سیاست کے کھلاڑیوں کے اہم چہرے بے نقاب
مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ نے مولانا فضل الرحمن سمیت پاکستانی سیاست کے تمام اہم کھلاڑیوں کی ’’اصلیت‘‘ کو ایک بار پھر آشکار کردیا ہے۔ پاکستانی سیاست کے کھلاڑیوں کی ’’اصلیت‘‘ کیا ہے؟ یہ کہ ان کا کوئی ’’نظریہ‘‘ نہیں۔ ان کے پیش نظر کوئی ’’قومی‘‘ اور ’’ملکی‘‘ مفاد نہیں۔ ان کے لیے صرف ان کی ذات، ان کی جماعت، ان کا گروہی پس منظر اور مفاد اہم ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کی سیاست کی کوئی ’’اخلاقی بنیاد‘‘ ہی نہیں۔ اس کی پشت پر نہ دین ہے، نہ تہذیب، نہ تاریخ۔ چنانچہ پاکستان کی سیاست کے تمام اہم کھلاڑی ’’بے دلے‘‘ اور ’’سرکٹے‘‘ ہیں۔
عوامی مقبولیت اور اس کے دائرے کی وسعت کے اعتبار سے میاں نواز شریف پاکستان کے اہم ترین سیاسی رہنما ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ ان کے اور ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ بڑا ظلم ہورہا ہے۔ مگر ملک کے سب سے اہم سیاسی رہنما کی یہ اوقات ہے کہ وہ لاہور یا اسلام آباد میں ایک لاکھ لوگ جمع نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اسے اپنی جنگ لڑنے کے لیے ’’کرائے کے فوجی‘‘ کی ضرورت ہے۔ اس رہنما کی داخلی صفوں کا یہ حال ہے کہ وہ جب برطانیہ سے پاکستان آیا تو اس کا خیال تھا کہ لاکھوں لوگ ہوائی اڈے پر اس کا استقبال کرنے آئیں گے، مگر کوئی اور کیا اس کا چھوٹا بھائی شہبازشریف بھی اس کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر نہیں پہنچا۔ وہ گھر سے میاں صاحب کے استقبال کے لیے ضرور نکلا تھا، مگر لاہور کی شاہراہوں پر اِدھر ُادھر پھرتا رہا اور آخری وقت تک ہوائی اڈے نہ پہنچ سکا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ نواز لیگ کے بڑے بڑے رہنما میاں شہبازشریف، خواجہ آصف، احسن اقبال، دانیال عزیز اور خواجہ سعد رفیق وغیرہ تو ہوائی اڈے نہیں پہنچے مگر مشاہد اللہ ہوائی اڈے پہنچ گئے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ جس کو ہوائی اڈے پہنچنا تھا وہ پہنچا، اور جس کو کبھی بھی ہوائی اڈے نہیں پہنچنا تھا وہ ہوائی اڈے نہ پہنچ سکا۔ اتفاق سے یہ صورتِ حال میاں نوازشریف کی صرف ملک آمد کے وقت نہیں تھی، اِس وقت بھی مولانا فضل الرحمن کے مارچ یا دھرنے کی حمایت کے حوالے سے نواز لیگ تقسیم ہے۔ اس تقسیم کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے رابطے اور مارچ کے حوالے سے اب ذمے داری میاں شہبازشریف کے پاس نہیں ہے، بلکہ میاں نوازشریف نے یہ ذمے داری برطانیہ میں موجود اپنے فرزند حسین نواز کے سپرد کردی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نواز لیگ کی سیاست میں اب حسین نواز ’’اِن‘‘ اور شہبازشریف ’’آئوٹ‘‘ ہوگئے ہیں۔ خیر یہ تو ایک طویل جملۂ معترضہ تھا، یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ’’حقیقی سیاسی رہنما‘‘ اور ’’حقیقی سیاسی جماعتیں‘‘ اپنی جنگ خود لڑتی ہیں، مگر میاں نوازشریف نے اپنی جنگ مولانا فضل الرحمن کو “Out Source” کردی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میاں نوازشریف کی شخصیت، سیاست اور سیاسی جماعت کل بھی مصنوعی اور جعلی تھی، آج بھی مصنوعی اور جعلی ہے۔ میاں صاحب جرنیلوں، ججوں اور صحافیوں کو خریدنے کے لیے بدنام ہیں، اب لگتا ہے کہ انہوں نے مارچ، دھرنے اور تحریکیں بھی خریدنی شروع کردی ہیں۔ میاں نوازشریف کے لیے پوری زندگی ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور کی طرح ہے۔ اس اسٹور میں موجود ہرچیز کو وہ ’’بکائو‘‘ مال سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے بیشتر صورتوں میں میاں صاحب کا خیال غلط بھی نہیں ہے۔ مگر اقبال نے کہا ہے:۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
