کشمیری الحاقِ پاکستان کے لیے ’’خون کی سیاست‘‘ کر رہے ہیں، جبکہ عمران خان اہلِ کشمیر کے لیے ’’فون کی سیاست‘‘ کر رہے ہیں
بیسویں صدی کے سب سے بڑے مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی نے کہا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ چیلنج کو سر کا بوجھ بنا لیتے ہیں اور اس کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں، اور کچھ لوگ چیلنج کو ’’قوتِ محرکہ ‘‘میں ڈھال لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے عمران خان کا تعلق پہلی قسم کے لوگوں سے ہے۔ عمران خان 20 سال سے کہہ رہے تھے کہ وہ سرمائے اور Electables کی سیاست نہیں کریں گے، مگر انہیں گزشتہ انتخابات سے ذرا پہلے اچانک اقتدار سامنے نظر آیا تو انہوں نے ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ میرا مقصد اقتدار میں آنا ہے، ’’اچھا بچہ‘‘ کہلانا نہیں، چنانچہ میں سرمائے کی سیاست بھی کروں گا اور Electables کی سیاست بھی کروں گا۔ عمران خان برسوں سے کہہ رہے تھے کہ میں خودکشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا۔ مگر اقتدار میں آتے ہی وہ آئی ایم ایف کے پاس اس طرح گئے جیسے اُن میں اور آئی ایم ایف میں عاشق اور محبوب کا رشتہ ہو۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کیا تو عمران خان بھارت کے سامنے ’’کردار کے غازی‘‘کے بجائے ’’گفتار کے غازی‘‘ بن کر کھڑے ہوگئے۔ عمران خان کی عقل کا یہ عالم ہے کہ وہ یوٹرن لینے کو ’’حماقت‘‘ کے بجائے ’’سعادت‘‘ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں فرمایا ہے کہ صرف ’’احمق‘‘ ہی یوٹرن نہیں لیتے۔ حالانکہ اس فقرے کو اس طرح ہونا چاہیے کہ صرف احمق اور دنیا کے کتّے ہی یوٹرن لیتے ہیں۔ عمران خان کی ’’تہذیب‘‘ کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اپنی کابینہ میں موجود ایم کیو ایم کے وزرا کو ’’مہذب‘‘ قرار دیا۔ حالانکہ ایم کیو ایم نے کراچی میں 35 برسوں میں 92 ہزار انسانوں کو مروایا ہے۔ اس نے بلدیہ کی فیکٹری میں 265 انسانوں کو زندہ جلا دیا ہے۔ اس نے کراچی کو بوری بند لاشوں کا کلچر دیا ہے۔ اس نے ’’بھتا خوری کی معیشت‘‘ تخلیق کی ہے۔ مگر عمران خان کو ایم کیو ایم کے رہنما مہذب نظر آتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کو تہذیب چھو کر بھی نہیں گزری۔ عمران خان کی Management کا حال یہ ہے کہ نہ ان سے سیاست Manage ہورہی ہے، نہ معیشت Manage ہورہی ہے، نہ ٹی وی Manage ہورہا ہے، نہ بیوی Manage ہورہی ہے۔ بدقسمتی سے ہر جگہ انہیں چیزوں کو Manage کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ضرورت نہ بھی پڑے تو اسٹیبلشمنٹ اپنے معذور سیاسی پوت کے لیے خود مدد کو آجاتی ہے۔ عمران کے ہاتھ سے معیشت نکل رہی تھی تو اسٹیبلشمنٹ نے اسد عمر کو ہٹا کر ڈاکٹر حفیظ شیخ کو ان کی جگہ لا بٹھایا۔ ’’شنید‘‘ ہے کہ ایک دن بیگم صاحبہ وزیراعظم کو رات ڈھائی تین بجے چھوڑ کر جارہی تھیں تو ’’بتانے والوں‘‘ نے انہیں بتایا کہ وہ صرف ’’روحانی شخصیت‘‘ ہی نہیں ’’خاتونِ اوّل‘‘ بھی ہیں۔
