لیوس کیر و ل کا ناول Alice in wonderland مشہورِ زمانہ ہے، شاید ہی دنیا کی کوئی بڑی زبان ہوگی جس میں اس ناول کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔ ’’ایلس اِن ونڈر لینڈ‘‘ اپنی اصل میں ایک Fantacy ہے۔ اس ناول کا رنگ ڈھنگ کچھ اس طرح کا ہے:
’’ایلس نے دیکھا ایک خرگوش صاحب شاندار کوٹ پتلون پہنے اور ٹائی لگائے خراماں خراماں چلے آرہے ہیں۔ ارے واہ! یہ صاحب تو جیب سے گھڑی نکال کر دیکھ رہے ہیں۔ اور لیجیے وہ تو گھڑی دیکھتے ہی بھاگنے لگے ہیں۔ دیکھوں تو آخر یہ کہاں جاتے ہیں۔ اور ننھی ایلس اٹھ کر خرگوش کے پیچھے ہو لی۔ خرگوش تھوڑی دور چل کر ایک بل میں گھس گیا۔ ایلس بھی بل میں داخل ہوگئی۔ وہ ایک کمرے میں جانکلی۔ اچانک اس کی نظر ایک بوتل پر پڑی۔ بوتل پر لکھا تھا ’’مجھے پی لو‘‘۔ ایلس نے بوتل میں موجود محلول کی ایک بوند چکھی۔ مشروب بہت مزیدار تھا۔ ایلس غٹاغٹ ساری بوتل پی گئی۔ بوتل کا پینا تھا کہ ایلس ایک ننھی منی گڑیا بن گئی۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں، چھوٹے چھوٹے پیروں اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں والی گڑیا۔ اچانک ایلس کو سوجھا یہاں سے چلنا چاہیے۔ وہ دوسرے کمرے میں جا نکلی۔ اس کمرے میں ایک کیک موجود تھا جس پر لکھا تھا ’’مجھے کھا لو‘‘۔ ایلس نے کیک کا ایک ٹکڑا کھایا تو اچانک اس کا قد بڑھنے لگا۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے اتنی لمبی ہوگئی کہ اس کا سر کمرے کی چھت سے جا لگا‘‘۔
اتفاق سے عمران خان کا بھی ایک حیرت کدہ ہے… سیاسی حیرت کدہ۔ انگریزی کا سہارا لیا جائے تو اس سیاسی حیرت کدے کو “Imran khan in political wonderland” کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس حیرت کدے کے مناظر بھی عجیب ہیں۔ اس حیرت کدے میں تقریروں کے چوکے ہیں، خطابات کے چھکے ہیں، دعووں کے بائونسر ہیں، وعدوں کی آئوٹ سوئنگرز ہیں، اعلانات کی اِن سوئنگرز ہیں، جذبات کے کور ڈرائیوز ہیں، یوٹرنز کے پُل شاٹس ہیں، اعتبار کا امپائر ہے، بے اعتباری کا اسکور بورڈ ہے۔ اگر کوئی شخص Imran in political wonderland کے عنوان سے ناول لکھ دے تو ہمیں یقین ہے کہ وہ لیوس کیرول کے ناول Alice in wonderland کی طرح دنیا بھر میں مقبول ہوگا۔ جدید فلسفے کے بانی ڈیکارٹ نے کہا تھا ’’میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں‘‘۔ عمران خان کا نعرہ ہے ’’میں بولتا ہوں اس لیے میں ہوں‘‘۔ عمران خان کے لیے بولنا اتنا اہم ہے کہ عمران خان عمل کا کام بھی بولنے سے لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر عمران خان کو بولنے یا تقریروں سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ عمران خان طویل عرصے تک سیاست کے “No body” تھے۔ ان کے لیے پورے ملک سے ایک سیٹ جیتنا بھی ناممکن ہوتا تھا۔ پھر وہ ایک سیٹ کے سیاسی اداکار بن گئے۔ یہاں سے انہیں ٹی وی پر تواتر کے ساتھ آنے کے مواقع ملے یا دلوائے گئے۔ اس زمانے میں عمران خان روز کسی نہ کسی چینل کے ٹاک شو میں موجود ہوتے تھے۔ بہت سے لوگ ٹیلی وژن کی اسکرین کو محض اسکرین سمجھتے ہیں، مگر ٹی وی کی اسکرین معاشرے کی علامت ہے۔ چنانچہ ٹی وی کی اسکرین پر عمران خان کی گفتگو نے انہیں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے مقابلے پر ’’یک رکنی حزبِ اختلاف‘‘ بناکر کھڑا کردیا۔ احتساب کا نعرہ اصل میں قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی کا نعرہ تھا۔ مگر قاضی صاحب اور جماعت اسلامی کبھی ٹی وی کی اسکرین پر نہ چھا سکے، چنانچہ وہ اصل اور حقیقی حزبِ اختلاف ہونے کے باوجود کبھی حزبِ اختلاف نہ بن سکے۔ مگر عمران خان ٹی وی اسکرین پر چھا جانے سے ’’یک رکنی حزبِ اختلاف‘‘ بن گئے اور احتساب کا نعرہ عمران خان کا نعرہ بن گیا، بلکہ یہ نعرہ عمران خان کے نام سے منسوب ہوکر عوام کے ذہنوں میں رجسٹر ہوگیا۔ ٹیلی وژن اداکاری، گلوکاری، موسیقی اور کھیل کے سپراسٹار تخلیق کرتا ہے، مگر پاکستان میں ٹیلی وژن نے عمران خان کی صورت میں پہلا سیاسی سپراسٹار تخلیق کیا۔ یہ سپر اسٹار کرکٹ اور اس کے بعد کی زندگی میں بھی خاموش طبع تھا، مگر سیاست کا حصہ بننے کے بعد اس نے ٹیلی وژن پر گفتگو کے تجربے سے یہ جانا کہ بولنا تو بہت سودمند ہے۔ اس بولنے نے انہیں سیاسی سپراسٹار بنادیا۔ چنانچہ عمران خان تقریروں اور خطابات کے عشق میں مبتلا ہوگئے، یہاں تک کہ انہوں نے تقریروں کو عمل کے ہم معنی یا عمل کا قائم مقام بنادیا ہے۔ چنانچہ وہ معیشت بہتر بناتے ہیں تو تقریروں میں۔ احتساب کرتے ہیں تو تقریروں میں۔ حکومت چلاتے ہیں تو تقریروں میں۔ 50 لاکھ گھر بناتے ہیں تو تقریروں میں۔ مسئلہ کشمیر حل کرتے ہیں تو تقریروں میں۔ یہاں تک کہ مشہورِ زمانہ یا بدنامِ زمانہ ’’تبدیلی‘‘ لاتے ہیں تو تقریروں میں۔ حقیقی رہنمائوں کی ابتدا تقریر، درمیان تدبیر اور اختتام عمل ہوتا ہے۔ مگر عمران خان کی ابتدا بھی تقریر ہے، درمیان بھی تقریر ہے اور اختتام بھی تقریر ہے۔
عمران خان کی تقریر پسندی کا ایک اور سبب ہے۔ عمران خان کو معلوم ہے کہ پاکستان میں اقتدار قوم کو خوش کرنے سے متعلق نہیں، بلکہ جو فوجی اسٹیبلشمنٹ کو خوش رکھے گا وہی اقتدار میں رہے گا۔ چنانچہ عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں اسٹیبلشمنٹ کو خوش رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ عوام کو خوش رکھنے کے لیے تو تقریروں کے چوکے اور خطابات کے چھکے ہی کافی ہیں۔ ویسے بھی عوام کی بڑی تعداد کے لیے عمران خان کا ’’سیاسی متبادل‘‘ موجود نہیں۔ رہنما کا اثر پیروکاروں پر بھی پڑتا ہے، چنانچہ پی ٹی آئی کے چھوٹے چھوٹے رہنمائوں میں بہت سے ایسے ہیں جو عمران خان کی طرح تقریروں کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک ٹھوس مثال وفاقی وزیر علی زیدی ہیں۔ انہوں نے کراچی میں تقریروں اور ٹوئٹس کے ذریعے کچرا اٹھانے اور نالے صاف کرانے تک کی کوشش کر ڈالی۔ مگر تقریروں اور ٹوئٹس سے جتنا کچرا اٹھ سکتا ہے اور جتنے نالے صاف ہوسکتے ہیں وہ ظاہر ہے۔ عمران خان قائداعظم کے زمانے میں ہوتے تو صرف تقریروں کے چوکوں، خطابات کے چھکوں اور وعدوں کے بائونسرز کے ذریعے پاکستان بنانے کی کوشش کرتے۔ Imran in political wonderland میں کچھ بھی ممکن تھا۔ کچھ بھی ممکن ہے۔
ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر کو ’’تاریخی‘‘ کیوں قرار دیا جارہا ہے۔ عمران خان کی سیاسی فیکٹری میں گزشتہ 10 اور بالخصوص گزشتہ ایک سال میں ایک ہی تو Product تیار ہوئی ہے، تقریر، صرف تقریر۔ جن لوگوں نے عمران خان کی تقریر کو تاریخی قرار دیا ہے انہوں نے تاریخ کے سر سے دوپٹا کھینچ لیا ہے، اس لیے کہ تاریخی وہ چیز ہوتی ہے جس سے تاریخ خلق ہو۔ البتہ جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر کے بعد کے آدھے حصے کو ‘‘اچھا‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے، ’’عمدہ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس تقریر کے بارے میں ایک بات طے ہے کہ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری خواب میں بھی اس طرح کی تقریر نہیں کرسکتے تھے۔ اسلاموفوبیا اور کشمیر سے متعلق عمران خان کی تقریر میں جذبہ بھی تھا اور فہم بھی۔ مگر اس تقریر کا مسئلہ یہ تھا کہ یہ تقریر دیواروں سے مخاطب ہوکر کی گئی۔ ’’امریکہ‘‘ مسلمانوں کے لیے 60 سال سے ایک دیوار ہے۔ ’’یورپ‘‘ ایک ہزار سال سے مسلمانوں کے لیے ایک دیوار ہے۔ نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ مسلمانوں کے لیے نصف صدی سے ایک دیوار بنی ہوئی ہے۔ ’’اقوام متحدہ‘‘ 72 سال سے مسلمانوں کے لیے ایک دیوار کا کام انجام دے رہی ہے۔ لیکن ان دیواروں کی موجودگی کے ذمے دار عمران خان نہیں ہیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ تاریخ میں آج تک دیواروں کو تقریروں سے نہیں گرایا جاسکا۔ دیواریں گرتی ہیں مگر عمل کے ہتھوڑے سے۔ دیواروں کے لیے تقریریں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں۔ بلاشبہ عمران خان نے دیواروں پر ایک اچھا پھول مارا ہے۔ دیواروں پر پھول مارنے کا عمل ہمیشہ سے سیاسی اور سماجی ’’حیرت کدے‘‘کا حصہ رہا ہے۔
عمران خان، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کے دعویدار ہیں، اس لیے انہوں نے اپنی تقریر میں رسول اکرمؐ کی توہین کا مسئلہ شدت سے اٹھایا ہے اور بجا طور پر دنیا بالخصوص مغرب کو یاد دلایا ہے کہ رسول اکرمؐ مسلمانوں کے دلوں میں رہتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو رسول اکرمؐ کی توہین پر گہری روحانی اور قلبی تکلیف ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے توہینِ رسالت کے مجرموں کے تحفظ کے سلسلے میں عمران خان کا اپنا کردار افسوس ناک رہا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان میں توہینِ رسالت کی مجرمہ ملعونہ آسیہ کو رہا کرکے ملک سے باہر بھیجا ہے۔ بدقسمتی سے یہ رہائی کسی ’’منصفانہ عدالتی عمل‘‘ کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ یورپی یونین نے پاکستان کو ’’دھمکی‘‘ دی تھی کہ اگر پاکستان نے توہینِ رسالت کی مجرمہ کو رہا نہ کیا تو پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات کو یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا جو درجہ دیا ہواہے وہ واپس لے لیا جائے گا اور پاکستان کو اربوں ڈالرکا نقصان ہوسکتا ہے۔ یورپی یونین کے ترجمان نے یورپی یونین کی ویب سائٹ پر نہ صرف یہ کہ مذکورہ بالا حقائق کا اظہار کیا ہوا تھا بلکہ اس ویب سائٹ پر یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے یورپی یونین کو یقین دلایا ہے کہ سپریم کورٹ بہت جلد ملعونہ آسیہ کا مقدمہ سنے گی اور اسے رہا کردیا جائے گا۔ بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی تھی کہ ملعونہ آسیہ کی رہائی کو عمران خان، اسٹیبلشمنٹ، نواز لیگ اور پیپلزپارٹی نے بھی سراہا۔ یہ ہے توہینِ رسالت کے مسئلے سے ہمارے حکمران طبقے اور بالخصوص عمران خان کی وابستگی کی نوعیت۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں بجا طور پر یہ بات بھی کہی کہ مغربی ممالک میں عورت کپڑے اتار کر خود کو ننگا تو کرسکتی ہے مگر کپڑے پہن کر خود کو ڈھانپ نہیں سکتی، چنانچہ مغرب میں حجاب پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ عمران خان نے یہ کہہ کر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی، مگر بدقسمتی سے ابھی حال ہی میں کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت نے تعلیمی اداروں میں حجاب رائج کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا اسے سیکولر اور لبرل ذرائع ابلاغ کے دبائو اور پروپیگنڈے پر چندگھنٹوں میں واپس لے لیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صرف سیکولر اور لبرل مغرب میں نہیں عمران خان کی ’’ریاست مدینہ ‘‘ میں بھی حجاب کو فروغ دینا ممکن نہیں۔ ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کی ’’تقریر‘‘ کچھ اور ہے اور اُن کا ’’عمل‘‘ کچھ اور ہے۔ ان کی تقریر میں توہینِ رسالت کا ’’درد‘‘ ہے اور ان کے عمل میں توہینِ رسالت کی مجرمہ کی ’’رہائی‘‘ ہے۔ ان کی تقریر میں حجاب کی ’’حمایت‘‘ ہے اور ان کے عمل میں حجاب سے ’’گریز‘‘ ہے۔ عمران خان کے سیاسی حیرت کدے یا Political wonderland میں جو ’’حیرت ناک‘‘ بات ہوجائے کم ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ عمران کی تقریروں میں ’’اسلامی جذبات‘‘ کا ’’دریا‘‘ بہہ رہا ہے اور عمل میں دور دور تک ’’صحرا‘‘ کا منظر ہے!