مگر میاں صاحب نے عہدے اور منصب خریدے، ذرائع ابلاغ کی شہرت خریدی۔ اب وہ اپنا سیاسی مستقبل خریدنے کے لیے کوشاں ہیں۔ میاں صاحب کا عقیدہ اقبال کے برعکس یہ ہے کہ اپنی دنیا اگر کسی اور سے تعمیر کرائی جاسکے تو اس میں حرج کیا ہے؟
مولانا فضل الرحمن کے مارچ یا دھرنے نے خود مولانا اور ان کی سیاست کو بھی بری طرح Expose کردیا ہے۔ پاکستان میں مولانا اور ان کی سیاست ’’اسلامی سیکولر ازم‘‘ کی سب سے بڑی علامت ہے۔ سیکولرازم کا ایک مطلب بلاشبہ لامذہبیت ہے، مگر سیکولرازم کا ایک مفہوم دنیا پرستی بھی ہے۔ ہمیں کالم لکھتے ہوئے اب 29 سال ہوگئے، مگر یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے گزشتہ 29 برسوں میں مولانا کو کبھی کسی ’’اسلامی مقصد‘‘ کے لیے بروئے کار آتے دیکھا ہو۔ یہاں تک کہ وہ کسی تہذیبی، کسی تاریخی یا کسی قومی ’’کاز‘‘ کے لیے بھی کبھی متحرک نہیں دیکھے گئے۔ ان کے لیے سیاست اور اقتدار کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ بجائے خود مقصد ہے۔ مگر ان کی ظاہری مذہبیت ان کی ہر چیز کا پردہ بنی ہوئی ہے۔ لیکن یہ تو ایک تجزیہ ہے، تاہم ’’معروضی حقائق‘‘ کی روشنی میں بھی مولانا کی تصویر اچھی نظر نہیں آتی۔
مولانا، عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان پر توہینِ رسالتؐ کا الزام بھی لگایا ہے۔ عمران خان نے ایک قادیانی کو اپنا اقتصادی مشیر بنایا تو مولانا نے بجا طور پر اس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کیا۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے فرض کرتے ہیں کہ عمران خان واقعتاً اسلام دشمن بھی ہوں گے اور بیرونی طاقتوں کے آلۂ کار بھی ہوں گے، چنانچہ مولانا، عمران سے نفرت کرتے ہیں تو ٹھیک کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اسلام دشمنی اور ملک دشمنی کے حوالے سے میاں نوازشریف بلکہ پورے شریف خاندان کا ریکارڈ عمران خان سے سینکڑوں گنا بدتر ہے۔ ’’شریفوں‘‘ کی اسلام دشمنی کی چند ٹھوس اور ناقابلِ تردید مثالیں مولانا اور اُن کے متاثرین کے ملاحظے کے لیے حاضر ہیں۔
چودھری شجاعت حسین نے اپنی خودنوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ انہوں نے شریفوں کے ساتھ سیاسی معاہدہ کیا تو میاں شہبازشریف قرآن اٹھا لائے اور فرمایا کہ یہ قرآن اس بات کا ضامن ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے۔ مگر چودھری شجاعت کے بقول شریفوں نے اپنے کسی وعدے پر بھی عمل نہ کیا۔ ظاہر ہے کہ شہبازشریف کے ’’لیڈر‘‘ تو میاں صاحب ہیں، اور وہ قرآن کو ضامن بنارہے تھے تو میاں نوازشریف بھی وہاں موجود ہوں گے۔ ان حقائق کا مفہوم یہ ہے کہ میاں شہبازشریف اور میاں نوازشریف نے قرآن پر جھوٹ بولا۔ کیا مسلمانوں میں اس سے بڑا بدبخت کوئی ہوسکتا ہے جو قرآن کو ضامن بنائے اور اس پر جھوٹ بولے؟ واضح رہے کہ چودھری شجاعت کی اس کتاب کو شائع ہوئے عرصہ ہوگیا، مگر شریفوں نے اس کتاب کے ان مندرجات کی تردید نہیں کی جو ان سے متعلق ہیں، بلکہ تازہ ترین اطلاع تو یہ ہے کہ شریفوں اور چودھری شجاعت اینڈ کمپنی میں رابطے ہوئے ہیں۔
