۔”ٹیپو سُلطان” یا “ٹویٹو سُلطان”۔
مولانا ر وم نے کہا ہے کہ ملتیں اس لیے فنا ہوتی ہیں کہ وہ حقیقت کو دھوکہ اور دھوکے کو حقیقت سمجھ لیتی ہیں۔ اس تجربے کی ایک ہولناک مثال پاکستان کے فوجی اور سول حکمران ہیں۔ ان حکمرانوں نے بھارت کو وہ سمجھا جو وہ نہیں تھا، اور بھارت جو تھا اسے ہمارے حکمرانوں نے کبھی سمجھ کر نہ دیا۔ ہمارے حکمران بھارت کو ’’سیکولر ریاست‘‘ سمجھتے رہے، حالانکہ بھارت گاندھی کے زمانے سے ایک ’’ہندو ریاست‘‘ تھا۔ ہمارے حکمران بھارت کو ’’نوآزاد‘‘ ملک سمجھتے رہے، حالانکہ بھارت ایک ’’نوآبادیاتی قوت‘‘ ہے۔ ہمارے حکمران سمجھتے رہے کہ بھارت کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت معاملات ممکن ہیں، حالانکہ بھارت کو صرف اپنی بقا سے دلچسپی ہے اور وہ خطے کے تمام ملکوں کی کمزوری کو اپنی بقا کے لیے ضروری خیال کرتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کا خیال تھا کہ بھارت ’’باتوں کا بھوت‘‘ ہے، حالانکہ بھارت ہمیشہ سے ’’لاتوں کا بھوت‘‘ ہے۔ میاں نوازشریف بھارت کا ذکر اس طرح کرتے تھے جیسے بھارت ’’بھیڑ‘‘ ہو، حالانکہ بھارت ایک ’’بھیڑیا‘‘ ہے۔ عمران خان کی ’’بھارت فہمی‘‘ بھی دوسرے پاکستانی حکمرانوں کی طرح شرمناک حد تک ناقص تھی۔ اس کا اندزہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے مودی انتخابات کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے گریزاں ہے، مگر اب وہ فرما رہے ہیں کہ مودی ہٹلر کا نیا روپ ہے۔ بلاشبہ مودی ہٹلر کا نیا روپ ہے، مگر جو ذہن 20 سال سے مودی کو نہ پہچان پایا ہو وہ یقینا ’’سیاسی بٹلر کا ذہن‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے حکمران طبقے کی اصل مشکل یہ ہے کہ چونکہ وہ ’’حق‘‘ کو نہیں پہچانتے اس لیے وہ ’’باطل‘‘ کا بھی درست فہم نہیں رکھتے۔ پاکستان کے فوجی اور سول حکمران صرف بھارت ہی کو نہیں امریکہ کو سمجھنے میں بھی بری طرح ناکام رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی حیثیت امریکہ کے کرائے کے فوجیوں کے سوا کچھ نہیں۔
جو حقیقت اور فریب یا Reality اور Illusion کے فرق پر آگاہ نہیں ہوتا تو پھر اس کے دعوے اور عملی صورتِ حال میں ایک گہرا تضاد پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک بہت اچھی مثال خود عمران خان ہیں۔ انہوں نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ پاکستان بہادر شاہ ظفر کے بجائے ٹیپو سلطان کے راستے پر چلے گا، مگر پاک بھارت کشمکش جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے عمران خان ’’ٹیپو سلطان‘‘ کے بجائے “Tweetu Sultan” بن کر ابھر رہے ہیں، بلکہ کبھی کبھی تو ایسا گمان بھی گزرتا ہے کہ وہ ’’عمران خان‘‘ نہیں بلکہ صرف ’’تقریر خان‘‘ ہیں۔ تاریخ کی بھوک ان سے ’’عمل‘‘ کی غذا مانگ رہی ہے، مگر وہ کبھی تاریخ کے منہ میں کوئی “Tweet” ٹھونس دیتے ہیں، کبھی کوئی ’’تقریر‘‘ گھسیڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے “Tweetu Sultan” ہونے کے تذکرے سوشل میڈیا پر بھی آگئے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا کردی ہے، وہ نوجوانوں کو پکڑ کر ان پر بدترین تشدد کررہے ہیں، انہیں سریوں اور ہاکیوں سے مار رہے ہیں۔ وہ بے ہوش ہوجاتے ہیں تو ان کو بجلی کے جھٹکوں سے ہوش میں لایا جاتا ہے اور تشدد کا سلسلہ پھر شروع ہوجاتا ہے۔ وہ چیختے ہیں تو ان کے منہ میں مٹی بھر دی جاتی ہے۔ بھارتی فوجی گھروں سے کم سن بچوں تک کو اٹھا کر لے جارہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ایک باریش شخص نے بتایا کہ بھارتی فوجیوں نے اس کی داڑھی کو جلانے کی کوشش کی۔ اطلاعات کے مطابق ہزاروں کشمیری گھروں سے غائب ہیں۔ کشمیر میں کرفیو کو اب ایک ماہ ہوگیا ہے۔ عمران خان ان سب کا جواب “Tweets” اور ’’تقریروں‘‘ سے دے رہے ہیں۔ وہ ایسا کرکے ’’مزاحمت‘‘ کا سارا بوجھ مظلوم کشمیریوں کے کاندھوں پر ڈال رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ کشمیریوں ہی کو کرنا ہے تو پھر عمران خان اور جنرل باجوہ کس مرض کی دوا ہیں؟ فیض کا شعر ہے:
مر جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
اس شعر کو کشمیر کے حوالے سے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے:
مر جائیں گے کشمیری تو پھر جنگ کروگے
ٹیپو ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
روزنامہ ڈان کراچی نے عمران کے ایک بیان سے یہ شہ سرخی برآمد کی ہے:
“Silence on Kashmir to cost world heavily, says PM”
ترجمہ: کشمیر پر دنیا کو ’’خاموشی‘‘ مہنگی پڑے گی۔ وزیراعظم کا بیان‘‘۔
مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کشمیر پر زبان سے خاموش ہے اور عمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ’’عمل‘‘ سے خاموش ہیں۔ سوال یہ ہے کہ زبان کی خاموشی اور عمل کی خاموشی میں سے زیادہ بڑا جرم کون سا ہے؟ چنانچہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ سے عرض ہے کہ انہیں کشمیر پر ’’عمل کی خاموشی‘‘ دنیا اور آخرت میں بہت ہی مہنگی پڑے گی، بالخصوص آخرت میں۔ اس لیے کہ آخرت میں کسی کی ’’عمران خانی‘‘ اور ’’جرنیلی‘‘ کام نہیں آئے گی۔ کشمیر پر دنیا خاموش ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے، اس لیے کہ کشمیر کبھی بھی دنیا کا مسئلہ نہیں تھا اور دنیا کشمیر پر71 سال سے خاموش ہے، مگر کشمیر پر پاکستان کا عمل خاموش ہے یہ ناقابلِ فہم ہے۔ اس لیے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ اگر ہم اپنی شہ رگ کے تحفظ کے لیے جنگ نہیں کرسکتے تو پھر ہم کس چیز کے لیے جنگ کریں گے؟ مگر عمران خان جنگ سے خوف زدہ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں شہبازشریف سے پوچھا تھا کہ کیا میں بھارت پر حملہ کردوں؟ شہبازشریف ایک غدار شخص ہے، بلکہ پورا شریف خاندان ہی غدار ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی کی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ ہے۔ اس کتاب میں جنرل درانی نے صاف لکھا ہے کہ شہبازشریف پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے یعنی گریٹر پنجاب تخلیق کرنے کے لیے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ سے مذاکرات کررہا تھا۔ شہبازشریف غدار نہ ہوتا تو وہ قومی اسمبلی میں عمران خان سے کہتا کہ بے شک وقت آگیا ہے کہ تم بھارت پر حملہ کرو۔ مگر شہبازشریف نے عمران کے سوال کے جواب میں وہی فرمایا جو ایک غدار کنبے کا شخص کہہ سکتا ہے۔ اس نے کہاکہ میں کب کہہ رہا ہوں کہ آپ بھارت پر حملہ کرو! جو بات شہبازشریف نے اَن کہی رہنے دی وہ یہ تھی کہ میں تو کشمیر پر صرف ’’سیاسی پوائنٹ اسکورنگ‘‘ کررہا ہوں۔ عمران خان بھی اپنے Tweets اور اپنی تقریروں کے ذریعے کشمیر پر ’’کچھ کرنے‘‘ کا دھوکہ یا “Illusion” تخلیق کررہے ہیں۔ اس صورتِ حال نے بعض لوگوں کو یہ کہنے پر مائل کردیا ہے کہ جو کچھ سامنے ہے وہ تو دکھاوا ہے، اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ کشمیر پر سودے بازی کرچکا ہے۔ ممکن ہے یہ قیاس آرائی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی ایک کوشش ہو، مگر بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے کی تاریخ بڑی شرمناک اور ہولناک ہے۔ سقوطِ ڈھاکا سے تقریباً ایک ماہ پہلے جنرل یحییٰ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ قوم گھبرائے نہیں، ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ جنرل نیازی نے سقوطِ ڈھاکا سے چند روز پہلے فرمایا تھا کہ بھارتی فوجی ہماری لاشوں سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوں گے۔ مگر سقوطِ ڈھاکا ہوا تو معلوم ہوا کہ ملک کا دفاع بہت ہی کمزور ہاتھوں میں تھا۔ جنرل نیازی نے بھی اپنے وعدے کے پرخچے اڑا دیئے۔ بھارتی فوجی جب ڈھاکا میں داخل ہوئے تو جنرل نیازی بھارتی جنرل کو فحش لطیفے سنا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے قوم نے جرنیلوں کو آج تک معاف نہیں کیا۔ قوم جرنیلوں کو اُسی وقت معاف کرے گی جب جرنیل پورے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بناکر ’’گریٹر پاکستان‘‘ وجود میں لائیں گے۔
کشمیر کے حوالے سے تشویش، اضطراب اور بے تابی صرف ہمارے اندر نہیں ہے، بعض جرنیل بھی اس حوالے سے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل نعیم خالد لودھی ’’دانشور جنرل‘‘ کہلاتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنے کالم میں کیا لکھا ہے، ملاحظہ فرمایئے:
’’موجودہ سیاسی، معاشی عالمی فریم ورک اور عالمی اداروں پر بڑی طاقتوں کا اثر رسوخ، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر مودی کے رویّے میں کسی بڑی تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بدقسمتی سے ہم بطور ریاست علاقائی اور دیگر بلاکس میں اپنا کوئی ایسا سیاسی، معاشی اور تزویراتی اثر رسوخ پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں جو ہمارے مؤقف میں وزن پیدا کرسکے۔ صرف چین ہے (وہ بھی زیادہ تر چین کی اپنی کوششوں کی بدولت) جس کے ساتھ ہماری تزویراتی مفاہمت پائی جاتی ہے، ورنہ ہم صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر تکیہ کرکے اپنے تمام مواقع ضائع کرتے رہے ہیں۔ روس اور ایران بارہا ہم سے رجوع کرتے رہے اور ہم نے ہر بار اپنی سردمہری سے انہیں حیران کیا۔ کوئی بڑی تبدیلی سیاسی فیصلے کے نتیجے میں ہونی چاہیے، ہم فارن آفس کو اس کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھیرا سکتے، سوائے اس کے کہ ان کی طرف سے مزید ٹھوس ان پٹ (Input) آنی چاہیے تھی۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے مغرب پرست اور امریکہ نواز عناصر مشرق کی سمت دیکھنے کی ہماری پالیسی کے خلاف بطور بیرونی آلہ کار کام کررہے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ افسوسناک ہے۔ تمام قومی اداروں کو ان عناصر سے پاک کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں پہلا قدم آرمی نے اٹھایا ہے۔
عالمی سیاسی اور سفارتی منظرنامے بالکل واضح ہیں اور موجودہ حالات میں ہماری خواہشات کے برعکس کام کررہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ستمبر کے آخر میں وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں زبردست تقریر کریں گے، مگر سوائے واہ واہ کے کشمیر کے مسئلے پر ہمیں اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ اُس وقت تک بھارت اپنے ملٹری ایکشن کے پہلے فیز کا کام مکمل کرچکا ہوگا، اور وہ ہے نوجوان قیادت ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو کمزور کرنا۔ اس کے بعد بھارتی افواج اپنی بندوقوں کا رخ پوری طرح ایل او سی اور بین الاقوامی بارڈر کی طرف کرچکی ہوں گی، چنانچہ محض سفارت کاری اور کوششوں سے مطلوبہ نتائج نہیں مل سکیں گے‘‘۔
