پاکستانی سیاست کے ’’ڈانسنگ فلور‘‘ پر فوجی بالادستی اور سول بالادستی کا ’’مشترکہ رقص‘‘
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ عمران خان نوازشریف اور آصف علی زرداری کو ’’ڈاکو‘‘ قرار دے رہے تھے، اور نواز لیگ اور پیپلزپارٹی عمران خان کو ’’سلیکٹڈ‘‘ ہونے کا طعنہ دے رہی تھیں۔ میاں نوازشریف کا ارشاد تھا کہ ’’خلائی مخلوق‘‘ ان کے تعاقب میں ہے۔ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا کہ میاں نوازشریف ’’گاڈ فادر‘‘ اور ’’سسلین مافیا‘‘ ہیں۔ مگر اب اچانک آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے نواز لیگ، پیپلزپارٹی، تحریکِ انصاف اور ایم کیو ایم قانون سازی پر اس طرح متفق ہوگئی ہیں جیسے ان کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا ہی نہیں تھا، بلکہ یہ چاروں جماعتیں ہمیشہ سے ایک دوسرے کی ’’رشتے دار‘‘ تھیں۔ اقبال نے کہا ہے ۔
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
میاں نوازشریف اور اُن کی جماعت نے حال ہی میں جو بڑے سیاسی نعرے فضا میں اچھالے تھے اُن میں سے ایک نعرہ تھا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘۔ دوسرا نعرہ تھا ’’سول بالادستی‘‘ ضروری ہے۔ میاں نوازشریف کے صحافتی وکیل میاں نوازشریف اور اُن کی جماعت کے ان نعروں کے حوالے سے خود بھی بڑی خوش فہمیوں کا شکار تھے اور قوم کو بھی سبز باغ دکھانے میں مصروف تھے۔ ملک کے معروف صحافی اور کالم نگار الطاف حسن قریشی نے ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے اداریے میں لکھا۔
’’ان (میاں نوازشریف) کا یہ عظیم الشان کارنامہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا کہ انہوں نے بندوق کے آگے سرنگوں ہونے کے بجائے اپنی خودداری اور ’’سویلین بالادستی‘‘ کا پرچم بلند رکھا۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کا حال اور مستقبل اس زندۂ جاوید رہنما کے نورِ بصیرت سے جگمگاتے رہیں گے‘‘۔
(اردو ڈائجسٹ نومبر 2019ء)
مگر جیسا کہ ظاہر ہے، میاں نوازشریف اور اُن کی جماعت نے ’’بندوق‘‘ ہی نہیں ’’صندوق‘‘ کے سامنے بھی سرجھکا دیا ہے اور میاں نوازشریف کی سول بالادستی کو فوجی بالادستی کے پائوں دباتے ہوئے صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ الطاف حسن قریشی کا ’’زندۂ جاوید‘‘ رہنما ’’مردۂ جاوید‘‘ رہنما کا منظر پیش کررہا ہے۔ اس صورتِ حال میں جتنا ’’نورِ بصیرت‘‘ موجود ہوسکتا ہے وہ بھی ظاہر ہے۔
خورشید ندیم بھی میاں نوازشریف کے عاشقوں میں سے ہیں۔ جج ارشد ملک کی ویڈیو کا اسکینڈل سامنے آیا اور مریم نوازشریف نے ایک عدد پریس کانفرنس داغی، تو خورشید ندیم صاحب کا پورا وجود متحرک ہوگیا اور انہوں نے اچانک ’’علامہ اقبال‘‘ بن کر ’’آخری معرکہ‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا:
’’مریم نواز کی پریس کانفرنس کے بعد سیاسی کشمکش ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ ممکن ہے یہ اس معرکہ آرائی کا آخری مرحلہ ہو۔‘‘ (روزنامہ دنیا۔ 8 جولائی 2019ء)۔
