ہم نے امریکہ کو صرف اپنا دفاع اور اپنی سیاست ہی نہیں سونپی ہوئی، ہم نے اپنی معیشت بھی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے حوالے کی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف تو ہے ہی امریکی ادارہ۔ عالمی بینک بھی نام کا عالمی بینک ہے، کیونکہ اس پر بھی امریکہ کے گہرے اثرات ہیں
پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے 72 سال میں اتنی ناکامیاں تخلیق کی ہیں کہ دوسری اقوام کے رہنما 1072 سال میں بھی اتنی ناکامیاں تخلیق نہیں کرسکتے۔ اگر ناکامیوں کی بھی کوئی سائنس ہوتی تو ہمارے حکمرانوں کو اب تک ’’حیرت انگیز ناکامیاں‘‘ تخلیق کرنے پر کئی بار نوبیل انعام مل چکا ہوتا۔ شاعر نے کہا ہے:۔
ایک ’’ہم‘‘ ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک ’’وہ‘‘ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
اس شعر کے پہلے مصرعے کا ’’ہم‘‘ ہمارے حکمران ہیں، اور دوسرے مصرعے کا ’’وہ‘‘ چین، بھارت، جاپان، کوریا اور سنگاپور کے حکمران۔
پاکستان وجود میں آیا تھا تو وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھا۔ اس کے نظریے میں اتنی طاقت تھی کہ اس نے ایک ریاست کو ’’عدم‘‘ سے ’’وجود‘‘ میں لاکر دکھا دیا تھا۔ اس نے ’’بھیڑ‘‘ کو ’’قوم‘‘ بنادیا تھا۔ اس نے محمد علی جناح کو ’’قائداعظم‘‘ میں ڈھال دیا تھا۔ اس نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا تھا۔ اس نے ’’امکانات‘‘ کے نئے در کھول دیئے تھے۔ اس نے وقت کی سپر پاور کو شکست دے کر دکھادی تھی۔ اس نے ہندو اکثریت کے دانتوں سے پاکستان کو چھین کر دکھادیا تھا۔ یہ نظریہ پاکستان کو عالمِ اسلام کا قلب بناسکتا تھا۔ یہ نظریہ پاکستان کو عالمی طاقتوں کی صف میں کھڑا کرسکتا تھا۔ مگر قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد جو حکمران آئے انہوں نے پہلا وار پاکستان کے نظریے پر کیا۔ جنرل ایوب خان نے ملک کو سیکولر بنانے کی سازش کی، حالانکہ سیکولرازم نہ پاکستان کا نظریہ تھا، نہ پاکستان کی تہذیب تھا، نہ پاکستان کی تاریخ تھا، نہ پاکستانی قوم سیکولرازم سے آگاہ تھی۔ جنرل ایوب کو سیکولرازم سے اتنی دلچسپی تھی کہ انہوں نے سود کو ’’اسلامی‘‘ بنانے کی سازش کی۔ انہوں نے وہ عائلی قوانین منظور کرائے جو قرآن و سنت کی تعلیمات سے متصادم تھے۔ انہوں نے ایک بار مولانا مودودیؒ سے پوچھا کہ اسلام کا سیاست سے بھلا کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ مولانا نے فرمایا: اسلام کا تو سیاست سے تعلق ہے، مگر سوال یہ ہے کہ جرنیلوں کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟ مگر یہ مسئلہ صرف جنرل ایوب سے متعلق نہیں۔ بھٹو صاحب نے پاکستان کو سوشلسٹ بنانے کی کوشش کی، حالانکہ سوشلزم نہ پاکستان کا نظریہ تھا، نہ ہماری تہذیب کا اس سے کوئی تعلق تھا، نہ ہماری تاریخ اس سے آگاہ تھی۔ پاکستان کے جسم پر ابتدا ہی سے اسلام کے مخمل کا لباس تھا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے اس لباس کو سیکولر ازم، سوشلزم اور لبرل ازم کے ٹاٹ کے پیوندوں سے بھر دیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستان کا ’’نظریاتی غدار‘‘ ہے۔ عالمی تاریخ میں آج تک کسی ریاست کے حکمرانوں نے ریاست کے بنیادی نظریے سے غداری نہیںکی۔ سوویت یونین سوشلسٹ ملک تھا اور اس کے حکمران ہمیشہ سوشلزم کے وفادار رہے۔ امریکہ اور یورپ سیکولر ہیں اور ان کے حکمران سیکولرازم کے وفادار ہیں۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ کبھی اسلام کا وفادار نہیں رہا۔ اس نے علما، مذہبی جماعتوں اور عوامی دبائو پر ملک کو اسلامی آئین ضرور دیا، مگر پاکستان کے حکمرانوں نے اسلام کو آج تک آئین سے نکلنے اور قومی زندگی میں اپنا کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین، اسلام کا ’’حصار‘‘ نہیں اس کا ’’قید خانہ‘‘ ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کی اسلام سے وفاداری کا عالم یہ ہے کہ 1980ء کی دہائی میں امریکہ کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف معرکہ آرائی کے لیے ’’جہاد‘‘ اور جہادیوں کی ضرورت تھی تو پاکستان کے حکمران طبقے نے جہاد کو قومی زندگی کا مرکزی حوالہ اور Non State Actors کہلانے والے مجاہدین کو ریاست کی قوت قرار دیا۔ مگر نائن الیون کے بعد امریکہ اسلام، جہاد اور جہادیوں کا دشمن ہوا تو ہمارے حکمران طبقے نے جہادیوں کو دہشت گرد قرار دے کر پکڑنا اور امریکہ کے حوالے کرنا شروع کردیا اور فرمایا کہ ’’جہاد‘‘ نان اسٹیٹ ایکٹرز کا نہیں ’’اسٹیٹ‘‘ کا کام ہے۔ مگر اب بھارت نے کشمیر کو ہڑپ کیا ہے تو ریاست جہاد کا نام بھی نہیں لے رہی۔ اگر بات ہو بھی رہی ہے تو روایتی یا ایٹمی جنگ کی بات ہورہی ہے، وہ بھی عوام کا ’’دل بہلانے‘‘ کے لیے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کی غداری نے ملک میں نظریاتی غداروں کی ایک پوری فوج کھڑی کردی ہے۔ یہ فوج سیکولر، لبرل اور سابق کمیونسٹ عناصر پر مشتمل ہے۔ یہ فوج تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ میں یہ پروپیگنڈہ کرتی رہتی ہے کہ قائداعظم تو سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے۔
اسلام ایک انقلابی نظریہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ معاشرے میں عدل و انصاف کا بھی بول بالا کرتا ہے۔ اسلام تمام لسانی، صوبائی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ختم کرکے قوم کو ایک وحدت میں ڈھالتا ہے۔ مگر چونکہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو پسِ پشت ڈال دیا، چنانچہ مشرقی پاکستان میں ظلم و ناانصافی کی تاریخ رقم ہوئی۔ بنگالی 1947ء سے 1971ء تک قومی آبادی کا 56 فیصد تھے، مگر 1960ء تک وہ فوج میں کہیں تھے ہی نہیں۔ 1971ء میں جب ملک دولخت ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی تعداد دس بارہ فیصد تھی۔ جنرل یحییٰ نے اس تعداد میں سو فیصد اضافے کا اعلان کیا تو میجر صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا کہ وہ 1971ء کے بحران میں ایک فوجی چھائونی کے دورے پر گئے، وہاں ایک بنگالی فوجی افسر نے صدیق سالک سے کہا کہ تمہارا صدر کیا کہہ رہا ہے؟ اگر اُس کی ہدایت کے مطابق فوج میں بنگالیوں کی تعداد سو فیصد بھی بڑھا دی گئی تو ہماری تعداد فوج میں صرف 25 فیصد ہوگی حالانکہ ہم ملک کی آبادی کا 56 فیصد ہیں۔ سول سروس اور دوسرے شعبوں میں بھی بنگالیوں کی نمائندگی بہت کم تھی۔ اس صورتِ حال میں مولانا مودودیؒ نے 1969ء میں مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور حالات کا جائزہ لے کر فرمایا کہ صورتِ حال یہی رہی تو پاکستان کو متحد نہیں رکھا جاسکتا۔ مگر مولانا کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے جس طرح 56 فیصد بنگالیوں کو فوج اور سول سروس سمیت تمام شعبوں میں نظرانداز کیا اسی طرح اس نے 1970ء کے انتخابات کے بعد بنگالیوں کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن آخری وقت تک مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر جنرل یحییٰ نے اُس کی سن کرنہ دی، اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست اپنے قیام کے صرف 24 سال بعد دولخت ہوگئی۔ اصول ہے کہ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہی ملک کے اچھے برے کا ذمے دار ہوتا ہے۔ پاکستان میں 1958ء سے 1971ء تک طاقت کا سرچشمہ جرنیل تھے، چنانچہ سقوطِ ڈھاکا کے سب سے زیادہ ذمے دار وہی ہیں۔ باقی لوگوں کی حیثیت سقوطِ ڈھاکا کی فلم میں Side Role کرنے والے ’’اداکاروں‘‘ کی ہے۔ گھر میں بچہ غلطی سے گلاس توڑ دیتا ہے تو والدین بچے کو غلطی سے کچھ سیکھنے پر مائل کرتے ہیں تاکہ بچہ آئندہ کوئی نقصان نہ کرے، مگر ہمارے حکمرانوں نے ملک توڑنے سے بھی کچھ سیکھ کر نہ دیا۔ چنانچہ بلوچستان میں پانچ فوجی آپریشن ہوئے اور جنرل پرویز کی حماقت کی وجہ سے بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکلتے نکلتے بچا۔ 1980ء کی دہائی میں دیہی سندھ میں جنرل ضیا کے فوجی آپریشن نے ایسی صورتِ حال پیدا کردی کہ پروفیسر غفور اور مولانا نورانی جیسے محب وطن اور باشعور سیاسی رہنما یہ کہتے نظر آئے کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ 1990ء کی دہائی کے آغاز میں کراچی کے حالات اتنے ابتر ہوئے کہ کراچی ہاتھ سے نکلتا نظر آیا۔ کراچی کے حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ قاضی حسین احمد صاحب نے ایک اطلاع پر یہ بیان دے دیا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی فورسز اترچکی ہیں۔ ہم نے قاضی صاحب سے اس بیان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بوسنیا میں پاکستانی فوج کے جو دستے امن فوج کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ان میں سے ایک دستہ ملک لوٹا تو اس کے سامان پر اقوام متحدہ کا پرچم لہرا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر کسی ’’ذریعے‘‘ نے قاضی صاحب کو فون کردیا۔ کراچی کے حالات اتنے سنگین تھے کہ قاضی صاحب نے چھوٹا سا بیان دینا ضروری سمجھا۔ اب خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں میں پی ٹی ایم ایک مرکز گریز قوت بن کر کھڑی ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ابھی چند ہفتے پہلے کہا کہ ہمیں مجبور کیا گیا تو سندھ میں سندھو دیش بن سکتا ہے۔ بلاول کو یہ بیان دینے سے پہلے چُلّو بھر پانی میں ڈوب کر مرجانا چاہیے تھا، مگر اسٹیبلشنمٹ بھی اس بیان کی ذمے دار ہے، اس لیے کہ وہ ملک کے حالات کو ’’نارمل‘‘ نہیں بنا سکی۔ ہمیں یاد ہے کہ جنرل پرویز کا زمانہ تھا اور الطاف حسین دہلی میں کھڑے ہوکر فرما رہے تھے کہ وہ اگر 1947ء میں ہوتے تو ہرگز پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ الطاف حسین دہلی میں پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے تھے اور دہلی میں پاکستان کا سفارت خانہ اُن کی میزبانی فرما رہا تھا۔ واہ، پاکستان کے حکمران طبقے نے کیا ریاست تشکیل دی ہے۔
اسلام معاشرے میں وحدتِ فکر پیدا کرنے والی واحد طاقت تھا۔ اس طاقت نے تحریکِ پاکستان میں ہمیں تمام تعصبات سے بلند کیا تھا اور پاکستان خلق کیا تھا۔ مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کے پاکستان کی حالت اس وقت یہ ہے کہ پنجابی پنجابی کو ووٹ دیتا ہے، مہاجر مہاجر کو ووٹ دیتا ہے، سندھی سندھی کو ووٹ دیتا ہے۔ 1971ء میں شیخ مجیب کو بنگال کارڈ کھیلنے پر مجبور کیا گیا۔ الطاف حسین اور اُن کی ایم کیو ایم 35 سال سے مہاجر کارڈ کھیل رہی ہے۔ بلاول نے حال ہی میں سندھ کارڈ کھیلا ہے۔ پرویز خٹک عمران کے دھرنے کے وقت خیبر پختون خوا میں پشتون کارڈ کھیل چکے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ کارڈ کھیلنے والے ابھی تک موجود ہیں۔ میاں نوازشریف پنجاب کارڈ کے لیے بدنام ہیں، بلکہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ میاں شہبازشریف پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے یعنی گریٹر پنجاب بنانے کے لیے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال اور قائداعظم کے پاکستان میں ’’پاکستان کارڈ‘‘ کھیلنے والے کہاں ہیں؟ کیا یہ بوجھ صرف جماعت اسلامی اور اس کے متاثرین ہی اٹھائیں گے؟ جرنیلوں نے فوج تک کو ایک قومیت میں ڈھال دیا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں فوج اس طرح زیر بحث آتی ہے جیسے وہ ملک کا کوئی ادارہ نہ ہو بلکہ کوئی ’’قومیت‘‘ ہو۔ باقی قوم سے برتر ’’قومیت‘‘۔ قائداعظم نے ایک ’’بھیڑ‘‘ کو اسلام کی قوت سے ’’قوم‘‘ بنادیا تھا، مگر ہمارا حکمران طبقہ بنی بنائی قوم کو 1948ء سے اب تک ایک قوم نہیں بناسکا۔ جنرل باجوہ نے ابھی کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ کرکٹ پاکستانی قوم کو متحد کرتی ہے۔ بلاشبہ یہ رائے درست ہے، مگر جنرل باجوہ کو کرکٹ سے پیدا ہونے والی وحدت تو نظر آتی ہے مگر انہیں اسلام سے پیدا ہونے والی وحدت کی کوئی فکر نہیں۔ قومیں اپنے نظریے، اپنے مشترک تہذیبی و تاریخی تجربے، زبان، سیاسی، سماجی اور معاشی مفادات سے متحد اور طاقت ور ہوتی ہیں۔ ہمارے جرنیلوں نے قومی اتحاد کا سارا بوجھ فوج کے ادارے پر ڈال کر اسے مذکورہ بالا ہر چیز کا متبادل بنایا ہوا ہے۔ یہ ملک و قوم ہی نہیں خود فوج کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ فوج ملک و قوم کو متحد رکھ سکتی تو 1971ء میں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ نہ ہوتا۔
اسلام تو خیر اللہ کا دین ہے، اس کی قوت بے پناہ ہے، مگر دنیا میں انسانی ساختہ نظاموں اور نظریات نے بھی قوموں کو محدود حد تک مضبوط بنایا ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے کی ہرچیز مصنوعی اور جعلی ہے۔ جنرل ایوب کا سیکولرازم بھی مصنوعی اور جعلی تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا سوشلزم بھی جعلی اور مصنوعی تھا۔ جنرل ضیا کا اسلام بھی جعلی اور مصنوعی تھا۔ اور جنرل پرویزمشرف کا لبرل ازم بھی جعلی اور مصنوعی تھا۔ دنیا کی تاریخ یہ ہے کہ دنیا میں آمریت اور جمہوریت نے بھی نتائج پیدا کرکے دکھائے ہیں۔ سوویت یونین اور چین کی کمیونسٹ آمریت نے انہیں سپر پاور بنایا۔ سنگاپور کے لی کوان یو کی آمریت نے سنگاپور کو ترقی یافتہ ملک میں ڈھالا۔ یورپ کے ممالک غلط یا صحیح، جمہوریت کو اپنی ترقی کا محرک سمجھتے ہیں۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے کی آمریت بھی کھوکھلی ہے اور جمہوریت بھی کھوکھلی ہے۔ پاکستانی قوم کے دکھوں کا درماں نہ جمہوریت تلاش کرسکی، نہ فوجی آمریت۔
قومیں اپنی آزادی اور خودمختاری سے پہچانی جاتی ہیں، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے ہماری آزادی اور خودمختاری کو کچھ سے کچھ بنادیا ہے۔ پاکستان میں فوجی آمر آتا ہے تو اس پر Made in America لکھا ہوتا ہے۔ سول حکمران آتا ہے تو اس پر Made in America لکھا ہوتا ہے۔ جنرل ایوب کے بارے میں American Papres سے یہ حقیقت آشکار ہوگئی ہے کہ وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان پاکستان کو تباہ کررہے ہیں اور فوج ان کو ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب پاکستان اور اس کے عوام سے مخلص ہوتے تو وہ اپنی بنیاد پر مارشل لا لگاتے، امریکیوں سے خفیہ رابطے نہ کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری سیاسی اور معاشی آزادی جنرل ایوب کے عہد ہی سے سلب ہونا شروع ہوگئی تھی۔ جنرل پرویز مشرف تیس مار خان بنتے تھے مگر انہوں نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا۔ اس سے پہلے جنرل یحییٰ اور جنرل نیازی لڑے بغیر بھارت کے آگے ہتھیار ڈال چکے تھے۔ جنرل ایوب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ انہوں نے ملک و قوم کو کس حد تک امریکہ کا غلام بنادیا ہے۔ وہ اس حوالے سے احساسِ جرم میں بھی مبتلا تھے۔ ان کے اسی احساسِ جرم نے ان سے Friends Not Masters لکھوائی۔ اس کتاب کے ذریعے جنرل ایوب نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ امریکہ کے دوست ہیں اُس کے غلام یا آلہ کار نہیں۔ لیکن آقا اور غلام کبھی ’’دوست‘‘ نہیں ہوسکتے۔ جنرل ایوب ہی کے زمانے میں ہم سیٹو اور سینٹو میں چلے گئے۔ اس طرح ہم نے اپنی سیاست اور دفاع کو بھی امریکہ کے حوالے کردیا۔ چین امریکہ کا متبادل بن کر ابھرا ہوا ہے مگر ہمارا حکمران طبقہ ابھی تک امریکی کیمپ سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ چین کی طرف جاتا ہے مگر پھر واپس آکر امریکہ سے لپٹ جاتا ہے۔ یہاں ہمیں اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا:۔
پلٹ کر دیکھتے جاتے ہیں زنجیر محبت کو
ہمیں تو ٹھیک سے آزاد ہونا بھی نہیں آیا
ہم نے امریکہ کو صرف اپنا دفاع اور اپنی سیاست ہی نہیں سونپی ہوئی، ہم نے اپنی معیشت بھی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے حوالے کی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف تو ہے ہی امریکی ادارہ۔ عالمی بینک بھی نام کا عالمی بینک ہے، کیونکہ اس پر بھی امریکہ کے گہرے اثرات ہیں۔
پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستان کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ نہ بناسکا تو کم از کم اسے مادی اعتبار سے ہی مضبوط اور خوشحال بنادیتا۔ مگر ہمارا حال ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم‘‘ والا ہے۔ خوشحال ہوئی ہے تو پاکستان کی فوجی اور سول اشرافیہ۔ پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت کا یہ حال ہے کہ آزادی کے 72 سال بعد بھی 70 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، ملک کی 70 فیصد آبادی صحت کی مناسب سہولتوں سے محروم ہے، ملک کی آدھی آبادی ابھی تک ناخواندہ ہے، ملک کی آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے ’’پڑی‘‘ ہے۔ مغربی پاکستان کا سفاک حکمران طبقہ مشرقی پاکستان کو معاشی بوجھ کہا کرتا تھا، مگر آج بنگلہ دیش کی برآمدات40 ارب ڈالر سالانہ ہیں اور ہم سات آٹھ سال سے 20 ارب ڈالر کی برآمدات سے آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 32 ارب ڈالر ہیں، جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے کم ہیں۔ ہمارے حکمران طبقے کے ’’اسٹیٹ کرافٹ‘‘ کا یہ عالم ہے کہ وہ ملک کو 70 فیصد وسائل مہیا کرنے والے سب سے بڑے، سب سے جدید شہر کراچی کا کچرا نہیں اٹھوا سکتا، اسے ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولتیں نہیں فراہم کرسکتا، اسے پانی مہیا نہیں کرسکتا، کراچی کے ابلتے ہوئے گٹروں کو بند نہیںکرسکتا، کراچی کی ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی مرمت نہیں کرسکتا۔ دنیا میں نااہل حکمرانوں کی کوئی کمی نہیں، مگر جتنا نااہل پاکستان کا حکمران طبقہ ہے اتنا نااہل حکمران طبقہ شاید ہی کہیں موجود ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے حکمران طبقے کی ہولناک، شرمناک اور خوفناک ناکامی کا سبب کیا ہے؟