پاکستان میں سیاست کا ماڈل ناکامی کا ماڈل ہے۔ جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہیں، وہ ملک کو چلا بلکہ دوڑا کر دکھا سکتے ہیں۔ اس خیال کی ایک بنیاد تھی۔ حسن ظہیر نے The Separation of East Pakistan میں جنرل یحییٰ کا ایک بیان کوٹ کیا ہے۔ اس بیان میں جنرل یحییٰ نے فرمایا کہ میں نے فوج میں مختلف سطحوں پر کام کیا اور ہر جگہ کامیاب رہا۔ میرا خیال تھا کہ معاشرے کو چلانا بھی فوج کو چلانے کی طرح ہوگا۔ فوج ایک چھوٹا سا منظم ادارہ ہے۔ نظم و ضبط اس کی ساخت کا حصہ ہے۔ اسے چلانا آسان ہے مگر معاشرہ بہت پیچیدہ چیز ہے۔ اس میں سیکڑوں لکیریں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی گزرتی ہیں۔ اس میں مذہب، سیاست، معیشت، معاشرت، تاریخ اور مفادات کے تصادم سمیت بہت کچھ ہوتا ہے۔ چنانچہ ریاست و معاشرے کو چلانا تو دور کی بات ہے، اسے سمجھنا بھی آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف جنرل یحییٰ ہی نہیں، جنرل ایوب، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز سب بری طرح ناکام ہوئے۔ بھٹو خاندان کو جاگیردارانہ سماج کی علامت سمجھا گیا اور کہا گیا کہ ملک کو شہری اور کاروباری ذہن چلا سکتا ہے۔ میاں نوازشریف کا ظہور اسی تناظر کا حامل تھا۔ مگر میاں نوازشریف کا خاندان ملک لوٹ کر کھا گیا۔ یہاں تک کہ ان کے چھوٹے بھائی میاں شہبازشریف بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ گریٹر پنجاب کے منصوبے پر بات کرتے ہوئے پائے گئے۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل درانی نے اپنی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں بتائی ہے۔ کہا گیا کہ ملکی سیاست کے مسائل کا علاج متوسط طبقے کی نمائندگی ہے۔ مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے بتادیا کہ متوسط طبقے کے نمائندے کیا ’’گل‘‘ کھلا سکتے ہیں۔ عمران خان کی ساری پذیرائی اس تناظر میں ہوئی کہ وہ ’’بدعنوان‘‘ بھی نہیں ہیں اور ’’انقلابی‘‘ بھی ہیں۔ مگر انہوں نے اپنی انقلابیت پر خود ہی تھوک دیا۔ بلاشبہ عمران خان خود کرپٹ نہیں ہیں مگر ان کی پارٹی کرپٹ لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ تازہ ترین واردات یہ ہے کہ عمران خان بدعنوانی کی سرپرستی کرتے ہوئے پائے جارہے ہیں۔ رئوف کلاسرا عمران خان کے پرستاروں میں سے تھے، مگر انہوں نے اپنے تازہ ترین کالم میں عمران کے حوالے سے کیا لکھا ہے، ملاحظہ فرمائیے:
’’منگل کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزرا میڈیا پر پھٹ پڑے تو پھر فیصلہ ہوا کہ فوری طور پر میڈیا کو لگام ڈالی جائے۔ سب وزرا کو شکایت تھی کہ پیمرا صحافیوں کو جیل کیوں نہیں بھیج رہا؟ اجلاس میں اندازہ ہوا کہ وزرا سے زیادہ تو وزیراعظم بھرے بیٹھے ہیں، اور انہوں نے اپنا ہردلعزیز الزام دہرایا کہ میڈیا پیسے لے کر ان کی حکومت پر حملے کررہا ہے۔
ویسے یہ حیران کن ہے کہ میڈیا کے لوگ حکومت سے مراعات یا پیسے لینے کے بجائے اپوزیشن سے پیسے لے رہے ہیں۔ کمال کی حکومت ہے، میڈیا اس سے پیسے لینے کے بجائے کہیں اور سے پیسے لے رہا ہے، ورنہ اس حکومت کا تو اتنا بڑا دل ہے کہ یہ بڑے سیٹھوں کی طرف واجب الادا تین سو ارب روپے معاف کربیٹھی تھی، لیکن دوسری طرف فرماتی ہے: ان کے مخالفین میڈیا کو خرید رہے ہیں۔ اگر میڈیا شور نہ مچاتا تو پاکستانیوں سے اکٹھے کیے گئے تین سو ارب روپے اپنے دوستوں اور پارٹی ڈونرز کی کمپنیوں کو معاف ہوجاتے۔ سرکاری ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ وزیراعظم ناراض ہیں، کیونکہ میڈیا نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ آرڈیننس واپس لیں۔ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس ٹیکس معافی کے تانے بانے کراچی کی ایک پاور کمپنی سے جا ملتے ہیں۔ اس کمپنی کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ اس نے تقریباً 78 ارب روپے کا ٹیکس کراچی کے عوام سے اکٹھا کیا تھا، لیکن حکومتی خزانے میں جمع نہیں کرایا۔ جب یہ پاور کمپنی ایک اور چینی کمپنی کو بکنے لگی اور چینیوں نے اکائونٹس دیکھے تو پتا چلا کہ کمپنی نے تو اربوں روپے کا ٹیکس اکٹھا کرکے حکومت کو ادا نہیں کیا۔ اگر وہ اس کمپنی کو ٹیک اوور کرتے ہیں تو انہیں وہ ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔ یوں اس کمپنی کا ٹرانسفر رک گیا۔ اس پر اس کمپنی نے، جس کے مالک حکمرانوں کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں اور ماضی میں پارٹی کو فنڈنگ بھی کرتے رہے ہیں، ’’بادشاہ سلامت‘‘ کو اپروچ کیا اور ان سے رعایت مانگی تاکہ وہ تیس، چالیس ارب روپے بچا سکیں۔ ذرائع کہتے ہیں کہ ایف آئی اے حکام کو بھی بلا کر ڈانٹ ڈپٹ کی گئی کہ انہوں نے کراچی کی اس کمپنی کے خلاف اتنا بڑا بل بنادیا۔ ایف آئی اے پہلے سے وہاں تحقیقات کررہی تھی اور انہوں نے ہی کمپنی کے اس ٹیکس ادا نہ کرنے کے معاملے کو پکڑا تھا۔ ایف آئی اے سے کہا گیا کہ وہ اس بل کو کم کرکے دکھائے، مگر ایف آئی اے جو پہلے ہی خطوط جاری کرچکی تھی اور بل بنادیا گیا تھا، واپس لینے پر راضی نہ ہوئی۔
دوسری جانب دیگر سیٹھ پارٹیوں نے بھی حکمرانوں سے رابطے کیے، اور یوں سب نے اپنی اپنی پارٹیاں پکڑ لیں اور یہ فیصلہ ہواکہ بہتر ہوگا چند تگڑے وزیر اپنی اپنی پارٹی کے پیسے معاف کرا لیں۔ یہی وجہ تھی کہ کابینہ کے اجلاس میں جو تین سو ارب روپے معافی کی سمری پیش کی گئی، اس پر وزارتوں سے لیگل رائے لینے کا تکلف نہ کیا گیا اور کابینہ اجلاس میں ہی سب کچھ معاف کردیا گیا۔ یہ واردات اتنے خوبصورت طریقے سے ڈالی گئی کہ بہت سے وزیروں کو سمجھ ہی نہ آیا کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے۔ وہ اسی میں خوش رہے کہ دو سو بیس ارب روپے بیٹھے بٹھائے ان کی جیب میں آرہے ہیں۔ دلچسپ بات اُس وقت ہوئی جب اینکرز سے ملاقات میں ندیم بابر اور عمر ایوب دو گھنٹے تک صحافیوں کو ڈراتے رہے کہ اگر یہ تین سو ارب معاف نہ کیے گئے تو آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ جب میں نے کہا: عمر ایوب صاحب آپ نے اپنے خلاف مستقبل کا نیب کیس بنوا لیا ہے، تو ان کے ماتھے پر پریشانی نظر آئی۔ انہیں اندازہ ہوا کہ بات میں وزن ہے۔ ندیم بابر نے میرا مذاق اڑانے کی کوشش کی تو کہا: آپ سے پہلے اسحاق ڈار، ڈاکٹر عاصم حسین، شاہد خاقان عباسی سب ہمارا مذاق اڑاتے تھے، آپ بھی اڑا لیں، جس سمری کو کابینہ سے منظور کرایا گیا، اس پر لکھا ہے کہ وقت کم ہے، لہٰذا ہم کسی اور وزارت کی رائے نہیں لے رہے، اس سمری کی یہی شق آپ پر مقدمہ بنوانے کے لیے کافی ہے۔
دوسری طرف حکومت کے وزیروں نے پر پرزے نکالنے شروع کردیے ہیں۔ کچھ اہم وزیروں کے دوست سامنے آرہے ہیں، جنہیں وہ اعلیٰ عہدوں پر ایڈجسٹ کررہے ہیں۔ وفاقی وزیر علی زیدی کے دوستوں عاطف خان، علی جمیل اور اب شباہت علی شاہ کی کہانیاں آپ پڑھ ہی چکے ہیں۔ ابھی نئی کہانیاں سامنے آرہی ہیں کہ علی زیدی اپنے دوست عاطف رئیس کے گھر رہتے ہیں، عاطف کو وزیراعظم کے ساتھ ساتھ چین لے جایا گیا اور واپسی پر عاطف رئیس کو پشاور میٹرو میں تیرہ، چودہ ارب روپے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ کمال کی بات ہے اس کمپنی کو پہلے وزارتِ پیٹرولیم میں پچاس کروڑ روپے کا ٹھیکہ ملا تو سنگین الزامات سامنے آئے، پھر سی ڈی اے میں سترہ کروڑ روپے کا ٹھیکہ ملا تو اس میں ایف آئی اے نے عاطف رئیس پر فراڈ کا مقدمہ درج کررکھا ہے۔ جس کمپنی پر چند کروڑ روپوں کے ٹھیکوں میں فراڈ پر مقدمے درج ہوئے، اسے پشاور میں تیرہ، چودہ ارب روپے کا ٹھیکہ دے دیا گیا! اب جب علی زیدی اور ان کے دوستوں کے خلاف یہ اسکینڈلز آنا شروع ہوئے ہیں تو فوراً میڈیا ٹریبونل کا نعرہ لگا دیا گیا۔‘‘
(روزنامہ دنیا۔ 20 ستمبر 2019ء)
رئوف کلاسرا کے اس کالم کے مندرجات سے ظاہر ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت انہی راستوں پر چل رہے ہیں جن راستوں پر شریف خاندان، بھٹو خاندان اور معاشرے کو کرپٹ کرنے والے جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز چلتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں اگر عمران خان ذاتی طور پر کرپٹ نہیں بھی ہیں تو ملک و قوم کے لیے اس کے کیا معنی ہیں! اس لیے کہ کرپشن کی سرپرستی بھی کرپشن ہے، اقربا پروری بھی کرپشن ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نوازشریف، آصف زرداری اور عمران خان میں کوئی ’’جوہری فرق‘‘ نہیں۔ فرق صرف ’’درجوں‘‘ کا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ابھی عمران خان کو اقتدار میں آئے صرف ایک سال ہوا ہے۔ عمران خان جب شریف خاندان اور بھٹو خاندان کی طرح دس پندرہ سال تک اقتدار میں رہیں گے تو خدا معلوم پھر ان کی حکومت میں کرپشن کا کیا عالم ہوگا؟ اس سے معلوم ہوا کہ اگر صرف ایک شخص کرپٹ نہ ہو مگر پارٹی کرپٹ لوگوں سے بھری ہوئی ہو تو ایک فرد کی موجودگی نظام میں کوئی فرق پیدا نہیں کرسکتی۔ ضروری ہے کہ رہنما بھی کرپٹ نہ ہو اور پارٹی بھی کرپٹ نہ ہو تب ملک کے نظام سے کرپشن کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اتفاق سے ملک میں جماعت اسلامی کے سوا ایسی کوئی جماعت نہیں جس کی قیادت بھی کرپٹ نہیں اور پارٹی میں بھی کرپشن موجود نہیں۔
عمران خان نے معیشت کی Managementکو مذاق بنا دیا۔ وہ کہتے تھے کہ میں خودکشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا، مگر وہ آئی ایم ایف کے پاس بھی گئے اور اس کی عوام دشمن شرائط کو بھی تسلیم کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عمران خان کے ایک سال میں مہنگائی ’’صرف‘‘ 123 فیصد بڑھی ہے۔ گیس کے نرخوں میں 143 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پیٹرول کے نرخ 23 فیصد بڑھے ہیں، اور بجلی کے بل کا یہ معاملہ ہے کہ عمران خان کی آمد سے پہلے ہمارے چھوٹے سے فلیٹ کا بل 5000 روپے آرہا تھا، مگر اس ماہ ہمارا بجلی کا بل 7500 روپے آیا ہے، حالانکہ ہمارے گھر میں پنکھے کا کیا ایک بلب کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ ماہرین کے مطابق عمران خان کی معاشی پالیسیوں سے غربت میں 5 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اب تک ملک میں 10 لاکھ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں آئی ایم ایف نے ملک کے ایک درجن سے زیادہ اداروں کی نجکاری کے لیے دبائو بڑھا دیا ہے۔ یہ ادارے فروخت ہوئے تو ملک میں بے روزگاروں کی تعداد مزید بڑھے گی۔ اعداد و شمار کے مطابق عمران خان کے ایک سال میں صحت کی سہولتیں 13 فیصد اور تعلیم کی سہولتیں 5 فیصد مہنگی ہوئی ہیں۔ عمران خان بجا طور پر کہا کرتے تھے کہ نوازشریف نے پانچ سال میں 14 ہزار ارب روپے کے قرضے لے ڈالے، مگر انہوں نے خود ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کے قرضے لے لیے ہیں اور آئی ایم ایف کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق آئندہ 3 برس میں پاکستان مزید 30 ارب ڈالر کے قرضے لے گا۔ عمران خان ارب پتی ہیں اور ہمارے جرنیل کروڑ پتی، اس لیے مہنگائی 123 فیصد کیا 1023 فیصد بھی بڑھ جائے تو انہیں کیا فرق پڑتا ہے! مگر مہنگائی میں 123 فیصد اضافے نے غریب کیا متوسط طبقے کی زندگی کو بھی مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ مگر عمران خان قوم کو طفل تسلیوں سے بہلا رہے ہیں۔ پہلے وہ کہتے تھے کہ تین ماہ دے دو۔ پھر انہوں نے کہا کہ ایک سال دے دو۔ اب ایک سال ہوگیا ہے اور عمران خان کے اتحادی شیخ رشید ایک انٹرویو میں فرما رہے تھے کہ حکومت کو معیشت کے حوالے سے تین سال ملنے چاہئیں۔ تین سال کے بعد عمران خان یا اُن کا کوئی حواری کہے گا معیشت پانچ سال سے پہلے کہاں بہتر ہوتی ہے! ڈی ایچ لارنس نے کہا تھا کہ ہم اپنی جنس اور معیشت کو شیطان کے حوالے نہیں کرسکتے، مگر عمران خان سمیت ہمارے تمام حکمرانوں نے ملک میں ’’جنسی فحاشی‘‘ اور ’’معاشی فحاشی‘‘ کی انتہا کردی ہے۔ جنسی فحاشی کی انتہا یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ نے عورت کو ’’جنسِ بازار‘‘ بناکر کھڑا کردیا ہے۔ وہ عورت کے چہرے کو فروخت کررہے ہیں، اس کے حسن کو بیچ رہے ہیں، اس کی ادائوں کے دام لگا رہے ہیں، اس کی مسکراہٹ سے مال کما رہے ہیں۔ حکمرانوں کی پیدا کردہ معاشی فحاشی نے کروڑوں لوگوں کی زندگی کو گالی بنادیا ہے۔ مہنگائی میں 123 فیصد اضافے کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی پانچویں درجے کا سمندری طوفان بن گئی ہے۔ اس درجے کا سمندری طوفان آتا ہے تو امریکہ کی ریاست فلوریڈا اور نیواورلینز کو بھی تہس نہس کردیتا ہے۔ ہمارے یہاں تو ویسے ہی کروڑوں لوگ ’’معاشی جھگیوں‘‘ میں رہائش پذیر ہیں۔ عمران خان کی حکومت کا برپا کردہ معاشی طوفان ان جھگیوں کو تنکا تنکا کردے گا۔ معیشت کا معاملہ ناک والا ہے۔ جب تک آدمی کو نزلہ نہیں ہوتا اُسے خیال بھی نہیں آتا کہ اس کے منہ پر ناک موجود ہے۔ مگر نزلہ بڑھ جاتا ہے تو انسان کا پورا وجود ناک بن جاتا ہے۔ یہی قصہ معیشت کا ہے۔ جب تک معیشت ٹھیک رہتی ہے کوئی معیشت کے بارے میں سوچتا بھی نہیں، مگر معیشت خراب ہوجائے تو وہ انسان کے لیے ’’مذہب‘‘ بن جاتی ہے۔ انسان سارا وقت معیشت کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ یہی معیشت کو شیطان کے حوالے کرنے کا عمل ہے۔ بدقسمتی سے ہماری معیشت صرف خراب ہی نہیں ہے بلکہ وہ آئی ایم ایف کی مٹھی میں ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی تاریخ یہ ہے کہ انہیں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے غریب ممالک کی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے تخلیق کیا تھا۔ ان کا بنیادی مقصد غریب اور کمزور قوموں کو مغرب کا معاشی غلام بنانا ہے۔ اسی خیال کے تحت عمران خان کہا کرتے تھے کہ میں خودکشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا۔ مگر وہ آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے ہیں۔ انہوں نے تو خودکشی نہیں کی مگر ملکی معیشت کی خودکشی کو ملک کے زیادہ قریب کردیا ہے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے 13 واں ’’بیل آئوٹ پیکیج‘‘ لیا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ گزشتہ 12 پیکیج ’’کامیاب‘‘ نہیں ہوئے۔ ہوتے تو 13 ویں پیکیج کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ سوال یہ ہے کہ 13 واں پیکیج ناکام ہوا تو کیا ہم 14 ویں پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟ اور کھٹکھٹائیں گے تو اس بار کیا آئی ایم ایف کی شرائط پہلے سے زیادہ سخت نہ ہوں گی؟
ملک میں آئی ایم ایف کے غلاموں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ مہنگائی نے یتیموں تک کا جینا حرام کردیا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ساڑھے تین سو یتیموں کا ایک اقامتی تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں، انہوں نے اپنے کالم میں لکھا:
’’جب (ادارے کے) منتظم نے کہاکہ گزشتہ تین چار دنوں سے بچے تین کے بجائے دو کھانوں پر آگئے ہیں تو پریشانی اور صدمے کی لہر میرے سارے جسم میں سرایت کرگئی۔ میں نے اس سے کہاکہ جب آپ کے پاس پورے سال کا بجٹ تھا تو بچوں کا کھانا گھٹانے کی نوبت کیوں آئی؟ اس نے خورونوش اور کچن کی اشیا کی فہرست اور رسیدیں مجھے دکھاتے ہوئے کہاکہ اس سے قبل ہمارے کچن کا خرچہ دو لاکھ روپے ماہانہ تھا لیکن جب سے ہم پاکستان سے ریاست مدینہ میں آئے ہیں مہنگائی نے سارا بجٹ برباد کردیا ہے، اور نئی حکومت کی مہربانیوں سے ہمارے کچن کا بجٹ بڑھ کر تین لاکھ روپے ماہانہ ہوگیا ہے، چنانچہ ہمیں مجبوراً تین کھانوں کے بجائے دو کھانوں پر آنا پڑا۔ یونیفارم، اسٹیشنری اور ادویہ کی قیمتیں بھی بے لگام ہوگئی ہیں جبکہ ہمارے بہت سے ’’ڈونر‘‘ معذرت کرگئے ہیں۔ کچھ چھوٹے کاروباری افراد نے جو کئی برسوں سے ہماری مدد کرتے تھے، یہ کہہ کر معذرت کرلی ہے کہ ان کا کاروبار ’’انصاف‘‘ کی وجہ سے ٹھپ ہوگیا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہم 340 یتیموں کی کفالت کی ذمے داری کیسے اٹھائیں گے!‘‘(روزنامہ جنگ۔ 24 ستمبر 2019ء)
تبدیلی، یوٹرن اور ان کے سرپرست ’’زندہ باد‘‘۔
بھارت کے مقابلے میں تو عمران خان بالکل ہی ناکام ہوگئے۔ وہ مودی جو اب عمران کے لیے ’’ہٹلر‘‘ ہے، مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرنے سے قبل عمران کے نزدیک ’’مسیحا‘‘ تھا اور مسئلہ کشمیر حل کرنے والا تھا۔ مودی نے بی جے پی کے انتخابی منشور میں لکھا ہوا تھا کہ بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آگئی تو وہ بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35-A کو ختم کردے گی، مگر عمران خان اور اُن کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ نے اسے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ پاکستان کو خفیہ معلومات کی بنیاد پر معلوم ہونا چاہیے تھا کہ مودی ان دفعات کو ختم کرنے والا ہے، مگر ہم عمران کی قیادت میں Intelligence failure سے دوچار ہوئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بھارت کے وزیردفاع راجناتھ سنگھ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے تو آزاد کشمیر پر ہوں گے۔ بھارت کے وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکر نے صاف کہا ہے کہ آزاد کشمیر ایک دن بھارت کے زیرانتظام ہوگا۔ عمران خان اس کے جواب میں پاکستان کو ’’خطے کا چمار‘‘ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھارت پاکستان کے طمانچہ مارتا ہے اور عمران خان فرماتے ہیں اب کے مار کے دکھا۔ بھارت ایک اور طمانچہ مار دیتا ہے اور عمران خان فرما دیتے ہیں کہ اب کے مار کے دکھا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں 50 دن سے کرفیو لگائے ہوئے ہے، وہ 11 ہزار کشمیریوں کو جیل میں ڈال چکا ہے، سیکڑوں کشمیریوں پر بدترین تشدد کی اطلاعات آرہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک ایک گھر میں غذا اور دوائوں کی قلت ہوگئی ہے۔ مگر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ نہ خود جہاد پر آمادہ ہیں، نہ وہ کسی کو جہاد کے لیے راستہ دے رہے ہیں۔ بلکہ عمران خان نے تو کہہ دیا ہے کہ جو مقبوضہ کشمیر میں جہاد کرے گا وہ ’’غدار‘‘ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان خود پاکستان اور کشمیریوں کے ’’وفادار‘‘ بن کر کیوں نہیں دکھا رہے؟ امریکہ نے عمران خان کے مذکورہ بالا بیان کو بہت سراہا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ صرف مسلم دنیا کے ’’غداروں‘‘ کو سراہتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے وفاداروں کو تو وہ دہشت گرد، وحشی، درندے، انتہا پسند، بنیاد پرست کہتا ہے اور ان پر بم بھی گراتا ہے اور ڈرون حملے بھی کرتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ عمران خان ایک جانب تو مودی کو ہٹلر قرار دے رہے ہیں، دوسری جانب وہ اپنی بے عملی سے ہٹلر کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ آگے بڑھے اور کشمیریوں پر مزید ظلم ڈھائے اور بالآخر آزاد کشمیر کو چھین کر لے جائے۔ بھارت نے آزاد کشمیر پر قبضہ کرلیا تو عمران مودی کے خلاف ایک اور بیان داغ دیں گے۔ یہ اس ملک کے حکمران کا حال ہے جس کے آدھے حصے کو بھارت کھا چکا ہے اور باقی ماندہ کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ جس کے آگے ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے تھے۔ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کی عجیب تاریخ ہے۔ یہ حکمران کبھی خدا، اپنے مذہب، اپنی تاریخ اور اپنی قوم کی طرف نہیں دیکھتے… یہ امریکہ، یورپ، چین اور روس کی طرف دیکھتے ہیں۔ اِس وقت بھی یہی ہورہا ہے۔ ہماری سول اور فوجی قیادت امریکہ سے کہہ رہی ہے کہ ثالثی کرو۔ حالانکہ مسلمانوں کے لیے امریکہ سے بدتر ثالث کا تصور محال ہے۔ امریکہ نے یاسرعرفات کو شیشے میں اتارکر اُن سے اوسلو امن سمجھوتے پر دستخط کرا لیے، اور اس سمجھوتے کو بھی اسرائیل نے چند ماہ میں بے معنی بنادیا۔ اسرائیل نے بیت المقدس پہ حق جتایا اور امریکہ نے ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کردیا۔ اب ٹرمپ کے یہودی داماد جیررڈ کشنر صاحب فلسطینیوں سے کہہ رہے ہیں کہ 50 لاکھ جلاوطن فلسطینیوں کی واپسی کو بھول جائو، بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ بنانے کو فراموش کردو، آزاد فلسطینی ریاست کا خیال ترک کردو۔ ہم تمہیں 50 ارب ڈالر کی خطیر رقم جمع کرکے دیں گے، اس سے تم اپنی معیشت کو بہتر بنانا۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ اسی امریکہ کو کشمیر پر ثالث بنانے کے لیے بیتاب ہیں۔ یہ ’’وفاداری‘‘ ہے اور مزاحمت ’’غداری‘‘ ہے۔ اردو کی ضرب المثل ہے ’’نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘۔ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے حکمرانوں کا اعلان ہے: نہ خود کچھ کریں گے نہ کسی کو کچھ کرنے دیں گے۔ واہ کیا ’’پاکستانیت‘‘ ہے، کیا ’’اسلامیت‘‘ ہے، اور کیا کشمیریوں کی ’’محبت‘‘ ہے۔ کشمیری الحاقِ پاکستان کے لیے ’’خون کی سیاست‘‘ کر رہے ہیں، جبکہ عمران خان اہلِ کشمیر کے لیے ’’فون کی سیاست‘‘ کر رہے ہیں۔ وہ کبھی کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے صدر ٹرمپ کو فون کرتے ہیں، کبھی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو فون کر ڈالتے ہیں۔ ’’خونیں سیاست‘‘ اور ’’فونی سیاست‘‘ کا فرق عیاں ہے اور اس کے معنی بھی۔ اس منظرنامے میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بہت اچھی بات کہی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ اگر کشمیر کی جنگ ہم نے کشمیر میں نہ لڑی تو پھر یہ جنگ ہمیں اسلام آباد میں لڑنی پڑے گی۔
بدقسمتی سے عمران خان کی ناکامی ہمہ گیر ہے۔ ایک وقت تھا کہ کراچی میں عمران خان کا کوئی سیاسی مفاد نہ تھا، مگر اِس وقت کراچی عمران خان کے بڑے سیاسی مراکز میں سے ایک ہے۔ مگر یہ حقیقت عیاں ہے کہ کراچی ایک سال سے کچرا کنڈی بنا ہوا ہے۔ کراچی ’’شہری سیلاب‘‘ یا Urban flooding کا شکار ہوا، کراچی میں گلی گلی آلائشیں سڑگئیں، گلی گلی گٹر ابل پڑے، کراچی کی ایک ایک شاہراہ میں گڑھے پڑ گئے مگر عمران خان نے ایک دن کے لیے بھی کراچی آنا پسند نہ کیا۔ وہ ’’برگر زیدی‘‘ کے ذریعے کراچی کی سیاست کو نمٹاتے رہے۔ کراچی کے سلسلے میں عمران خان کا یہ رویہ ’’سیاسی بے حیائی‘‘ کی انتہا ہے۔ کراچی ملک کو اس کے وسائل کا 70 فیصد اور سندھ کو اس کے وسائل کا 85 فیصد مہیا کرتا ہے، چنانچہ کراچی کو نظرانداز کرنا غداری سے کچھ کم نہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر عمران خان ڈھائی کروڑ اہلِ کراچی کے دکھ میں شرکت کے لیے اسلام آباد سے ایک دن کے لیے بھی کراچی نہیں آسکتے تو وہ مقبوضہ کشمیر کے 80 لاکھ مسلمانوں کے لیے کیاکریں گے؟
یہ سطور لکھی جاچکی تھیں کہ امریکی شہر ہیوسٹن میں مودی کے جلسے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خطاب سامنے آگیا۔ اس خطاب میں ٹرمپ نے کہاکہ امریکہ اور بھارت کے خواب ایک ہیں، اقدار ایک ہیں، امریکہ بھارت میں سرمایہ کاری کررہا ہے، بھارت امریکہ میں سرمایہ کاری کررہا ہے، اور دونوں ملک ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کو شکست دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ مودی نے کہاکہ ہم نے (مقبوضہ) کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کی دفعہ 370 اس لیے ختم کی کہ ’’دہشت گرد‘‘ اس کا غلط استعمال کررہے تھے۔ صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ ان سطور میں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی وہ ثالثی منہ کے بل گری ہوئی ہے جو دونوں نے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے کی ہے۔ ان سطور سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلام اور پاکستان کا ’’وفادار‘‘ کون ہے اور ’’غدار‘‘ کون ہے؟ اسٹیبلشمنٹ نے قوم سے کہا ہے کہ وہ آخری گولی اور آخری سانس تک کشمیر کے لیے لڑے گی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں اور پاکستانیوں سے بہتر پاکستانیوں کے لیے پہلی گولی چلائے گی تو آخری گولی کی نوبت آئے گی، اور وہ کشمیریوں کے لیے پہلا سانس لے گی تو آخری سانس کی طرف سفر شروع ہوگا۔