(روزنامہ دنیا، 30 اگست 2019ء)
اس کالم میں ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے صاف کہا ہے کہ عمران خان جو کچھ کررہے ہیں اور جنرل اسمبلی سے خطاب میں وہ جو کچھ کہنے والے ہیں اس پر واہ، واہ تو بہت ہوگی، مگر اس سے عملی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہاں تک کہ جنرل اسمبلی سے عمران خان کے خطاب تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت کرنے والے تمام نوجوانوں کو ختم کرچکا ہوگا۔ تو کیا عمران خان اور اُن کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ اسی دن کے انتظار میں ہیں جب بھارت مقبوضہ کشمیر کی قوتِ مزاحمت پر قابو پاچکا ہو؟ کیا اس کے بعد ہی امریکہ ثالث کا کردار ادا کرے گا؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر کی داخلی قوتِ مزاحمت ہی کشمیر کی جان ہے، کشمیر کے جسم سے یہ جان نکل گئی تو صرف جغرافیہ باقی رہ جائے گا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کو صرف جغرافیہ بنانے پر تلا ہوا ہے۔ کیا ہمارا حکمران طبقہ بھی اپنی ’’بے عملی‘‘ سے کشمیر کو صرف جغرافیہ بنانے پر تلا ہوا ہے؟
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کچھ عرصہ پہلے ایک اچھی مگر ادھوری بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ادارے اہم ہیں مگر اداروں سے بھی زیادہ اہم ملک ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ پارلیمنٹ، پریس اور فوج اہم ہیں، مگر ان سے بھی اہم پاکستان ہے۔ لیکن اس بات کا ادھورا پن یہ تھا کہ پاکستان سے بھی اہم اس کا نظریہ ہے۔ زیربحث مسئلے کے حوالے سے اس بات کی اہمیت یہ ہے کہ پاک بھارت کشمکش ایک نظریاتی کشمکش ہے۔ ہم نے فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ شمارے میں عرض کیا تھا کہ جنگیں ایک ہزار سال تک بھی جاری رہتی ہیں۔ صلیبی جنگ 1095ء میں شروع ہوئی تھی مگر اب تک جاری ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ جنگ صرف ’’صلیب والے‘‘ لڑ رہے تھے، مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے اس جنگ میں عیسائیوں کی صلیب، یہودیوں کے ڈیوڈ اسٹار اور ہندوئوں کے ترشول کا اتحاد تشکیل پاگیا ہے۔ ہماری یہ رائے ایک تجزیہ تھا، اس کی بنیاد کوئی ’’اطلاع‘‘ نہیں تھی، مگر اتفاق سے اس تجزیے کو ایک اطلاع نے غیر معمولی تقویت فراہم کردی ہے۔ یہ اطلاع دراصل چند روز پیشتر روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونے والی ایک خبر ہے۔ خبر یہ ہے:
’’کراچی (ٹی وی رپورٹ) لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا ہے کہ پاکستان کا شاہین تھری 12منٹ سے بھی کم وقت میں تل ابیب کو ہٹ کرسکتا ہے، شاہین تھری آواز کی رفتار سے 18 گنا تیز ہے۔ 27 اور28 جولائی کی رات کو پاکستان نے تو بات ہی نہیں کی، انڈین ٹی وی نے بات اٹھائی کہ پاکستان نے شاہین تھری میزائل موو کردیئے تھے، جس کے بعد آپ دیکھیں 28 کی صبح اچانک دنیا حرکت میں آگئی، اور ایک چیز جو ہم نے نوٹس نہیں کی کہ اسی صبح امریکہ سے اسرائیل کو ایئر تھری تھرڈ میزائل شفٹ ہوئے، اسرائیل کو ان میزائلوں کی ضرورت کیوں پڑی، اس لیے پڑی کہ یہ جو شاہین تھری میزائل ہے پاکستان کا، ایک طرف تل ابیب کو، دوسری طرف آئرلینڈ کو ہٹ کرسکتا ہے۔ پاکستان کسی بھی وقت یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ اس نے کس کو ہٹ اور کس کو ہٹ نہیں کرنا ہے۔ وہ تو رینج دیکھتے ہیں، اور رینج اس کا پہنچتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل میں اس رات کو اور اس دن خوف و ہراس تھا، اور اُس کا جو اسپانسر ہے امریکہ، اس کو بھی ڈر تھا کہ اگر پاکستان کو کوئی نقصان پہنچا تو پاکستان کہاں تک جاسکتا ہے۔ اصل میں جو اسٹرے ٹیجک سوچ ہوتی ہے اس کے بہت سارے لیول ہیں، مجھے نہیں پتا کہ پاکستان کی منصوبہ بندی کیا ہے لیکن کیونکہ پاکستان کے پاس یہ دستیاب ہیں اور پاکستان کا جو بھی دشمن ہوگا، جو بھی پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرے گا تو پاکستان کو پھر اختیار ہوگا کہ وہ دشمن کے خلاف کارروائی کرے، اور اسرائیل کے بارے میں اگر یاد ہو جب یہ ہوا پلوامہ کے بعد کا مسئلہ، تو ہمارے سرکاری ذرائع نے بڑے دنوں بعد یہ بات کی کہ یہ منصوبہ بنا تھا کابل میں، جس میں ’’را‘‘ اور ’’اسرائیل‘‘ شامل تھے اور ایک بڑی طاقت بھی شامل تھی۔ میں اس سے دو تین دن پہلے یہ بات کہہ چکا تھا کہ اس میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت شامل ہیں۔ اس سے پہلے بھی یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ بھارت کے اندر بھی اور کشمیر کے اندر بھی اسرائیلی آکر بیٹھے رہے ہیں تو کیا وہ یہاں پر جو ہمارے کشمیری مجاہدین ہیں اُن کو ختم کرنے کے لیے آئے ہیں؟ میرا نہیں خیال کہ پاکستان اور پاکستان کی جو لیڈرشپ ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتی ہے، یا ان کو پتا نہیں ہے کہ دنیا میں کون کون پاکستان کا مخالف ہے، کس وجہ سے مخالف ہے اور کون ہے جو یہ راستے کی چٹان کو پاش، پاش کرنا چاہتا ہے، اور کون ہے جس کو یہ پتا ہے کہ اس چٹان کو پاش پاش کرنے سے پہلے ان کا اپنا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے‘‘۔
(روزنامہ جنگ کراچی، 28 اگست 2019ء)
ہمارے تجزیے اور مذکورہ بالا خبر سے صاف ظاہر ہے کہ پاک بھارت کشمکش صرف پاک بھارت کشمکش نہیں ہے، بلکہ اس کا ایک گہرا مذہبی، تہذیبی اور تاریخی حوالہ اور ایک عالمی تناظر موجود ہے۔ چنانچہ کشمیر کا مسئلہ نظریاتی اعتبار سے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
عمران خان مودی کو ’’ہٹلر‘‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں، مگر ہندوستان میں مودی کو صرف ہندو ازم کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ اس سال مودی کی 65 ویں سالگرہ پر مودی کو وشنو دیوتا کا اوتار قرار دے کر اس کی پوجا کی گئی۔ اس سال ہندوئوں کے بھگوان گنیش کے تہوار کے موقع پر مودی کی مورتی گنیش کے ساتھ رکھ کر اس کی پوجا کا اہتمام کیا گیا۔ ثقافتی تعلقات سے متعلق بھارت کی کونسل کے سربراہ لوکیش چندر نے مودی کو بھگوان کا اوتار قرار دیا۔ بی جے پی کے ترجمان اودھت واگھ نے مودی کو بھگوان وشنو کا اوتار (یا پیغمبر) قرار دیا۔ فیض آباد سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رکن قومی اسمبلی لالو سنگھ نے مودی کا موازنہ رام سے کیا۔ وشو ہندو پریشد انٹرنیشنل کے صدر اشوک سنگھل نے مودی کے بارے میں کہاکہ وہ رام کی مہا شکتی یا سب سے بڑی طاقت کی علامت ہیں۔ ہندوستان میں ایسے مندر موجود ہیں جہاں مودی کے بتوں کی پوجا ہورہی ہے۔
(دی نیوز کراچی، 29 اگست 2019ء، صفحہ7)
عمران خان نے کچھ عرصہ پہلے مودی کو سابق چائے والا ہونے کی وجہ سے ’’چھوٹا آدمی‘‘ قرار دیا تھا۔ اب وہ مودی کو ’’ہٹلر‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مذکورہ بالا اطلاعات سے ظاہر ہے، ہندوستان میں مودی کو ’’بھگوان کا اوتار‘‘ یا خدا کا پیغمبر قرار دے کر اس کی پوجا کی جارہی ہے۔ پاکستان میں ان دنوں بھارت کے چار کے ٹولے کا بھی ذکر ہورہا ہے، یعنی مودی، امت شاہ، اجیت دوول اور یو پی کا وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ۔ ہم ہندوازم اور رام اور کرشن کے بارے میں اپنی معلومات کی بنیاد پر وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ چار لوگ رام اور کرشن کے زمانے میں ہوتے تو رام اور کرشن کے کتوں میں بھی شامل ہونے کے قابل نہ ہوتے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ مودی بھارت میں پوجا جارہا ہے۔ اس سے بھارت کی ’’اجتماعی پستی‘‘ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر ہمارے لیے یہ اجتماعی پستی ایک بہت بڑے خطرے کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ اس پستی سے معلوم ہورہا ہے کہ بھارت کا ہندو سماج روحانی، اخلاقی، نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی اعتبار سے کتنا گل سڑ گیا ہے، اور ایسے سماج کا ترجمان پاکستان اور کشمیر کے ساتھ کیا کرسکتا ہے۔ چنانچہ پاکستان کے حکمران طبقے کے جو لوگ کشمیر پر سینہ کوبی اور زبانی جمع خرچ میں ’’مبتلا‘‘ ہیں اُن سے عرض ہے کہ ’’شیطنت‘‘ کا مقابلہ ’’درسِ امن‘‘ اور لفظی گولہ باری سے نہیںکیا جاسکتا۔ ہمیں شیطان سے لڑنے کے لیے رحمن کی پناہ میں جانا ہوگا۔ ہمیں پاکستان اور کشمیر کے دفاع کے لیے اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کو آواز دینی ہوگی، خواہ پاک بھارت کشمکش ایٹمی جنگ ہی میں کیوں نہ تبدیل ہوجائے۔
یہاں ہم نے ایٹمی جنگ کا ذکر شعوری طور پر کیا ہے۔ عمران خان ایک جانب پوری دنیا کو یہ کہہ کر ڈرا رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو اس سے پاکستان اور بھارت ہی کا نہیں، دنیا کا بھی نقصان ہوگا۔ مگر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی بدن بولی یا “Body Language” پوری دنیا کو کچھ اور پیغام دے رہی ہے۔
روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے کے ایک ذریعے نے جنگ کو بتایا کہ پاک بھارت ایٹمی جنگ کا کوئی خطرہ نہیں (جنگ کراچی، 30اگست 2019ء)۔ اس خبر میں امریکی ذریعے کے لب و لہجے میں جو تیقن ہے وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے یا تو امریکہ کو بتادیا ہے کہ وہ ایٹمی جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، یا پھر امریکہ کو اس بات پر کامل یقین ہے کہ اگر پاکستان ایٹمی ہتھیار بروئے کار لانے پر مائل ہوگا تو امریکہ اسے روک دے گا۔ ماضی میں امریکہ ایک دوبار دھمکی کے ذریعے ایسا کر بھی چکا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیںکہ پاکستان کے حکمران طبقے نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے خود کو قابلِ پیشگوئی یا “Predictable” بنا لیا ہے۔ جنگ میں افراد اور اقوام کی Unpredictability ایک بہت ہی بڑا ہتھیار ہوتی ہے۔ مغربی اقوام کی جنگی حکمت عملی میں “Surprise” کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ مگر ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے خود کو “Predictable” بھی بنالیا ہے اور وہ بھارت اور اس کے اتحادیوں کو “Surprise” دینے سے بھی گریزاں ہوچکے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ لڑے بغیر ہتھیار ڈالنے کا عمل ہے۔ اس شکست خوردہ ذہنیت کو بھارت بھی “Monitor” کررہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ بھارتی آرمی چیف نے فرمایا ہے کہ بھارت پاکستان کے جوہری بھوت یا Atomic Ghost سے نہیں ڈرتا۔ دوسری جانب بھارت کے ذرائع ابلاغ نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو کی یہ تعبیر کی کہ پاکستان بھارت سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اس تاثر کی تردیدکی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان بھارت سے مذاکرات نہیں کرے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ’’ذمے دار لوگ‘‘ اتنی ’’غیر ذمے داری‘‘ سے کیوں بات کررہے ہیں کہ بھارت ان کی گفتگو کو ذومعنی سمجھنے کی طرف مائل ہو؟