میاں نوازشریف کے حوالے سے یہ خبر ہیرالڈ ٹریبیون میں شائع ہوچکی ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں اقوام متحدہ کی جانب سے یہ تجویز آئی کہ پاکستان زنا بالرضا کو قانونی قرار دے دے۔ یہ تجویز پیپلزپارٹی کی حکومت کے زمانے میں بھی آئی تھی مگر پیپلزپارٹی نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا تھا، تاہم میاں نواز شریف کے زمانے میں یہ تجویز آئی تو میاں صاحب کی حکومت نے اسے ’’قابلِ غور‘‘ قرار دیا۔ کیا کوئی مسلمان ایک مسلم معاشرے میں زنا بالرضا کو ’’قابلِ غور‘‘ قرار دے سکتا ہے؟ اور کیا وہ ایسا کرکے اسلام دشمنی کا مظاہرہ نہیں کرے گا؟ میاں نوازشریف اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں ختمِ نبوت کے تصور پر بھرپور حملہ کرچکے ہیں، جس کے بعد ان کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا۔ کیا کوئی مسلمان ختمِ نبوت کے تصور پر حملے کا سوچ بھی سکتا ہے؟ اور کیا ختمِ نبوت کے تصور پر حملہ کرنے والا مسلمان کہلانے کا بھی مستحق ہے؟ ہم فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں ٹھوس شہادتوں اور دلائل کے ذریعے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ توہینِ رسالتؐ کی مرتکب ملعونہ آسیہ کو یورپی یونین کی دھمکی اور دبائو پر رہا کیا گیا۔ اس جرم میں جسٹس ثاقب نثار، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان برابر کے شریک تھے، مگر بدقسمتی سے ملعونہ آسیہ کی رہائی کو نواز لیگ اور پیپلزپارٹی نے بھی سراہا۔ ایسا کرکے کیا میاں نوازشریف اور ان کی جماعت نواز لیگ توہینِ رسالتؐ کی ملزمہ کی طرف داری کی مرتکب نہیں ہوئی؟ مولانا فضل الرحمن اس بات پر بجاطور پر ناراض ہوئے کہ عمران خان نے ایک قادیانی کو اقتصادی مشیر رکھ لیا، مگر ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میاں نوازشریف نے تو پاکستان کی ایک جامعہ کا ایک پورا شعبہ قادیانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کردیا تھا۔ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ کے باب ’’اکھنڈ بھارت‘‘ میں لکھا ہے کہ میاں شہبازشریف پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے لیے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ بات چیت کررہے تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ پاکستان توڑنے کی کھلی سازش تھی اور شہبازشریف اس سازش کا حصہ تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ دوسرے کاموں کی طرح یہ کام بھی میاں نوازشریف کی ’’مرضی‘‘ سے کررہے ہوں گے۔ جنرل درانی کی کتاب کو شائع ہوئے بھی عرصہ ہوگیا مگر میاں نوازشریف یا ان کے خاندان کے کسی فرد نے کبھی اسپائی کرونیکلز میں بیان کیے گئے حقائق کی تردید نہیں کی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن عمران خان کو تو ’’اسلام دشمن‘‘ اور ’’پاکستان دشمن‘‘ قرار دیتے ہیں، مگر وہ میاں نوازشریف اینڈ کمپنی کی ٹھوس اور ناقابلِ تردید اسلام اور پاکستان دشمنی کے باوجود ان کے ’’اتحادی‘‘ ہیں۔ وہ ان کے لیے اسلام آباد کی طرف مارچ کررہے ہیں، ان کے لیے دھرنا دینے کا منصوبہ بنارہے ہیں، ان کی جانب سے مارچ کی حمایت پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ مولانا کے یہ ہولناک تضادات ان کے ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کی ناقابلِ تردید شہادت ہے۔ آخر ایسا کیسے ہوسکا ہے کہ ایک جگہ اسلام اور پاکستان کی دشمنی مولانا فضل الرحمن کے لیے ’’ناقابلِ قبول‘‘ ہو، اور دوسری جگہ ’’قابلِ قبول‘‘ ہو؟ کیا مولانا کے ’’سیاسی مفادات‘‘ اسلام اور پاکستان سے بھی زیادہ اہم ہیں؟ آخر دنیا پرستی کی کوئی حد بھی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے ممکنہ مارچ اور ممکنہ دھرنے سے عمران خان، ان کی سیاست اور پی ٹی آئی بھی پوری طرح “Expose” ہوگئی ہے۔ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عمران خان کا دھرنا تو ’’حلال‘‘ ہو اور مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ’’حرام‘‘ ہو! عمران خان اسلام آباد میں 126 دن بیٹھے رہیں تو ٹھیک… مولانا فضل الرحمن ایک آدھ دن کے لیے اسلام آباد آجائیں تو آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ یہ پی ٹی آئی کی سیاسی بے حیائی کی انتہا ہے کہ پی ٹی آئی کا ایک رہنما امین گنڈا پور ٹی وی پر آکر کہہ رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمن بھارت کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور ہمارے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں، مگر اب عمران خان کہہ رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔ تو کیا عمران خان اب بھارت کے ایجنڈے پر کام کرنے والے رہنما سے مذاکرات فرمائیں گے؟ مولانا کے مارچ سے متعلق پی ٹی آئی کے ردعمل کو دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو دھرنا ’’دینے‘‘ کا تجربہ تو ہے، دھرنا ’’سہنے‘‘ کا تجربہ نہیں ہے۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کہا کرتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کی حکومتوں کو کبھی چلنے نہیں دیا۔ نوازلیگ اسی بنیاد پر عمران خان کے دھرنے کے خلاف تھی۔ پیپلزپارٹی بھی کہا کرتی تھی کہ حکومتوں کو پانچ سال مکمل کرنے دیے جائیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی کہا کرتے تھے کہ نوازلیگ کی حکومت کو اس کا وقت پورا کرنے دیا جائے۔ مگر اب میاں نوازشریف اور پیپلزپارٹی ہی نہیں، مولانا فضل الرحمن بھی عمران خان کی حکومت کو صرف ایک سال میں اقتدار سے باہر کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستانی سیاست کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ اس کا کوئی اصول اور کوئی ضابطہ نہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے ’’ممکنہ مارچ‘‘ اور ’’ممکنہ دھرنے‘‘ کے حوالے سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مولانا کے مارچ یا دھرنے کے پیچھے کون ہے؟ مولانا خود اسلام آباد آنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، یا کوئی انہیں لا رہا ہے؟ مولانا کے بارے میں ایک بات طے ہے کہ وہ عقل کے اندھے ہوں گے مگر گانٹھ کے پورے ہیں۔ وہ ایسے کام میں ہاتھ ہی نہیں ڈالتے جس سے انہیں ’’فائدہ‘‘ ہونے کا امکان نہ ہو۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ یہاں جتنی سیاسی تحریکیں چلی ہیں یا جتنے مارچ اور دھرنے ہوئے ہیں ان کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ یا امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کسی تحریک کی پشت پر ہے تو وہ ’’متحد اسٹیبلشمنٹ‘‘ ہے یا ’’منقسم اسٹیبلشمنٹ‘‘؟ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جنرل ایوب کو ہٹانے والا کوئی نہیں تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ منقسم ہوگئی اور جنرل یحییٰ پانچ چھے سینئر فوجی اہلکاروں کو لے کر جنرل ایوب کے پاس پہنچے اور کہا:”Mr President now you have to go” (جناب صدر اب آپ کو جانا ہوگا) اور جنرل ایوب کو جانا پڑا۔ اسٹیبلشمنٹ میں تقسیم نہ ہوتی تو جنرل ضیاء الحق کا طیارہ حادثے کا شکار نہیں ہوسکتا تھا، اس لیے کہ جنرل ضیاء کے طیارے تک کسی ’’عام آدمی‘‘ کی رسائی ہو ہی نہیں سکتی، اور کوئی معمولی درجے کا اہلکار اُن کے طیارے میں بارودی مواد رکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ جنرل پرویز نے جنرل کیانی کو ترقی دی تھی اور وہ کہا کرتے تھے کہ جنرل کیانی میرا ’’ہمزاد‘‘ ہے، بالکل میری طرح ہے۔ مگر جنرل پرویز کے خلاف چلنے والی وکلا تحریک جنرل کیانی کے بغیر نہ چل سکتی تھی نہ کامیاب ہوسکتی تھی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ بالآخر جنرل کیانی نے اپنے ’’ہمزاد‘‘ جنرل پرویز سے کہا کہ آپ رات کی تاریکی میں “Gentle man” کی طرح چلے جائیں تو اچھا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں جنرل پرویز کو وہ وردی اتارنی پڑی جسے وہ اپنی کھال کہا کرتے تھے۔ اس تاریخ کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اگر مولانا کی پشت پر ’’متحد اسٹیبلشمنٹ‘‘ہے تو پھر مولانا کے ’’ممکنہ مارچ‘‘، ’’ممکنہ دھرنے‘‘ اور ’’ممکنہ ہنگامے‘‘ کا ہدف کوئی سویلین ہے۔ اور اگر اسٹیبلشمنٹ متحد نہیں ہے تو پھر مولانا کے ’’ممکنہ مارچ‘‘،’’ ممکنہ دھرنے‘‘ اور ’’ممکنہ ہنگامے‘‘ کا ہدف کوئی فوجی ہے، خواہ یہ بات مولانا فضل الرحمن کو معلوم ہو یا نہ ہو۔ مولانا سے ہمیںخواہ کتنا ہی اختلاف ہو اور اُن کی سیاست میں ہمیں کتنی ہی دنیا داری بلکہ دنیا پرستی نظر آتی ہو، ایک بات طے ہے کہ مولانا عالمی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ نہیں ہیں۔ مگر میاں نوازشریف کے بارے میں طے ہے کہ وہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہیں۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمن یقینا یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کا ممکنہ مارچ یا ممکنہ دھرنا پُرتشدد ہو۔ مگر میاں صاحب کو ممکنہ مارچ، ممکنہ دھرنے اور ممکنہ ہنگامے میں لاشیں گرانے سے خصوصی دلچسپی ہوسکتی ہے۔ اس طرح وہ پاکستان کی صورتِ حال کو “Internationalize” کرکے اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھا سکیں گے اور اس سے درکار ’’رعایتیں‘‘ حاصل کرسکیں گے۔ جب تک مارچ اور دھرنا شروع نہیں ہوتا، معاملات مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں ہیں، مگر ممکنہ مارچ کے آغاز اور ممکنہ دھرنے کے بعد حالات پر کسی طرح بھی مولانا کا قابو نہیں رہے گا اور کھل کھیلنے والی طاقتیں کھل کھیلیں گی۔ اس وقت پاکستان کو بھارت سے محاذ آرائی درپیش ہے۔ خطے میں روس، چین، پاکستان، ایران اور ترکی کے اتحاد پر باتیں ہورہی ہیں۔ پاک چین تعلقات کی تاریخ میں پہلی بار چین کے صدر جن پنگ نے یہ کہنا ضروری سمجھا ہے کہ پاکستان پر حملہ چین پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ صرف بھارت کے لیے نہیں، بھارت امریکہ گٹھ جوڑ کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔ ان حقائق کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان کی اندرونی سیاست صرف اندرونی سیاست نہیں، بلکہ اس کا خطے اور عالمی سیاست کے بعض پہلوئوں سے گہرا تعلق ہے۔ پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر کیمرون منٹر چند روز پیشتر کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات میں ’’توازن‘‘ رکھنا ہوگا، پاکستان چین کی طرف زیادہ جھکا تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ چین کی طرف کتنا جھکی ہے، مگر یہ بات طے ہے کہ اگر وہ چین کی طرف ایک حد سے زیادہ جھکے گی تو اس کے ’’ذمے دار‘‘ یا ’’ذمہ داروں‘‘ کے خلاف امریکہ کچھ بھی کرسکتا ہے اور کچھ بھی کروا سکتا ہے۔ ہمارے حکمران طبقے نے امریکہ کو پاکستان کے مختلف اداروں میں اتنا اندر تک گھسنے دیا ہے کہ عام لوگ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