دنیا کے تمام کامیاب حکمرانوں کو کسی نہ کسی نظریے سے گہری محبت ہوتی ہے، انہیں اپنی تہذیب اور تاریخ پر ناز ہوتا ہے، انہیں اپنی قوم سے سچا لگائو ہوتا ہے۔ مائوزے تنگ کو کمیونزم سے محبت تھی، لینن مارکسزم کا عاشق تھا۔ انہیں چینی اور روسی تہذیب و تاریخ پر ناز تھا۔ انہیں اپنی قوم کی المناک حالت کا غم تھا، چنانچہ لینن نے روس اور مائو نے چین میں انقلاب برپا کردیا۔ بانیانِ امریکہ جیسے کچھ بھی تھے انہیں آزادی، جمہوریت اور مساوات کے تصور سے لگائو تھا۔ انہیں امریکہ کے سفید فاموں سے محبت تھی، انہیں مغربی تہذیب کی برتری پر ناز تھا۔ قائداعظم نے اپنی تقریروں اور اپنے بیانات میں جگہ جگہ اسلام کی عظمت کے گن گائے ہیں، مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ پر ناز کیا ہے، اور برصغیر کی ملتِ اسلامیہ سے سچی محبت کا اظہار کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں کو نہ اپنے مذہب سے عشق ہے، نہ اپنی تہذیب و تاریخ سے محبت ہے، نہ اپنی قوم کے درد میں وہ شریک ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اپنی ذات، خاندان، گروہ یا ادارے کے سوا کسی سے محبت نہیں۔ انہیں صرف اپنے اور اپنے متعلقین کے مفادات عزیز ہیں، چنانچہ وہ پاکستان کو گریٹر پاکستان کیا بناتے؟ ان سے قائداعظم کا پورا پاکستان بھی نہ سنبھالا جاسکا۔
انسان بڑا سوچتا ہے اور بڑا بن جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس کوئی بڑا خیال نہیں، ان کی آنکھوں میں کبھی کوئی خواب نہیں دیکھا گیا۔ قائداعظم سیاسی غلام ہوکر آزادی کا خواب دیکھ رہے تھے، اور ہمارا حکمران طبقہ آزادی میں کبھی امریکہ کی غلامی ایجاد کرتا ہے، کبھی سوویت یونین کی طرف للچائی ہوئی نظر سے دیکھتا ہے، اور کبھی وہ خود کو چین کے سائے میں کھڑا پاتا ہے۔ مائو نے افیون کھانے والی قوم کو ’’انقلابی‘‘ بنادیا، اور ہمارا حکمران طبقہ پاکستان کی تخلیق کا انقلابی کارنامہ انجام دینے والی قوم کو 60 سال سے وعدوں، دعووں، تقریروں اور مغرب پرستی کی افیون کھلا رہا ہے۔ ذرا ہمارے جرنیلوں کی ’’سیاسی ایجادات‘‘ تو ملاحظہ فرمائیں: ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف، الطاف حسین، عمران خان۔ اصول ہے: جیسا خالق ویسی مخلوق۔
دنیا کا کوئی کام ’’اہلیت‘‘ کے بغیر نہیں ہوتا۔ اہلیت اتنی اہم ہے کہ اس کے بغیر انسان سائیکل بھی نہیں چلا سکتا۔ مگر ہمارا حکمران طبقہ اہلیت کے بغیر ریاست چلا رہا ہے۔ سقراط نے جمہوریت پر اصل اعتراض ہی یہ کیا ہے کہ اس سے اہل لوگ سامنے نہیں آئے۔ سقراط نے کہا ہے کہ اگر آپ بحری جہاز کو ایسے کپتان کے حوالے کریں گے جسے بحری جہاز چلانے کا ہنر نہیں آتا تو وہ جہاز کو طوفان میں پھنسا دے گا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اپنی روحانی، تہذیبی، تاریخی، علمی اور تکنیکی نااہلیت کی وجہ سے پاکستان کو ہر دوچار سال بعد کسی نہ کسی طوفان میں پھنسا دیتا ہے۔ کبھی سیاسی طوفان میں، کبھی معاشی طوفان میں۔
انسان کے لیے جواب دہی کا شعور ناگزیر ہے۔ اسلام حکمرانوں کو خدا کے سامنے جواب دہی کے شعور سے بھی آراستہ کرتا ہے اور معاشرے کے سامنے جواب دہی کا احساس بھی اس کے اندر پیدا کرتا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو نہ خدا کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے، نہ معاشرے کے سامنے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 1971ء میں ملک ٹوٹ گیا اور حکمرانوں نے اس بات کی ضرورت تک محسوس نہ کی کہ وہ پاکستان ٹوٹنے کی توجیہ ہی پیش کردیتے۔ حمود الرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ سمیت پانچ چھ جرنیلوں کو سقوطِ ڈھاکا کا ذمے دار قرار دیا اور ان کے کورٹ مارشل کی سفارش کی، مگر یہ جرنیل جب تک زندہ رہے قوم کے سینے پر مونگ دَلتے رہے۔ یہ جرنیل مرے تو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کو دفن کیا گیا۔