ہمیں یہ لکھتے ہوئے 29 سال ہوگئے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات دو ملکوں، دو رہنمائوں اور دو قوموں کے تعلقات نہیں، بلکہ یہ دو مذاہب، دوتہذیبوں، دو نظریات، دو تاریخوں اور نفسیات کے دو دائروں کے تعلقات ہیں۔ مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کے کان پر جوں تک رینگ کر نہ دی، حالانکہ پاکستان دو قومی نظریے اور ایک قومی نظریے کے تصادم کا حاصل ہے، اور قائداعظم نے صاف کہا تھا کہ پاکستان اُسی دن بن گیا تھا جس دن پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ ایک اور مقام پر قائداعظم نے اس فقرے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام قبول کرتے ہی ہندو کی تہذیب، سماجیات، رسم و رواج غرضیکہ سب کچھ بدل کر رہ جاتا ہے، اور ہندو اس شخص کو اپنے سماج سے نکال باہر کرتے ہیں اور اس سے قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ جو لوگ ہندوستان کو عرصے سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ایک وقت تھا کہ ہندوستان میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے محلے ہی الگ نہیں ہوتے تھے بلکہ شہروں میں عام لوگوں کو پانی پلانے کے بندوبست پر جسے مقامی زبان میں ’’پیائو‘‘ کہا جاتا تھا، ’’ہندو پانی‘‘ اور ’’مسلم پانی‘‘ کا الگ الگ اہتمام موجود ہوتا تھا۔ منشی پریم چند اُردو افسانے کے ’’باوا آدم‘‘ کہلاتے ہیں، مگر تاریخ کے ایک مرحلے پر ہندو مسلم تفریق اتنی بڑھی اور پریم چند گاندھی کے اتنے قائل ہوئے کہ وہ اردو کے بجائے ہندی میں افسانہ لکھنے لگے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ اتفاق نہیں تھا کہ سقوطِ ڈھاکا کے بعد بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے دو اہم باتیں کہیں۔ پہلی بات انہوں نے یہ کہی کہ ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیجِ بنگال میں غرق کردیا ہے۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ آج ہم نے ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے۔ اندرا گاندھی آر ایس ایس کی رکن تھیں نہ مودی کی دخترِ نیک اختر تھیں۔ وہ ’’سیکولر‘‘ جواہر لعل نہرو کی بیٹی اور ’’مہاتما‘‘ گاندھی کی پیروکار تھیں اور اس نسبت سے اپنے نام کے ساتھ گاندھی لکھتی تھیں۔ ہندوئوں نے بیسویں صدی میں جو سب سے بڑا شاعر پیدا کیا وہ ٹیگور تھا۔ ٹیگور اقبال کا معاصر تھا اور اقبال کا انتقال ٹیگور کی زندگی میں ہوگیا تھا۔ اقبال کے انتقال کے بعد صحافیوں نے اقبال کے بارے میں ٹیگور کے تاثرات معلوم کیے تو ٹیگور نے اقبال پر گفتگو سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے جو کہنا تھا اقبال کی شریکِ حیات کے نام تار میں کہہ دیا ہے۔ ٹیگور کو خوف تھا کہ اس نے اقبال پر تبصرہ کیا تو اقبال کو عظیم کہنا پڑے گا یا سرسری تبصرے سے کام چلانا پڑے گا۔ دونوں صورتوں میں اس کا تبصرہ اس کے لیے مشکلات کھڑی کرے گا۔ وہ اقبال کی تعریف کرے گا تو ہندو ناراض ہوں گے، اور وہ اقبال کی تعریف نہیں کرے گا تو مسلمان کہیں گے کہ کتنا تھڑدلا اور کتنا کم ظرف ہے۔
پاک بھارت تعلقات کی مذکورہ بالا نوعیت کو بہت سے ہندو دانش ور سمجھتے ہیں، مگر وہ ان تعلقات کی نوعیت اور معنویت کو صرف سیاسی اصطلاحوں میں بیان کرتے ہیں۔ مگر ہماری گزشتہ 35 سال کی شعوری زندگی میں پہلی بار امریکہ کے ممتاز اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک ہندو مصنف کپل کومی ریڈی (Kapil Komi Reddi)کا دو ہزار الفاظ پر مشتمل ایک ایسا مضمون شائع ہوا ہے جس میں پاک بھارت اور ہندو مسلم تعلقات کو ان کے ’’اصل روپ‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون کے اہم نکات کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے۔ کپل کومی ریڈی لکھتے ہیں:
