کا شکار ہے۔ عراقی مداخلت اور مشرقِ وسطیٰ میں ناکام ہونے والے دیگر منصوبوں نے لبرلز کی اَنا پرستی کا پول کھول دیا ہے۔ مالیاتی بحران چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اس کی بڑی وجہ ضابطوں سے بڑی حد تک آزاد مالیاتی بندوبست ہے۔ لبرل ماہرینِ معاشیات تجارت اور خودکاریت یا Automation سے انسانوں کو ہونے والے نقصانات پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ لبرل عالمی نظام موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنج کو سمجھنے اور اس کا جواب دینے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اسی طرح لبرل عالمی نظام ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ اپنے اداروں کو ہم آہنگ کرنے میں بھی ناکام ہوگیا ہے۔ لبرل مفکرین ان چیزوں پر بھی توجہ دینے کے لیے تیار نہیں جو معاشیات سے زیادہ اہم ہیں، مثلاً انسانوں کا مذہبی و لسانی تشخص۔ ان میں سے ایک خیال بھی ہمارا نہیں، سارے خیالات دی اکنامسٹ کے مضمون میں موجود خیالات کا ترجمہ ہیں۔
دی اکنامسٹ مزید لکھتا ہے کہ لبرل ازم نے جو دنیا پیدا کی ہے اس سے ایک بڑا مسئلہ آنے والے برسوں میں یہ ہوگا کہ دنیا کی صنعتی پیداوار دنیا کے پچاس بڑے شہری مراکز میں سمٹ جائے گی۔ اعداد و شمار کے مطابق یہ شہر عالمی پیداوار کا 60 فیصد مہیا کریں گے، جبکہ ان شہروں کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا صرف سات فیصد ہوگی۔ اس طرح طاقت اور دولت کا ارتکاز مزید ہولناک ہوجائے گا۔
دی اکنامسٹ نے لکھا ہے کہ تارکینِ وطن یا نقل مکانی کے مسئلے نے لبرل ازم کے بحران کو مزید سنگین کردیا ہے۔ دی اکنامسٹ کے مطابق اس وقت امریکہ کی آبادی کے 13 فیصد لوگ ایسے ہیں جو امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے۔ 1965ء کے امریکہ میں تارکینِ وطن کی تعداد صرف 5 فیصد تھی۔ یورپی ممالک میں بھی تارکین وطن کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے۔ اس وقت سویڈن میں تارکینِ وطن آبادی کا 19 فیصد ہیں۔ جرمنی میں غیر ملکی افراد مجموعی آبادی کا 11 فیصد اور اٹلی میں 5 سے 8 فیصد ہیں۔ یورپ میں تارکینِ وطن کے مسئلے نے ایسی حکومتوں کی راہ ہموار کی ہے جو لبرل ازم کی ضد ہیں۔ ان حکومتوں کو عرفِ عام میں فاشسٹ یا انتہائی دائیں بازو کی حکومتیں کہا جاتا ہے۔
دی اکنامسٹ نے لکھا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان اقدار کی تردید کررہے ہیں جن کی بنیاد پر NATO اور WTO وجود میں آئے۔ یہاں تک کہ انہیں اس امر سے بھی دلچسپی نہیں کہ ناٹو اور ڈبلیو ٹی او باقی بھی رہتے ہیں یا نہیں۔ نائن الیون کے بعد 30 فیصد امریکیوں کا خیال تھا کہ امریکہ کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور اسے دنیا کے دوسرے ممالک کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ 2016ء کے ایک سروے کے مطابق 57 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکہ صرف اپنی فکر کرے، دنیا کی نہیں۔ لبرل ممالک کی نئی نسل اپنی ’’عظمتِ رفتہ‘‘ کی بازیافت میں منہمک روس کے بارے میں کچھ نہیں جاننا چاہتی۔ اس کا یہی رویہ ابھرتے ہوئے چین کے بارے میں بھی ہے۔ 1980ء اور 1990ء کے بعد ابھرنے والے نوجوانوں کی صرف نصف تعداد کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ دنیا پر امریکہ کی فوجی برتری قائم رہے۔ دی اکنامسٹ نے لکھا ہے کہ لبرلز کا خیال یہ تھا کہ ’’آمریتوں‘‘ میں ایجاد اور اختراع کا کام اتفاقاً یا ایک آدھ بار ہی ہوتا ہے جیسا کہ سوویت یونین نے خلائی راکٹ Sputnik خلا میں بھیجا۔ لبرلز کے نزدیک ’’آمریتوں‘‘ میں ایجاد و اختراع میں کوئی تواتر نہیں ہوتا۔ تاہم چین نے لبرلز کے اس خیال کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔
دی اکنامسٹ کا خیال ہے کہ لبرل ازم کا حال اتنا ابتر ہوچکا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں لبرل ازم کے حوالے سے کئی مایوس کن کتب اور مضامین شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا عنوان ہے:۔
“Retreat of western liberalism”
یعنی ’’مغربی لبرل ازم کی پسپائی‘‘۔ دوسری کتاب کا عنوان ہے:۔
“Has The west lost it”
’’کیا مغرب نے لبرل ازم کو کھودیا ہے‘‘۔ دی اکنامسٹ کے بقول رسالوں میں اس طرح کے عنوانات کے ساتھ مضامین شائع ہورہے ہیں:۔
“Is democracy dying” یعنی ’’کیا جمہوریت مررہی ہے؟‘‘، “What is killing liberalism”۔ ’’لبرل ازم کو کیا چیز مار رہی ہے؟‘‘ دی اکنامسٹ نے لکھا ہے کہ لبرل ازم جس اعتماد کے ساتھ سر اٹھا کر چلتا تھا وہ کب کا رخصت ہوچکا، اور اب اس کی جگہ خود تشکیکی رویّے یا Self Doubt نے لے لی ہے۔
دی اکنامسٹ کا خیال ہے کہ لبرل ازم بحران میں مبتلا ہے مگر اس کی تشکیلِ نو ہوسکتی ہے۔ مگر مغرب میں ایسے اسکالر موجود ہیں جو صاف کہہ رہے ہیں کہ لبرل ازم کی موت واقع ہوچکی ہے اور اب اس مُردے کو زندہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے ہی ایک صاحب پیٹرک جے ڈینن (Patrick J.Deneen) ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی تصنیف “Why Liberalism Failed” کا ہر جگہ چرچا ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ روزنامہ ڈان کراچی نے بھی اس کتاب پر حال ہی میں تبصرہ شائع کیا ہے۔ تبصرہ نگار کے مطابق ڈینن نے لبرل ازم کی تباہی کی جو وجوہات بیان کی ہیں اُن میں سے دو بنیادی ہیں۔ ایک یہ کہ لبرل ازم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسان خودمختار وجود ہے، چنانچہ وہ فطرت سے الگ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انسان نے فطرت کو غیر سمجھ کر اُس کے خلاف جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ فرانسس بیکن اور ڈیکارٹ نے خیال ظاہر کیا تھا کہ جدید سائنس فطرت کو ہمارا محکوم، اور ہمیں اُس کا آقا بنا دے گی۔ اس رویّے سے مادی معنوں میں کئی کامیابیاں بھی ملیں، مگر اس سے وہ ماحولیاتی بحران بھی پیدا ہوا جس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ڈینن کے مطابق لبرل ازم کا تصورِ انسانیت بھی پست ہے۔ لبرل ازم انسان کو بے ضمیر اور قزاق سمجھتا ہے۔ ہوبس نے صاف کہا ہے کہ انسانیت طاقت کی کبھی نہ ختم ہونے والی خواہش رکھتی ہے، صرف موت ہی انسان کو اس خواہش سے نجات دلاتی ہے۔ لبرل ازم کے بانیوں نے انسان کی وحشت اور درندگی کا یہ علاج تلاش کیا کہ معاشرے میں لالچ کے مقابلے میں لالچ کو لاکھڑا کیا۔ انفرادی مفاد اجتماعی مفاد کے مقابل آگیا۔ نگرانی اور چیک اینڈ بیلنس کا ایک نظام وضع ہوا۔ مگر اب ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ نہ ہم فطرت سے الگ ہیں، اور نہ صرف نظریے کے ذریعے انسان کے لالچ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہ تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ فرد کی بڑھتی ہوئی آزادی نے روایت کو اتنا ضعف پہنچا دیا ہے کہ شادی، خاندان، کمیونٹی اور کلچر کا ادارہ منہدم ہوچکا ہے۔ مغرب نے حکومت کے اختیارات میں اضافے اور آزاد منڈی کے ذریعے معاملات پر قابو پانے کی کوشش کی، مگر دائیں اور بائیں بازو کی سیاست سے صورتِ حال بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوگئی۔ بدقسمتی سے لبرل ازم کے پاس ایسی قوت نہیں ہے جس کی مدد سے منہدم اداروں کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاسکے۔ ڈینن کے بقول آزادی کا روایتی (یعنی مذہبی) تصور یہ تھا کہ آزادی اپنی جبلت یا نفس سے آزادی کا نام ہے۔ گاندھی اکثر سوال کیا کرتے تھے کہ اگر ہم اپنے نفس کے غلام ہیں تو سیاسی آزادی کا کیا فائدہ؟ (ڈان کراچی، 14 اکتوبر 2018ء)۔
مسلمان سمجھتے ہیں کہ مغرب کے صرف سیاسی رہنما بدمعاش اور دہشت پسند ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کے دانش ور بھی دہشت و سفاکی میں مغرب کے سیاسی رہنمائوں سے کم نہیں۔ امریکہ جاپان کے خلاف دوبار ایٹم بم استعمال کرچکا، ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے ڈھائی کروڑ افراد کو ایٹم بم سے اڑانے کی دھمکی دے چکے، مگر مغرب کا ممتاز مفکر رالز کہتا ہے کہ لبرل سرمایہ داری کے منکر معاشرے کے لیے ایک بیماری کی حیثیت رکھتے ہیں، اور انہیں اس طرح کچل دینا چاہیے جس طرح مضر صحت کیڑوں کو کچلا جاتا ہے۔ مغرب کے ایک اور مفکر ڈربن کا فقرہ ہے:۔
