اسلام کی ہر چیز غیر معمولی ہے… اسلام کی تاریخ اور اس کا عسکری پہلو بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلام کا غیر معمولی پن دوسری اقوام کے غیر معمولی پن کے سامنے آکر کھڑا ہوتا ہے تو دوسری اقوام اور تہذیبوں کے غیر معمولی پن سے لفظ ’’غیر‘‘ اچانک غائب ہوجاتا ہے اور صرف ’’معمولی پن‘‘ باقی رہ جاتا ہے۔
اسلامی تاریخ کا غیر معمولی پن یہ ہے کہ دنیا کی کسی دوسری قوم کے پاس نہ قرآن ہے، نہ سیرتِ طیبہ۔ آسمانی کتب تو دوسری اقوام کے پاس بھی ہیں، مگر کسی قوم کے پاس ویسا علمِ تفسیر نہیں جیسا مسلمانوں کے پاس ہے۔ پیغمبر دوسری اقوام کے پاس بھی ہیں، مگر کسی کے پاس نہ محمدؐ ہیں، نہ ان کے جیسی جامع سیرتِ پاک، اور نہ ایسا علمِ حدیث جیسا علمِ حدیث مسلمانوں کے پاس ہے۔ مسلمانوں کی فقہ کی روایت کے سامنے پوری انسانیت کی فقہ بچوں کا کھیل ہے۔ مسلمانوں کے پاس ایسی شاعرانہ روایت ہے کہ اگر مولانا رومؒ کی شاعری ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دی جائے اور ہندو، عیسائی، یہودی تہذیب کی پیدا کردہ شاعری ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھ دی جائے تو معنویت اور کیفیت کے اعتبار سے مولانا کی شاعری کا پلڑا بھاری ہوگا۔ امام غزالیؒ کے ایک معاصر نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ بھی تشریف فرما ہیں۔ اس منظر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیٰؑ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ کی امتوں میں غزالی جیسا کوئی عالم ہے؟ اور دونوں انبیا نے کہا کہ ہماری امتوں میں غزالی کے پائے کا کوئی عالم نہیں۔ مسلمانوں نے جدید علوم و فنون کے دائرے میں ایسے عظیم مفکرین پیدا کیے جن کے بغیر مغرب کی مشہورِ زمانہ نشاۃ ثانیہ ممکن ہی نہیں تھی۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے، بلکہ یہ بات مغرب کے دو دانش ور رابرٹ بریفالٹ اور مائیکل ہملٹن مورگن نے اپنی کتب Making of Humanity اور Lost History میں کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بلاشبہ مسلمانوں نے نیوٹن اور گلیلیو کو پیدا نہیں کیا، مگر مسلمانوں کے بغیر نیوٹن اور گلیلیو پیدا نہیں ہوسکتے تھے۔ مسلمانوں کی تاریخ کا یہی غیر معمولی پن ان کی تاریخ کے عسکری پہلو میں بھی پوری طرح جلوہ نما ہے۔
مسلمانوں کی عسکری تاریخ کا نمایاں ترین اور ششدر کردینے والا پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ بہت کم انسانی اور عسکری وسائل کے ساتھ اپنے دشمن کو شکست دی ہے۔ غزوۂ بدر میں 313 مسلمانوں کا مقابلہ ایک ہزار کے لشکرِ جرار کے ساتھ تھا۔ مسلمانوں کے پاس ایک گھوڑا تھا اور کفار کے پاس سیکڑوں گھوڑے تھے۔ مسلمانوں کے پاس چند تلواریں اور چند زرہ بکتر تھیں اور کفار کے لشکر کے پاس سیکڑوں تلواریں اور زرہ بکتر تھیں۔ مگر مسلمانوں نے کفار اور مشرکین کو شکست سے دوچار کیا۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کے پاس ایک ہزار کا لشکر تھا اور ان کے حریفوں کے پاس تین ہزار کا لشکر تھا۔ اس معرکے میں بھی مسلمان فتح یاب ہوگئے تھے مگر مسلمانوں کی ایک معمولی سی غلطی کی وجہ سے اسلامی لشکر کو شکست ہوگئی۔ یہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک کا ذکر تھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں نے وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرا دیا۔ رومی سلطنت کے انہدام سے پہلے مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان جو معرکہ جنگِ یرموک کے عنوان سے برپا ہوا اُس میں طبری کے مطابق مسلمانوں کا لشکر 15 ہزار اور ابن اسحق کے مطابق 24 ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ اس کے برعکس رومیوں کا لشکر ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ اور دوسری روایت کے مطابق دو لاکھ افراد پر مشتمل تھا۔ مگر مسلمانوں نے حریف لشکر کو روند ڈالا اور وقت کی ایک سپر پاور کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں دوسری سپر پاور سلطنتِ فارس تھی۔ روایات کے مطابق اس معرکے میں مسلمانوں کا لشکر صرف 30 ہزار افراد پر مشتمل تھا، جبکہ ایرانی لشکر ایک لاکھ 80 ہزار فوجیوں پر محیط تھا۔ مگر مسلمانوں نے صرف تین دن میں ایرانی لشکر کو شکست سے دوچار کردیا۔ ظاہر ہے یہ خلافتِ راشدہ کا قصہ ہے، مگر عہدِ رسالتؐ اور عہدِ خلافت کے دائروں سے باہر بھی مسلمانوں کی عسکری فتوحات غیر معمولی ہیں۔ طارق بن زیاد اسپین میں مسلمانوں کی اُس سلطنت کے بانی تھے جو 600 سال تک زندہ رہی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ طارق بن زیاد ایک روایت کے مطابق 10 ہزار اور دوسری روایت کے مطابق 17 ہزار فوجی لے کر اسپین کی سرزمین پر اُترے تھے۔ یہ اتنی کم فوج تھی کہ طارق بن زیاد نے عیسائی لشکر کے ساتھ معرکہ آرائی سے قبل اپنی ساری کشتیاں جلوا دیں تاکہ کوئی مسلمان فوجی اس خیال میں نہ رہے کہ وہ میدانِ جنگ سے فرار بھی ہوسکتا ہے۔ 17 ہزار مسلمانوں کا چھوٹا سا لشکر ایک لاکھ عیسائیوں کے مقابل تھا، مگر اس کے باوجود مسلمانوں نے ایک لاکھ کے لشکر کو شکستِ فاش سے دوچار کردیا۔
طارق بن زیاد نے جس زمانے میں اسپین فتح کیا، تقریباً اسی زمانے میں محمد بن قاسم نے سندھ فتح کرکے اسلام کا پرچم لہرایا۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق محمد بن قاسم کا لشکر صرف 11 ہزار فوجیوں پر مشتمل تھا۔ اس لشکر کا مقابلہ راجا داہر کی فوج سے ہوا جو ایک لاکھ افراد پر مشتمل تھی، مگر محمد بن قاسم نے جن کی عمر اُس وقت 17 سال سے کچھ زیادہ تھی، راجا داہر کے اس لشکر کو الٹ دیا جس میں کئی درجن ہاتھی بھی تھے۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ بابر برصغیر میں مغل سلطنت کا بانی تھا، مگر یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بابر ہندوستان آیا تو ایک روایت کے مطابق اُس کے پاس 8 ہزار فوجی تھے۔ دوسری روایت کے مطابق اُس کے فوجیوں کی تعداد 10 ہزار تھی۔ بابر کے مقابل ابراہیم لودھی کی فوج تھی جو ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ بابر نے کئی بار کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ پھر ایک دن اس نے خدا سے وعدہ کیا کہ اب وہ کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ مؤرخین کے مطابق بابر نے اس کے بعد دشمن پر حملہ کیا اور فتح نے اس کے قدم چومے۔
مسلمانوں کی اس حیران کن تاریخ کی پشت پر بلاشبہ غیر معمولی انسان بھی موجود ہیں، مگر یہ حیران کن تاریخ اپنی اصل میں اسلام کی تاریخ ہے۔ یہ اسلام ہے جس نے معمولی لوگوں کو غیر معمولی، معمولی تہذیب کو غیر معمولی تہذیب، اور معمولی تاریخ کو غیر معمولی تاریخ بنایا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بے پناہ فتوحات ہوئیں۔ اُس وقت اسلامی لشکر کے سپہ سالار خالد بن ولیدؓ تھے۔ چنانچہ لوگ مسلمانوں کی فتوحات اور خالد بن ولیدؓ کو باہم مربوط کرکے ہم معنی بنانے لگے۔ حضرت عمرؓ نے یہ دیکھا تو خالد بن ولیدؓ جیسے صحابی اور سپہ سالار کو معزول کردیا۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری فتوحات خالدؓ کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کی وجہ سے ہیں۔
