سرمایہ پرستی، انسان خوری، غربت، معاشی عدم مساوات، مہنگائی
لندن دنیا میں ’’کالے دھن‘‘ کو ’’سفید‘‘ بنانے کا سب سے بڑا مرکز ہے
اسلامی معاشرے میں انسان کی زندگی ’’خدا مرکز‘‘ ہوتی ہے، ’’اخلاق مرکز‘‘ ہوتی ہے، ’’محبت مرکز‘‘ ہوتی ہے، ’’اقدار مرکز‘‘ ہوتی ہے، ’’علم مرکز‘‘ ہوتی ہے، ’’آخرت مرکز‘‘ ہوتی ہے۔ غور کیا جائے تو سرمایہ دارانہ سماج اسلامی معاشرے کی ضد ہے۔ اس لیے کہ سرمایہ دارانہ سماج میں زندگی ’’سرمایہ مرکز‘‘ ہوتی ہے، ’’طاقت مرکز‘‘ ہوتی ہے، ’’بازار مرکز‘‘ ہوتی ہے، ’’ہوس مرکز‘‘ ہوتی ہے، ’’تعیش مرکز‘‘ ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ’’انسان خور‘‘ ہے۔ ’’معاشی عدم مساوات‘‘ کو فروغ دیتا ہے۔ غربت کو فروغ دیتا ہے۔ مہنگائی میں اضافے کا سبب ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان اپنے ’’تصورِ بندگی‘‘ سے پہچانا جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام چاہتا ہے کہ انسان سرمائے میں اضافے، طاقت میں بڑھوتری اور مادی آزادی میں اضافے سے پہچانا جائے۔ اسلام انسان کو ضرورت کے مطابق زندگی بسر کرنا سکھاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام تعیش کو انسان کی ضرورت بناکر کھڑا کردیتا ہے اور کہتا ہے یہی تعیش اصل زندگی ہے۔ نفس کے مراتب کے اعتبار سے بات کی جائے تو اسلامی معاشرہ ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کی علامت ہے، اور سرمایہ دارانہ سماج ’’نفسِ امارہ‘‘ کا استعارہ ہے۔
بعض لوگ سرمائے اور دولت کی اصطلاحوں میں فرق کرتے ہیں، مگر ان کا امتیاز تکنیکی ہے۔ دولت کی محبت کی ہر صورت سرمایہ دارانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ کچھ لوگ بازار اور مارکیٹ کی اصطلاحوں میں بھی فرق کرتے ہیں۔ مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بستی کا بہترین مقام مسجد ہے اور بدترین مقام بازار ہے۔ یہ ’’مارکیٹ‘‘ کی ’’ایجاد‘‘ سے بہت پہلے کی بات ہے، اور اس سے ظاہر ہے کہ بازار جب زندگی کا محض ایک جزو تھا تب بھی وہ مسجد کی طرح محترم نہیں تھا۔ اب جبکہ بازار پوری زندگی بن چکا ہے تو اب وہ اسلامی معاشرے میں کس طرح محترم ہوسکتا ہے؟ مگر یہ تو ایک تصوراتی یا Idealistic بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ہماری پوری زندگی ’’بازار مرکز‘‘ ہے۔ ہماری معیشت ’’منڈی کی معیشت‘‘ کہلاتی ہے۔ منڈی کی معیشت میں ہر شے ایک “Product” ہے… خیالات بھی، جذبات بھی، احساسات بھی، فکر بھی، فلسفہ بھی، یہاں تک کہ مذہب بھی۔ اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ہمارے ٹیلی وژن چینلز خصوصی رمضان ٹرانسمیشن کو ایک “Product” کے طور پر چلاتے ہیں۔ رمضان کے خصوصی پروگراموں کا ’’مواد‘‘ ضرور ’’مذہبی‘‘ ہوتا ہے مگر ان کی ’’روح‘‘ سرمایہ دارانہ ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے مسلم معاشروں میں سرمایہ دارانہ نظام کو ایک ’’فطری چیز‘‘ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ سرمایہ دارانہ نظام مغرب کی ایجاد ہے، اور مغرب اسے دو صدیوں سے کمزور اقوام کے استحصال کے لیے استعمال کررہا ہے۔ امریکہ کے ممتاز دانشور نوم چومسکی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں صاف کہا ہے کہ امریکی استعمار نے بہت سے ممالک کو ترقی کا آزادانہ ماڈل اختیار نہیں کرنے دیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ پوری دنیا پر امریکہ کی کثیرالقومی کمپنیاں چھائی ہوئی ہیں۔ چومسکی کے بقول 1950ء میں امریکہ کے منصوبہ سازوں کو خوف تھا کہ اگر مشرقِ بعید کے ملکوں مثلاً انڈونیشیا، تھائی لینڈ نے جاپان کا راستہ اختیار کرلیا تو یہ پورا خطہ اقتصادی طور پر امریکہ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ چومسکی کے بقول اصل مسئلہ دنیا پر سیاسی غلبہ ہے، اور سیاسی غلبہ معاشی غلبے کے تصور سے منسلک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ چلی کی ’’سماجی جمہوریت‘‘ ایک ’’متعدی بیماری‘‘ ہے جو علاقے کو اپنی گرفت میں لے سکتی ہے۔ چنانچہ امریکہ نے چلی پر اپنے پٹھو پنوشے کو مسلط کردیا۔ چومسکی نے انٹرویو میں کہاکہ اگر امریکہ 1940ء اور 1950ء میں ویت نام، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور برما سے کہتا کہ جائو تم اپنے ترقیاتی ماڈل کے مطابق ترقی کرو تو امریکہ کی کثیرالقومی یا ملٹی نیشنلز کبھی دنیا پر غالب نہ ہوتیں۔ اس وقت دنیا کی معیشت کا 50 فیصد امریکہ کی کثیرالقومی کمپنیوں کے نرغے میں ہے۔ چومسکی کے بقول عالمی پیداوار یا Global GDP میں امریکہ کا حصہ مسلسل کم ہوا ہے۔ 1945ء میں امریکہ عالمی پیداوار کا 45 فیصد مہیا کررہا تھا، 1970ء میں عالمی پیداوار میں امریکہ کا حصہ صرف 25 فیصد رہ گیا، جبکہ اِس وقت عالمی پیداوار میں امریکہ کا حصہ صرف 17 فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ چین کی ترقی سے خوف زدہ ہے، اور وہ چین کو گھیرنے کے لیے کوشاں ہے۔ چومسکی کے بقول امریکہ نے دنیا کے ساتھ جو کچھ کیا وہ کوئی ایسی بات نہیں جو صرف امریکہ سے مخصوص ہو، بلکہ جب برطانیہ عالمی طاقت تھا تو برطانیہ کے بادشاہ جارج سوم نے کہا تھاکہ نوآبادیات میں ری پبلکنز کا ابھار ایک ایسے ’’وائرس‘‘ کی طرح ہے جو پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے۔ (دی نیوز 27 جنوری 2020ء)
بہت کم لوگ یہ بات سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے امریکہ اور اُس کے سرمایہ دارانہ نظام کے کھیل کا حصہ ہیں۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام نے کمزور ملکوں اور کمزور معیشتوں کو 4 ہزار ارب ڈالر کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ پاکستان کا بیرونی قرض صرف 100 ارب ڈالر ہے، جبکہ 2018ء میں برازیل کے بیرونی قرضے 567.1 ارب ڈالر تھے۔ اسی عرصے میں میکسیکو کا بیرونی قرض 661.25 ارب ڈالر کی حدوںکو چھورہا تھا، جبکہ ارجنٹائن 280 ارب ڈالر کا مقروض تھا۔ امریکہ کی تاریخ ہے کہ اُس نے ہمیشہ اپنے مالیاتی اداروں کے قرض کو سیاسی اور معاشی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ امریکہ نے دنیا کے کسی کمزور ملک میں ایسے حکمرانوںکو نہیں چلنے دیا جنہوں نے امریکہ اور مغرب کی سیاسی یا معاشی مزاحمت کی۔ امریکہ نے ایران میں مصدق کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا، اس لیے کہ مصدق نے ایرانی تیل کی دولت کو قومیالیا تھا، امریکہ نے گوئٹے مالا میں اربینز کی حکومت کو ہٹایا، چلی میں الاندے کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا، انڈونیشیا میں سوئیکارنو کے خلاف سازش کی۔ امریکہ نے اب تک ڈھائی سو سال میں 223 بار فوجی مداخلتیں کی ہیں۔ اس وقت دنیا کے 150 سے زیادہ ممالک میں امریکہ کے 700 سے 800 فوجی اڈے موجود ہیں۔ (دی نیوز، 27 نومبر 2019ء)
سرمایہ دارانہ نظام کے ’’معاشی انصاف‘‘ کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ 1988ء سے 2011ء کے درمیان دنیا کے 10فیصد غریب ترین افراد کی آمدنی میں ہر سال صرف 3 ڈالر کا اضافہ ہوا، جبکہ دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد کی آمدنی میں 180 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ تھامس پکٹی نے اپنی معرکہ آرا تصنیف Capital in 21st Century میں تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ گزشتہ برسوں میں معاشی اعتبار سے نچلی سطح کی 50 فیصد آبادی کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، جبکہ ایک فیصد امیر لوگوں کی آمدنی میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ ایک اور تحقیق کے مطابق دنیا کے صرف 22 ارب پتیوں کی دولت براعظم افریقہ کی تمام خواتین کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے۔ بھارت میں صرف امریکہ اور چین سے کم ارب پتی پائے جاتے ہیں مگر بھارت کی 60 کروڑ آبادی خطِ غربت سے نیچے کھڑی ہے۔ (دی نیوز، 17 فروری 2019ء)
