کیا کشمیر پر پاکستان کی جنگ بین الاقوامی برادری لڑے گی؟۔
ذوالفقار علی بھٹو بھارت کے تناظر میں دو باتیں کہا کرتے تھے، وہ کہتے تھے ’’ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے‘‘۔ دوسری بات وہ یہ کہا کرتے تھے کہ ’’ہمیں بھارت کے خلاف ایک ہزار سال تک جنگ لڑنی پڑی تو ہم ضرور لڑیں گے‘‘۔ بعض لوگ ایک ہزار سال تک جنگ کی بات پر چونک سکتے ہیں اور سوچ سکتے ہیں کہ کیا جنگیں ایک ہزار سال تک بھی لڑی جاتی ہیں؟ ایسے لوگوں کی ’’اطلاع‘‘ کے لیے عرض ہے کہ پوپ اربن دوئم نے 1095ء میں اسلام کو شیطانی مذہب قرار دیا تھا اور صلیبی جنگوں کا آغاز کرایا تھا۔ صلیبی جنگ کو تقریباً ایک ہزار سال ہوگئے ہیں مگر اسلام اور امتِ مسلمہ کے خلاف مغرب کی صلیبی جنگ آج بھی جاری ہے۔ اس جنگ کے عنوانات تو بدلے ہیں مگر یہ جنگ تواتر سے جاری رہی ہے۔ یہ جنگ کبھی مغربی نوآبادی دور کہلاتی ہے، کبھی اس جنگ کو عرب اسرائیل جنگ کا نام دیا گیا ہے، کبھی یہ جنگ پاک بھارت جنگ کے نام کے ساتھ سامنے آئی ہے، کبھی یہ جنگ نائن الیون کے واقعے میں ظاہر ہوئی ہے، کبھی اس جنگ کو افغانستان کے خلاف جارحیت کا نام دیا گیا ہے، کبھی اس جنگ نے عراق کے خلاف معرکہ آرائی کا روپ اختیار کیا ہے۔ اس وقت یہ جنگ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے نام سے مشتہر ہوئی ہے۔ مگر یہ جنگ جاری ہے۔ کبھی عیسائی مغرب اس جنگ میں تنہا تھا، مگر اب اسرائیل اور بھارت بھی اس جنگ کا حصہ ہیں۔ یہ صلیب، ترشول اور ڈیوڈ اسٹار کے ’’اتحاد کا زمانہ‘‘ ہے۔ چنانچہ اب مسلمانوں کا کام ہرگز جنگ سے نہیں چلے گا۔ اب مسلمانوں کو صرف ایک قوت بچا سکتی ہے، جہاد فی سبیل اللہ۔ جہاد اور جنگ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عربوں نے اسرائیل کے خلاف تین جنگیں لڑی ہیں مگر جہاد ایک بار بھی نہیں کیا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کے خلاف چھوٹی بڑی چار جنگیں لڑی ہیں مگر جہاد ایک بار بھی نہیں کیا۔ جنگ میں صرف تباہی ہے، اور جہاد میں دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ جنگ زر و زمین اور قبائلیت کے لیے کی جاتی ہے۔ جہاد اللہ کی کبریائی کے اعلان اور اس کی کبریائی کے غلبے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جنگ میں مسلمان مرتا ہے، جہاد میں ’’شہید‘‘ ہوتا ہے۔ شہادت وہ مرتبہ ہے جس کی آرزو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نے کی۔ اسی لیے جنگ میں صرف حرکت ہے، جہاد میں حرکت بھی ہے اور برکت بھی۔ اسلام کی بنیاد پر مسلمانوں کا عقیدہ ہے: جان کا صدقہ مال، اور ایمان کا صدقہ جان ہے۔ اگر ایک ارب روپے دے کر جان بچ سکتی ہو تو جان بچالینی چاہیے۔ اسی طرح ایمان کو خطرہ ہو تو جان دے کر ایمان بچا لینا چاہیے۔ جہاد کی بنیاد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی ہے۔ باطل ایمان کو للکارے تو جان قربان کرکے بھی اس کا جواب دیا جانا چاہیے۔
ہمارے سامنے مولانا مودودیؒ کی بے مثال کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ رکھی ہوئی ہے۔ مگر مولانا تو ’’بنیاد پرست‘‘ تھے۔ البتہ ’’صوفی اسلام‘‘ مغرب اور اُس کے اتحادیوں کو بہت پسند ہے۔ چنانچہ ہم یہاں صوفیوں کے صوفی یعنی صوفیوں کے سردار مولانا رومؒ سے رجوع کرتے ہیں۔ اس وقت مولانا رومؒ امریکہ میں سب سے مقبول شاعر ہیں۔ مولانا رومؒ نے فرمایا ہے:۔
مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ
مصلحت در دینِ عیسیٰ غار و کوہ
