اقبال کی فکر کو معیار بنایا جائے تو پاکستان ’’دل‘‘ کی علامت تھا مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے اسے ’’شکم‘‘ اور ’’مادی اسباب‘‘ کا استعارہ بنادیا
ہر مسلمان پیدائشی طور پر ’’آزاد انسان‘‘ ہوتا ہے۔ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے سوا کسی کا ’’غلام‘‘ نہیں ہوسکتا۔ نہ ’’امریکہ‘‘ کا، نہ ’’یورپ‘‘ کا، نہ ’’فوجی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا، نہ ’’سول اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا، نہ ’’سرمایہ داری‘‘ کا، نہ ’’سوشلزم‘‘ کا، نہ ’’لبرل ازم‘‘ کا، نہ ’’سیکولر ازم کا، نہ ’’شریفوں‘‘ کا، نہ ’’زرداریوں‘‘ کا، نہ ’’بھٹوز‘‘ کا، نہ ’’الطافوں‘‘ کا، نہ ’’عمرانوں‘‘ کا، نہ ’’پنجابیت‘‘ کا، نہ ’’مہاجریت‘‘ کا، نہ ’’سندھیت‘‘ کا، نہ ’’پشتونیت‘‘ کا، نہ ’’بلوچیت‘‘ کا، نہ ’’سماجیات‘‘ کا، نہ ’’اقتصادیات‘‘ کا، نہ کسی ’’سیاسی جماعت‘‘ کا، نہ اپنے ’’نفس‘‘ کا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے اور اب انسانی روح اپنے امکانات ظاہر کرنے کے لیے آزاد ہوگئی ہے۔ مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے آزاد پاکستان میں غلامی کا ایسا ہولناک تجربہ تخلیق کردیا ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اقبال ’’مصورِ پاکستان‘‘ ہیں اور وہ قرآن و سنت کے دائرے میں ’’آزادی‘‘ کے اتنے بڑے علَم بردار اور ’’غلامی‘‘ کے اتنے بڑے دشمن ہیں کہ وہ بیسویں صدی میں ’’حریت‘‘ کی سب سے بڑی آواز بن گئے ہیں۔ اقبال کی شاعری ’’آزادی کے جشن‘‘ اور ’’غلامی کے ماتم‘‘ سے بھری ہوئی ہے۔ ذرا دیکھیے تو اقبال آزادی اور اسلام، اور آزادی و مسلمان کے تعلق سے کیا کہہ رہے ہیں
عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں آج تُو اس خواب کی تعبیر دیکھ
اقبال کا یہ شعر 14 اگست 1947ء کو Define کرنے والا ترانہ بن سکتا تھا۔ پاکستان اسلام کے ’’تصورِ آزادی‘‘ کی علامت تھا۔ پاکستان کا نظریہ اور اس کی تخلیق کہہ رہی تھی کہ اس سرزمین پر انسان صرف اپنے خالق و مالک، اس کے احکامات اور رسول اکرمؐ کے اسوۂ حسنہ کا غلام ہوگا۔ اس کی نظر میں امریکہ اور یورپ، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سول اسٹیبلشمنٹ، جاگیرداروں اور وڈیروں، سرمایہ داروں اور فوجی آمروں، صوبہ پرستوں اور لسانی تعصبات میں ڈوبے ہوئے رہنمائوں، بھٹوز اور شریفوں کی کوئی ’’اوقات‘‘ نہ ہوگی۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے ہمیں اُن تمام پست تصورات کا غلام بنادیا جن سے آزادی کے لیے پاکستان وجود میں آیا تھا۔ اقبال نے اس حوالے سے مزید فرمایا ہے
ہے کس میں یہ جرأت کہ مسلمان کو ٹوکے
حریتِ افکار کی نعمت ہے خداداد
حضرت عمر فاروقؓ کو اپنے ایک گورنر کی سخت گیری کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس گورنر کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ انسانوں کو ان کی مائوں نے آزاد جنا تھا مگر تم انہیں غلام بنانے پر تلے ہوئے ہو۔ اقبال کا مذکورہ شعر بھی یہی کہہ رہا ہے کہ کسی امریکہ، کسی یورپ، کسی جرنیل اور کسی سول آمر کی یہ مجال نہیں ہوسکتی کہ وہ مسلمان کو ٹوکے، قرآن و سنت کے دائرے میں اس کی آزادیِ اظہار پر قدغن لگائے۔ اس لیے کہ حریتِ فکر کی نعمت تو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، مگر پاکستان کے فوجی آمر ہوں یا سول آمر، وہ صحافیوں اور دانش وروں، ذرائع ابلاغ اور اخبارات کے اظہار پر ڈاکے ڈالتے رہتے ہیں۔ اقبال نے آزادی اور غلامی، آزاد انسان اور غلام انسان کا تجزیہ کرتے ہوئے کیا شاندار باتیں کہی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے
غلامی کیا ہے ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا
اقبال کہہ رہے ہیںکہ غلامی انسان کو ’’ذوقِ حسن‘‘ اور ’’زیبائی‘‘ سے محروم کردیتی ہے۔ اسلامی فکر میں ’’حق‘‘ اور ’’جمال‘‘ ایک ہی حقیقت کے دو مختلف پہلو ہیں۔ حق جمال ہے اور جمال حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ مگر اقبال کہہ رہے ہیں کہ غلامی اتنی ہولناک چیز ہے کہ وہ انسان سے اس کا ذوقِ جمال چھین لیتی ہے، اور ظاہر ہے کہ ذوقِ جمال سے محروم انسان، انسان کہلانے کا مستحق نہیں رہتا۔ اس لیے اقبال نے فرمایا ہے کہ صرف ’’آزاد انسان‘‘ ہی ذوقِ جمال کا حامل ہوسکتا ہے، اس لیے وہی بتا سکتا ہے کہ خوب صورتی کیا ہے اور بدصورتی کیا ہے۔
دوسرے شعر میں اقبال نے بات کو مزید آگے بڑھا دیا ہے اور صاف کہا ہے کہ صرف آزاد آدمی ہی ’’بینا‘‘ ہوسکتا ہے، غلام آدمی تو ’’اندھا‘‘ ہوتا ہے، چنانچہ غلام آدمی، غلام طبقے یا غلاموں کی جماعت کی بصیرت پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے فوجی اور سول حکمران امریکہ کے غلام ہیں، یورپ کے غلام ہیں، اپنے مفادات کے غلام ہیں، اپنے نفس کے غلام ہیں، مگر اس کے باوجود وہی پاکستان کی تقدیر کے مالک بنے ہوئے ہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے مدتوں سے آزادی کو ’’عذاب‘‘ اور غلامی کو “Ideal” ثابت کرنے کا کام شروع کیا ہوا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کے حکمران اقبال کی ’’معنوی اولاد‘‘ نہیں، سرسید کی ’’معنوی اولاد‘‘ ہیں۔ اس لیے کہ سرسید برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی واحد شخصیت ہیں جنہوں نے غلامی پر دھمال ڈالنے کی روایت ڈالی۔
سرسید کے ذکر سے ہمیں اقبال کا ایک اور بے مثال شعر یاد آگیا۔ اقبال نے کہا ہے
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اقبال کہہ رہے ہیں کہ لوگ غلامی کو صرف ’’سیاسی مسئلہ‘‘ سمجھتے ہیں، مگر غلامی صرف ’’سیاسی مسئلہ‘‘ نہیں بلکہ اتنی ہولناک چیز ہے کہ وہ افراد نہیں قوموں کے ضمیر کو بدل دیتی ہے۔ غلامی فرد کے ضمیر کو کس طرح بدلتی ہے اس کی سب سے بڑی مثال سرسید ہیں۔ سرسید غلامی کے تجربے سے پہلے ایک عام مسلمان کی طرح تھے، مگر جب انہوں نے انگریزوں کی غلامی کو ’’قبول‘‘ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ’’پسند‘‘ کرنا شروع کردیا تھا تو انہوں نے قرآن کے تمام معجزات کو رد کرکے قرآن کا انکار کردیا، انہوں نے حدیث کے پورے سرمائے کا انکار کردیا، انہوں نے فقہ کی پوری روایت کو مسترد کردیا، انہوں نے مسلمانوں کے تیرہ سو سالہ علمِ تفسیر کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، انہوں نے ’’اجماع‘‘ کے اصول پر خطِ تنسیخ پھیر دیا، انہوں نے عربی، فارسی اور اردو پر تھوک دیا اور انگریزی اور فرانسیسی سیکھنے پر زور دیا۔ سرسید اور ان کی ذریت کی فکر کے تحت جنرل ایوب نے ’’اسلامی پاکستان‘‘ میں سیکولرازم کو پھیلایا۔ جنرل پرویز نے اسلامی پاکستان میں ’’لبرل ازم‘‘ کی ’’تبلیغ‘‘ کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ’’اسلامی پاکستان‘‘ میں سوشلزم کی ترویج کی۔ پاکستان کے کسی حکمران نے آج تک عربی و فارسی کی ترویج کے لیے کچھ نہیں کیا، یہاں تک کہ انہوں نے اردو کے سلسلے میں آئینی تقاضے بھی پورے نہیں کیے۔ ان کو عشق ہے تو ’’انگریزی‘‘ سے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کا نہ کوئی ’’مذہب‘‘ ہے، نہ کوئی ’’تہذیب‘‘ ہے، نہ کوئی ’’تاریخ‘‘ ہے اور نہ کوئی ’’زبان‘‘ ہے۔ وہ ہر دائرے میں پاکستان کے دشمن ہیں۔ ظاہر ہے اس کی وجہ ہمارے حکمرانوں کی ’’غلامانہ ذہنیت‘‘ ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ غلامی پر جس طرح فخر کرتا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
اقبال یونہی ’’آزادی‘‘ کے عاشق اور ’’غلامی‘‘ سے نفرت کرنے والے نہیں ہیں۔ وہ ’’آزادی کے ممکنات‘‘ اور ’’غلامی کے ’’مضمرات‘‘ کو پہچانتے ہیں، چنانچہ انہوں نے کہا ہے
آزاد کی ایک آن ہے محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات
آزاد کا ہر لحظہ پیامِ ابدیت
محکوم کا ہر لحظہ نیا مرگِ مفاجات
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور
محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خرافات
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری و علم نباتات
اقبال کہہ رہے ہیں کہ آزاد انسان اور غلام انسان کا کیا موازنہ! آزاد انسان کا ایک لمحہ غلام انسان کے ایک سال کے برابر ہے، یعنی آزاد انسان ایک لمحے میں ایک سال کے برابر زندگی جیتا ہے۔ چنانچہ اس کی زندگی میں ’’شدت‘‘ بھی ہوتی ہے اور ’’حدت‘‘ بھی، ’’کمال‘‘ بھی ہوتا اور ’’جمال‘‘ بھی۔ اس کے برعکس غلام انسان کی زندگی ان تمام خوبیوں سے محروم ہوتی ہے۔ اقبال نے مزید فرمایا ہے کہ ابدی زندگی کا پیغام صرف آزاد انسان کے لیے ہے۔ غلام آدمی ابدیت کا تصور بھی نہیں کرسکتا، اس لیے کہ اُس کے لیے ہر لمحہ موت کے تجربے سے ہمکنار ہوتا ہے۔ اقبال صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ صرف آزاد آدمی کی فکر ’’حقیقت‘‘ سے روشن ہوتی ہے۔ آزاد آدمی کبھی ’’اوہام‘‘ کے پیچھے نہیں بھاگتا، اس لیے کہ اُس کی آزاد فکر اُسے حقیقت اور وہم میں فرق کرنے کے قابل بنادیتی ہے۔ اس کے برعکس غلام آدمی سوچتا ہے تو اس کی فکر خرافات میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔ اقبال کے بقول غلام آدمی پیروں کی کرامات کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے، جبکہ آزادی انسان کو خود ’’کرامت‘‘ بنادیتی ہے۔ اقبال کی یہی فکر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ’’اصل ورثہ‘‘ ہے، مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمران پاکستانی قوم کو ’’آزاد‘‘ دیکھنا نہیں چاہتے، وہ اسے ’’غلام‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقبال کے مذکورہ بالا اشعار کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کی فکر نرم سے نرم الفاظ میں ’’مجرمانہ‘‘ ہے۔ اقبال پاکستان کے حکمران ہوتے تو وہ پاکستان کے تمام فوجی اور سول حکمرانوں کو جلاوطن کردیتے۔ اقبال کے سامنے کسی ’’فوجی اسٹیبلشمنٹ‘‘ اور کسی ’’سول اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا چراغ نہ جلتا۔ اقبال کا پاکستان حقیقی معنوں میں ’’آزاد انسانوں‘‘ کا پاکستان ہوتا۔ لیکن گھبرایئے نہیں، آزادی اور غلامی کے سلسلے میں اقبال کے ارشادات کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ ذرا دیکھیے تو اقبال کیا کہہ رہے ہیں
محکوم کا دل مُردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پُرسوز و طرب ناک
آزاد کی دولت دلِ روشن نفسِ گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نمناک
محکوم ہے بیگانۂ اخلاص و مروت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک
ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہم دوش
وہ بندۂ افلاک ہے وہ خواجۂ افلاک
اکثر لوگ آزادی و غلامی کو ’’خارجی حقیقت‘‘ سمجھتے ہیں، مگر اقبال کہہ رہے ہیں کہ آزادی اور غلامی انسان کے باطن پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ مثلاً آزاد انسان کا دل زندہ، اور سوز سے لبریز ہوتا ہے۔ وہ خوشی بھی ’’محسوس‘‘ کرسکتا ہے اور ’’غم‘‘ بھی۔ اس کے برعکس محکوم کا دل مُردہ ہوتا ہے، اس پر افسردگی چھائی ہوئی ہوتی ہے اور ناامیدی نے اس کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہوتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں دل وجود کی کلیّت کا استعارہ ہے۔ اقبال کہہ رہے ہیںکہ آزاد انسان کا دل صرف زندہ نہیں ہوتا، روشن بھی ہوتا ہے۔ یعنی اس کے پاس زندگی کی حرارت بھی ہوتی ہے اور زندگی کی بصیرت بھی۔ اس کے برعکس غلام انسان کی پوری زندگی رونے پیٹنے میں گزر جاتی ہے۔ اقبال کے بقول غلام انسان ’’اخلاص‘‘ اور ’’مروت‘‘ جیسی خوبیوں سے محروم ہوتا ہے۔ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کا جویا ہوتا ہے، چنانچہ ’’دلیل بازی‘‘ کا ماہر ہوتا ہے۔ اقبال کے مطابق آزاد اور محکوم کبھی ’’مساوی الحیثیت‘‘ نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ غلام انسان تقدیر کا پابند ہوتا ہے اور آزاد آدمی اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔
اقبال کی فکر کو معیار بنایا جائے تو پاکستان ’’دل‘‘ کی علامت تھا مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے اسے ’’شکم‘‘ اور ’’مادی اسباب‘‘ کا استعارہ بنادیا۔ اقبال کہتے ہیں
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلے تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
……٭٭٭……
گرچہ تُو زندانیِ اسباب ہے
قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ
اقبال کے نزدیک دل کی آزادی ’’شہنشاہی‘‘ تھی اور پیٹ کی پرستش ’’موت‘‘… مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پیٹ کو پوری قوم کا مثالیہ یا ’’آئیڈیل‘‘ بنادیا، اور دل کی آزادی کو ’’خوف‘‘ اور ’’موت‘‘ کی علامت میں ڈھال دیا۔ چنانچہ کوئی حکمران کہتا ہے کہ وہ پاکستان کو جاپان بنادے گا، کوئی کہتا ہے کہ وہ پاکستان کو جنوبی کوریا بنادے گا، کسی حکمران کی رال یورپ پر ٹپکتی ہے اور کسی کی رال چین پر ٹپکتی ہے۔ حالانکہ جاپان ہو یا جنوبی کوریا، یورپ ہو یا چین… سب مادی ترقی کی علامت ہیں۔ سب پیٹ کی شہنشاہی کی علامت ہیں۔ دل کی شہنشاہی کی علامت ریاست مدینہ ہے، مگر کوئی حکمران پاکستان کو ریاست مدینہ نہیں بنانا چاہتا۔ بلاشبہ عمران خان یہ بات کرتے ہیں، مگر وہ ایک سانس میں ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اور دوسرے سانس میں چین اور اسکینڈے نیوین ممالک کی سماجیات اور معاشیات کے گن گانے لگتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے حکمران طبقے نے اس دائرے میں بھی پاکستانی قوم کو ’’آزاد‘‘ نہیں ہونے دیا۔ یہاں بھی انہوں نے قوم پر ’’غلامی‘‘ مسلط کردی، مادی ترقی کی غلامی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے کا صرف پیٹ ہی پیٹ نہیں، بلکہ اس کا دماغ بھی پیٹ ہے، اس کی روح بھی پیٹ ہے۔ یعنی وہ سوچتا ہے تو پیٹ کی مدد سے، دیکھتا ہے تو پیٹ کی مدد سے۔ ہمارے حکمران طبقے کا بس چلتا تو وہ پیٹ کی تصویر کو پاکستانی پرچم کا حصہ بنادیتا۔
اقبال کی ایک نظم ہے ’’قبر‘‘۔ اس کے نیچے لکھا ہوا ہے ’’اپنے مُردے سے‘‘۔ یعنی قبر اپنے مُردے سے کہہ رہی ہے۔ کیا کہہ رہی ہے، اقبال کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے
آہ ظالم تُو جہاں میں بندۂ محکوم تھا
میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوزناک
تیری میت سے مری تاریکیاں تاریک تر
تیری میت سے زمیں کا پردۂ ناموس چاک
الحذر محکوم کی میت سے سو بار الحذر
اے سرافیل! اے خدائے کائنات اے جانِ پاک
ان شعروں سے صاف ظاہر ہے کہ اقبال کے لیے غلامی اتنی ہولناک چیز ہے کہ قبر بھی غلام کو دل سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اور وہ اس بات کا ماتم کرتی نظر آرہی ہے کہ ایک غلام شخص کو اس میں دفن کردیا گیا۔ مگر پاکستان کی فوجی اور سول اشرافیہ کے لیے ’’غلام انسان‘‘ کئی اعتبار سے ’’مثالی انسان‘‘ ہے۔ چنانچہ اقبال اور قائداعظم کے پاکستان میں جو جتنا بڑا غلام ہے وہ اتنا زیادہ ’’کامیاب‘‘ ہے… فوج میں بھی، بیوروکریسی میں بھی، سیاست میں بھی اور صحافت میں بھی، کاروبار میں بھی اور اقتدار میں بھی۔
کیا کوئی شخص اس بات کا تصور کرسکتا ہے کہ اقبال اپنی شاعری میں ’’دوزخ‘‘ کو سراہ سکتے ہیں؟ اقبال کی ایک نظم میں ایسا ہی ہوا ہے، اقبال کی اس نظم کا عنوان ہے ’’دوزخی کی مناجات‘‘۔ اس نظم کا اہم ترین شعر یہ ہے
اللہ ترا شکر کہ یہ خطۂ پُر سوز
سوداگرِ یورپ کی غلامی سے ہے آزاد
اقبال کے نزدیک ’’دوزخ‘‘ کی ’’اچھی بات‘‘ یہ ہے کہ وہ یورپ کی ’’غلامی‘‘ سے آزاد ہے، چنانچہ اقبال کی نظم کا دوزخی اس بات پر اللہ کا شکر ادا کررہا ہے کہ اس کی دوزخ مغرب کی غلامی کے تجربے سے آزاد ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اقبال کے لیے جہنم کی زندگی بھی غلامی کی زندگی سے بہتر ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال قوم کی اجتماعی شخصیت کی ’’تعمیر‘‘ چاہتے ہیں اور پاکستان کا حکمران طبقہ قوم کی اجتماعی شخصیت کی ’’تخریب‘‘ میں مصروف ہے۔ اقبال ہمیں ہر طرح کی غلامی سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں، اور پاکستان کا حکمران طبقہ ہمیں ہر طرح کی غلامی میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