پاکستان کی سیاست اور دفاع ہی نہیں، پاکستان کی معاشی زندگی بھی گزشتہ 50 سال سے امریکہ کے قبضے میں ہے۔ ڈی ایچ لارنس نے کہا تھا کہ ہم اپنی جنس اور معاش کو شیطان کے حوالے نہیں کرسکتے۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے ہماری جنس اور معیشت دونوں کو عالمی شیطان امریکہ کے حوالے کیا ہوا ہے۔ مغرب کا اوریجنل تفریحی مواد اور اس کا چربہ ہماری نوجوان نسل کے جنسی جذبات کو سبوتاژ کررہا ہے اور امریکہ نے گزشتہ 50 سال سے ہماری معیشت کو اپنی بیساکھیوں کا محتاج بنایا ہوا ہے۔ ہمارے بیرونی قرضے 100ارب ڈالر کی حدود کو پار کرچکے ہیں۔ ان قرضوں سے نہ ہمارا صنعتی ڈھانچہ وسیع اور مستحکم ہوا، نہ ہماری صنعتی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، نہ ہماری برآمدات بڑھیں، نہ ملک میں روزگار کے مواقع بڑھے، نہ ہماری تعلیمی صورتِ حال بہتر ہوئی، نہ ملک کے اندر طبی سہولتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ہم آئی ایم ایف سے اب تک ایک درجن سے زیادہ خصوصی پیکیج لے چکے ہیں، مگر نہ آئی ایم ایف کے پہلے پیکیج نے ہمارے معاشی مسائل حل کیے، نہ تازہ ترین معاشی پیکیج ہمارے مسائل حل کررہا ہے۔ گزشتہ 50 سال میں صرف ہمارے بیرونی قرض میں اضافہ ہوا ہے۔ اس قرض کا سود اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہمارا نصف بجٹ قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہوجاتا ہے۔ یہی صورتِ حال رہی تو آئندہ دو تین سال میں ہمارے بجٹ کا 60 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوگا۔ ملک کے ممتاز ماہرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ آئی ایم ایف کا موجودہ پیکیج اپنی مدت پوری کرے گا تو ملک میں دو کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے جا چکے ہوں گے، 22 لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہوں گے، ہماری برآمدات اسی طرح منجمد ہوں گی جس طرح اب منجمد ہیں، مہنگائی میں اتنا اضافہ ہوچکا ہوگا کہ متوسط طبقہ بھی مہنگائی کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ کہنے کو فوجی اسٹیبلشمنٹ، نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں بڑے جھگڑے ہیں، مگر امریکہ کی سیاسی و معاشی غلامی پر ان تمام عناصر کے درمیان کامل اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ ہماری معاشی اور سیاسی خودمختاری کا یہ عالم ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنے ایجنٹ لاکر ہمارے اہم ترین عہدوں پر بٹھا دیے ہیں۔ اسی لیے بلاول زرداری نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آیا تو اُس نے پاکستان کے نمائندوں سے نہیں خود پاکستان میں موجود اپنے نمائندوں سے مذاکرات کیے۔ مگر ایسا پہلی بار نہیں ہورہا۔ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کے دور میں بھی یہی ہورہا تھا۔ آئی ایم ایف کے ایجنڈے کی مزاحمت نہ کسی جرنیل نے کی، نہ کسی سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت نے کی۔
قائداعظم نے کہا تھاکہ ہمیں نہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام قابلِ قبول ہے، نہ اشتراکیت کا معاشی ماڈل قابلِ قبول ہے، چنانچہ ہمارے معاشی ماہرین کو معیشت اور بینکاری کا اسلامی ماڈل وضع کرنا چاہیے۔ لیکن ہمارا حکمران طبقہ اسلام پر ایمان رکھتا تو اسلامی معاشی ماڈل تیار کرتا۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران طبقے نے تو سرمایہ داری کے ریاستی ماڈل کو بھی بروئے کار لاکر نہ دیکھا۔ حالانکہ چین نے اسی ماڈل کے ذریعے اپنے 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے، خود کو دنیاکی دوسری بڑی معیشت بنایا ہے۔ اس وقت چین کے زرِمبادلہ کے ذخائر 3000 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ چین کی بڑی آبادی اس کے لیے ’’بوجھ‘‘ تھی مگر چین نے بڑی آبادی کو اپنا ’’اثاثہ‘‘ بناکر دکھا دیا۔ مگر ہمارے حکمران ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ حالانکہ آبادی کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ آپ اسے علم و ہنر سے آراستہ کردیں تو بڑی آبادی ایک ’’امکان‘‘ ہے۔ چین اور بھارت نے اپنی آبادی کو ہماری آنکھوں کے سامنے ایک ’’امکان‘‘ بنایا ہے۔ مگر ہماری فوجی اور سول قیادت کی نااہلی نے ہماری بڑی آبادی کو ایک اندیشے میں تبدیل کردیا ہے۔ ہمارے حکمرانوںکو اپنی ذہنی پسماندگی کی وجہ سے خیال آتا ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہے تو کھانے والے منہ بھی بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہے تو سوچنے، تخلیق کرنے اور محنت کرنے والے بھی بڑھ رہے ہیں۔
حق کا کمال یہ ہے کہ وہ کامیاب ہو تو بھی خوب ہے، اور اگر ناکام ہو تو بھی اس کی کچھ نہ کچھ برکتیں انسانوں کی زندگی کا حصہ ضرور بنتی ہیں۔ باطل کی مثال اس کے برعکس ہے۔ باطل نظام کی ناکامی خطرناک اور کامیابی جان لیوا ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام جہاں جہاں کامیاب ہے وہاں وہاں اُس نے انسان کی زندگی کو ’’سرمایہ مرکز‘‘ بنا دیا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انسان سرمائے کا ’’خالق‘‘ ہے مگر وہ ہر جگہ اپنی ’’مخلوق‘‘ کا طواف کررہا ہے۔ انسان کی اس سے بڑی تذلیل کوئی نہیں ہوگی کہ اس کی تمام قدروقیمت کا تعین صرف سرمائے اور اس سے پیدا ہونے والی طاقت یا آزادی کی بنیاد پر ہونے لگے۔ اسلام میں فضیلتیں صرف دو ہیں: تقویٰ اور علم۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاشرے کا یہ حال ہے کہ تقویٰ اور علم کے عاشق ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے، البتہ طاقت اور سرمائے کے پجاری ہر گلی میں مل جاتے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں کہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں کی صورتِ حال ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ہر امت کا ایک فتنہ ہے، اور میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘۔ مدتوں سے امت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصے کے پاس مال کی فراوانی ہے، اور مال کی فراوانی اُس کے لیے ایک فتنہ بن گئی ہے۔ جو لکھ پتی ہے وہ کروڑ پتی بننا چاہتا ہے۔ جو کروڑ پتی ہے وہ ارب پتی کہلانا چاہتا ہے۔ اور ارب پتی خود کو کھرب پتی بنانے میں لگا ہوا ہے۔ یہ مال کی فراوانی سے پیدا ہونے والا ایک بہت بڑا روحانی، اخلاقی اور جذباتی بحران ہے۔ ہمارے روایتی معاشروں میں انسان یا تو خدا کے ساتھ محبت کرکے خوش ہوتے تھے، یا انسانوں کے ساتھ محبت کرکے خوش ہوتے تھے۔ یہ انسانوں کی ’’انسانیت‘‘ کا معیار تھا۔ اس معیار کے مطابق جو شخص سرمائے اور اس سے حاصل ہونے والی چیزوں سے خوش ہونے لگے اُس کا معاملہ اُس بچے جیسا ہے جو ’’کھلونوں‘‘ سے بہلتا اور خوش ہوتا ہے۔ بچپن میں کھلونوں سے بہلنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر کوئی جوانی، ادھیڑ عمر اور بڑھاپے میں بھی کھلونوں سے کھیلتا ہو تو وہ روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور اخلاقی طور پر بیمار ہے۔ بدقسمتی سے مسلم معاشرے ایسے بیماروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ امتِ مسلمہ کا دوسرا طبقہ وہ ہے جو مال کی قلّت میں مبتلا ہے، اور اس کے لیے مال کی قلت ایک فتنہ بن گئی ہے۔ یہ طبقہ پیدا ہونے سے مرنے تک صرف مال کمانے کی فکر کرتا رہتا ہے۔ یہ طبقہ علم حاصل کرتا ہے تو دولت کمانے کے لیے۔ یہ طبقہ محنت کرتا ہے تو صرف دولت کے لیے۔ یہاں تک کہ اس کی اکثر دعائیں بھی دولت اور معاشی کامیابی سے متعلق ہوتی ہیں۔ ہمارے ایک شناسا ایک دن کہنے لگے: اسلام نے مسلمانوں کو ربنا اٰتنا فی الدنیا جیسی دعا سکھائی جس میں دنیا اور آخرت دونوں کے حسنات کو جمع کردیا گیا ہے۔ اس سے اُن کی مراد یہ تھی کہ دولت بھی دنیا کے حسنات میں شامل ہے۔ ہم نے اُن سے عرض کیا کہ ہمارے بڑے صوفیہ اور بڑے علما نے کہا ہے کہ اس دعا میں دنیا کے حسنات سے مراد نماز اور علم ہیں، اور آخرت کے حسنات سے مراد جنت اور اس کی نعمتیں ہیں۔ یہ سن کر ہمارے شناسا کا چہرہ مرجھا گیا۔ اُن کا خیال تھا کہ ہم اپنی بات سے اُن کی ’’تفہیم‘‘ کی تصدیق کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کا مذہب تک دولت یا دنیا مرکز ہوچکا ہے۔ ہم دولت اور دنیا سے آگے کچھ سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں۔
اسلام مسلمانوں کے لیے ایک اوسط درجے کی معاشی زندگی کو پسند کرتا ہے۔ ایسی زندگی جس میں فرد اور خاندان کی بنیادی معاشی ضروریات پوری ہوجائیں اور انسان کسی کے آگے ہاتھ پھیلا کر اپنی خودی کو نیلام نہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا فوجی اور سول حکمران طبقہ 72 سال میں کروڑوں لوگوں کو اوسط درجے کی معاشی زندگی فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایسی زندگی میں روحانی، اخلاقی اور نفسیاتی اعتبار سے ہزار خطرات ہوتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ایسی عسرت سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی ہدایت کی ہے جو انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو لوگ غربت، عسرت اور تنگ دستی کی وجہ سے خودکشی کرلیتے ہیں وہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوگئے تھے۔ بلاشبہ وہ اپنے اس فعل کے خود بھی ذمے دار ہوتے ہیں مگر پاکستان کا حکمران طبقہ بھی ان کی خودکشی کا ذمے دار ہوتا ہے۔ یہ طبقہ نااہل اور امریکی ایجنٹ ہونے کے باوجود خود تو ’’فائیو اسٹار‘‘ زندگی بسر کررہا ہے، مگر اس نے سات آٹھ کروڑ لوگوں کی زندگی کو معاشی، سماجی اور نفسیاتی جہنم بنایا ہوا ہے۔ یہ طبقہ کروڑوں لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس کرنے میں لگا ہوا ہے۔
اسلامی معاشروں میں اسلامی تحریکوں، علما اور دانش وروں کا بنیادی فرض ہے کہ وہ مسلم عوام کو سرمایہ داری کی ’’کلیّت‘‘ کا شعور مہیا کریں۔ وہ مسلمانوں کو بتائیں کہ اسلام نہ ’’ترکِ دنیا‘‘ کی تعلیم دیتا ہے، نہ دنیا کے عشق میں مبتلا ہونے اور دنیا کا طواف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ وہ ’’ضرورت‘‘ کو نظرانداز نہیں کرتا، اور کسی بھی دائرے میں ’’تعیش‘‘ کو پسند نہیں کرتا۔ اس لیے کہ ضرورت پوری نہ ہو تو زندگی میںعدم توازن پیدا ہوجاتا ہے، اور انسان ’’عیش پرست‘‘ بن جائے تو وہ خدا اور اسلام کے کام کا نہیں رہتا۔ مولانا رومؒ نے جن کی شاعری کو فارسی کا قرآن کہا جاتا ہے، فرمایا ہے:۔
اہلِ دنیا کافرانِ مطلق اند
روز و شب در زق زق و دربق بق اند
اہلِ دنیا چہ کہین و چہ مہین
لعنت اللّٰہِ الیھم اجمعین