مولانا فرما رہے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مصلحت ’’جنگ‘‘ اور اس سے پیدا ہونے والا ’’شکوہ‘‘ ہے۔ مولانا نے اس شعر میں جنگ کا لفظ شعری مجبوری کے تحت لکھا ہے، کیونکہ وہ جنگ کی جگہ جہاد کا لفظ استعمال کرتے تو مصرع بے وزن ہوجاتا۔ چنانچہ مولانا کے شعر کا درست ترین ترجمہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مصلحت ’’جہاد‘‘ اور اس سے پیدا ہونے والا ’’شکوہ‘‘ ہے۔ اس کے برعکس حضرت عیسیٰؑ کے دین کی مصلحت یا روح ترکِ دنیا ہے۔ صوفیوں کے صوفی مولانا روم جہاد پر صرف ایک شعر کہہ کر نہیں رہ گئے۔ پیر رومی کے مرید اقبال نے اپنی ایک نظم میں مولانا سے درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ
اے نگہ تیری مرے دل کی کشاد
کھول مجھ پر نکتہ حکمِ جہاد
اس کے جواب میں مولانا روم نے فرمایا:۔
نقشِ حق را ہم بہ امر حق شکن
بر زُجاج دوست سنگِ دوست زن
مولانا فرما رہے ہیں کہ جہاد کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ حق کے نقش کوحق کے حکم سے فنا کر۔ دوست کے آئینے پر دوست کا پتھر مار۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر انسان اللہ کی مخلوق ہے اور اس کی جان صرف اللہ کے حکم ہی کے تحت لی جاسکتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنگ ایک ’’سیکولر شے‘‘ ہے۔ اس کے برعکس جہاد ایک ’’روحانی سرگرمی‘‘ ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقے نے عرصہ ہوا جہاد کا ’’فرض‘‘ افراد سے لے کر ’’ریاست‘‘ کو دے دیا ہے، بڑی اچھی بات ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ریاست جنگ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر جہاد کو سینے سے لگا کر دکھائے، اور اس کے تمام تقاضے پورے کرے۔ حکمران اور ریاست کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کے بعد بھی ایسا نہیں کریں گے تو سب کو معلوم ہوجائے گا کہ پاکستان کے حکمران طبقے کا مسئلہ اسلام اور جہاد ہے ہی نہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ جہاد کسی ملّا، مولوی یا مذہبی جماعت کی ’’ایجاد‘‘ نہیں، جہاد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ترین سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ یہ حکم اور یہ سنت جن حالات کے حوالے سے ہے، وہ بھارت نے پوری طرح ہم پر مسلط کردیئے ہیں۔ چنانچہ جو جہاد سے صرفِ نظر کرے گا وہ ملک وقوم سے نہیں خود اسلام سے غداری کا مرتکب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صاف کہا ہے کہ تم ہلکے ہو یا بوجھل، اللہ کی راہ میں نکلو۔ قرآن کہتا ہے کہ تم ان مظلوموں کی مدد کیوں نہیں کرتے جن پر ظالموں نے زندگی تنگ کردی ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے حکمران مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی معنویت کا شعور نہیں رکھتے۔ مسلمانوں کی اصل لاالٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ہے۔ چنانچہ اہلِ ایمان کا تحفظ لاالٰہ الا اللہ پر ایمان رکھنے والے کا تحفظ ہے۔ مسلمان، بالخصوص مظلوم مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا خاص حصہ ہیں، چنانچہ ان کا تحفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کا تحفظ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا مشہور واقعہ ہے کہ آپؐ ایک بار خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے اور کعبے کی عظمت و حرمت بیان فرما رہے تھے، مگر اس کے ساتھ آپؐ جو کچھ فرما رہے تھے اُس کا مفہوم یہ تھا کہ کعبہ تُو عظیم ہے مگر تیری حرمت مومن کی جان سے زیادہ نہیں ہے۔ اسی لیے ہماری تہذیب میں عالِم کی موت کو عالَم کی موت کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے جہاد خاص موقع پر اختیار کی جانے والی حکمت عملی نہیں بلکہ ایک ’’طرزِ حیات‘‘ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی 10 سالہ مدنی زندگی میں 60 سے زیادہ جہادی معرکے ہوئے، ان میں سے کچھ ایسے معرکے تھے جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس شریک ہوئے، اور کچھ معرکے ایسے تھے جو آپؐ کے حکم سے برپا ہوئے مگر آپؐ نے ان میں خود شرکت نہیں فرمائی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی 10 سالہ مدنی زندگی میں ہر سال اوسطاً 6 جہادی معرکے ہوئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کا مزاج، تہذیب اور تاریخ کیا ہے؟۔