قوم کی سیاسی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ تہ در تہ غلامی میں مبتلا ہے۔ لاکھوں لوگ شریفوں، بھٹوز، عمران خان اور ایم کیو ایم کے غلام ہیں… شریف، بھٹوز، عمران خان اور ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کے غلام ہیں… اور خود اسٹیبلشمنٹ 1958ء سے آج تک امریکہ کی غلام چلی آرہی ہے۔
ہمارے جرنیل شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان کرپٹ بھی ہیں اور نااہل بھی، حد یہ کہ ملک و قوم سے ان کی وفاداری بھی مشتبہ ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے جرنیلوں کو کرپٹ، نااہل اور ملک و قوم سے وفاداری نہ نبھانے والے سیاست دان ہی پسند ہیں۔ جماعت اسلامی خیر سے کرپٹ بھی نہیں ہے، اہل بھی ہے اور ملک و قوم کی وفادار بھی۔ جماعت اسلامی نے سابق مشرقی پاکستان میں پاکستان کی بقا اور سلامتی کی جنگ لڑی اور 10ہزار سے زیادہ لوگوں کی قربانی دی۔ جماعت اسلامی نے اسلام کی سربلندی اور ملک و قوم کے دفاع کے لیے جہادِ افغانستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جماعت اسلامی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا۔ جماعت اسلامی نے گزشتہ پچاس برسوں میں جو لوگ کونسلر کی سطح سے سینیٹ کی رکنیت تک سیاسی عمل میں کھپائے اُن میں سے کبھی کسی پر بدعنوانی کا الزام نہ لگ سکا۔ مگر ان تمام خوبیوں کے باوجود جماعت اسلامی کبھی اقتدار کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ نہ رہی۔ اسٹیبلشمنٹ کو پسند آتے ہیں تو سیکولر، لبرل، سوشلسٹ، سول آمر، بھٹو، نااہل اور کرپٹ آصف علی زرداری۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھاتے ہیں نااہل، کرپٹ اور مودی کے یار میاں نوازشریف۔ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھیں روشن کرتے ہیں دہشت گرد، بدعنوان اور غیر ملکی طاقتوں کے آلہ ٔ کار الطاف حسین۔ اسٹیبلشمنٹ کو ’’متاعِ قوم‘‘ محسوس ہوتے ہیں خود پسند، نااہل اور یوٹرن لیتے ہوئے عمران خان۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو جماعت اسلامی کیوں پسند نہیں؟ اور بھٹو، نوازشریف، الطاف حسین اور عمران خان کیوں پسند ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نااہل، بدعنوان اور حب الوطنی کے جذبے سے محروم قیادت کو کبھی بھی لات مار کر اقتدار سے باہر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس اہل، بدعنوانی سے پاک اور صاحبِ کردار قیادت اور جماعت کو ٹھکانے لگانا ناممکن نہیں تو بہت دشوار ضرور ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ سیاسی قیادت کے اعتبار سے ’’ملک و قوم‘‘ کی ’’ضرورت‘‘ کچھ اور ہے اور ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی ’’ضرورت‘‘ کچھ اور۔ ملک و قوم کی ضرورت اہل، بدعنوانی سے پاک اور صاحبِ کردار قیادت ہے، جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نااہل، بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی اور بدکردار قیادت ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو ’’نااہلی‘‘ ایک ’’غلامی‘‘ ہے، ’’بدعنوانی‘‘ ایک ’’غلامی‘‘ ہے،’’بدکرداری‘‘ ایک ’’غلامی‘‘ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو غلامی کی یہ تینوں صورتیں بہت پسند ہیں۔ اس لیے کہ ’’غلامی‘‘ کی یہ صورتیں اسٹیبلشمنٹ کو بہت ’’سوٹ‘‘ کرتی ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ اقبال کے پاکستان میں پچاس سال پہلے ہی ایسی قیادت کو ابھار چکی ہوتی جو خود بھی اہل ہوتی اور قوم کو بھی ’’اہل‘‘ بناتی۔ جو خود بھی بدعنوانی سے پاک ہوتی اور قوم کو بھی ’’بدعنوانی‘‘ سے پاک بناتی۔ جو خود بھی صاحبِ کردار ہوتی اور قوم کو بھی ’’صاحبِ کردار‘‘ بناتی۔ جو خود بھی آزاد ہوتی اور قوم کو بھی ’’آزاد‘‘ بناتی۔ مگر اسٹیبلشمنٹ نے بھٹوز، شریفوں، الطافوں اور عمران خانوں جیسے رہنمائوں اور پیپلزپارٹی، نواز لیگ، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف جیسی جماعتوں کو قوم کا ’’مقدر‘‘ بنایا ہوا ہے۔ یہ صورتِ حال اقبال اور فکرِ اقبال کی کھلی توہین ہے۔ اقبال نے کہا ہے
ہو بندۂ آزاد اگر صاحبِ الہام
ہے اس کی نگہ فکر وعمل کے لیے مہمیز
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گرِ اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز
غور کیا جائے تو پاکستان کی پوری تاریخ غلام جرنیلوں اور غلام سیاسی رہنمائوں کے ’’الہام‘‘ سے پامال ہورہی ہے۔ جرنیلوں پر ’’الہام‘‘ ہوتا ہے کہ ملک کے مسائل کا حل یہ ہے کہ مارشل لا لگا دیا جائے، چنانچہ وہ مارشل لا لگا دیتے ہیں۔ فوجی آمروں پر الہام ہوتا ہے کہ ملک کو سیکولر اور لبرل بنادو، چنانچہ وہ ملک کی ’’نظریاتی روح‘‘ کو مسخ کردیتے ہیں۔ جرنیلوں پر الہام ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دینی چاہیے، چنانچہ تمام سیاسی جماعتیں “Ban” ہوجاتی ہیں۔ جرنیلوں کو اچانک الہام ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ضروری ہیں چنانچہ کنونشن لیگ، جونیجو لیگ اور قاف لیگ وجود میں آجاتی ہیں۔ ہمارے جرنیل ’’آزاد انسان‘‘ ہوتے تو وہ پوری قوم اور پورے معاشرے کو بھی آزاد دیکھنا پسند کرتے۔ اصول ہے ’’آزاد آدمی‘‘ دوسروں کو بھی ’’آزاد‘‘ دیکھنا چاہتا ہے، اور غلام آدمی دوسرے کو بھی ’’غلامی‘‘ کا اسیر دیکھنے کی آرزو کرتا ہے۔
پاکستان کے فوجی اور سول آمروں نے ملک کے انتخابات اور پارلیمنٹ کو بھی ’’ڈھکوسلہ‘‘ بنادیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات آزادانہ تھے، مگر متحدہ پاکستان میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل ریٹائرڈ بریگیڈیئر اے آر صدیقی نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ جنرل یحییٰ نے 1970ء کے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے مولانا بھاشانی کو دو کروڑ روپے دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ امر بھی راز نہیںکہ 1970ء کی اسٹیبلشمنٹ نے شیخ مجیب کو مشرقی پاکستان میں انتخابی عمل کے درمیان کھل کھیلنے کے تمام مواقع مہیا کیے۔ اُس وقت سے اب تک پاکستان میں جتنے انتخابات ہوئے ہیں سب کے سب “Managed” تھے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی عمران خان کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کہتے تھے، مگر جب دبائو آیا تو آرمی ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے میاں نوازشریف، شہبازشریف اور بلاول بھی ’’سلیکٹڈ‘‘ ثابت ہوگئے۔ اقبال نے کہا ہے