تجزیہ کیا جائے تو مولانا فضل الرحمن کے ممکنہ مارچ اور ممکنہ دھرنے پر چار سنگین اعتراضات کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ مولانا خود کو مذہبی سیاست کا علَم بردار کہتے ہیں، مگر ان کے ممکنہ مارچ اور ممکنہ دھرنے کا نہ کوئی مذہبی مطالبہ ہے، نہ مذہبی ایجنڈا ہے، یہاں تک کہ ان کے ممکنہ مارچ اور ممکنہ دھرنے کا رنگ تک مذہبی نہیں۔ اس طرح مولانا مذہبی سیاست سے تعلق کی اپنی پوری تاریخ کی نفی کررہے ہیں اور اس تجزیے کو تقویت پہنچا رہے ہیں کہ ان کی سیاست ہمیشہ سے ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کی علامت ہے۔
مولانا کے ممکنہ مارچ اور ممکنہ دھرنے پر دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ مولانا مارچ اور دھرنے کے حوالے سے ’’آزاد‘‘ نظر نہیں آرہے، بلکہ وہ میاں نوازشریف اور آصف زرداری کے آلۂ کار نظر آرہے ہیں۔
مولانا کے ممکنہ مارچ اور ممکنہ دھرنے کا تیسرا بڑا عیب یہ ہے کہ بظاہر مولانا عمران خان کو گرانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، مگر وہ عمران خان کے ’’سیاسی متبادل‘‘ کی نشاندہی نہیں کررہے۔ کیا عمران خان کے سیاسی متبادل میاں نوازشریف یا آصف علی زرداری ہیں؟ اگر مولانا عمران کو گرا کر نوازشریف، نوازلیگ اور آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے والے ہیں تو قوم کے کسی باشعور شخص کو مولانا اور اُن کے ممکنہ مارچ اور ممکنہ دھرنے کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیے۔
مولانا کے ممکنہ مارچ اور ممکنہ دھرنے کا چوتھا بڑا عیب یہ ہے کہ اس کا کوئی اخلاقی پہلو اور کوئی اخلاقی جہت ہی نہیں ہے۔ یہاں مولانا طاقت کے اندھے کھیل کے ایک کھلاڑی کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ایسے ممکنہ مارچ اور ممکنہ دھرنے کی کوئی ’’مستحکم دلیل‘‘ بھی ابھی تک پیش نہیں کرپائے۔
ہم نے اپنے کالم میں ’’ممکنہ مارچ‘‘ اور ’’ممکنہ دھرنے‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مولانا کا سب سے بڑا مسئلہ اُن کے شخصی اور جماعتی مفادات ہیں۔ اگر اُن کے مفادات کسی محاذ آرائی کے بغیر ہی حاصل ہوگئے تو وہ مارچ اور دھرنے کے خیال کو ’’گڈبائے‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ چنانچہ جب تک مولانا پچاس ساٹھ ہزار افراد کے ساتھ اسلام آباد میں آکر بیٹھ نہ جائیں اُن کے مارچ اور دھرنے کو ’’ممکنہ‘‘ ہی سمجھنا چاہیے۔ مولانا طبعاً محاذ آرائی کو پسند نہیں کرتے۔ وہ ’’حقیقت پسند‘‘ بھی بلا کے ہیں۔ وہ آم کھاتے ہیں، انہیں پیڑ گننے سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ان کے مفادات پورے ہوگئے تو وہ میاں نوازشریف اور آصف زرداری کو مایوسی کی کھائی میں دھکیلنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
ان تمام حقائق میں پوری قوم کے لیے ایک بہت ہی تلخ پیغام پوشیدہ ہے۔ وہ پیغام یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست کا نہ کوئی مذہب ہے، نہ اس کی کوئی تہذیب ہے، نہ اس کی کوئی تاریخ ہے۔ اس سیاست کا نہ کوئی نظریہ ہے، نہ کوئی اخلاق ہے، نہ اس کا کوئی علم یا دماغ ہے۔ یہ سیاست طاقت اور سرمائے کی سیاست ہے۔ کسی بھی سیکولر ملک کی طرح عملاً ایک ’’سیکولر سیاست‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عوام ملوک یا حکمرانوں کے ’’مذہب‘‘ پر ہوتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ عوام جس طرح ملوک کے مذہب پر ہوتے ہیں اسی طرح ملوک کی سیاست پر بھی ہوتے ہیں۔ طاقت اور سرمائے کے کلچر کو عوامی زندگی کا حصہ بنے عرصہ ہوگیا۔ ہمارے حکمران اور ہمارے سیاست دان طاقت اور سرمائے کی سیاست میں اسی طرح مگن رہے تو ہمارے معاشرے کا صرف ظاہر مذہبی رہ جائے گا، اس کا باطن مکمل طور پر سیکولر ہوجائے گا۔ چنانچہ پاکستان کی سیاست کو مذہبی، نظریاتی، اخلاقی اور علمی بنانا ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ فراقؔ کا شعر یاد آگیا:۔