ہم نے بھارت سے چار چھوٹی بڑی جنگیں لڑی ہیں۔ ان جنگوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ’’گریٹر پاکستان‘‘ بن کر ابھرنا چاہیے تھا، مگر 1971ء میں ہم نے آدھا پاکستان ہی کھو دیا۔ عرب اسرائیل جنگیں بھی اتنی ہی بے برکت رہی ہیں۔ اسرائیل نے عربوں کی اجتماعی عسکری طاقت کو کوٹ پیس کر رکھ دیا، مگر 20 ویں اور 21 ویں صدی میں جہاد کی عظمت اور برکت سے وقت کی دو سپر پاورز یعنی سوویت یونین اور امریکہ منہ کے بل گر پڑیں۔ یہاں اقبال کے دو شعر یاد آرہے ہیں:۔
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
اس تناظر میں دیکھا جائے تو جہاد بھی جنگ ہی ہے۔ مگر جس طرح ملّا اور مجاہد کی اذان میں فرق ہے اور شاہین اور گدھ میں امتیاز ہے، اسی طرح جنگ اور جہاد دو مختلف چیزیں ہیں۔ جنگ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں ایک “Secular Activity” ہے، اور جہاد ایک ’’روحانی سرگرمی‘‘ ہے۔ جہاد کا مرکز خدا، اس کے رسولؐ کی سنت اور اسلام کی عظمت و شوکت ہے، اور جنگ کا مرکز دنیا کا مال و متاع، زمین اور ایک طرح کی قبائلیت ہے۔ یہاں بھی اقبال ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ اقبال نے کہا ہے:۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ایک ’’غیر معمولی صورتِ حال‘‘ ہے، اور غیر معمولی صورتِ حال میں جنگ ہمارے کام نہیں آسکتی۔ چنانچہ ہمیں جہاد ہی کو ہتھیار بنانا ہوگا اور بھارت سے ایک ایسے معرکے کا آغاز کرنا ہوگا کہ یا تو پاکستان باقی رہے گا یا بھارت۔ بدقسمتی سے اوّل تو پاکستان کا حکمران طبقہ بھارت سے جنگ ہی نہیں چاہتا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ اگر پاک بھارت جنگ ہوئی تو اس میں بھارت اور بنگلہ دیش کے مسلمان ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے، لیکن اگر ریاست پاکستان عام جہاد کا اعلان کردے تو ہم بھارت کے ساتھ جنگ کو پورے خطے بلکہ پوری امتِ مسلمہ کی جنگ بنا سکتے ہیں۔ پھر ہر ملک کے مسلمان مذہبی اسباب کی وجہ سے ہمارا ساتھ دیں گے۔ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جہاد ہمارے لیے ایٹم بم سے کہیں زیادہ بڑا ہتھیار ثابت ہوگا۔ مگر یہ کام کرتے ہوئے ہمیں نام نہاد ’’دنیا‘‘ اور نام نہاد ’’بین الاقوامی برادری‘‘ کی طرف نہیں، صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی سنت کی طرف دیکھنا ہوگا۔ ایک بار چوئن لائی نے بھٹو سے پوچھا تھا کہ آپ کشمیر پر بھارت سے فوجی جنگ لڑنا چاہتے ہیں یا قومی جنگ؟ بھٹو نے پوچھا: قومی جنگ سے آپ کی کیا مراد ہے؟ چوئن لائی نے کہا: قومی جنگ کئی نسلوں تک اور نتائج کے حتمی حصول تک لڑی جاتی ہے۔ چوئن لائی کو اسلام چھوکر بھی نہیں گزرا تھا، مگر اس کی فکر پر ’’انقلاب‘‘ کا اثر تھا جو اسے بتا رہا تھا کہ ایک جنگ کئی نسلوں تک بھی جاری رہ سکتی ہے۔ بھارت جنوبی ایشیا کا شیطان ہے، اور اس کی شیطنت سے پورا جنوبی ایشیا عاجز ہے۔ چنانچہ اس کا علاج ’’سفارت کاری‘‘ کیا، ’’جنگ‘‘ بھی نہیں ہے۔ اس کا علاج صرف جہاد ہے۔ ایسا جہاد جو کئی نسلوں تک بھی جاری رہے تو حرج نہیں۔ بھارت کے خلاف جہاد نہیں ہوگا تو وہ آئندہ مزید 72 سال تک ہمارا جینا حرام کیے رہے گا۔ اس لیے پاکستان کا حکمران طبقہ اب بس کرے اور ’’ریاستی جہاد‘‘ کو ایک ’’تلوار‘‘ اور ایک ’’ڈھال‘‘ کے طور پر بروئے کار لائے۔ ہم برصغیر کی گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ کے تناظر میں وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ برصغیر میں حقیقی امن اسی وقت ہوگا جب اسلام اور مسلمانوں کو ایک بار پھر ہندوستان پر مکمل غلبہ حاصل ہوگا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہندو اچھے محکوم ہیں، اچھے حاکم نہیں۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوئوں پر حکومت کی، مگر انہوں نے کبھی ہندوئوں کے مذہب میں مداخلت کی، نہ ان کی تہذیب کو چھیڑا، نہ ان کی زبان پر حملہ کیا، نہ ریاستی پالیسی کے طور پر ان کے مندر گرائے اور نہ ان کے مندروں پر تالے ڈالے۔ مسلمان ایک ہزار سال میں اپنی طاقت کا پانچ فیصد بھی استعمال کرتے تو ہندوستان میں ایک بھی ہندو نہ ہوتا۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندو ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہے، مگر انہیں 1947ء میں اقتدار حاصل ہوا تو انہوں نے 72 سال میں مسلمانوں کا حشر نشر کردیا۔ ہندوستان میں 72 سال کے دوران 5 ہزار سے زیادہ مسلم کُش فسادات ہوچکے ہیں، جبکہ مسلمانوں کے ہزار سال میں ایک بھی ہندوکُش فساد نہیں ہوا۔ 72 سال میں ہندوئوں نے بھارت کے 25 کروڑ مسلمانوں کو سیاسی، معاشی، سماجی، تعلیمی اور نفسیاتی اعتبار سے ’’مصلوب‘‘ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہاں تک کہ بھارت نے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اور اب مودی نے مسلمانوں کے خانگی معاملات یا مسلم پرسنل لا میں مداخلت کرتے ہوئے تین طلاقوں کو ختم کردیا۔ ایک وقت میں تین طلاقیں صحیح ہیں یا غلط اس کا فیصلہ مسلمانوں کا دردِ سر ہے۔ ہندو ازم میں طلاق کا تصور نہیں۔ ہندوئوں کو کیسا لگتا اگر ایک ہزار سال کے دوران مسلمان ہندو پرسنل لا میں مداخلت کرتے ہوئے ہندو ازم میں طلاق اور خلع کو داخل کردیتے؟ مگر مسلمانوں نے ایک ہزار سال کے دور حکومت میں کبھی ہندوازم میں مداخلت نہیں کی۔ مگر ہندو قیادت اسلام اور مسلمانوں کو فنا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ چنانچہ جنوبی ایشیا پر دوبارہ اسلام اور مسلمانوں کے غلبے کے بغیر جنوبی ایشیا میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ پاکستان سارا کشمیر ہندوستان کو دے دے گا تو اس کے بعد بھارت خود ’’برہمن‘‘ بن کر پاکستانیوں کو ’’شودر‘‘ کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور کرے گا، ٹھیک اسی طرح جس طرح اس نے بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا کو اپنا شودر بنایا ہوا ہے۔ لوگ مودی کو ایک شخص اور بی جے پی کو ایک سیاسی جماعت سمجھتے ہیں۔ مگر مودی اور بی جے پی ایک ذہنی سانچے اور نفسیات کا نام ہے۔ اس نفسیات سے گاندھی اور نہرو بھی پاک نہیں تھے، ہوتے تو پاکستان نہ بنتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو 70 سال پہلے بھی بھارت کا علاج جہاد تھا، 20 سال پہلے بھی بھارت کا علاج جہاد تھا، آج بھی بھارت کا علاج جہاد ہے، اور 10 سال کے بعد بھی بھارت کا علاج جہاد ہوگا۔ بھارت کو ’’تکبر‘‘ اور احساسِ کمتری کا سرطان لاحق ہے۔ سفارت کاری اس مرض کے لیے پیناڈول سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ جنگ زیادہ سے زیادہ ایک اینٹی بائیوٹک ہے۔ مگر جہاد سرجری بھی ہے، کیموتھراپی بھی اور ریڈی ایشن بھی۔ قوموں کی زندگی میں ایسا مرحلہ آتا ہے جب انہیں صدیوں کی حکمت عملی ترک کرکے ایک نئی حکمت عملی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ بھارت کے حوالے سے اپنی 60 سالہ حکمت عملی بدلے۔ پاکستان صرف 22 کروڑ پاکستانیوں کی امیدوں کا مرکز نہیں ہے، پاکستان برصغیر میں موجود 65 کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کے لیے اہم ہے، بلکہ مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کو بھی علم نہیں کہ ان کی آزادی اور سلامتی کی ضمانت بھی پاکستان ہے۔ ہمارے منہ میں خاک، پاکستان نہیں ہوگا تو پورا مشرق وسطیٰ اسرائیل اور بھارت کے درمیان سینڈوچ بن جائے گا۔