مگر اب میاں نوازشریف اور اُن کی جماعت نے ایک بار پھر فوجی بالادستی کے آگے ہتھیار ڈالے ہیں تو خورشید ندیم نے اپنے کالم ’’سیاسی رومان کا المناک انجام‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا:
’’یہ خوش گمانیوں کا موسم تھا جو رخصت ہوا۔ شاید ہمیشہ کے لیے۔ نوازشریف اور عمران خان سے رومان وابستہ ہوئے، ایک عوام کی حاکمیت کا (یعنی سول بالادستی کا)، دوسرا روایتی سیاست سے نجات کا۔ دونوں کو حقیقت پسندی کی سنگلاخ زمین پر ننگے پائوں چلنا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں آبلہ پائی کا شکار ہوگئے۔ آرمی ایکٹ میں تبدیلی کا مجوزہ قانون اس کے سوا کچھ نہیں کہ دونوں کا زمینی حقائق کے روبرو اعتراف عجز ہے… رومان کی سیاست ختم ہوئی مگر رومان کو زندہ رہنا چاہیے۔‘‘ (روزنامہ دنیا۔ 4 جنوری 2020ء)۔
پاکستان کی سیاست کی تباہی و بربادی میں صرف جرنیلوں اور سیاست دانوں ہی کا حصہ نہیں، اس سلسلے میں دانش وروں، کالم نگاروں اور ذرائع ابلاغ نے بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت اردو ڈائجسٹ میں لکھا ہوا الطاف حسن قریشی کا اداریہ ہے۔ اس کا دوسرا ثبوت خورشید ندیم کے کالموں کے مذکورہ بالا اقتباسات ہیں۔ 8 جولائی 2019ء کو خورشید ندیم میاں نوازشریف، مریم نواز اور نواز لیگ کو ’’آخری معرکہ‘‘ لڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے، اور صرف چھے ماہ بعد وہ 4 جنوری 2020ء کے کالم میں میاں نوازشریف سے وابستہ ’’سیاسی رومان‘‘ کے خاتمے کا اعلان فرما رہے تھے۔ رومان بڑی اچھی چیز ہے، مگر کیا ایک گیدڑ کو شیر سمجھ کر اُس کے ساتھ ’’رومانس‘‘ کیا جا سکتا ہے؟ کیا ایک کوّے سے شاہین کی صفات وابستہ کرکے ’’رومان‘‘ کا حق ادا کیا جا سکتا ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ چنانچہ جو لوگ گیدڑ کو شیر، اور کوّے کو شاہین باور کراتے ہیں وہ دانش وری کے نام پر قوم کے ساتھ بھیانک مذاق کرتے ہیں، اسے دھوکا دیتے ہیں، اسے گمراہ کرتے ہیں۔ میاں نوازشریف کی تو کوئی اوقات ہی نہیں تھی، ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی جو ’’رومان‘‘ وابستہ کیا گیا اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس لیے کہ بھٹو کی ذہنی و نفسیاتی ساخت ایک انقلابی کی ساخت تھی ہی نہیں۔ بھٹو کا خمیر جاگیرداری سے اٹھا تھا۔ انہیں چار زندگیاں مل جاتیں تب بھی وہ ’’سوشلسٹ‘‘ نہیں ہوسکتے تھے، اور انقلابی تو ہرگز نہیں۔ بلاشبہ بھٹو بہت ذہین تھے اور وسیع المطالعہ بھی۔ ان کی ذہانت اور مطالعے نے ان میں عوام کے جذبات سے کھیلنے کی اہلیت پیدا کردی تھی، چنانچہ وہ ’’مقبولِ’عوام‘‘ رہنما بن کر ابھرے۔ لیکن ’’مقبولِ عوام‘‘ اور ’’انقلابی‘‘ ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انقلاب ایک ’’تصورِ حیات‘‘، ایک ’’تصورِ انسان‘‘ اور ایک ’’تصورِ معاشرہ‘‘ کا نام ہے۔ بھٹو صاحب کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ بھٹو صاحب کا Populism ملک و قوم کو کچھ نہ دے سکا۔ مسلم برصغیر میں سیاسی رومان صرف ایک شخص سے وابستہ کیا جا سکتا تھا… محمد علی جناح سے۔ اس لیے کہ اُن کے پاس ایک تصورِ زندگی تھا، ایک تصورِ انسان تھا، ایک تصورِ ریاست تھا۔ وہ ذہین بھی تھے اور وسیع المطالعہ بھی۔ اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ ان کے حریف بھی کہتے تھے کہ جناح کو نہ ڈرایا جا سکتا ہے، نہ دبایا جا سکتا ہے، نہ خریدا جا سکتا ہے۔ مسلم برصغیر کو قائداعظم کے ساتھ یا اُن کے بعد ایک اور شخصیت فراہم ہوئی جس سے سیاسی رومان ہی کو نہیں ’’نظریاتی رومان‘‘ کو بھی وابستہ کیا جا سکتا تھا اور اب بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس شخص کا نام ہے مولانا مودودیؒ۔ مگر خورشید ندیم اور ان جیسے لوگ مولانا، ان کی فکر اور ان کی پیدا کی ہوئی جماعت سے ’’رومان‘‘ کیا ’’ارمان‘‘ بھی وابستہ نہیں کرتے۔ اس حوالے سے خورشید ندیم کا ایک کالم ہمارے سامنے ہے۔ لکھتے ہیں:
’’مکرر عرض ہے کہ اہلِ سیاست سے عوام کا تعلق رومانوی نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ مذہبی یا سماجی رومان سراب کے سوا کچھ نہیں۔ عوام کو صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ کون ان کے مسائل بہتر طریقے سے حل کرسکتا ہے۔ آئیڈیل کہیں نہیں پایا جاتا۔ آئیڈیل کے پیچھے بھاگنے کے بجائے حقیقت پسندی سے لیڈر کا انتخاب کرنا چاہیے۔‘‘
(روزنامہ دنیا۔ 9 اپریل 2018ء)
یہ ہے ہمارے دانش وروں، کالم نگاروں، تجزیہ نویسوں اور اینکرز اور صحافیوں کی وہ ’’منافقت‘‘ جس نے قوم کو گمراہ کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خورشید ندیم کوّے کو شاہین، اور گیدڑ کو شیر سمجھ کر اس سے تو ’’سیاسی رومان‘‘ وابستہ کرسکتے ہیں، مگر مولانا مودودی، ان کی فکر اور ان کی ’’نظریاتی پروڈکٹ‘‘ جماعت اسلامی کا نام لیے بغیر وہ فرما رہے ہیں کہ مذہبی اور سیاسی رومان سراب کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نوازشریفوں، الطاف حسینوں، آصف زرداریوں، پرویز مشرفوں، بلاول زرداریوں اور عمران خانوں ہی سے نہیں، الطاف حسن قریشیوں اور خورشید ندیموں سے بھی پاکستان اور اہلِ پاکستان کو محفوظ رکھے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ بلاول زرداری عمران خان کو ’’سلیکٹڈ‘‘ قرار دے کر اطمینان محسوس کیا کرتے تھے۔ مگر اب آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کی حمایت کرکے وہ خود “Selectors” کے “Selected” ہوگئے ہیں۔ ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘۔ بلاول اس سلسلے میں میاں نوازشریف سے صرف اتنے مختلف ہیں کہ انہوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کو ’’پارلیمانی طریقے‘‘ یا ’’جمہوری طریقے‘‘ سے منظور کرنے پر اصرار کیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں اپنے حریف کے جوتے بیٹھ کر نہیں، کھڑے ہوکر چاٹوں گا۔ جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق ہے، اور اس کا سارا سیاسی سفر اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں آگے بڑھا ہے، اور آج بھی ایم کیو ایم کے تمام دھڑے اسٹیبلشمنٹ کی مٹھی میں ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ نواز لیگ، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کی ’’سیاسی شاخوں‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔
پاکستان اور پاکستانی قوم کی ایک بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی بڑی پارٹیاں خود کو جمہوری، قومی، سیاسی، اصولی اور سول کہتی ہیں، حالانکہ وہ نہ ’’جمہوری‘‘ ہیں، نہ ’’قومی‘‘۔ وہ ’’سیاسی‘‘ ہیں نہ ’’اصولی‘‘۔ یہاں تک کہ وہ پوری ’’سول‘‘ بھی نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کو قائم ہوئے نصف صدی ہوگئی ہے مگر پیپلزپارٹی آج تک جمہوری نہیں ہے۔ اس کے اندر انتخابات ہوتے ہی نہیں۔ اس پر پہلے دن سے بھٹو خاندان کا قبضہ ہے۔ کبھی بھٹو صاحب پیپلزپارٹی کے سربراہ تھے۔ وہ نہ رہے تو بے نظیر بھٹو اس کی سربراہ بن گئیں۔ اب بلاول اس کے ’’مالک‘‘ ہیں۔ خدانخواستہ کل بلاول نہیں ہوں گے تو آصفہ، بختاور، یا ان لوگوں کی اولادیں پیپلزپارٹی کی ’’قیادت‘‘ کررہی ہوں گی۔ نواز لیگ کی عمر 30 سال سے زیادہ ہے، مگر یہ جماعت 30 سال پہلے بھی شریف خاندان کی باندی تھی، آج بھی شریف خاندان کی باندی ہے۔ نوازشریف منظر سے ہٹے تو شہبازشریف پارٹی کے قائد بن گئے۔ کل وہ نہیں ہوں گے تو مریم نواز پارٹی کی ’’رہنمائی‘‘ کریں گی۔ پیپلزپارٹی کی طرح نواز لیگ میں بھی آج تک حقیقی انتخابات نہیں ہوئے۔ عمران خان بہت ’’جمہوریت جمہوریت‘‘ کرتے ہیں، مگر انہوں نے بھی پارٹی کے اندر انتخابات نہیں ہونے دیے۔ جسٹس(ر) وجیہ الدین کی نگرانی میں ایک بار انتخابات کی نوبت آئی تھی، مگر جسٹس (ر) وجیہ نے دھاندلی زدہ ہونے کی وجہ سے پارٹی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ عمران خان کو اس منظرنامے میں جسٹس (ر) وجیہ کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے تھے، مگر انہوں نے جسٹس (ر) وجیہ ہی کو پارٹی سے نکال باہر کیا۔ ایم کیو ایم پر 35 سال تک الطاف حسین کا غلبہ رہا ہے اور اب بھی اصل ایم کیو ایم اس دن کے انتظار میں ہے جب الطاف حسین اس کی قیادت کریں گے۔
بلاشبہ پی پی پی کبھی ’’قومی جماعت‘‘ تھی، مگر اب وہ صرف سندھ کی جماعت ہے، اور اپنے سندھ تک محدود ہوجانے پر پوری طرح ’’قانع‘‘ ہے۔ نواز لیگ کل بھی پنجاب کی جماعت تھی، آج بھی پنجاب کی جماعت ہے، اور آنے والے کل میں بھی صرف پنجاب کی جماعت ہوگی۔ بدقسمتی سے میاں صاحب کے لیے ’’پنجاب‘‘ ہی ’’پاکستان‘‘ ہے۔ چنانچہ انہوں نے کبھی نواز لیگ کو حقیقی معنوں میں ’’قومی‘‘ بنانے کی معمولی سی کوشش نہیں کی۔ بلاشبہ ابھی تحریک انصاف ایک قومی جماعت ہے، مگر عمران خان اقتدار میں نہیں رہیں گے تو تحریک انصاف ایک بار پھر کے پی کے تک محدود ہوسکتی ہے۔ ایم کیو ایم پہلے دن سے صرف کراچی اور حیدرآباد کی پارٹی ہے، اور آج بھی یہی دو شہر اس کی سیاسی طاقت کا اصل مرکز ہیں۔ ایم کیو ایم نے جنرل مرزا اسلم بیگ کے دبائو پر خود کو ’’متحدہ قومی موومنٹ‘‘ بنا لیا تھا، مگر یہ صرف نام کی حد تک تھا اور ہے، ورنہ ایم کیو ایم کل بھی صرف مہاجروں کی جماعت تھی اور آج بھی صرف مہاجروں کی جماعت ہے۔
ہماری قومی زندگی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی کوئی بڑی سیاسی جماعت نہ پوری سیاسی ہے، نہ پوری سول ہے۔ پیپلزپارٹی خود کو ’’سیاسی‘‘ اور ’’سول‘‘ کہتی ہے، مگر بھٹو صاحب جنرل ایوب کی پیداوار تھے۔ وہ جنرل ایوب کی کابینہ کا حصہ تھے اور ان کی ’’ایوب پرستی‘‘ کا یہ عالم تھا کہ وہ جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ بلاشبہ پیپلزپارٹی نے جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کی مزاحمت کی، مگر یہ بات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بے نظیر بھٹو اور اُن کی جماعت نے جنرل پرویزمشرف کے مارشل لا کا خیرمقدم کیا، اور پیپلزپارٹی واحد سیاسی جماعت تھی جس نے جنرل پرویزمشرف کی حمایت میں جلوس نکالا تھا۔ بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو نے بالآخر جنرل پرویز کے ساتھ این آر او بھی فرمایا۔ امریکہ کی سابق وزیرخارجہ کونڈو لیزا رائس نے اپنی خودنوشت میں اعتراف کیا ہے کہ امریکہ نے جنرل پرویز اور بے نظیر کے درمیان این آر او کروایا۔ اب خیر سے عمران خان کو “Selected” کہتے کہتے بلاول خود بھی “Selected” ہوگئے ہیں۔
میاں نوازشریف کا تو سیاسی ڈی این اے ہی فوجی اور عسکری ہے۔ انہیں جرنیلوں نے پیدا کیا، جرنیلوں نے پالا پوسا، آگے بڑھایا، صوبائی وزارت کے منصب پر فائز کیا، پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا۔ یہاں تک کہ جرنیلوں کے کاندھوں پر سوار ہوکر وہ ملک کے وزیراعظم بنے۔ ڈیڑھ دو سال قبل اچانک میاں صاحب ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے تو ہم نے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ وہ ’’نظریاتی شخصیت‘‘ نہیں، صرف ’’نظر آتی شخصیت‘‘ ہیں۔ اچانک انہیں اسٹیبلشمنٹ ’’خلائی مخلوق‘‘ نظر آنے لگی۔ مگر اب میاں صاحب اور اُن کی پوری جماعت اس ’’خلائی مخلوق‘‘ کے لیے ’’ملائی مخلوق‘‘ ثابت ہوگئے ہیں۔ انہوں نے خلائی مخلوق کے ساتھ ڈیل بھی کی، ڈھیل بھی لی۔ اب وہ پاکستانی سیاست کے ’’ڈانسنگ فلور‘‘ پر فوجی بالادستی اور سول بالادستی کا ’’مشترکہ رقص‘‘ پیش فرما رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ’’بچھڑا ہوا نوازشریف‘‘ اور میاں نوازشریف کو ’’بچھڑی ہوئی اسٹیبلشمنٹ‘‘ مل گئی تو قوم کی قسمت کی کلی کھل گئی۔
عمران خان کی ’’زندگی‘‘، عمران خان کی ’’شہرت‘‘ اور عمران خان کی ’’عوامی خدمت‘‘ اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ نہیں تھی۔ چنانچہ وہ ایک ’’آزاد سیاسی طاقت‘‘ بن کر ابھر سکتے تھے۔ ایسا ہونا صرف عمران کی نہیں، پوری قوم کی نفسیاتی، جذباتی، ذہنی اور سیاسی ضرورت ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، مگر ہمارے سیاسی رہنما ایک سطح پر عزت اور ذلت کو امریکہ کے ہاتھ میں سمجھتے ہیں، اور دوسری سطح پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں سمجھتے ہیں۔ یہ کھلا کفر بھی ہے اور کھلا شرک بھی۔ مگر بدقسمتی سے عمران خان نے اللہ سے عزت مانگنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے عزت مانگی۔ انہیں یہ عزت ملی، مگر اس عزت کا جو حال ہوچکا ہے اور جو ہونے والا ہے اس کا اندازہ دشوار نہیں۔ اقبال نے کہا ہے ۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی
مگر بدقسمتی سے ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ’’بحرِ بیکراں‘‘ پسند نہیں، وہ سب ’’آبِ جو‘‘ کے عاشق ہیں۔