’’ کشمیر کا بحران ’’علاقے‘‘ سے متعلق نہیں۔ اس کا تعلق ’’اسلام‘‘ پر ہندوئوں کی ’’فتح‘‘ سے ہے۔ نریندر مودی ایک مسلم اکثریتی ریاست کو ہندوئوں کی طاقت کے اظہار کے لیے ’’بروئے کار‘‘ لائے ہیں۔ کشمیر گزشتہ دو ہفتے سے ’’عدم‘‘ کی حالت میں ہے۔ کشمیر پر مودی کا کنٹرول اس نظریاتی بھوک یا اس نظریاتی تمنا کا اظہار ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ’’ہندو ریاست‘‘ کے آگے ’’Surrender‘‘ کردے۔ (مودی کا حال یہ ہے کہ) 2007ء میں ایک مسلمان کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد مودی نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کے گھر سے AK-47 رائفل ملے تو کیا مجھے اُسے مار نہیں دینا چاہیے؟ ہجوم نے نعرہ لگایا ’’انہیں ماردو، انہیں ماردو‘‘۔ 2002ء میں گجرات کے مسلم کُش فسادات کے بعد بے گھر ہوجانے والے مسلمانوں کے بارے میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا ’’ہم کیا کریں؟ کیا ہم ان کے لیے امدادی کیمپ لگائیں؟ کیا ہم بچے پیدا کرنے والے مراکز کھولیں؟‘‘ یہ سن کر جلسے کے شرکاء قہقہے مارکر ہنسنے لگے۔ مودی نے کہا کہ ہمیں اُن لوگوں کو ایک سبق سکھانا ہے جن کی آبادی خطرناک طریقے سے بڑھ رہی ہے۔ ایک بار مودی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک ہزار سال تک ’’غلام‘‘ رہا ہے۔ گزشتہ موسم بہار میں مودی کی کابینہ کے ایک وزیر نے اُن آٹھ ہندو قاتلوں کو ہار پہنائے جنہوں نے ایک مسلمان کو کچل کر ہلاک کردیا تھا۔ مودی کبھی کبھار ہی اقلیتوں کے اراکین کے قتل کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے بھی کم وہ مثالیں ہیں جن میں انہوں نے اقلیتوں کے اراکین کے قتل کی مذمت کی ہے۔ اس بات کی تو کوئی مثال ہی نہیں ہے کہ انہیں کسی اقلیتی رکن کا قتل یاد رہا ہو۔ یہ اتفاق نہیں ہے، وہ دراصل ہندوئوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور ان سے کہہ رہے ہیں کہ اپنے غیر ہندو پڑوسیوں کو ریاستی طاقت استعمال کرکے اپنا غلام بنالو۔ انہوں نے خود کشمیر میں یہی کیا ہے۔ مودی دراصل خود کو ’’نئے بھارت‘‘ کا خالق باور کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ 1951ء میں شیخ عبداللہ نے کہا تھا ’’کون کہتا ہے کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت میں تحفظ حاصل نہیں ہوگا؟‘‘ شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ انصاف، آزادی اور مساوات پر مبنی بھارت کی سیکولر جمہوریت ہماری محافظ ہے۔ شیخ عبداللہ نے پاکستان کی یہ کہہ کر مذمت کی تھی کہ وہ ایک نیم تھیوکریسی ہے، جاگیردارانہ ریاست ہے۔ شیخ عبداللہ نے مزید کہا تھا کہ کشمیری کبھی ایسی ریاست کو قبول نہیں کرسکتے جو ایک مذہب کے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر ترجیح دے۔ شیخ عبداللہ نے یہ بات اُس وقت پاکستان کے بارے میں کہی تھی، مگر اب اس کا اطلاق بھارت پر ہوتا ہے۔ کشمیر کے علیحدگی پسند بھارت کو ’’ہندو ریاست‘‘ کہا کرتے ہیں۔ مگر کچھ عرصہ پہلے تک انہیں ’’Chauvinist‘‘ یا مبالغہ پرست جارح کہہ کر مسترد کیا جاتا تھا، مگر اب کشمیر کے علیحدگی پسندوں کی بات میں بڑا وزن پیدا ہوگیا ہے۔ مودی نے کشمیر کے ساتھ ظلم کو انضمام یا Integration قرار دیا ہے۔ اس غلطی کو درست نہ کیا گیا تو یہ بھارت کے اتحاد کے خاتمے کا آغاز ہوگا‘‘۔ (واشنگٹن پوسٹ، 16 اگست 2019ء)
نظریات کا تصادم زندگی کی بنیادی حقیقت ہے، اور نظریات کا تصادم ہی تہذیبوں کا تصادم بنتا ہے۔ نظریات کا تصادم ہی تاریخوں اور تعریفوں یا Definition کا تصادم بنتا ہے۔ یہی تصادم برصغیر میں ایک قومی نظریے اور دو قومی نظریے کے تصادم کی صورت میں ظاہر ہوا۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرلیا ہے۔ لیکن بات اتنی سی نہیں ہے۔ دراصل کشمیر میں ایک قومی نظریے نے دو قومی نظریے پر حملہ کرکے اسے ایک قومی نظریے میں ڈھالنے کی سازش کی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے مضمون میں بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ اصل مسئلہ جغرافیہ یا علاقہ فتح کرنے کا نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوئوں نے کشمیر میں اسلام کو فتح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اندرا گاندھی کی طرح مودی بھی یہی سمجھتا ہے کہ ہندوئوں کو مسلمانوں سے ایک ہزار سال کی غلامی کا بدلہ لینا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ عمران خان مودی کی انتخابی فتح کے لیے ’’دعاگو‘‘ تھے، مگر اب آزاد کشمیر کی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے بھی ہندوئوں کی ایک ہزار سالہ غلامی اور اس کے احساس کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ ’’مفادات‘‘ کا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مودی اور بی جے پی کی ایک ’’Ideology‘‘ ہے۔ یہاں عمران کی دو باتیں درست ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت کی ہندو قیادت ایک ہزار سالہ غلامی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ دوسری یہ کہ پاک بھارت تعلقات میں اصل مسئلہ مفادات کے ٹکرائو کا نہیں ہے۔ مگر عمران خان کا یہ خیال درست نہیں کہ بی جے پی کی کوئی Ideology ہے۔ بی جے پی کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ وہ بھارت کے سیکولرازم کا ’’مذہبی چہرہ‘‘ ہے۔ بی جے پی ہندو تنظیم سے کہیں زیادہ ایک ’’ہندو قوم پرست‘‘ جماعت ہے، اور قوم پرستی نسل، زبان اور جغرافیے سے Define ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ مودی اور بی جے پی کا اصل مسئلہ اسلام اور مسلمانوں سے ’’نفرت‘‘ اور ’’انتقام‘‘ ہے۔ ظاہر ہے کہ نظریہ مذہبی بھی ہوسکتا ہے اور غیر مذہبی بھی، مگر نظریہ کبھی بھی نفرت اور انتقام پر مبنی نہیں ہوتا۔ چنانچہ مودی اور بی جے پی کی حقیقت میں کوئی Ideology نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں سے نفرت اور انتقام کو اتنا منظم، ہمہ گیر اور متواتر بنادیا ہے کہ ’’نفرت‘‘ اور ’’انتقام‘‘ نظریہ ’’محسوس‘‘ ہونے لگے ہیں۔
بدقسمتی سے ’’دو قومی نظریے‘‘ پر صرف برصغیر میں حملے نہیں ہورہے، اور ایک قومی نظریے اور دو قومی نظریے کی کشمکش صرف جنوبی ایشیا میں برپا نہیں، بلکہ عالمی منظرنامہ بتا رہا ہے کہ مسلمان ہر جگہ ایک قومی نظریے اور دو قومی نظریے کی کشمکش کا حصہ ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں سربوں نے بوسنیا کے تین لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا۔ بوسنیا کے مسلمانوں کا صرف ایک جرم تھا، وہ لاالٰہ الااللہ محمدالرسول اللہ پر ایمان رکھتے تھے اور یورپ کے قلب میں بین الاقوامی اصولوں کے تحت اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں تھے۔ روس نے چیچنیا میں ہزاروں چیچن مسلمانوں کو قتل کر ڈالا، اور چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی کو ملبے کا ڈھیر بنادیا۔ چیچنیا کے مسلمانوں کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ لاالٰہ الااللہ سے وابستہ تھے اور دو قومی نظریے کے تحت چیچنیا کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ چین کے صوبے سنکیانگ کے مسلمانوں کا جرم بھی یہی ہے کہ وہ اپنے اسلامی تشخص پر اصرار کررہے ہیں اور اسلامی اصولوں کے تحت زندگی بسر کرنے کا حق مانگ رہے ہیں، اور چین انہیں یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کُشی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ روہنگیا مسلمان اپنی اسلامی شناخت سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں، اور برما کے بدھ انہیں اس حق سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یورپ میں برقعے اور اسکارف پر پابندی لگائی جارہی ہے اور مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ یورپ میں رہنا ہے تو ’’ایک قوم‘‘ بن کر رہنا ہوگا اور برقع کو ترک کرکے ’’بِکنی کلچر‘‘ کو اختیار کرنا ہوگا۔ فلسطینیوں کو 75 سال سے اُن کے اسلامی تشخص کی وجہ سے ہلاک کیا جارہا ہے۔ شام میں بشارالاسد نے پورا ملک تباہ کردیا۔ پانچ لاکھ شامیوں کو مار ڈالا، 70 لاکھ شامی شام چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، اتنے ہی لوگ شام کے اندر ’’بے گھر‘‘ ہوگئے، مگر بشارالاسد اپنی جگہ موجود ہے۔ اس لیے کہ امریکہ، روس اور یورپ کو اندیشہ ہے کہ بشارالاسد ہٹا تو شام’’اسلامی ‘‘ہوجائے گا اور وہاں ’’بنیاد پرست‘‘ اقتدار میں آجائیں گے۔ خود مسلم دنیا کے حکمران مسلم ریاستوں میں ایک قومی نظریے اور دو قومی نظریے کی کشمکش برپا کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ مسلم دنیا کے اکثر حکمران مغرب کے آلہ کار اور سیکولر ازم اور لبرل ازم کے علَم بردار ہیں۔ سعودی عرب میں مکہ بھی ہے اور مدینہ بھی، مگر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان آئندہ دس برسوں میں 62 ارب ڈالر ’’تفریحات‘‘ کے فروغ پر خرچ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس کا مقصد سعودی عرب کے اسلامی تشخص کو کمزور کرنا اور خود کو مغرب کی سیکولر اور لبرل فکر سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ عرب دنیا کے دوسرے اہم ممالک مثلاً مصر اور تیونس میں معاشروں کو تیزی کے ساتھ ’’Secularized‘‘ کیا جارہا ہے۔ اخوان المسلمون عرب دنیا کے مرکزی دھارے کی تنظیم ہے اور عرب حکمرانوں سے کروڑوں گنا زیادہ ’’جمہوری‘‘ ہے، مگر اسے مغرب نے عرب حکمرانوں سے دہشت گرد قرار دلوا دیا ہے۔ اس لیے کہ وہ عرب دنیا میں اسلام کی سب سے توانا آواز ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور پاکستان کا آئین اسلامی بھی ہے، مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے اسلام کو اسی طرح آئین میں قید کیا ہوا ہے جس طرح بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگاکر کشمیریوں کو گھروں میں بند کیا ہوا ہے۔ پاکستان کے حکمران اسلام کو آئین سے نکلنے ہی نہیں دیتے۔
اس منظرنامے میں یہ ایک اہم واقعہ ہے کہ مسئلہ کشمیر 50 سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث آیا۔ یہ کام اگر چین نے کیا ہے تو اُس کی تعریف ہونی چاہیے۔ یہ کام اگر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی کوششوں کا حاصل ہے تو اسے سراہا جانا چاہیے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرکے یہ تاثر دیا تھا کہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ ہے، مگر سلامتی کونسل نے اپنے بیان میں کہہ دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ یہ بھارت کی شکست ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کا رویہ ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا کہ کلبھوشن کے مقدمے میں بین الاقوامی عدالتِ (نا) انصاف کا تھا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف اگر کلبھوشن کے مقدمے میں پاکستان کی درخواست کی سماعت نہ کرتی اور کلبھوشن کو رہا کرنے کا حکم دے دیتی تو اس کی پاکستان دشمنی اور بھارت پرستی عیاں ہوجاتی۔ سلامتی کونسل کا قصہ بھی یہی ہے۔ سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر پر قراردادیں منظور کیے ہوئے ہے۔ وہ کشمیر کو بین الاقوامی مسئلہ تسلیم کیے ہوئے ہے۔ چونکہ بھارت نے سلامتی کونسل کے منہ پر تھوکتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرلیا ہے چنانچہ سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کو زیر غور نہ لاتی تو بین الاقوامی سطح پر سلامتی کونسل کی بھد اڑ کر رہ جاتی، اور بین الاقوامی ’’Order‘‘ یا ’’Disorder‘‘ کی ذمے دار بین الاقوامی طاقتوں پر بڑی تھو تھو ہوتی۔ لیکن جس طرح بین الاقوامی عدالت (نا) انصاف نے کلبھوشن کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے منسلک نہیں کیا، اسی طرح سلامتی کونسل نے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی اقدام کی مذمت کی، نہ بھارت کے خلاف قرارداد منظور کرنے کا اشارہ دیا۔ حالانکہ جس طرح قانون و انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ کلبھوشن کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے منسلک کیا جاتا، اسی طرح قانون و انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ سلامتی کونسل بھارت کی مذمت کرتی اور اسے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے متعلق اقدام کو واپس لینے کا حکم دیتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سلامتی کونسل نے ’’تکنیکی حد‘‘ تک ہی بھارت پر دبائو ڈالا ہے، اور ’’تکنیکی حد‘‘ تک ہی پاکستان کے مؤقف کی پذیرائی کی ہے۔ اس سلسلے میں یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اُس نے سلامتی کونسل میں پاکستان کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کی، لیکن افغانستان کے مسئلے کے حل کے بعد جب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہے گی تو امریکہ وہی کرے گا جو بھارت سے اُس کے ’’تزویراتی اتحاد‘‘ کا تقاضا ہے۔
جو لوگ بھارت کی ہندو قیادت کی شیطنت کو پہچانتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بعد پاکستان کو ’’ایٹمی دھمکی‘‘ ضرور دے گا۔ بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا ہے۔ بھارت کے ’’وزیر جنگ‘‘ راجناتھ سنگھ نے چند روز پیشتر پوکھران نامی اُس علاقے کا دورہ کیا جہاں بھارت نے اپنے ایٹمی دھماکے کیے ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ بھارت کے وزیر جنگ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’بھارت اپنی جوہری حکمتِ عملی کو بدل سکتا ہے، پہلے ہم کہتے تھے کہ ہم پہلے ایٹمی حملہ نہیں کریں گے مگر مستقبل میں کیا ہوگا اس کا تعین حالات کریں گے‘‘۔ بھارت کے وزیر جنگ اگر یہ نہ فرماتے تو بھی ہمیں معلوم تھا کہ بحران میں بھارت پہلے ایٹم بم استعمال کرے گا، اس لیے کہ بھارت کا کوئی مذہب اور کوئی اخلاقیات تو ہے نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی طرف سے راجناتھ کے بیان کا اچھا جواب نہیں گیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ راجناتھ سٹھیا گئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور نے فرمایا کہ اس بیان سے ثابت ہوگیا کہ کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے۔ اصول ہے مسلمانوں کو السلام علیکم کہا جاتا ہے اور شیطان پر لاحول پڑھی جاتی ہے۔ مگر ہمارا حکمران طبقہ اپنی قوم پر فوراً ڈنڈا اُٹھاتا اور بندوق تانتا ہے، اور بھارت اور امریکہ کا سامنا ہوتا ہے تو وہ امن، شانتی، مذاکرات، دلیل اور اخلاقی درس کی طرف لپکتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار استعمال ہونے کے لیے نہیں ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ کا شعور نہیں رکھتے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان نے جو ہتھیار بنایا اُسے استعمال کیا۔ امریکہ دو بار ایٹم بم استعمال کرچکا ہے اور شمالی کوریا اور افغانستان کو ایٹمی حملے کے ذریعے صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کرچکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جہاں خوف کا توازن یا Balance of Terror ہوتا ہے وہاں ایٹمی جنگ نہیں ہوسکتی، جس طرح امریکہ اور روس میں نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ امریکہ اور روس کے درمیان کئی بار ایٹمی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ اور روس دونوں کو ’’یقین‘‘ تھا کہ ان کا حریف بھی یقیناً ان پر ایٹمی حملہ کرے گا۔ لیکن اگر ہم بھارت کی ایٹمی دھمکی کے جواب میں ’’درسِ اخلاقیات‘‘ دیتے رہے تو ہم بھارت جیسی شیطانی طاقت کو یقین دلادیں گے کہ پاکستان کی جانب سے ایٹمی حملے کا کوئی خطرہ نہیں۔ 1971ء میں جنرل نیازی نے فرمایا تھا کہ بھارتی فوجی ہماری لاشوں سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف ’’خطابت‘‘ تھی۔ چنانچہ بھارتی فوج ڈھاکا میں داخل ہوچکی تھی اور جنرل نیازی کی لاش کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ بھارت نے اس وقت مقبوضہ کشمیر ہڑپ کیا ہے تو اسے معلوم تھا کہ پاکستان سے جواب میں تقریروں کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ اب ہم خالی خولی تقریریں کرکے اور درسِ اخلاقیات دے کر بھارت کو بتا رہے ہیں کہ ہم ایٹمی جنگ کے لیے تیار نہیں، چنانچہ تمہیں جو کرنا ہو، کرلینا۔ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ کیا دنیا مودی کو خوش کرنے یا Appease کرنے میں لگی رہے گی؟ مگر ہم تو خود بھارت کو Appease کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اُس نے کشمیر ہڑپ کرلیا ہے، مگر ہم اُس کے لیے فضائی حدود کھولے ہوئے ہیں۔ وہ ہماری شہ رگ پر چھری چلا رہا ہے لیکن ہم کرتارپور راہداری کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ وہ ہمیں ایٹمی دھمکی دے رہا ہے مگر ہم بھارتی وزیر دفاع کے ڈاکٹر بن کر کہہ رہے ہیں آپ کو ’’سٹھیانے‘‘ کی بیماری ہے۔ یہ بھارت کو ’’Appease‘‘ کرنا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ لوگ کہتے ہیں دو ایٹمی طاقتوں کی جنگ “Mutual Destruction” کے سوا کچھ نہیں۔ تو کیا گزشتہ 71 سال سے ایٹمی جنگ کے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان “Mutual Construction” کے منصوبے پر عمل ہورہا ہے؟ بھارت آدھا پاکستان کھا چکا ہے، اُس نے کشمیر کو ہڑپ کرلیا ہے، وہ بچے کھچے پاکستان کو بھی نہیں بخشے گا۔ سوال یہ ہے کہ سٹھیایا ہوا بھارت ہے یا پاکستان کا حکمران طبقہ؟ بھارت ’’عمل‘‘ پر ’’عمل‘‘ کررہا ہے اور ہم اُس کے ہر عمل کا جواب ’’تقریروں‘‘ سے دیے جارہے ہیں۔ کیا تقریریں عمل کے خلا کو پُر کرسکتی ہیں؟ یہاں اقبال کا یاد آنا بالکل فطری بات ہے۔ اقبال نے کہا ہے:
یہ گھڑی محشر کی ہے تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
اقبال اِس وقت یہ بات مجھ سے بھی کہہ رہے ہیں، آپ سے بھی، جنرل باجوہ سے بھی، عمران خان سے بھی، پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں سے بھی اور پاکستان کی پوری قوم سے بھی۔ تحریکِ پاکستان کے عہد اور1971ء کے زمانے کی طرح وقت ایک بار پھر ہم سب کو Define کررہا ہے۔ جنرل آصف غفور نے چند روز پیشتر نیوز کانفرنس میں اچھی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت آزاد کشمیر کی جانب پیش رفت کو بھول جائے، یہ پرانا قبضہ چھڑانے کا وقت ہے۔ یہ پوری قوم کے دل کی آواز ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ پرانا قبضہ تقریر اور درسِ اخلاقیات سے نہیں، ’’عمل‘‘ سے ختم ہوگا۔
پاکستان روحانی، تہذیبی، اخلاقی، علمی، تخلیقی اور عسکری سپر پاور بننے کے لیے تخلیق ہوا تھا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے اسے سورج بنانے کے بجائے زیرو واٹ کا بلب بنادیا ہے۔ ہم یہ بات بھی گزشتہ 29 سال سے لکھ رہے ہیں۔ اتفاق سے اس کو وزیراعظم عمران خان نے اپنے الفاظ میں دہرایا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جس وژن پر بنا تھا ہم اُس سے بہت دور جاچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی کہتا ہے میں پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنادوں گا، کوئی کہتا ہے میں لاہور کو پیرس بنادوں گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایشین ٹائیگر بننے یا لاہور کو پیرس بنانے کے لیے وجود میں نہیں آیا تھا، بلکہ پاکستان ریاست مدینہ کے اصولوں پر عمل کے لیے بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو ایسی ریاست بنانا چاہتے ہیں جس میں رحم، انسانیت اور انصاف ہو۔ ہم ان اصولوں پر عمل کریں گے تو ملک ترقی کرے گا۔ عمران خان کی یہ ساری باتیں درست ہیں، مگر پاکستان اپنے خالقوں کے وژن سے بہت دور ہوگیا ہے تو اس کی ذمہ دار قوم نہیں پورا حکمران طبقہ ہے۔ ریاست مدینہ کی تین بنیادی خوبیاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ خدا مرکز یا God Centric تھی۔ دوسری یہ کہ وہ نمونہ عمل کے اعتبار سے رسولؐ مرکز یا Prophet Centric تھی۔ ریاست مدینہ کی تیسری خوبی یہ تھی کہ وہ قرآن مرکز یا Quran Centric تھی۔ چنانچہ وہ ’’تقویٰ مرکز‘‘ بھی تھی اور ’’علم مرکز‘‘ بھی۔ ریاست مدینہ میں رحم تھا تو اسی وجہ سے۔ امن تھا تو اسی وجہ سے۔ انصاف تھا تو اسی وجہ سے۔ انسانیت تھی تو اسی وجہ سے۔ مگر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کبھی عملی طور پر خدا مرکز، رسول مرکز، قرآن مرکز، تقویٰ مرکز اور علم مرکز بننے ہی نہیں دیا۔ انہوں نے پاکستان کو دو مراکز سے منسلک کیا ہوا ہے۔ پاکستانی معاشرے کا ایک مرکز ہے طاقت، دوسرا مرکز ہے دولت۔ ہماری پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی انہی دو مراکز کا طواف کررہی ہے۔ طاقت سے دولت بڑھتی ہے، اور دولت سے طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے خود عمران خان بھی طاقت اور دولت کے کھیل کا حصہ ہیں۔ انہوں نے گزشتہ انتخابات سے پہلے ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ سرمائے اور Electables کے بغیر انتخابات نہیں جیتے جاسکتے۔ وہ ان دونوں کے ذریعے انتخابات جیت گئے مگر خود ہار گئے۔ مگر چلیے تقریر کے شوق میں سہی، انہیں یاد تو آیا کہ پاکستان کیوں بنا تھا؟ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، تقریروں سے آج تک زندگی نہیں بدلی۔ زندگی صحیح علم اور صحیح عمل سے بدلتی ہے۔ غزالیؒ نے کہا ہے کہ علم کے بغیر زندگی گمراہی ہے اور عمل کے بغیر علم خودنمائی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران ہی نہیں، علماء، دانش ور اور صحافی بھی ’’خودنمائی‘‘ کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اصول ہے کہ سریے کا جواب سریے، اور نظریے کا جواب نظریے سے دیا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کے مقابلے کے لیے پاکستان کو حقیقی معنوں میں نظریاتی بنائے بغیر ہم پاکستان کی بقا اور سلامتی کو یقینی نہیں بناسکیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے دفاع کی جنگ ہمیشہ نظریاتی عناصر نے لڑی ہے۔ یہ عناصر مشرقی پاکستان میں لڑے، کشمیر میں لڑے، افغانستان میں لڑے۔ کوئی سیکولر اور لبرل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے زبانی جمع خرچ تو کرسکتا ہے مگر جان کی بازی نہیں لگا سکتا۔ ہم جنرل باجوہ اور عمران خان کو بتاتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت کیا، امریکہ کے مقابلے پر بھی ناقابلِ تسخیر بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے صرف دو کام کرنے ہوں گے۔ ایک یہ کہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی بنادیا جائے۔ دوسرا کام یہ کیا جائے کہ پورے معاشرے کو فوج میں ڈھال دیا جائے۔ اس کے بعد کشمیر بھی آزاد ہوجائے گا اور پاکستان ناقابلِ تسخیر بھی ہوجائے گا۔ ورنہ بقول شاعر ؎
گر یہ نہیں تو پیارے پھر سب کہانیاں ہیں
پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے کون بروئے کار آسکتا ہے اور پاکستان کے دفاع کی جنگ کون لڑ سکتا ہے، اس کا اندازہ بعض سیکولر اور لبرل عناصر کو بھی ہے۔ معروف کالم نگار ایاز امیر کی دو ’’خوبیاں‘‘ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سابق سہی، مگر فوجی ہیں۔ دوسری یہ کہ وہ خود کو سیکولر اور لبرل ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں، مگر کشمیر پر بھارت کے جارحانہ اقدام کے بعد وہ اچانک تھوڑے سے ’’مسلمان‘‘ اور تھوڑے سے ’’جہادی‘‘ ہوگئے ہیں۔ ان کے ایک حالیہ کالم کے کچھ حصے ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے کالم کا عنوان ہے ’’کشمیر کی جنگ کون لڑے گا؟‘‘ ایاز امیر لکھتے ہیں:
’’ہر معاشرہ منقسم ہوتا ہے، اس میں طرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں، دو نمبریے بھی اور ایثار و قربانی کرنے والے بھی۔ ہمارا معاشرہ بھی بٹا ہوا ہے۔ ٹائم پاس کرنے والے اور جائز و ناجائز طریقوں سے پیسہ بنانے والے، اور اسی آبادی میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ہر قربانی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نام نہاد افغان جہاد سے لاکھ اختلاف کیا جائے، اس میں بڑے دلیروں اور ایثار کرنے والوں نے حصہ لیا۔ اُس جہاد کے امرا یعنی لیڈران کا جو بھی نظریہ ہو، لڑنے اور مرنے والے کثیر تعداد میں تھے اور اُنہی کی وجہ سے روسیوں کو منہ کی کھانا پڑی۔
1989ء سے شروع ہونے والا کشمیر جہاد جیسا بھی تھا اور جتنا عرصہ رہا، اس میں بھی شامل دبنگ نوجوان ہی تھے جنہیں نہ بھارتی گولیوں، نہ موت کا ڈر تھا۔ جو جہاد چلا رہے تھے، یعنی وہ جو پیچھے سے ڈوریاں کھینچ رہے تھے، اُن کے عزائم جو بھی ہوں، میدان میں لڑنے والوں کے جذبے پہ تو انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔
جب یہ دونوں معرکے چل رہے تھے پاکستان میں کرپشن تب بھی ہورہی تھی۔ پٹواری اور تھانیداروں سے لے کر اوپر افسران تک اپنا حق سمجھتے ہوئے رشوت لیتے تھے۔ تمام برائیاں جن کا پاکستانی معاشرے کے حوالے سے ہم ذکر کرتے ہیں، تب بھی اپنے زوروں پہ تھیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ایسے لوگ بھی تھے جو ہر چیز چھوڑ کے لڑائی کی راہ پہ چلنے کے لیے تیار تھے۔ کشمیر کے لیے اب بھی کچھ ہونا ہے تو ایسے ہی ہوگا۔ پاکستانی معاشرے کی دیرینہ بیماریاں چلتی رہیں گی۔ کوئی یہ سمجھے کہ پاکستانی قوم پہلے پاک ہوگی اور اپنے میں ہمت اور توانائی پیدا کرسکے گی اور پھر کشمیر کی آزادی کے راستے پہ چل نکلے گی، تو یہ خام خیال ہے۔ خوابوں کی دنیا۔ اجتماعی طور پہ اس معاشرے نے ایسے ہی رہنا ہے، لیکن کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس میں قربانی دینے والے اور جی دار لوگوں کی کمی ہے۔
میں اس بحث میں نہیں پڑ رہا کہ اس جہاد سے فائدہ کیا ہوا اور اس کے نقصان کتنے تھے، اور ان نقصانات کا اثر پاکستان پہ کیا رہا۔ وہ اورکہانی ہے۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ افغانستان کی وادیوں اور پہاڑوں پہ لڑنے کے لیے ہمت اور جواں مردی درکار تھی، اور ایسے عناصر تھے افغانوں میں اور پاکستان میں بھی، جن میں یہ خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی ایسا ہی ہوا۔ بھارتی فوج کے سامنے سینہ سپر ہونا آسان نہیں تھا، لیکن ایسے عناصر تھے جنہوں نے یہ کیا۔