اقبال نے بعض مسلمانوں کا رویہ دیکھتے ہوئے ایک عجیب شعر کہا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے:۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
جب سے بھارت نے کشمیر کو ہڑپ کیا ہے، ہمارے حکمران کبھی امریکہ کا در کھٹکھٹا رہے ہیں، کبھی یورپی ممالک کی کال بیل بجا رہے ہیں، کبھی انہیں اقوام متحدہ یاد آرہی ہے، کبھی بین الاقوامی عدالتِ انصاف۔ حالانکہ تاریخ یہ ہے کہ امریکہ نے ہمیں فائدہ بہت کم اور نقصان بہت زیادہ پہنچایا ہے۔ یورپ نہ کبھی پہلے ہمارا دوست تھا، نہ اس وقت دوست ہے۔ اقوام متحدہ کو مشرقی تیمور، دارفور کے ’’مظلوم عیسائی‘‘ تو دو سال میں نظر آجاتے ہیں مگر فلسطین کے مظلوم مسلمان اور کشمیر کے ستم رسیدہ اسے 72 سال میں کبھی نظر نہیں آئے۔ بلاشبہ جارحانہ سفارت کاری بھی اہم ہے، مگر پاکستان کو کشمیر کی جنگ خود ہی لڑنی ہوگی۔ بین الاقوامی برادری نے مسلمانوں پر جنگ مسلط تو کی ہے مگر اس نے کبھی مسلمانوں سے کوئی جنگ نہیں لڑی۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کشمیر کی صورتِ حال پر صرف تشویش کی کھچڑی پکا رہی ہے۔ بلاشبہ کشمیر مغربی ذرائع ابلاغ میں زیر بحث آیا ہے، مگر وہ کہیں بھی مغربی ذرائع ابلاغ کی ’’شہ سرخی‘‘ ہے اور نہ کہیں ’’ٹائم‘‘ اور ’’اکنامسٹ‘‘ کے سرورق پر موجود ہے۔ کشمیر کے مقابلے میں ہانگ کانگ میں چین کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی کوئی حیثیت ہی نہیں، مگر چونکہ یہاں مغرب کا مفاد ہے اس لیے ہانگ کانگ مغرب کے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بھی تخلیق کررہا ہے اور وہ ٹائم اور دی اکنامسٹ کے سرورق پر بھی موجود ہے۔ مگر ہمارے حکمران بتوں سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں اور خدا کی طرف وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہے۔
ہمارے حکمرانوں کی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ہر چیز Out Source کی ہے۔ انہوں نے اپنا دفاع امریکہ کو Out Source کیا، اپنی معیشت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو Out Source کی، یہاں تک کہ جہاد اور جہادیوں کو Out Source کیا۔ ہمارے حکمرانوں کی حسیت یا Sensibility کا حال یہ ہے کہ انہیں اپنی موت ہی سے نہیں، کافروں کی موت سے بھی خوف آتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے مصورِ پاکستان علامہ اقبال نے کہا ہے:۔
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر
ہمارے حکمران طبقے کو اگر موت اتنی ہی ناگوار لگتی ہے تو اس سے عرض ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی اور جہاد کے لیے حکومت بھی Out Source کردے۔ پاک بھارت جنگ کی بات آتی ہے تو ایٹمی جنگ کا خیال بھی کہیں سے آدھمکتا ہے اور ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ ایٹمی جنگ ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا سکتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو معلوم نہیں کہ صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خیال بھی مسلمانوں کے لیے نیا نہیں۔ غزوۂ بدر کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعا مانگی اُس میں فرمایا کہ اے اللہ اگر ان مٹھی بھر اہلِ ایمان کو فتح حاصل نہ ہوئی تو پھر دنیا میں کوئی تیرا نام لیوا نہیں رہے گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ شکست کا مطلب مسلمانوں کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا ہوگا۔ اس حال میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری رات عبادت اور دعا میں گزاری، یعنی اللہ سے رجوع کیا اور اس سے مدد طلب کی۔ پاکستان کے حکمران بھی اگر حقیقی جذبے کے ساتھ جہاد کو اختیار کریں اور اللہ سے مدد طلب کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ہندوستان پر فیصلہ کن فتح حاصل نہ کریں۔ افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کی شکست ایمان کے ہاتھوں ٹیکنالوجی کی شکست ہے، جنگ پر جہاد کی فتح ہے، مقدار یا تعداد پر معیار کا غلبہ ہے، پیشہ ورانہ اہلیت کے مقابلے پر اخلاص کی جیت ہے، عقل پر عشق کی بالادستی ہے۔ یہ اکیسویں صدی کا معجزہ ہے۔ یہ معجزہ امریکہ اور طالبان کے معرکے میں ہوسکتا ہے، تو پاکستان اور بھارت کے معرکے میں کیوں نہیں ہوسکتا؟ جبکہ ہمارے پاس تو ایٹمی صلاحیت بھی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ٹیکنالوجی پر ایمان کی فتح کی بات ’’ماضی کا قصہ‘‘ تھی، مگر اب حال کا ’’ٹھوس تجربہ‘‘ ہے۔ جو شخص اس تجربے کی اہمیت اور معنویت کو نہیں سمجھتا وہ ‘‘مسلمان‘‘ کہلانے کا حقدار نہیں۔
ایک مسلمان کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہوتا کہ اس کا حریف عسکری یا معاشی طور پر قوی ہے یا نہیں؟ مسلمان کے سامنے اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا وہ ’’حق‘‘ پر ہے؟ اگر مسلمان حق پر ہو تو پھر وہ فتح و شکست سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اس لیے کہ مسلمان باطل سے پنجہ آزمائی کا مکلف ہے، فتح کا مکلف نہیں۔ مسلمان حق کی گواہی دے دے اور شہید ہوجائے تو بھی وہ کامیاب ہے۔ اتفاق سے کشمیر کے حوالے سے پاکستان مکمل طور پر حق پر کھڑا ہے۔ کشمیر برصغیر کی تقسیم کے فارمولے کے اعتبار سے بھی پاکستان کا ہے۔ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے بھی پاکستان کا ہے۔ اور کشمیر قانون و انصاف کے تمام تقاضوں کے اعتبار سے بھی پاکستان کا ہے۔ چنانچہ ہمیں کشمیر کے حوالے سے بھارت کے خلاف حتمی جہاد کا آغاز کرنے میں رتی برابر بھی جھجک نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام ہی نے پاکستان تخلیق کیا۔ اسلام ہی پاک بھارت کشمکش میں پاکستان کو جنوبی ایشیا میں فیصلہ کن غلبہ دلا سکتا ہے۔ عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ جہاد ریاست مدینہ کا سب سے بڑا ہتھیار اور سب سے بڑا دفاعی حصار تھا، چنانچہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ اقدام نے عمران خان کو موقع دے دیا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور عام جہاد کے ذریعے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بناکر پاکستان کو ایک حد تک سہی، ریاست مدینہ کے نقشِ قدم پر چلائیں۔ ہمارے جرنیلوں نے بڑے ذوق و شوق سے جہاد کا حق ریاست کے حوالے کیا ہے۔ قوم اُن سے توقع کرتی ہے کہ وہ جہاد کو صرف گود لے کر نہیں رہ جائیں گے، بلکہ وہ جہاد کو ریاست کے مؤثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ قوم کو دھوکا دے سکتے ہیں مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ وہ جہاد کو گود لینے کے باوجود اسے ریاست کی پالیسی کے طور پر استعمال نہیں کریں گے تو کل میدانِ حشر میں خدا انہیں منہ کے بل گرا کر گھسیٹ دے گا۔ مصورِ پاکستان علامہ اقبال کا شعر پھر یاد آگیا:۔
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
کیا ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں کی بصیرت اقبال کی بصیرت سے زیادہ ہے؟