اسلام کی وجہ سے وقت کی سپر پاورز کو شکست دینا مسلمانوں کی تاریخ کا معمول ہے۔ مسلمانوں نے دو سپر پاورز کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں منہ کے بل گرایا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ تاریخ کبھی دہرائی نہ جاسکے گی۔ مگر اسلام زندہ تھا، چنانچہ مسلمانوں نے 20 ویں صدی میں وقت کی ایک سپر پاور سوویت یونین کو افغانستان میں شکست سے دوچار کیا۔ دوسری سپر پاور امریکہ 21 ویں صدی کے سینے پر افغانستان میں منہ کے بل گری ہوئی ہے۔ کیا دنیا میں امتِ مسلمہ کے سوا کوئی امت ہے جس نے اپنی تاریخ میں چار سپر پاورز کو شکست دی ہو؟ پانچ ہزار سال کی معلوم تاریخ ہمارے سامنے ہے، اور یہ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے سوا کسی امت نے آج تک چار سپر پاورز کو بہت کم وسائل ہونے کے باوجود شکست نہیں دی۔
کہنے والوں نے کہا ہے: بڑا سوچو اور بڑے بن جائو۔ سلیم احمد کا شعر ہے:
اک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جائیے
تاریخ گواہ ہے کہ جس نے اسلام کو سینے سے لگایا، بڑا بن گیا۔ اسلام نہ ہوتا تو ابوبکر صرف ابوبکر ہوتے، صدیق اکبرؓ نہ ہوتے۔ اسلام نہ ہوتا تو عمر صرف عمر ہوتے، فاروقِ اعظمؓ نہ ہوتے۔ اسلام نہ ہوتا تو عثمان صرف عثمان ہوتے، عثمان غنیؓ نہ ہوتے۔ اسلام نہ ہوتا تو علی صرف علی ہوتے، علی مرتضیٰؓ نہ ہوتے۔ مسلمانوں کی جدید تاریخ میں بھی اسلام کی فتوحات بے پناہ ہیں۔ اقبال استاد داغؔ کے شاگرد تھے اور استاد داغؔ کی شاعری میں کوئی بڑا خیال اور بڑا تجربہ موجود نہیں۔ چنانچہ اقبال داغؔ کے شاگرد رہتے تو دوسرے داغؔ یا اُن سے کچھ بڑے شاعر ہوتے۔ اقبال قوم پرست بھی تھے، اور قوم پرستی نے آج تک کوئی بہت بڑا شاعر پیدا نہیں کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی آرزو کو بدل دیا۔ انہیں اسلام کی عظمت کے سائے میں کھڑا کردیا۔ چنانچہ اقبال شاعرِ اعظم بن کر اُبھرے۔ محمد علی جناح اپنی تمام تر ذکاوت کے باوجود صرف ایک بڑے وکیل اور کانگریس کے ایک رہنما ہوتے۔ مگر انہیں اسلام نے دو قومی نظریہ بن کر چھو لیا اور محمد علی جناح قائداعظم بن گئے۔ لوگ قائداعظم کا موازنہ گاندھی اور نہرو سے کرتے ہیں، لیکن قائداعظم اتنے بڑے رہنما ہیں کہ گاندھی اور نہرو اُن کے سیکریٹری ہوتے تو یہ ان کے لیے اعزاز کی بات ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گاندھی اور نہرو نے کِیا ہی کیا ہے؟ قائداعظم کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ نے لکھا ہے کہ تاریخ میں ایسے بہت کم لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑا ہے، اس سے بھی کم لوگ وہ ہوئے ہیں جنہوں نے جغرافیہ بدل دیا ہے، اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جس نے قومی ریاست قائم کی ہو۔ قائداعظم نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے۔ جیسا کہ ظاہر ہے گاندھی اور نہرو نے ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام بھی نہیں کیا۔ مگر قائداعظم کی ساری عظمت اسلام سے ان کی وابستگی میں ہے۔ جب تک ان کے پاس دو قومی نظریے کا چشمہ نہیں تھا انہیں ہندو اور مسلمان ایک قوم دکھائی دیتے تھے۔ دو قومی نظریے کی قوت نے قائداعظم کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کیا، انہیں منقلب کیا، Transform کیا۔ مثل مشہور ہے: کوئلے کا صبر اسے ہیرا بنادیتا ہے۔ اسلام کا جلال اور جمال ایسا ہے کہ اسلام معمولی کو غیر معمولی، کوئلے کو ہیرا اور لوہے کو سونا بنادیتا ہے۔ عمران خان نے ایک بار پھر ٹیپو سلطان کے ذکر کو عام کیا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تن تنہا ٹیپو انگریز سلطنت کو گرا دیتا۔ ٹیپو کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ٹیپو کی شہادت کے بعد انگریز فوجیوں نے نعرہ لگایا کہ اب ہندوستان ہمارا ہے۔ جب تک ٹیپو زندہ تھا کوئی انگریز یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان انگریزوں کا ہے۔
حقائق کی روشنی میں پاک بھارت کشمکش کو دیکھا جائے تو پاکستان کے مقابلے پر بھارت کی کوئی اوقات ہی نہیں۔ مسلمانوں نے گزشتہ ایک ہزار سال میں 1971ء کی جنگ کے سوا ہندوئوں سے کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔ ہمارے کئی بڑے مفکرین اور دانش وروں کا خیال ہے کہ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ زوال پذیر ہوچکی تھی، اور اسی وجہ سے مغل سلطنت اس کے ہاتھ سے نکلی۔ مگر مسلمانوں کے زوال کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کا زوال جزوی ہے، کلّی نہیں۔ یعنی Partial ہے، Full، Total، Complete نہیں۔ اس کا ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی شعور نے زوال کی حالت میں اردو جیسی عظیم الشان زبان خلق کرکے دکھائی۔ انہوں نے زوال کی حالت میں میر، غالب اور اقبال جیسے شاعر پیدا کیے۔ انہوں نے ڈیڑھ سو سال میں تفسیر کا اتنا بڑا علم پیدا کیا کہ اتنا بڑا علم تو گزشتہ ڈیڑھ سو برسوں میں عربی اور فارسی میں بھی پیدا نہیں ہوا۔ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے زوال کی حالت میں 1857ء کی جنگِ آزادی لڑ کر دکھائی۔ زوال کی حالت میں پاکستان کا مطالبہ کیا۔ زوال کی حالت میں تحریکِ پاکستان چلائی۔ اور زوال کی حالت میں پاکستان کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت تخلیق کر ڈالی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم جزوی زوال کی حالت میں اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہیں تو عروج کے راستے پر چلتے ہوئے ہم کیا کچھ نہیں کر ڈالیں گے؟ کیا ہماری کوئی بات دلیل کے بغیر ہے؟
ہم پاکستان کے بارے میں یہ بات بھول چکے ہیں کہ پاکستان کی تخلیق پر نہ انگریز راضی تھے، نہ ہندو قیادت اس کے لیے تیار تھی۔ مگر قائداعظم نے پاکستان کو تاریخ کے عدم سے تاریخ کے وجود میں لاکر دکھا دیا، اور بتادیا کہ مسلمانوں کی نفسیاتی، اخلاقی، تہذیبی اور تاریخی قوت غیر معمولی ہے۔ ہم یہ بات بھی بھول گئے ہیں کہ ہم مدت تک کئی شعبوں میں ہندوستان کے اعصاب پر بُری طرح سوار رہے ہیں۔ جس طرح آج پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھارت سے جیتنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں پاتی، ٹھیک اسی طرح 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں بھارتی ٹیم پاکستانی ٹیم سے جیتنے کا خواب بھی نہیں دیکھ پاتی تھی۔ عمران خان، ظہیر عباس، آصف اقبال اور جاوید میاں داد بھارت میں کرکٹ کے دیوتائوں کی طرح لیے جاتے تھے۔ اُس زمانے میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان بشن سنگھ بیدی نے پاکستان کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ ہم پاکستان سے میچ کس طرح جیت سکتے ہیں! پاکستانی ٹیم 21 کھلاڑیوں سے کھیلتی ہے اور ہم 11 کھلاڑیوں سے۔ اُن سے اس فقرے کی وضاحت طلب کی گئی تو انہوں نے ظہیر عباس کو 11 کھلاڑیوں کے برابر قرار دیا۔ ہاکی کے میدان میں بھی پاکستان بھارت پر چھایا رہتا تھا۔ پاک بھارت ہاکی میچوں میں پاکستانی ٹیم کے فتح یاب ہونے کے امکانات ہمیشہ 60 سے 70 فیصد ہوتے تھے۔ بلاشبہ ہم نے اچھی فلمیں تخلیق نہیں کیں، مگر پاکستان میں 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں جو ٹیلی ڈراما تخلیق ہوا، ویسا ٹیلی ڈراما بھارت آئندہ سو سال میں بھی تخلیق کرکے دکھا دے تو بڑی بات ہوگی۔ پاکستان کی یہ کامیابیاں اس لیے اہم تھیں کہ بھارت آبادی میں پاکستان سے 6 گنا بڑا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کی ترجیح اگر نظریہ، علم اور تخلیق و ایجاد ہوتی تو ہم ان دائروں میں بھی بھارت کو بہت پیچھے چھوڑ دیتے۔ پاکستان کے ابتدائی 30 برسوں میں پاکستان کی معاشی کارکردگی بھارت سے بہت اچھی تھی، اور بھارت کے مقابلے پر پاکستان کو اُبھرتی ہوئی معیشت کہا جاتا تھا۔ عسکری دائرے میں بھی ہم 1965ء تک بھارت کے ہم پلہ بلکہ بھارت سے بہتر تھے۔ بے شک 1965ء کی جنگ میں ہماری فتح نہیں ہوئی تھی، مگر یہ جنگ اگر برابر برابر قرار دے دی جائے تو یہ بھی پاکستان کی بڑی فتح تھی، اس لیے کہ بری فوج کے دائرے میں بھارت پانچ گنا، بحریہ کے دائرے میں سات سے نو گنا، اور فضائیہ کے دائرے میں بھارت پاکستان سے 10 گنا زیادہ طاقت کا حامل تھا۔ چنانچہ 1965ء میں کُشتی کے برابر چھوٹ جانے کا مطلب پاکستان کی فتح کے سوا کچھ نہیں تھا۔ عسکری دائرے میں ہماری اصل ناکامی 1971ء میں تخلیق ہوئی۔ یہ جنگ ہمارے جرنیلوں نے لڑے بغیر ہاری، اور جب تک ہمارے جرنیل 1971ء کی جنگ کی شکست کا ازالہ نہیں کریں گے قوم انہیں معاف نہیں کرے گی۔
ان حقائق کو دیکھ کر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر کے تناظر میں بھارت سے خوف زدہ ہونے کی کوئی وجہ ہی نہیں۔ پاکستان جس تاریخ کا امین ہے اگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمران اس کے تقاضوں کو پورا کرنے لگیں تو بھارت اپنی بنیادوں سے ہل کر رہ جائے گا۔ مگر ہمارے حکمران کشمیر پر زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنے پر تیار نظر نہیں آتے۔ عمران خان مسلسل عالمی برادری سے اپیل کیے جارہے ہیں کہ وہ کشمیر پر کچھ کرے۔ مگر مسئلہ کشمیر عالمی برادری کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ کشمیر پاکستان کا مسئلہ ہے، جب پاکستان کشمیر کے لیے Lip Service میں لگا ہوا ہے تو عالمی برادری کشمیر پر ’’عمل پرستی‘‘ کا مظاہرہ کیوں کرے گی؟ عمران خان کہنے کو تو کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے آزاد کشمیر پر حملہ کیا تو پاکستان جواب دے گا۔ مگر ان کے ’’اقوال و افعال‘‘ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ جنگ سے خوف زدہ ہیں۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ جو قومیں جنگ سے بھاگتی ہیں جنگ اُن کی طرف زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑتی ہے۔ اس کے برعکس جو قومیں جنگ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہوتی ہیں جنگ اُن سے دور بھاگتی ہے۔ عمران خان فرما رہے ہیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی بلکہ جنگ سے ایک مسئلہ حل ہوتا ہے تو چار مسئلے پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جو لوگ جنگ سے ڈرتے ہیں اُن کے لیے جنگ کا خوف ایک مسئلہ حل کرتا ہے اور 8 نئے مسائل پیدا کردیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی کوئی Self Respect نہیں رہتی۔ طاقت ور قومیں ان کی آزادی اور وقار سے کھیلنے لگتی ہیں۔ جاپان 50 سال سے دنیا کی چار بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے، مگر چونکہ وہ امریکہ کے آگے ہتھیار ڈالے ہوئے ہے اس لیے مغربی دنیا میں جاپان کی کوئی تکریم نہیں۔ جاپان کا وزیراعظم امریکی صدر کے سامنے اس طرح بیٹھتا ہے جیسے امریکہ وڈیرہ ہو اور جاپان اُس کا ہاری۔ عمران خان کو اندازہ نہیں کہ وہ جنگ سے بھاگیں گے تو بھارت پاکستان کے ساتھ کیا کرے گا۔ عمران خان کا کیا ہے، وہ کہہ دیں گے کہ میں بھارت کو سمجھ نہیں سکا۔
عمران خان دیکھ چکے کہ امریکہ، یورپ اور نام نہاد عالمی برادری نے 40 دن میں مظلوم کشمیریوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کیا عالمی برادری کی ’’تشویش‘‘ کشمیریوں کی جان بچا رہی ہے؟ انہیں جیل جانے سے روک رہی ہے؟ خواتین کو ہراساں کیے جانے سے محفوظ رکھ رہی ہے؟ انہیں دوائیں اور غذا مہیا کررہی ہے؟ بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور کررہی ہے؟ نہیں، تو پھر اس ’’تشویش‘‘ کی اہمیت ہی کیا ہے؟ جنرل باجوہ نے 6 ستمبر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حوصلہ افزا بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہم کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ بہت اچھی بات ہے۔ انسان گُڑ نہ کھلائے گُڑ جیسی بات تو کرے۔ مگر کشمیریوں کی تنہائی صرف بیانات سے دور نہیں ہوسکتی، اور گُڑ کا ’’تصور‘‘ حقیقی گُڑ کی جگہ نہیں لے سکتا۔ خدا کا شکر ہے میجر جنرل آصف غفور نے نیوز کانفرنس میں واضح کردیا کہ پاکستان ایٹمی حملے میں پہل بھی کرسکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اتنا کم فاصلہ ہے کہ ’’جوابی ایٹمی حملہ‘‘ محض ایک خیال کے سوا کچھ نہیں۔
بھارت کے سلسلے میں پاکستان کے حکمران طبقے کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس نے بھارت کی کوئی Stake ہی تخلیق نہیں کی۔ تجزیہ کیا جائے تو اس وقت بھارت کی سب سے بڑی Stake اس کا عالمی طاقت اور دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن کر اُبھرنے کا خواب ہے۔ پاکستان کو اس خواب پر بھرپور نفسیاتی حملہ کرنا چاہیے۔ اس کے مقابلے پر پاکستان کی ’’قوت‘‘ یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنی جانوں کے سوا کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اس سلسلے میں کسی اور سے نہیں تو کارل مارکس ہی سے کچھ سیکھ لینا چاہیے۔ مارکس نے دنیا کے محنت کشوں اور غریبوں سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ دنیا کے پرولتاریو متحد ہوجائو اور سرمایہ داروں کے خلاف جنگ لڑو، تمہارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ جس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہ ہو اُس سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں ہوسکتا۔ مگر ہماری مشکل یہ ہے کہ پاکستان کے عوام تو کوئی بھی قربانی دے سکتے ہیں مگر پاکستان میں Five Star اور Seven Star زندگی بسر کرنے والے حکمرانوں کے مفادات اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں بھارت کے ساتھ جنگ سے خوف آتا ہے۔ چنانچہ پاکستان کے حکمران بھارت سے جنگ کو ٹال رہے ہیں، مگر انہیں معلوم نہیں کہ انسان تقدیر سے بھاگ کر بھی تقدیر ہی کی طرف جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ تقدیر سے بھاگ کر انسان جس تقدیر کی طرف جاتا ہے اُس کی ذلت بے پناہ ہوتی ہے۔