امریکہ عالمی شیطان ہے اور بھارت جنوبی ایشیا کا شیطان۔ جس طرح امریکہ اچانک فلسطین، عراق، شمالی کوریا اور ایران کی صورتِ حال کو دھماکہ خیز بنادیتا ہے اُسی طرح بھارت نے اچانک مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کو دھماکہ خیز بنادیا ہے۔اس دھماکہ خیزی سے پہلے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں امرناتھ یاترا پر گئے ہوئے ’’یاتریوں‘‘ کو پیغام دیا کہ وہ یاترا یا مقدس سفر ختم کردیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں اچانک موسم گرما کی تعطیلات کا اعلان کردیا گیا ۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مزید 28 ہزار فوجی تعینات کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی نے اپنے سیاحوں کو مقبوضہ کشمیر نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔ سری نگر کے میئر نے شکایت کی ہے کہ ان کی گاڑی کو کئی بار روکا گیا حالانکہ ان کی گاڑی ان کی بیمار بیٹی کے لیے دوا لانے کے لیے استعمال ہورہی تھی۔ بھارت کی معروف صحافی برکھادت نے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کو ’’بحرانی‘‘ قرار دیا ہے۔ اس صورتِ حال نے مقبوضہ کشمیر کے عوام میں شدید خوف و ہراس پیدا کردیا ہے۔ لوگ غذا اور پیٹرول کو ذخیرہ کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب بھارت نے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں پر کلسٹر بم پھینکنے شروع کردیئے ہیں، وادیٔ نیلم میں کلسٹر بموں کے حملے سے ایک بچے سمیت 2 افراد شہید اور 11 زخمی ہوگئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی سرحد کے ساتھ بھارتی فوجوں کی غیر معمولی نقل و حرکت دیکھی گئی ہے، چنانچہ پاک فضائیہ اور برّی فوج کو کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔
بھارت کی تاریخ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ بھارت پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک شان سے حکومت کی اور ہندو مسلم سلطنت کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ انگریزوں نے ڈیڑھ سو سال تک بھارت کو غلام بنائے رکھا مگر ہندو ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ بھارت میں جنگِ آزادی برپا ہوئی تو بیشتر مقامات پر اس کا ’’بوجھ‘‘ مسلمانوں نے اٹھایا۔ چنانچہ جنگِ آزادی کا ’’خمیازہ‘‘ بھی مسلمانوں نے ہی بھگتا۔ سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو ’’پالتو‘‘ ثابت کرنے کے لیے ایک پوری کتاب لکھ ماری، مگر انگریزوں کو معلوم تھا کہ جنگِ آزادی کی پشت پر صرف مسلم شعور کام کررہا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ہندوئوں کو تو اپنا ’’اتحادی‘‘ بنایا مگر مسلمانوں کو اپنا اتحادی بنانے سے کیا، ’’سمجھنے‘‘ سے بھی انکار کردیا۔ لیکن جب سے ہندوستان آزاد ہوا ہے اور طاقت ہندوئوں کے ہاتھ میں آئی ہے انہوں نے پورے خطے کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ ہندوستان پاکستان کو توڑنے میں اپنا کردار ادا کرچکا ہے اور بچے کھچے پاکستان کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کے پاس ایٹم بم، میزائل اور چھوٹے ایٹم بموں کی اہلیت نہ ہوتی تو بھارت کب کا پاکستان کو روند چکا ہوتا۔ مگر بھارت کے ’’شر‘‘ سے صرف پاکستان ہی پریشان نہیں۔ بھارت سری لنکا کی خانہ جنگی میں ملوث تھا، اس لیے ایک تامل عورت نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو اڑا دیا۔ بھارت مالدیپ میں فوج اتار چکا ہے، نیپال ایک ہندو ریاست اور بھارت کا ’’بھائی‘‘ ہے، مگر بھارت کبھی اس کا پیٹرول بند کردیتا ہے، کبھی کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل بند کردیتا ہے۔ چنانچہ نیپال بھارت سے زیادہ چین کے قریب ہے۔ برما کو بھارت اپنا ایک ’’صوبہ‘‘ سمجھتا ہے اور اس کے لیے اپنے بجٹ میں رقم مختص کرتا ہے۔ بھارت چین سے ایک جنگ لڑ چکا ہے۔ چونکہ اس جنگ میں چین نے بھارت کا حشر نشر کردیا تھا، اس لیے بھارت کو چین کے خلاف دوسری جنگ لڑنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ بنگلہ دیش کو بھارت نے بنگلہ دیش بنوایا، مگر بھارت نے بنگلہ دیش کو اُس کی آزادی کے پہلے تین برسوں میں اس طرح اپنی ’’کالونی‘‘ بنایا کہ بنگلہ دیش کی فوج نے ناراض ہوکر بابائے بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن اور اُن کے پورے خاندان کو مار ڈالا۔ بدقسمتی سے اِس وقت بھی بنگلہ دیش بھارت کی ایک کالونی ہی ہے۔ یہ حقائق خود بتا رہے ہیں کہ بھارت واقعتاً جنوبی ایشیا کا شیطان ہے۔ اس شیطان کی شیطنت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ مودی سے ایک بار بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کے مرنے کا دکھ ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں مودی نے کہاکہ اگر آپ کی گاڑی کے نیچے کتے کا پلا آجائے تو آپ کو دکھ تو ہوگا۔ بی جے پی کے ایک رہنما نے یوپی کے موجودہ وزیراعلیٰ آدیتیہ ناتھ کی موجودگی میں فرمایا کہ اگر مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر Rape کرنا پڑے تو ایسا ضرور کیا جانا چاہیے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کا شیطان ’’بھارت‘‘ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کیا کرنے والا ہے؟
یہ حقیقت عیاں ہے کہ بھارت امریکہ کا اتحادی ہے، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کو آئندہ انتخابات میں فتح یاب ہونے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ افغانستان میں امریکہ کی ’’شکست‘‘ کو ’’فتح‘‘ میں بدلیں اور افغانستان سے امریکی فوجیوں کے اس انخلا کو ممکن بنائیں جس کا وعدہ انہوں نے گزشتہ انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام سے کیا تھا۔ چنانچہ منافقت کے طور پر پاکستان کی پیٹھ ٹھونکنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے حوالے سے ثالثی پر آمادگی کا اعلان کیا اور یہ انکشاف فرمایا کہ نریندر مودی ان سے خود کشمیر کے سلسلے میں ثالثانہ کردار ادا کرنے پر بات کرچکے ہیں۔ اس انکشاف نے عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو وقتی طور پر سہی، بہتر بنایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت اب تک عالمی سطح پر یہ پروپیگنڈا کررہے تھے کہ پاکستان بھارت میں دہشت گردی کرا رہا ہے اور وہ خطے میں عدم استحکام کا سبب ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مفادات کے لیے عمران کی تعریف کی اور کشمیر پر ثالثی کا امکان ظاہر کیا تو پاکستان پر موجود دبائو میں نمایاں کمی واقع ہوئی اور دنیا کی توجہ اس امر پر مرکوز ہوئی کہ پاکستان تو مسئلہ کشمیر پر امریکہ کی ثالثی قبول کرنے پر آمادہ ہے مگر بھارت ایسا نہیں چاہتا۔ چنانچہ اس امر کا اندیشہ موجود ہے کہ بھارت امرناتھ یاترا کے یاتریوں پر حملہ کراکے اس کا الزام پاکستان پر ڈال دے اور کہے کہ دیکھیے پاکستان تو خطے میں دہشت گردی کو جاری رکھے ہوئے ہے، اس لیے اُس سے نہ دوطرفہ مذاکرات ہوسکتے ہیں، نہ کسی ثالث کے ذریعے سے بات چیت ہوسکتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت الجزیرہ سے مقبوضہ کشمیر پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار کی گفتگو ہے۔ اس اہلکار نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ امن و امان کی بدترین صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
ایک اندیشہ یہ بھی تھا کہ بھارت آئین کی دفعہ 35-A اور دفعہ 370 کے خاتمے کی طرف جارہا ہے۔ بدقسمتی سے یہی ہوا ہے۔ بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ 35-A اور 370 کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں دفعہ 35-A کے تحت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی علاقے کا درجہ حاصل ہے، اور کوئی غیر کشمیری نہ مقبوضہ کشمیر میں جائداد خرید سکتا ہے، نہ وہاں ملازمت کرسکتا ہے۔ خیال یہ ہے کہ بھارت نے اِس دفعہ کو ختم کرکے لاکھوں ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کرنے اور مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کے منصوبے کا آغاز کر دیا ہے۔ اگرچہ مقبوضہ کشمیر کے گورنر ستیہ پال نے مقبوضہ کشمیر کی سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی سے ملاقات میں اس بات کی تردید کی تھی کہ بھارت دفعہ 35-A کو ختم کرنے والا ہے۔ تاہم الجزیرہ نے محبوبہ مفتی کا ایک بہت اہم اور معنی خیز فقرہ نقل کیا تھا۔ الجزیرہ کے بقول محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ بھارت اب تک سیکولرازم کے دستانے پہنے ہوئے تھا، مگر اب اُس نے یہ دستانے اتار دیئے ہیں اور لوگوں پر جغرافیے کو ترجیح دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے اس بیان کا مفہوم یہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر کا گورنر کچھ بھی کہہ رہا ہو، بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کے منصوبے پر عمل کرنے والا ہے اور اُسے اب اس بات کی پروا نہیں ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں کتنی لاشیں گرا کر اپنا ہدف حاصل کرے گا۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ بھارت اسرائیل تعلقات بہت گہرے ہوچکے ہیں اور اسرائیل بھارت کو یہ بتاتا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا ’’آسان حل‘‘ یہ ہے کہ جس طرح ہم نے فلسطین میں فلسطینیوں کو اقلیت میں ڈھالا، تم بھی مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو اقلیت میں ڈھال دو۔ جس طرح ہم نے فلسطینی علاقوں پر طاقت کے ذریعے قبضہ کرکے وہاں یہودیوں کی ناجائز بستیاں آباد کیں اسی طرح تم بھی مقبوضہ کشمیر میں زمین پر قبضے کرکے ہندوئوں کی ناجائز بستیاں تعمیر کرو۔ کشمیری مزاحمت کریں تو جس طرح اسرائیل فلسطینیوں کو پوری طاقت سے کچل رہا ہے، تم بھی کشمیریوں کو پوری طاقت سے کچل دو، اور اس بات کی پروا نہ کرو کہ عورتیں مرتی ہیں یا بچے ہلاک ہوتے ہیں۔ ایک سال میں پانچ ہزار کشمیری مرتے ہیں یا 10 ہزار شہید ہوتے ہیں۔ سیاں بھئے کوتوال اب ڈرکاہے کا۔ امریکہ تمہارے ساتھ ہے تو نام نہاد عالمی برادری یا اقوام متحدہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، جس طرح نام نہاد عالمی برادری اور نام نہاد اقوام (غیر) متحدہ اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ کرنے جارہا ہے اُسے امریکہ اور یورپ کے بڑے ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی پشت پناہی حاصل ہوگی۔ وہ مقبوضہ کشمیر کی ابتر صورت حال پر ایک آدھ بیان ضرور جاری کریں گے مگر عملاً کچھ نہیں کریں گے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان اس وقت بڑے مسرور ہیں۔ وہ تاثر دے رہے ہیں کہ امریکہ دوبارہ پاکستان کا ’’اتحادی‘‘ بن گیا ہے۔ اس نے پاکستان سے Do More کا مطالبہ ترک کردیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پاکستان کا حکمران طبقہ ’’عالمی شیطان‘‘ امریکہ سے کہے کہ وہ اپنے ’’علاقائی شیطان‘‘ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں ’’نئی ریاستی دہشت گردی‘‘ اور ’’نئے انسانیت سوز مظالم‘‘ ایجاد کرنے سے روکے۔ وہ بھارت کو مجبور کرے کے وہ دفعہ 35-A اور 370 کی منسوخی کا فیصلہ واپس لے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اگر یہ نہیں کرسکتا تو پھر وہ قوم کو امریکہ کے حوالے سے جھوٹے قصے اور کہانیاں سنانا ترک کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی نیت پاکستان کے ساتھ صرف ’’متعہ‘‘ کرنے کی ہے، ’’نکاح‘‘ کرنے کی نہیں۔ یہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے اتنی بنیادی بات ہے کہ جس کو اس بات کا شعور نہیں اُسے پاک امریکہ تعلقات پر گفتگو سے بالجبر روک دینا چاہیے۔
دفعہ 35-A اور دفعہ 370 کے خاتمے سے پہلے ایک بھارت اخبار نے ایک اور اندیشے کا اظہار کیا تھا، بدقسمتی سے اندیشہ بھی درست ثابت ہوا۔ اخبار کے مطابق بھارت کشمیر کو تین صوبوں یا ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔ وہ لداخ کو وفاق کے کنٹرول میں دے دے گا، اور جموں اور وادی کو بھارت میں ضم کرلے گا۔ اس اندیشے کا مطلب بھی یہی تھاکہ بھارت مسئلہ کشمیر اور اس کے تاریخی پس منظر کو دفن کرکے طاقت کے زور پر کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے لیے متحرک ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ بھارت کو پورا یقین تھا کہ جب وہ دن دہاڑے کشمیر کو ہڑپ کرے گا تو امریکہ اور دیگر بڑی طاقتیں یا تو اُس کے ساتھ ہوں گی یا اُس کے فعل سے صرفِ نظر کریں گی۔ ممکن ہے کہ بھارت اس سلسلے میں بھی امریکہ کو اعتماد میں لیے ہوئے ہو۔ اس خیال کی بنیاد یہ ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں جو ظلم بھی کرتا ہے امریکہ کو اعتماد میں لے کر کرتا ہے۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دیا اور امریکہ اپنا سفارت خانہ لے کر بیت المقدس میں آدھمکا۔ اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ بنایا اور امریکہ نے اس اقدام کی کامل حمایت کی۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ امریکہ کے لیے اسرائیل مشرق وسطیٰ کا بھارت ہے، اور بھارت جنوبی ایشیا کا اسرائیل۔ یہ وہ بات ہے جس کا شعور پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کے سوا سبھی کو ہے۔ کچھ لوگ اس طرح کی باتوں کو قیاس آرائی سمجھتے ہیں مگر بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت پر حملہ کیا ہے اور امریکہ نے اس پر’’ تشویش ‘‘کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔ اس تبصرے سے ظاہر ہو گیا کہ بھارت نے کشمیر کے سلسلے میں اقدام کرتے ہوئے امریکہ کو اعتماد میںلیا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے کا ’’تصورِ بھارت‘‘ ہمیشہ ہی سے ناقص ہے۔ اس تصور کا ایک پہلو یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات اس لیے خراب ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوسکا۔ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات ’’نارمل‘‘ ہوجائیں گے۔ مگر بدقسمتی سے بھارت کا ’’تصورِ پاکستان‘‘ کچھ اور ہے۔ بھارت کا تصورِ پاکستان یہ تھا کہ گاندھی، نہرو اور پٹیل تک کو امید تھی کہ پاکستان اپنی طاقت سے زندہ نہیں رہ سکے گا، چنانچہ پاکستان کی قیادت کچھ دنوں بعد روتی پیٹتی آئے گی اور کہے گی ہمیں دوبارہ ہندوستان میں شامل کرلو۔ مگر ایسا نہ ہوا تو بھارت کا تصورِ پاکستان یہ بن گیا کہ پاکستان کو توڑنا ہے۔ اور بھارت نے 1971ء میں موقع ملتے ہی پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ بھارت کی بڑی کامیابی تھی اور اس کی ’’آتشِ انتقام‘‘ کو اتنی بڑی کامیابی کی ’’گنگا‘‘ سے بجھ جانا چاہیے تھا۔ مگر بھارت کی آتشِ انتقام اسی طرح بھڑکتی رہی اور آج بھی بھارت کا خواب پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانا ہے۔ یہاں تک کہ اگر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوجائے، یا پورا کشمیر بھارت کو دے دیا جائے تب بھی بھارت پاکستان سے خوش نہیں ہوگا۔ اس کے بعد بھارت پاکستان کو اپنی باج گزار ریاست بنانے کی تمنا کرے گا اور تجارت تک کے ذریعے پاکستان پر چھا جانے کی کوشش کرے گا۔ آخر بھارت سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ کیا کررہا ہے؟ کیا یہ ریاستیں بھارت میں ’’دہشت گردی‘‘ کرا رہی ہیں؟ نہیں۔ مگر اس کے باوجود بھارت انہیں آزاد، خودمختار اور سربلند نہیں دیکھ سکتا۔ بھارت کا جسم بے شک ڈائنوسار کا ہے، مگر اس کا ظرف چیونٹی کی جسامت سے بھی چھوