مقبوضہ کشمیر میں بھارت اور فلسطین میں امریکہ اور اسرائیل کا رقصِ ابلیس

مسلمان حکمران کیا کررہے ہیں؟

امتِ مسلمہ 57 آزاد ریاستوں پر مشتمل ہے۔ اس کی آبادی ایک ارب 60 کروڑ ہے۔ اس کے پاس تیل کے معلوم ذخائر کا 60 فیصد اور گیس کے ذخائر کا 70 فیصد ہے۔ امتِ مسلمہ کے پاس تقریباً دو کروڑ مربع کلومیٹر رقبہ ہے۔ دنیا کی چار اہم ترین بندرگاہیں اور آبی راستے امت کے پاس ہیں۔ دنیا میں اگر کوئی امت حقیقی معنوں میں عالم گیر ہے تو وہ امتِ مسلمہ ہے۔ مگر امتِ مسلمہ کے بادشاہوں، جرنیلوں اور سیاسی حکمرانوں نے امتِ مسلمہ کے ’’ڈائناسار‘‘ کو ’’چیونٹی‘‘ بنادیا ہے۔ امتِ مسلمہ انسانیت کی ایک ’’امید‘‘ ہے، مگر مسلم دنیا کے حکمرانوں نے امتِ مسلمہ کو ایک ’’مایوسی‘‘ بناکر رکھ دیا ہے۔ امتِ مسلمہ ایک ’’نغمہ‘‘ ہے، مگر مسلم دنیا کے حکمرانوں نے اسے ایک ’’نوحے‘‘ میں ڈھال دیا ہے۔ اس نوحے کا ایک اظہار ہماری نظم ’’خودکلامی‘‘ ہے۔ یہ نظم اُس وقت لکھی گئی جب امریکہ نے افغانستان پر قبضے کے بعد قندوز پر ہولناک بمباری کی۔ نظم یہ ہے:۔

رات ہے اور بہت کالی ہے
سانس لینے میں بھی
احساسِ زیاں ہے شامل
سینہ کوبی کے لیے ہاتھ نہیں ہیں جیسے
دل کی دھڑکن
کسی ماتم کی طرح لگتی ہے
حال فردا کا ہے منکر ایسا
جیسے منکر ہو خدا کا کوئی
کس قدر دھند ہے بغداد سے غرناطہ تک
یہ مرے ہاتھ میں
دِلّی ہے کہ ڈھاکا
یا پھسلتی ہوئی ریت؟؟؟
جسم تو جسم ہے
احساس بھی قندوز ہوا جاتا ہے
کند ہتھیار ہوئی زود فراموشی بھی
کتنے دیرینہ رفیقوں کا یہی عالم ہے
چیخنے تک سے ہویدا کوئی فریاد نہیں
ایسا لگتا ہے کہ اب عالمِ خوں بستہ میں
خودکلامی کے برابر کوئی ایجاد نہیں

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر اور ارضِ فلسطین بھی امتِ مسلمہ کا نغمہ تھے، مگر مسلم دنیا کے حکمرانوں نے انہیں بھی نوحہ بنادیا ہے۔ بدقسمتی سے کشمیر میں بھارت، اور فلسطین میں امریکہ اور اسرائیل کے رقصِ ابلیس نے اس نوحے کی المناکی کو ہزاروں گنا بڑھا دیا ہے۔
تقسیمِ برصغیر کے بنیادی فارمولے کے اعتبار سے پورا کشمیر پاکستان کا حق تھا، اس لیے کہ کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ تھا۔ لیکن انگریزوں اور بھارت کی ملی بھگت کی وجہ سے کشمیر پر بھارت نے فوج کشی کے ذریعے قبضہ کرلیا۔ اس سلسلے میں نہرو اور لیڈی مائونٹ بیٹن کے معاشقے نے بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کو پنڈت جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ میں لے گئے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں نے بھارت اور پاکستان کی قیادت کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ رائے شماری کے ذریعے اس بات کا تعین کریں کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