عمران خان نے بہت جوش و جذبے سے یہ بات کہی کہ 80 لاکھ کشمیری 54 دن سے ’’قیدی‘‘ بنے ہوئے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔ انہوں نے کہا کہ اگر صرف 8 ہزار یہودی کہیں محصور ہوتے تو کیا دنیا کا ردعمل تب بھی یہی ہوتا؟ انہوں نے کہا کہ کیا مسلمان Children of the lesser God ہیں؟ امریکہ، یورپ، اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کو مدتوں سے دنیا کے ’’اچھوت‘‘ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں پر جو بادشاہ، جو جرنیل اور جو سیاسی رہنما مسلط ہیں انہوں نے مسلمانوں کے اس “Status” کو قبول بھی کیا ہوا ہے۔ مسلم دنیا کا کون سا حاکم ہے جو امریکہ اور یورپ کے در کا کتا نہیں ہوا؟ بلکہ دنیا میں تو ایسے مسلم حکمران بھی رہے ہیں اور ہیں، جنہوں نے خود کو اسرائیل او ربھارت کے در کا کتا بنادیا۔ مسلم دنیا اپنی اصل میں ’’شیروں‘‘ کی دنیا ہے، مگر شیروں کی قیادت کتوں کے ہاتھ میں ہو تو شیر بھی رفتہ رفتہ کتے ہی بن جاتے ہیں۔ ڈی ایچ لارنس نے کہیں ایک مزیدار فقرہ لکھا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ زندہ کتا مرے ہوئے شیر سے بہتر ہے۔ البتہ زندہ شیر زندہ کتے سے بہتر ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن صرف وہ نہیں ہیں جو مسلمانوں کو دنیا کا ’’اچھوت‘‘ بنانے پر تلے ہوئے ہیں، بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن وہ بھی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو ’’اچھوت‘‘ کی حیثیت سے قبول کیا ہوا ہے۔ عمران خان تقریر میں مسلمانوں کے اچھوت پن کو قبول کرنے والوں پر بھی دس بیس فقرے کہہ دیتے تو ان کی بات کا وزن بڑھ جاتا۔ عمران خان نے بالکل درست کہا ہے کہ اگر 8000 یہودی کہیں محصور ہوتے تو دنیا ہرگز خاموش نہ رہتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس صورت میں پوری دنیا میں ایک سیاسی اور ابلاغی طوفان برپا ہوجاتا۔ سی این این، بی بی سی، سی این بی سی اور اے بی سی پر 8000 یہودیوں کی خبر شہ سرخی بن جاتی۔ امریکہ تڑپ تڑپ کر خود کو ہلکان کرلیتا۔ مگر 80 لاکھ مظلوم کشمیری مسلمانوں کے سلسلے میں امریکہ کا یہ حال ہے کہ 54 دن تک امریکہ کو خیال ہی نہیں آیا کہ کشمیریوں کی قید ختم ہونی چاہیے۔ البتہ 54 دن بعد جب بھارت خود قید کو ختم کرنے پر مجبور ہورہا ہے تو امریکہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق نائب سیکریٹری خارجہ ایلس ویلز نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیر میں قید و بند کا سلسلہ بند کرے اور کشمیری رہنمائوں سے بات کرے۔ بدقسمتی سے عمران خان اسی امریکہ سے کشمیر پر ثالثی کے لیے بھی کہہ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امریکہ کا صدر چونکہ دنیا کا طاقت ور ترین صدر ہے اس لیے وہی بھارت پر دبائو ڈال کر مسئلہ کشمیر حل کرا سکتا ہے۔ یہاں میرؔ کا شعر یاد آجاتا ہے:
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
ایک جانب عمران خان کہہ رہے ہیں کہ مغرب نے مسلمانوں کو اچھوت یا Children of the lesser God بنایا ہوا ہے، دوسری جانب وہ اسی مغرب بالخصوص امریکہ سے توقع باندھ رہے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی منصفانہ کردار ادا کرے گا۔ عمران خان کا یہ تضاد آلود رویہ بتارہا ہے کہ عمران کے سیاسی حیرت کدے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ اسلام اور مسلمانوں کا دشمن امریکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کشمیر پر انصاف مہیا کرسکتا ہے۔ دیکھا جائے تو عمران خان یہاں بھی تقریر کے چوکے اور خطاب کے چھکے سے Define ہورہے ہیں۔