نہ فقر کے لیے موزوں نہ سلطنت کے لیے
وہ قوم جس نے گنوایا متاعِ تیموری
سوال یہ ہے کہ ’’متاعِ تیموری‘‘ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایک سطح پر متاعِ تیموری آزادی ہے۔ دوسری سطح پر متاعِ تیموری ’’حمیت‘‘ ہے۔ تیسری سطح پر متاعِ تیموری ’’بہادری‘‘ ہے۔ چوتھی سطح پر متاعِ تیموری ’’فتح کی نفسیات‘‘ ہے۔ آپ ذرا بتایئے تو سہی جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویزمشرف، ذوالفقار علی بھٹو، میاں نوازشریف اور عمران خان کے اندر ان میں سے کون سی صفت موجود ہے؟ تو کیا ایسی قیادت ’’سلطنت‘‘ کے لیے موزوں ہے؟ اقبال کا جواب نفی میں ہے۔ اقبال کا شعر ہے
کرمک ناداں طوافِ شمع سے آزاد ہو
اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو
اقبال شمع کا طواف کرنے والے پروانے سے کہہ رہے ہیںکہ شمع کا طواف بھی ’’غلامی‘‘ کی ایک صورت ہے۔ اس غلامی سے نجات حاصل کر۔ تیرے باطن میں خود روشنی کا سرچشمہ موجود ہے، اس سے تعلق پیدا کر۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اقبال ایک کیڑے کو بھی ’’آزاد‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں، اور پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان میں ’’انسانوں‘‘ کو بھی ’’غلام‘‘ بنایا ہوا ہے۔
پروفیسر شمیم اختر کی ریسرچ کو کتابی شکل دی جائے گی،ڈاکٹرنعیم احمد
جامعہ کراچی میں تعزیتی اجلاس سے خطاب
چیئر مین شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی ڈاکٹر نعیم احمد نے کہا کہ پروفیسر شمیم اختر(مرحوم) نے جتنی ریسرچ کیں ان کو ایک جگہ جمع کرکے کتابی شکل دی جائے گی اور اس کی اشاعت کریں گے تاکہ آنے والی نسلیں ان کی تحقیق سے استفادہ کرسکیں،اس کے ساتھ ساتھ شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے کانفرنس روم کو ان کے نام سے منسوب کریں گے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے زیر اہتمام کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر شمیم اختر کی یاد میں منعقدہ تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ پروفیسر شمیم اختر 1931 ءمیں الٰہ آباد میں پید ا ہوئے اورقیام پاکستان کے وقت وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان تشریف لے آئے تھے،ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مرحوم وزیٹنگ فیکلٹی کے طورپر شعبہ ہٰذا سے تادم مرگ وابستہ رہے۔
فرائیڈے اسپیشل کے تجزیہ نگارپروفیسر شمیم اختر کاانتقال
ممتاز تجزیہ نگار،سابق سربراہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی پروفیسر شمیم اختر گزشتہ دنوں انتقال کرگئے۔ مرحوم طویل عرصے سے علیل تھے۔ انہیں جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ پروفیسر شمیم اختر بین الاقوامی تعلقات عامہ کے ماہر استاد اور بین الاقوامی امور پرنظر رکھنے والی شخصیت جانے جاتے تھے۔ وہ ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے لیے خصوصی مضامین بھی لکھا کرتے تھے۔ مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیٹی اور سیکڑوں شاگرد چھوڑے ہیں۔