مگر بھارت نے گزشتہ 72 سال میں کبھی کشمیر میں استصوابِ رائے کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ بھارت کی ہندو قیادت نے خود آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو ’’خصوصی علاقہ‘‘ قرار دیا اور تسلیم کیا کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے اور اسے اس طرح نہیں چلایا جا سکتا جیسے کہ بھارت کے دیگر علاقوں کو چلایا جاتا ہے۔ لیکن اب نریندر مودی نے آئین کی دفعہ 370 کو خود ہی ختم کرڈالا۔ لیکن بھارت نے اہلِ کشمیر پر ان تمام مظالم سے بڑھ کر یہ ظلم کیا کہ انہیں پُرامن احتجاج کے حق کیا، جینے کے حق سے بھی محروم کردیا۔ چنانچہ گزشتہ 20 سال کے دوران بھارت نے ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کردیا۔ دس ہزار مسلم خواتین کو عصمتوں سے محروم کردیا۔ ہزاروں لوگوں کو ’’لاپتا‘‘ کردیا۔ ہزاروں کشمیری جیلوں میں موت سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ بھارت کی شقی القلبی کی انتہا یہ ہے کہ اُس نے پیلٹ گنوں کے استعمال کی انتہا کے ذریعے سیکڑوں نوجوانوں اور بچوں کو بینائی سے محروم کردیا۔ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں ہمارے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کو محاصرے کی زندگی بسر کرتے ہوئے چھے ماہ ہوگئے ہیں۔ محاصرے کا ایک گھنٹہ بھی ایک دن محسوس ہوتا ہے، چنانچہ کشمیر میں چھے ماہ کا محاصرہ اہلِ کشمیر کو چھے سال کا محسوس ہورہا ہوگا۔ ہم نے گزشتہ ہفتے انہی کالموں میں واشنگٹن پوسٹ کی صحافی پامیلا کانسٹیبل کا یہ فقرہ نقل کیا تھا کہ کشمیر سوئٹزرلینڈ ’’دکھائی ‘‘ دیتا ہے مگر غزہ ’’محسوس‘‘ ہوتا ہے۔ اس فقرے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمیں عرض کرنا ہے کہ بھارت کشمیر میں ملک ’’دکھائی‘‘ دیتا ہے مگر شیطان ’’محسوس‘‘ ہوتا ہے۔
کشمیر کے حوالے سے بھارت کے ظلم کا ایک پہلو یہ ہے کہ اُس نے آج تک پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر ’’بامعنی مذاکرات‘‘ نہیں کیے۔ بھارت پر جب بھی بین الاقوامی دبائو آیا وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے بیٹھ گیا، مگر وقت گزرتے ہی مذاکرات کی میز سے اٹھ گیا۔ ہمیں یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر مذاکرات کے ایک دو نہیں 9 ادوار ہوئے، مگر نو ادوار کے بعد بھارت مذاکرات کی میز سے اس طرح غائب ہوا جس طرح گدھے کے سر سے سینگ۔ پوری پاکستانی قوم جانتی ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے بھارت کے ساتھ کشمیر پر آگرہ میں جو مذاکرات کیے وہ کشمیر کاز سے ’’غداری‘‘ کے سوا کچھ نہ تھے، مگر جنرل پرویزمشرف کی کشمیر سے غداری بھی بھارت کے دل کو موم نہ کر سکی اور آگرہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔ ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو کشمیر کے حوالے سے بھارت حقیقی معنوں میں ایک ’’شیطانی ریاست‘‘ بن کر سامنے آتا ہے۔ ایسی ریاست جو اپنے ظلم کی وجہ سے اپنی بقا اور سلامتی کا ’’اخلاقی جواز‘‘ کھو چکی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے بھی کشمیر کے حوالے سے اہلِ پاکستان اور اہلِ کشمیر پر ظلم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ 1962ء میں بھارت اور چین کی جنگ ہوئی تو بھارت اپنی ساری عسکری طاقت چین کی سرحد پر لے گیا۔ چین نے جنرل ایوب کو پیغام دیا کہ یہ بہترین موقع ہے آپ آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لیں۔ ایسے مواقع قوموں کو صدیوں میں ملتے ہیں، مگر جنرل ایوب نے یہ موقع ضائع کردیا۔ انہیں اُن کے آقا امریکہ نے یہ پٹی پڑھائی کہ چین بھارت جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ مسئلہ کشمیر حل کرا دے گا۔ لیکن ایسا نہ ہونا تھا، نہ ہوا۔ افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد امریکہ کو پاکستان کی شدید ضرورت محسوس ہوئی، اور جیسا کہ کہا جاتا ہے پاکستان سوویت یونین کی مزاحمت کے حوالے سے ’’فرنٹ لائن اسٹیٹ‘‘ بن کر ابھرا۔ یہ ایسا موقع تھا کہ اگر پاکستان امریکہ اور یورپ سے مطالبہ کرتا کہ ہم سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑیں گے مگر تم منصفانہ طریقے سے مسئلہ کشمیر حل کرائو، تو امریکہ اور یورپ کے پاس انکار کی گنجائش نہ ہوتی۔ مگر امریکہ کی 800 ملین ڈالر کی امداد کو ’’مونگ پھلی‘‘ قرار دینے والے امریکہ کے ساڑھے 3 ارب ڈالر کے ’’اخروٹوں‘‘ سے بہل گئے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کا یہ موقع بھی ضائع کردیا۔ کارگل میں ہم نے بھارت کے سیکڑوں فوجیوں کا محاصرہ کرلیا تھا۔ یہ فوجی یا تو پاکستان کے آگے ہتھیار ڈالتے یا بھوک اور سردی سے ہلاک ہوجاتے۔ ہم بھارت پر دبائو ڈال کر مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف فیصلہ کن پیش قدمی کرسکتے تھے۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے مسئلہ کشمیر کے حل کا یہ موقع بھی گنوا دیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کو ایک بار پھر ہماری شدید ضرورت پڑی۔ ہمیں امریکہ کی اس نئی جنگ میں کسی طرح شریک نہیں ہونا چاہیے تھا، اور اگر ہمیں امریکہ کی جنگ میں شرکت کی ذلت کمانی ہی تھی تو کم از کم امریکہ سے کہتے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرائے۔ لیکن جنرل پرویز نے امریکہ کے لیے کرائے کے فوجی کا کردار تو پسند کیا مگر مسئلہ کشمیر کے حل کے موقع سے فائدہ نہ اٹھایا۔ اس سے بہت پہلے جنرل ضیا الحق نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی تحریک کو ’’تحرّک‘‘ کی ایک خاص سطح پر لے آئیں گے تو پاکستان کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے مداخلت کرے گا، لیکن جب کشمیریوں نے اپنی تحریک کو تحرّک کی مطلوبہ سطح پر پہنچا دیا اور جنرل ضیاء کو اُن کا وعدہ یاد دلایا تو کشمیریوں کو جواب دیا گیا کہ ہم کشمیر کے لیے پاکستان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ اب کشمیریوں کو محاصرے کا شکار ہوئے چھے ماہ ہوچکے ہیں مگر پاکستان کا حکمران طبقہ لفظوں کی گولہ باری اور بیانات کے میزائلوں کے ذریعے کشمیر فتح کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ ہم کشمیر کے لیے آخری گولی تک لڑیں گے، مگر کشمیریوں کے ظالمانہ محاصرے کو چھے ماہ ہوگئے، پاکستان نے ابھی تک کشمیر کی آزادی کے لیے ’’پہلی گولی‘‘ بھی نہیں چلائی۔ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ ہر جگہ کشمیریوں کے سفیر بنیں گے، مگر اب تک وہ کشمیریوں کے ’’سفیر‘‘ کے بجائے کشمیریوں کے ’’فقیر‘‘ کا کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ کبھی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پاک بھارت مذاکرات کی بھیک مانگتے ہیں، کبھی ’’عالمی برادری‘‘ سے کہتے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا کے امن کے لیے کچھ کرے۔ امریکہ پاکستان اور کشمیریوں کا جتنا ساتھ دے سکتا ہے وہ راز نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ کشمیری چھے ماہ سے محاصرے میں ہیں اور نام نہاد عالمی برادری نے چھے ماہ میں کشمیریوں کے لیے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جنرل باجوہ ہوں یا عمران خان، انہوں نے جدوجہد کا سارا بوجھ اہلِ کشمیر پر ہی ڈالا ہوا ہے۔