عمران خان نے یہ بات بھی جوش و جذبے سے کہی کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر جنگ ہوئی تو روایتی جنگ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی اس لیے کہ بھارت پاکستان سے سات گنا بڑا ہے۔ عمران نے کہا کہ جنگ ہوئی تو ہم آخر تک لڑیں گے اور اس جنگ کے اثرات صرف برصغیر تک محدود نہیں رہیں گے۔ اس بیان میں عمران خان نے خوف اور بے خوفی کو گلے ملا دیا ہے۔ ایک جانب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑسکیں گے، اور دوسری جانب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ایٹمی جنگ لڑنی پڑی تو وہ لڑیں گے۔ مسلمانوں نے تاریخ کے ہر دور میں بہت کم عسکری قوت کے ساتھ بہت بڑے بڑے عسکری حریفوں کو شکست دی ہے۔ طارق بن زیاد نے 17 ہزار کے لشکر کے ساتھ اسپین فتح کیا اور ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دی۔ محمد بن قاسم کی فوج صرف 12ہزار افراد پر مشتمل تھی اور راجا داہر کے پاس ایک لاکھ نفوس پر مشتمل فوج تھی۔ افغانستان میں مجاہدین نے ایٹمی صلاحیت سے سوویت یونین اور امریکہ کو نہیں ہرایا۔ انہوں نے ایمان اور جذبے کی قوت سے سوویت یونین اور امریکہ کو شکست دی۔ اقبال نے کہا ہے:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
پاکستان اور بھارت میں تو ایک اور سات کا فرق ہے، قرآن کہتا ہے کہ مسلمان مومن ہوں تو ایک مومن دس کافروں کے لیے کافی ہے۔ افغانستان میں مادی طاقت کے اعتبار سے مجاہدین اور امریکہ میں کہیں ایک اور ایک لاکھ کا فرق تھا، کہیں ایک اور ایک کروڑ کی نسبت تھی، کہیں ایک اور ایک ارب کا تعلق تھا۔ مگر مجاہدین نے امریکہ جیسی سپر پاور کو منہ کے بل گرا دیا۔ پاکستان کے حکمران پاکستان کو پاکستان بنادیں تو بھارت پاکستان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان روایتی جنگ میں بھارت کا بھرکس نکال دے گا، بصورتِ دیگر معلوم نہیں ہم ضرورت کے وقت ایٹم بم بھی استعمال کرنے کے قابل ہوں گے یا نہیں۔ جب حکمرانوں اور قوموں کی روحوں کو زنگ لگ جاتا ہے تو پھر سقوطِ بغداد ہوتا ہے، سقوطِ غرناطہ ہوتا ہے، سقوطِ دِلّی ہوتا ہے اور سقوطِ ڈھاکا ہوتا ہے۔ جس وقت یہ عظیم سانحے ہوئے مسلمانوں کی عسکری قوت کم نہ تھی، مگر ایمان کی کمزوری نے مسلمانوں کو لڑنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ عمران خان کو جانے کس احمق نے بتادیا کہ جنگ صرف ’’دفاعی‘‘ ہوتی ہے۔ ارے بھائی جنگ ’’اقدامی‘‘ بھی ہوتی ہے۔ بسا اوقات اقدامی جنگ انسانوں کو زیادہ بڑی جنگ سے بچا لیتی ہے۔ کوئی عمران اور ان کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ کو بتائے کہ انسان معرکہ آرائی ہی کے لیے پیدا ہوا ہے۔ مسلمان نفس سے لڑتا ہے، شیطان سے لڑتا ہے، بدی کی قوتوں سے لڑتا ہے۔ اس اعتبار سے جنگ مسلمانوں کی زندگی کا ’’معمول‘‘ ہے۔ عمران خان اس ’’معمول‘‘ کو “Abnormal” بناکر پیش نہ کریں۔ اقبال نے کہا ہے:
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب
عمران اکثر اقبال کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کسی اور سے نہیں تو بشریٰ بیگم ہی سے اقبال پڑھ لیں۔ چار دن میں ان کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ پاکستان میں جس شخص نے اقبال کو نہ پڑھا ہو اُسے جنرل اور وزیراعظم بننے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
یہ امتِ مسلمہ کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں نے نبیؐ کی امت کو اتنا ’’غریب‘‘ بنا دیا ہے کہ عمران خان کی ’’اچھی تقریر‘‘ بھی لاکھوں پاکستانیوں کو ایک ’’خزانہ‘‘ محسوس ہورہی ہے۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ’’میکڈونلڈ‘‘ کے برگر کو ’’من و سلویٰ‘‘ سمجھا جائے۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