ایک وقت تھا کہ عمران خان پاکستان میں ایک Celebrity تھے۔ جب سے وہ وزیراعظم بنے ہیں انہیں Icon کا درجہ حاصل ہے۔ مگر دوسری طرف مودی ہے جسے بھارت میں پیغمبر کا مقام حاصل ہے۔ اس تناظر میں اس سے زیادہ افسوس ناک بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ عمران خان ایک حقیقی جنگ کو Tweets کے ذریعے لڑتے نظر آئیں اور Tweetu Sultan کہلائیں، اس طرح تقریروں کے شوق کی وجہ سے انہیں ’’تقریر خان‘‘ کا خطاب دیا جائے۔ آخر عمران خان اپنے ہی ہاتھ سے اپنی مٹی کیوں پلید کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟ انہیں اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شایانِ شان رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ مودی اور ہندوستان کے اندھیرے کو دیکھ کر ہمیں اپنا ایک پرانا شعر یاد آجاتا ہے:
ایک جگنو ہے بہت
اس اندھیرے کو میاں
ٹیپو سلطان ایک فرد تھا مگر اُس نے تنِ تنہا وقت کی واحد سپر پاور کو منہ کے بل گرا دیا تھا۔ اس لیے کہ ٹیپو کی شخصیت کی جڑیں اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ میں پیوست تھیں۔ اگر ٹیپو کو ’’غداروں‘‘ سے سابقہ درپیش نہ ہوتا تو آج جنوبی ایشیا کی تاریخ مختلف ہوتی۔ قائداعظم بھی ایک فرد تھے، مگر انہوں نے تنِ تنہا وقت کی واحد سپر پاور سلطنتِ برطانیہ اور ہندو اکثریت کے دانتوں سے پاکستان چھین کر دکھا دیا۔ اس لیے کہ قائداعظم نے اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کو اپنے ہتھیاروں میں ڈھال لیا تھا۔ ایک ملّا عمر کے فیصلے اور عزم نے افغانستان میں وقت کی واحد سپر پاور امریکہ اور اس کے 50 اتحادیوں کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔ اس لیے کہ ملّا عمر صرف اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ مودی اور اُس کے بھارت کی تو کوئی اوقات ہی نہیں، اس کے لیے صرف عمران خان بھی کافی ہوسکتے ہیں بشرطیکہ وہ اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی پناہ میں آجائیں۔ مولانا رومؒ کا بے مثال شعر ہے:
دست ہر نااہل بیمارت کند
سوئے مادر آکہ تیمارت کند
یعنی نااہل کا ہاتھ انسان کو بیمار کردیتا ہے، چنانچہ اپنی اصل، اپنی ماں یعنی اپنے دین کی آغوش میں آ، تاکہ تجھے شفا مل سکے۔ عمران خان کے Tweets اور ان کی تقریریں ان کے اور ان کے سرپرستوںکے اندرونی امراض کی عکاس ہیں۔ ان امراض کا علاج اپنی اصل سے جڑ جانے میں ہے۔
تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ ایک رہنما کی شکست پوری قوم کی شکست بن جائے۔ مگر مودی کے مذہبی پس منظر اور مذہبی حوالوں نے پاکستان کو یہ موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ مودی کو شکست دے کر پورے ہندوستان کو بنیادوں سے ہلاکر منہ کے بل گرا سکتا ہے۔ مگر عمران خان بھارت کے جھوٹے اور جعلی پیغمبر کو ’’ٹویٹو سلطان‘‘ یا ’’تقریر خان‘‘ بن کر شکست نہیں دے سکتے، خاص طور پر اس صورت میں جبکہ ہلال کے خلاف صلیب، ڈیوڈ اسٹار اور ترشول کا اتحاد موجود ہو۔ بھارت کے جھوٹے پیغمبر کو سچے مذہب اسلام کے تصورِ جہاد کو عمل میں ڈھال کر ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ اگر ہم نے مودی کو شکست نہ دی تو پھر جنوبی ایشیا میں 65 کروڑ مسلمانوں کی خیر نہیں۔