پامیلا کانسٹیبل نے بالکل درست کہا ہے کشمیر سوئٹزرلینڈ ’’دکھائی‘‘ دیتا ہے مگر غزہ ’’محسوس‘‘ ہوتا ہے۔ مگر غزہ کا قصہ یہ ہے کہ وہ غزہ ’’دکھائی‘‘ دیتا ہے اور جہنم ’’محسوس‘‘ ہوتا ہے۔ اس جہنم میں ’’جنت‘‘ صرف فلسطینیوں بالخصوص حماس کی مزاحمت میں ہے۔ لیکن غزہ جہنم کیسے بنا؟
عرب ممالک کے سمندر میں اسرائیل ایک چھوٹے سے جزیرے کی طرح ہے۔ عربوںکے سمندر کی ایک لہر بھی اس جزیرے کو غرق کرسکتی ہے، مگر 72 سال سے اسرائیل کا ’’جزیرہ‘‘ عربوں کے ’’سمندر‘‘ پر غالب آیا ہوا ہے۔ عرب ممالک نے اسرائیل سے تین جنگیں لڑی ہیں اور تینوں میں انہیں شکست ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 1967ء میں اسرائیل کا جغرافیہ جتنا بڑا تھا، آج اُس کا جغرافیہ اس سے تین گنا بڑا ہے۔ اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ 1967ء میں اسرائیل کا ’’نفسیاتی جغرافیہ‘‘ جتنا بڑا تھا، 2020ء میں اس کا نفسیاتی جغرافیہ اس سے سو گنا بڑا ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تمام عرب ممالک کی قیادتوں کو چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔
مصر کے انورالسادات نے جب اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں امن معاہدہ کیا تو انہوں نے عملاً اعلان کردیا تھا کہ عرب دنیا اب اسرائیل کی مزاحمت کے قابل نہیں۔ لیکن رہی سہی کسر 1996ء کے اوسلو امن سمجھوتے نے پوری کردی۔ اوسلو امن سمجھوتے میں یاسر عرفات نے اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ وہ اسرائیل کی تباہی کے نعرے اور وعدے سے دست بردار ہوگئے۔ انہوں نے فلسطینیوں کی بے مثال اور شاندار مزاحمتی تاریخ پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ انہیں امریکہ نے اوسلو امن سمجھوتے پر دستخط کے بعد امن کا نوبیل انعام تو دلا دیا مگر یاسرعرفات خود فلسطینیوں کی نظر میں گر گئے۔ یہ سمجھوتا اتنا شرمناک تھا کہ لیلیٰ خالد جیسی مجاہدہ نے اس کی مذمت کی۔ ایڈورڈ سعید جیسے دانش ور نے معاہدے کو فلسطینی کاز سے غداری قرار دیا۔
بدقسمتی دیکھیے کہ یاسرعرفات جس معاہدے کی وجہ سے ’’بدنام زمانہ‘‘ ٹھیرے، اسرائیل نے اس معاہدے پر بھی عمل کرکے نہ دیا۔ معاہدے پر دستخط کرنے والے اسرائیل کے وزیراعظم اسحٰق رابین کو ایک انتہا پسند یہودی نے قتل کردیا، اور صرف ایک سال میں اوسلو امن سمجھوتا ’’آنجہانی‘‘ ہوگیا۔ یعنی اپنی موت آپ مرگیا۔ حد یہ کہ اسرائیل نے یاسرعرفات کو تین سال تک ان کے دفتر میں محصور رکھا۔ وہ فرانس گئے تو معلوم ہوا کہ انہیں زہر دے دیا گیا ہے، اور وہ فرانس جاتے ہی انتقال کرگئے۔ یاسر عرفات نے جب اوسلو سمجھوتے پر دستخط کردیے تھے تو عرب ممالک کے تمام سربراہ انہیں یقین دلا رہے تھے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کریں گے۔ امریکہ، یورپ، روس اور چین اوسلو امن سمجھوتے کے پاسبان ہونے کے دعویدار تھے، مگر اسرائیل نے جب اوسلو امن سمجھوتے کے پرخچے اڑائے تو عرب ممالک کے سربراہوں، امریکہ، یورپی یونین، روس اور چین کو کہیں تلاش نہ کیا جاسکا، اور کوئی قوت بھی اسرائیل کا ہاتھ نہ پکڑ سکی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حماس نے یاسرعرفات اور اُن کی تنظیم پی ایل او کی ناکامیوں سے جنم لیا، اور حماس اپنی بے مثال مزاحمتی جدوجہد سے فلسطینی کاز کی اصل ترجمان بن کر ابھری۔ اس نے فلسطینیوں کی مایوسی کو امید میں بدلا۔ اس نے نعرے کو عمل میں ڈھالا۔ اس نے اسرائیل کی مزاحمت کے ’’ناممکن‘‘ کو ’’ممکن‘‘ میں تبدیل کیا۔ پی ایل او سیکولر بھی تھی اور بدعنوان بھی۔ حماس نے مذہب کو فلسطینی مزاحمت کا محور بنایا، اور ’’خدمت‘‘ کے ماڈل کو فلسطینیوں کے سامنے رکھا۔ اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی مزاحمت کو چار چاند لگ گئے۔
حماس ایک مزاحمتی یا جہادی تحریک تھی، مگر تاریخ کے ایک مرحلے پر اسے محسوس ہوا کہ اب اسے ایک ’’سیاسی جماعت‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ حماس نے اس چیلنج کو قبول کیا اور خود کو ایک سیاسی جماعت میں ڈھال کر دکھایا۔ حماس فلسطین کے پہلے ہی انتخابات میں اکثریتی پارٹی بن کر ابھری۔ اس صورتِ حال نے پی ایل او ہی کو نہیں اسرائیل، امریکہ اور یورپی یونین کو بھی حیران کردیا۔ اصولی اعتبار سے امریکہ، یورپ اور باقی دنیا کو حماس کی جمہوری کامیابی کو قبول کرلینا چاہیے تھا، لیکن امریکہ، یورپ اور اسرائیل کیا، عرب ممالک نے بھی حماس کی جمہوری و سیاسی کامیابی کو قبول کرنے سے انکار کردیا، بلکہ انہوں نے محمود عباس کی قیادت میں الفتح کو حماس کے سامنے لاکھڑا کیا اور فلسطین میں خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ حماس کی اخلاقی قوت اتنی زیادہ تھی کہ اُس نے خانہ جنگی سے اوپر اٹھ کر دکھایا۔ مگر بالآخر وہ وقت آیا کہ جب امریکہ اور یورپ ہی نے نہیں، عرب ریاستوں نے بھی حماس کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے ڈالا۔
امریکہ نے گزشتہ 70 سال کے دوران خود کو فلسطین کے تنازعے میں ہمیشہ ’’جانب دار ثالت‘‘ ثابت کیا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کے حوالے سے جو امن منصوبہ پیش کیا ہے اُس میں امریکہ کی ’’جانب دارانہ ثالثی‘‘ عروج پر ہے۔ ٹرمپ نے اس منصوبے میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت باور کرایا ہے، اور بیت المقدس کے ایک چھوٹے سے حصے پر فلسطینیوں کا حق تسلیم کیا ہے۔ ٹرمپ نے امن منصوبے میں صاف کہا ہے کہ 50 لاکھ سے زیادہ جلاوطن فلسطینی کبھی وطن واپس نہ لوٹ سکیں گے۔ اسرائیل نے مغربی کنارے پر جتنی ناجائز بستیاں آباد کی ہیں وہ ’’قانونی‘‘ قرار پائیں گے۔ مستقبل کی فلسطینی ریاست اپنی سلامتی کے حوالے سے اسرائیل کی محتاج ہوگی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ٹرمپ کا امن منصوبہ، امن منصوبہ نہیں بلکہ فلسطینیوں کے لیے پھانسی کا پھندا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس اور الفتح نے اس منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔ ترکی اور ایران نے بھی منصوبے کو رد کیا ہے، لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بجاطور پر عرب ممالک کے ردعمل کو ’’غداری‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ صرف فلسطینیوں سے غداری نہیں… یہ اسلام سے غداری ہے، اسلامی تہذیب سے غداری ہے، اسلامی تاریخ سے غداری ہے، امت کے تصور سے غداری ہے۔ اس لیے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل کی بازیابی کا مسئلہ ہے۔ فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں کی زمین غصب کیے جانے کا مسئلہ ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کی سات آٹھ نسلوں کی زندگی کو سبوتاژ کیا ہے۔ انہیں ان کے ’’پُرامن حال‘‘ اور ’’پُرامن مستقبل‘‘ سے محروم کیا ہے۔ اسی لیے قائداعظم نے آج سے 72 سال پہلے کہا تھاکہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، اور اگر فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی کے لیے ’’تشدد‘‘ کو بھی استعمال کرنا پڑا تو وہ کریں گے۔ اقبال نے اسرائیل کے قیام سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر اسرائیل قائم ہوا تو وہ مشرق وسطیٰ میں مغرب کی ایک ’’چوکی‘‘ ہوگا۔
مسلمانوں کی گزشتہ 70 سالہ تاریخ کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’مسلم معاشرے‘‘ ہر دور میں ’’مسلم ریاستوں‘‘ سے زیادہ ’’زندہ‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔ یہ برصغیر کا ’’مسلم معاشرہ‘‘ ہی تھا جس نے تحریکِ پاکستان برپا کی اور اسے حقیقت بناکر دکھایا۔ یہ مسلم معاشرہ ہی ہے جس نے کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کو بلندیوں تک پہنچایا۔ کشمیریوں نے اپنی تاریخ میں کبھی مسلح جدوجہد نہیں کی، مگر اسلام نے کشمیری قوم کے کردار کو بدل کر رکھ دیا۔ یہ ’’مسلم معاشرہ‘‘ ہی تھا جس نے یاسر عرفات اور الفتح کو پیدا کیا۔ یہ مسلم معاشرہ ہی ہے جس نے حماس کو جنم دیا۔ یہ مسلم معاشرہ ہی ہے جس نے افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کو شکستِ فاش دی۔ سوال یہ ہے کہ مسلم ریاستیں اتنی ’’مُردہ‘‘ اور مسلم معاشرے اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود اتنے ’’زندہ‘‘ کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب راز نہیں۔ بیشتر مسلم ریاستیں اسلام اور مسلمانوں کے دو دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کا ایک دشمن امریکہ، یورپ، اسرائیل اور بھارت ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا دوسرا دشمن مسلمانوں کا حکمران طبقہ ہے۔ یہ طبقہ ہر جگہ استعماری طاقتوں کا آلۂ کار اور اپنے ذاتی، خاندانی، گروہی اور طبقاتی مفادات کا غلام ہے۔ اس طبقے میں اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے تحفظ کا کوئی جذبہ ہی موجود نہیں۔ یہ طبقہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل کو اپنا ’’دوست‘‘ کہتا ہے اور اخوان المسلمون اور حماس جیسی اسلام پرست تنظیموں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیتا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلم دنیا میں جو مزاحمت ’’حکومتوں‘‘ اور ’’ریاستوں‘‘ کو کرنی چاہیے تھی وہ مزاحمت اخوان، حماس، جماعت اسلامی اور حزب المجاہدین نے کی ہے۔ اسی لیے اسلامی تحریکیں امتِ مسلمہ کے دودھ کا مکھن ہیں۔
اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں نے وقت کی دو سپر پاورز یعنی سلطنتِ روما اور ایران کو منہ کے بل گرا دیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مسلمان اپنے ’’عہدِ زوال‘‘ میں بھی ایک بار پھر وقت کی دو سپر پاورز کو شکست دیں گے۔ مسلمانوں اور اُن کے جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت نے افغانستان میں پہلے سوویت یونین کو شکست سے دوچار کیا، اور پھر امریکہ کی عسکری، اقتصادی، سیاسی، سفارتی اور ابلاغی طاقت کو شکست دے کر دکھایا۔ فلسطینی فلسطین میں اور کشمیری کشمیر میں ایک ریاست کی طرح لڑ رہے ہیں۔ کشمیری سات لاکھ بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں، اور فلسطینی اب تک سر سے پائوں تک اسلحہ میں ڈوبی ہوئی ریاست اسرائیل کے قابو میں نہیں آرہے۔ بلاشبہ مسلم معاشرے مسلم ریاستوں سے زیادہ زندہ بھی ہیں اور بیدار بھی۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو ہم نے ’’کھیل‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی۔ اس نظم میں ایک ’’پیشگوئی‘‘ تھی… امریکہ کی شکست کی پیشگوئی۔ خدا کے فضل و کرم سے یہ پیشگوئی صحیح ثابت ہوئی۔ نظم یہ تھی:۔

جنگ کو کھیل سمجھتا ہے عدو!
خندقیں کھود کے بیٹھاہوں
میں اپنے دل میں
سر کا کیا تھا؟
اُسے سجدے میں چھپا آیا ہوں
میری قسمت
کہ میں ہاتھوں کو دعا کہتا ہوں
اور آنکھیں تو کسی خواب کی تحویل میں ہیں
برسوں سے
حافظہ
میں ابھی تاریخ کو سونپ آیا ہوں
پائوں
صدیوں کا سفر لے گیا مدت گزری
کون کہتا ہے کہ میں صاحبِ اسباب نہیں
یہ زمیں میرا بچھونا ہے
فلک چادر ہے
اور ستارے مری امیدیں ہیں
جنگ کو کھیل سمجھتا ہے عدو
دیکھیے کھیل بگڑنے کی خبر کب آئے
وہ جو موجود ہے
دنیا کو نظر کب آئے

اس نظم کو لکھتے ہوئے ہمیں اپنے وژن پر کوئی بھروسا نہیں تھا۔ ہمیں بھروسا تھا تو اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور مجاہدین کی قوتِ مزاحمت پر۔ ساری دنیا نے دیکھا یہ قوتِ مزاحمت بالآخر کامیاب ہوئی۔ ہمارے کشمیری اور فلسطینی بھائیوں کی قوتِ مزاحمت بھی ایک دن ضرور کامیاب ہوگی۔ قرآن حکیم میں اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ محسوس ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ:
میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو منظور ہوگا۔ میرے بعد خلافتِ راشدہ ہوگی اور اُس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کا حکم ہوگا۔ لیکن اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔
ان تمام حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کی اصل قوت یا تو تعلق باللہ ہے، یا باطل کی مزاحمت۔ خواہ یہ باطل مقامی ہو یا قومی، علاقائی ہو یا بین الاقوامی۔ باطل کی مزاحمت انبیاء اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بہت ہی بڑی سنت ہے۔ اس سنت کی برکت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ جو کام حکومتیں اور ریاستیں نہیں کررہیں وہ افراد، تنظیمیں اور تحریکیں کررہی ہیں۔ اس مزاحمت کا امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا رقصِ ابلیس بھی کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔

Leave a Reply