“I am not ready to argue with any one who is not liberal. I am not going to argue with him, I am going to shoot him”۔
ترجمہ: میں ایسے کسی شخص کے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتا جو لبرل نہ ہو۔ میں اس کے ساتھ بحث نہیں کروں گا۔ میں اسے گولی مار دوں گا۔ (انقلابی عمل۔ ایک تجزیہ۔ صفحہ 39)۔
غور کیا جائے تو مذکورہ بالا تمام حقائق اس امر کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ مغرب کے فکری اور عملی نظام کی طبعی عمر پوری ہوچکی ہے اور اب وہ تیزی کے ساتھ اپنے انجام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اقبال اور مولانا مودودی ستارہ شناس نہیں تھے۔ انہوں نے مغرب اور کمیونزم کی موت کی آرزو یا انکشاف کیا تو اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ انسانی ساختہ یا Man Made نظام ہے، اور ایک دن آئے گا جب اس کی طبعی عمر پوری ہوجائے گی اور یہ اپنا وجود باقی رکھنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس معاملے کی ایک ’’داخلی منطق‘‘ بھی ہوتی ہے۔ بڑے لوگ جب اپنے باطن میں کسی نظامِ فکر کے لیے رتی برابر بھی کشش محسوس نہیں کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ نظامِ فکر اب باقی نہیں رہے گا۔ یہ بالکل ایسی بات ہے جیسے کسی کو کسی شخص کے چہرے پر پھیلی ہوئی مُردنی نظر آجائے اور وہ جان لے کہ اس کا وقت قریب ہے۔ ویسے بھی باطل کی عمر چھوٹی ہی ہوتی ہے۔ کمیونزم بھی باطل تھا اور مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام بھی باطل ہے۔ مغرب کے خدا، مذہب اور انسانیت کے خلاف جرائم اس کے سوا ہیں۔ یہ تمام باتیں یہی انکشاف کررہی ہیں کہ مغرب کی بالادستی کا زمانہ ختم ہوا، اور اب انسانیت ایک نئے مستقبل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ انسانیت کے نئے مستقبل کے ظہور میں ایک سال لگے گا یا پانچ اور دس سال لگیں گے اس بارے میں کچھ کہنا دشوار ہے۔ مغرب کا انہدام اب اتنے سامنے کی بات ہے کہ امریکہ کا ممتاز دانش ور چومسکی تک چیخ پڑا ہے۔
کورونا کے بعد کے منظرنامے کے حوالے سے نوم چومسکی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ہم تاریخ کے ایک انتہائی دور سے گزر رہے ہیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے اطراف موجود لاڈلے نہیں جانتے کہ ہم پاتال کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ نوم چومسکی نے مغرب کے عالمی معاشی نظام پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے، کیوں کہ یہ نظام آقا اور غلام بنانے کا نظام ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کا پھیلنا مارکیٹ سسٹم کی ناکامی ہے جو انتہائی سفاکی سے دنیا کے عوام کو بلکتا ہوا دیکھ کر بھی انجان بنا ہوا ہے۔ چومسکی نے لکھا ہے کہ شاید کورونا وائرس کے بعد دنیا کے عام لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ انہیں کس طرح کی دنیا کی ضرورت ہے‘‘۔
۔(روزنامہ جنگ کراچی۔ 18اپریل 2020ء۔ صفحہ 8)۔
چومسکی کے اس مضمون میں سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کی خواہش موجود ہے۔ چومسکی ایک ’’نئی دنیا‘‘ کو ابھرتا ہوا بھی دیکھنا چاہتا ہے، مگر وہ بے چارہ چونکہ خود لبرل ہے اس لیے یہ تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام منہدم ہوگا تو مغرب کی پوری فکر منہ کے بل گرے گی۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ اس کا ’’متبادل‘‘ اب مغرب سے نہیں ابھرے گا۔
کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے بعد مغرب کے ایک اہم اخبار Financial Times میں گیڈین ریکمین کا ایک مضمون شائع ہوا ہے، یہ Syndicated article ہے اور اسے روزنامہ جنگ نے ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں گیڈین ریکمین کیا کہہ رہا ہے۔ اس نے لکھا ہے:۔
’’امریکہ کا معاشی اور سیاسی نظام دونوں ہی لڑکھڑا رہے ہیں۔ چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے وائرس کی ترسیل کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔ چین میں موجود استحکام کو عظیم کساد بازاری اور امریکہ میں موجود شدید سیاسی بحران کے ساتھ یکجا کرکے دیکھا جائے تو یہ واضح طور پر ممکن ہے کہ کووڈ19- طاقت کی امریکہ سے چین منتقلی کا سبب بن سکتا ہے۔ امریکی زوال کے بارے میں یہ بحث یقیناً کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ وسیع پیمانے پر بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ امریکی بالادستی کا خاتمہ حقیقی اور ناگزیر ہے۔ ایک خطرہ یہ بھی موجود ہے کہ امریکی کرنسی دنیا کا اعتماد کھو دے گی۔‘‘ (روزنامہ جنگ۔ 20 اپریل 2020ء۔ صفحہ 5)۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ تیل کی منڈی پر امریکہ کی مکمل اجارہ داری ہے۔ لیکن کورونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں ایک ’’انہونی‘‘ ہوگئی، اور وہ یہ کہ امریکہ میں تیل کی منڈی کریش ہوگئی۔ اس پر روزنامہ ایکسپریس نے جو شہ سرخی تخلیق کی وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایکسپریس کی سرخی یہ تھی:۔
’’امریکی منڈی میں تیل مفت۔ ایک بیرل لینے پر 37 ڈالر بھی ملیں گے‘‘۔
یہ ایک ایسی سرخی ہے جو ایک ماہ قبل خواب میں بھی نہیں دیکھی جاسکتی تھی۔ یہ سرخی بتا رہی ہے کہ دنیا اب ایک بہت بڑی ’’انہونی‘‘ کے دور میں داخل ہوچکی ہے۔ یہ ایسی انہونی ہے جسے آج یا کل ’’ہونا‘‘ ہی تھا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہر صاحبِ نظر کو اس انہونی کے ’’ہونے‘‘ کا برسوں سے انتظار تھا۔
اگرچہ مغرب اور چین سے ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ ماہرین کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے ویکسین تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں، لیکن برطانیہ کے ممتاز جریدے ’’دی اکنامسٹ‘‘ نے اپنے حالیہ شمارے کے اداریے میں لندن کے امپیریل کالج کے ماہرین کے ایک ’’ماڈل‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ اس ماڈل میں کہا گیا ہے کہ اگر کورونا کو پھیلنے دیا گیا تو امریکہ میں اس سے 22 لاکھ اور برطانیہ میں 5 لاکھ اموات واقع ہوسکتی ہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر ماہرین نے کہا ہے کہ اگر وائرس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا تو امریکہ اور برطانیہ کی 80 فیصد آبادی کورونا کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔ (اداریہ دی اکنامسٹ، شمارہ 21 مارچ تا 27 مارچ 2020ء)۔
جیسا کہ ظاہر ہے مذکورہ بالا حقائق یا اعداد و شمار عام لوگوں نے پیش نہیں کیے، بلکہ یہ برطانیہ کے ممتاز طبی کالج کے ماہرین نے پیش کیے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا نے ابھی تک نہ کورونا کے ’’ممکنات‘‘ کو اور نہ اس کے ’’مضمرات‘‘ کو سمجھا ہے۔
دی اکنامسٹ کے اداریے میں چین کی معاشی زندگی کے چند حقائق بھی پیش کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر چین کے ماہرینِ معاشیات کا خیال تھا کہ اس سال چین کی صنعتی پیداوار میں گزشتہ سال کی نسبت صرف 3 فیصد کمی واقع ہوگی، مگر کورونا کی وجہ سے اس پیداوار میں 13 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ خوردہ فروشی کے بارے میں ماہرین کا خیال تھا کہ اس میں 3 فیصد کمی واقع ہوگی، مگر اس میں 20 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔ ماہرین کا تجزیہ تھا کہ چین میں Fixed Assets کے دائرے میں ہونے والی سرمایہ کاری میں صرف 4 فیصد کمی ہوگی، لیکن اس میں 24 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چین نے کورونا پر بہت جلد قابو پالیا، اس کے باوجود اُس کی معیشت کا یہ حال ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ، یورپی ممالک اور دیگر ممالک کی معیشتوں کا کیا حال ہوگا؟ کیا یہاں ہم ایک بار پھر اقبال کو یاد کرلیں۔ اقبال نے کہا تھا:۔