ترجمہ: اہلِ دنیا مطلق کافر ہیں۔ وہ روز وشب بکواس کرنے میں لگے رہتے ہیں اور دردِ سر ہیں۔ اہلِ دنیا چھوٹے ہوں یا بڑے، ان سب پر اللہ کی لعنت ہو۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی معاشرے کو ’’اہلِ دنیا‘‘ کا معاشرہ بننے سے روکنا اسلامی تحریکوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے، اور سرمایہ دارانہ معاشرہ اپنی نہاد میں اہلِ دنیا ہی کا معاشرہ ہوتا ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام صرف ہمارے یہاں نتائج پیدا نہیں کررہا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام امریکہ تک میں درکار نتائج نہیں پیدا کررہا۔ چند روز پیشتر ایک ممتاز ماہرِ معیشت سی این این پر کہہ رہی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد میں امریکی معیشت کی شرح نمو اچھی ہے مگر اس اچھی شرح نمو کا فائدہ صرف 10 فیصد امیر لوگوں کو ہو رہا ہے۔ معیشت کی بہتر شرح نمو 90 فیصد امریکیوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہی۔ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن کر ابھر چکا ہے، مگر بھارت میں بے روزگاری کی شرح نے گزشتہ 45 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات جوزف ای اِسٹگلز سرمایہ داری کے مخالف نہیں بلکہ اس کے پرستار ہیں، مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی تازہ ترین تصنیف People, Power, and Profits! Capitalism for an Age of Discontent میں لکھا ہے کہ امریکہ نے اقتصادی شرح/ نمو میں کمال کیا ہو یا نہ کیا ہو، مگر آمدنی کی عدم مساوات میں کمال کیا ہے۔ ان کے بقول ترقی یافتہ ملکوں میں سب سے زیادہ اقتصادی عدم مساوات امریکہ میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’اقتصادی کیک‘‘ میں اُن لوگوں کا حصہ سب سے زیادہ ہے جو سب سے زیادہ امیر ہیں۔ اسٹگلز نے لکھا ہے کہ نیولبرل اقتصادیات ’’مقابلے‘‘ کی بات تو کرتی ہے مگر وہ ضابطوں میں نرمی پر بھی بہت اصرار کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے سرمایہ داروں کو استحصالی اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں۔ اسٹگلز کے بقول جن معاشروں میں دولت اور منڈی کی طاقت کا ارتکاز ہو وہاں حقیقی جمہوریت موجود نہیں ہوسکتی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہونے کے باوجود اسٹگلز نے لکھا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو خود سرمایہ دارانہ نظام سے بچانے کی ضرورت ہے۔
(روزنامہ ڈان۔23 فروری 2020ء)
سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کے دائرے میں کیسی کیسی جعل سازیاں اور معاشی بداعمالیاں ہورہی ہیں۔ معروف مغربی صحافی نکولس ولسن کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام “Dirty Money” پر انحصار کرتاہے۔ اس کے بقول لندن دنیا میں ’’کالے دھن‘‘ کو ’’سفید‘‘ بنانے کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ لندن میں ہر سال 20 ہزار 125 ارب ڈالر کی Money Laundring ہوتی ہے۔ نکولس ولسن کے مطابق اگر لندن میں ہونے والی منی لانڈرنگ رک جائے تو پوری عالمی معیشت منہ کے بل گر جائے گی۔ (دی نیوز، 18 جنوری 2020ء)
سرمایہ دارانہ نظام کی یہی بدباطنی ہے شاید، جس کی وجہ سے امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار برنی سینڈرز نے ایک بار کہا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی خباثت کا نتیجہ ہے کہ امریکہ کے 40 فیصد لوگوں نے ایک سروے میں صاف کہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے پر انہیں سوشلزم کیا، کمیونزم بھی قابلِ قبول ہے۔ حالانکہ سوشلزم، کمیونزم خود ایک انسانی ساختہ شیطانی نظام تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے صاف کہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سے پیدا ہونے والے معاشرے میں کوئی شخص نفسیاتی صحت کا حامل نہیں ہوسکتا، اس پر طرہ یہ کہ جو شخص بیمار ہوتا ہے اُس کی مکمل صحت یابی ممکن نہیں ہوتی۔