اب البتہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان تنہا ہے۔ کشمیر میں اگر کچھ کرنا مطلوب ہے تو پاکستان کے ساتھ کوئی عالمی طاقت کھڑی نہیں۔ اس مسئلے میں چین کی حمایت بھی لفظی حد تک ہے۔ کشمیر میں چین اُس رول کے لیے تیار نہیں جو اس نے ویت نام کی جنگ میں ادا کیا تھا۔ عرب دنیا ہمارے ساتھ تو بالکل نہیں۔
تو مسئلہ پھر یہ ہے کہ گو کشمیری آبادی خود ہندوستان کے خلاف بغاوت کے لیے نہ صرف تیار ہے بلکہ عملی طور پہ بغاوت پہ اُتر آئی ہے۔ لیکن کشمیری اکیلے ہیں اور پاکستان عجیب کیفیت میں گرفتار ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت اس رائے کی طرف مائل ہے کہ کشمیریوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے، اور جنگ کی نوبت آئے اس کا بھی خطرہ مول لینا چاہیے۔ لیکن حکومت اور بالعموم حکمران طبقات (ان کے ساتھ اشرافیہ کو بھی ملا لیں اور ممی ڈیڈی کلاس کو بھی) یہ رائے نہیں رکھتے۔ جنگ تو دور کی بات ہے وہ قربانی اور ایثار جیسی گفتگو کو بیکار کی باتیں سمجھتے ہیں۔ اُن سے کشمیر پہ گفتگو چھڑے تو فوراً ہی آئی ایم ایف کا ذکر آجاتا ہے، اور ایف اے ٹی ایف کے تحت عالمی پابندیوں کا بھرپور تذکرہ شروع ہوجاتا ہے۔ جدوجہد کا تھوڑا سا بھی ذکر ہو تو آوازیں آنی شروع ہوجاتی ہیں کہ لٹ جائیں گے، مر جائیں گے، پاکستان تباہ ہو جائے گا۔ اِن طبقات پہ کسی قسم کا بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ ایثار کے راستے پہ چلنے کے لیے وہی طبقات تیار ہوں گے جن کا ریاستِ پاکستان کے معاملات میں حصہ صفر کے برابر ہے۔ جن کے پاس بہت کچھ ہو، پراپرٹی کے کاروبار میں جن کے ہاتھ پائوں دھنسے ہوں، وہ اور قسم کا جمع خرچ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ لڑائی اور جہاد وغیرہ کی چیزیں، یہ لاچاروں کا کام ہی رہ جاتا ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ بھی کوئی فیصلہ کرتا ہے کہ لاچاروں پہ ہی تکیہ کیا جائے اور انہی سے کام چلانا ہے تو ایسی سوچ کا پاسدار کون ہوگا؟ یعنی اس کٹھن مرحلے میں بے یارومددگار قوم کی راہنمائی کون کرے گا؟
ہر لیڈر وزیراعظم سے لے کر دوسروں تک بھارت کو للکار رہا ہے۔ ہم اس بات پہ اتنا زور نہیں دے رہے کہ کشمیریوں کے لیے کیا کریں گے، بلکہ زور اس بات پہ ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا سوچا تو اُسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ بھارت پاگل ہے؟ اُس نے مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ کرنا تھا، کر ڈالا۔ اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ پاکستان پہ چڑھ دوڑے! کس مقصد کے لیے؟ مقصد تو اس کا مقبوضہ کشمیر میں ہے اور اُس مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ ہر حربے کا استعمال کررہا ہے۔
ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے کسی شور شرابے یا اونچی آواز میں بڑھکوں کی ضرورت نہیں۔ عام پاکستانی ہر چیز کے لیے تیار ہوگا۔ پرابلم یہاں حکمران اور مراعات یافتہ طبقات کا ہے جنہیں آئی ایم ایف تو دور کی بات، اندھیروں سے ڈر لگا رہتا ہے۔ فیصلے عام آدمی کے ہاتھ میں نہیں۔ وہ انہی اوپر والے طبقات کو کرنے ہیں۔ ان طبقات کو کشمیریوں کی اتنی کیا پڑی ہے؟ ان کی سوچ اور ہے، ترجیحات اور ہیں۔ ان کی بنیادی دلچسپیاں ان چیزوں میں ہیں کہ بچے باہر پڑھ جائیں اور وہیں ان کے ٹھکانے بنیں۔ لڑنے مرنے کے لیے اور لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو راہ کون دکھائے گا؟ اِن کا راہنما کہاں سے آئے گا؟‘‘(روزنامہ ”دنیا“ 17 اگست 2019ء)
ایاز امیر کا کالم بھی گواہی دے رہا ہے کہ پاک بھارت کشمکش اپنی اصل میں نظریاتی ہے، اور نظریاتی لوگ ہی اس کا بوجھ اُٹھا سکتے ہیں۔ غیر نظریاتی لوگ خواہ وہ جرنیل ہوں یا سیاست دان، میڈیا ٹائی کونز ہوں یا تاجر، صحافی ہوں یا دانش ور… وہ پاکستان میں ’’Seven Star‘‘ زندگی بسر کرنے کے لیے ہیں، اور ایسے لوگ جنگ کیا کشمکش کا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتے۔ عزیز حامد مدنی کا شعر ہے ؎
مجنوں کے سوا کس سے اٹھی منّتِ دیدار
آخر رخِ لیلیٰ تھا تماشا تو نہیں تھا
بلاشبہ دودھ پر پلنے والے مجنوں کچھ اور تھے اور اپنا گوشت کاٹ کر لیلیٰ کو پیش کرنے والا مجنوں کوئی اور تھا۔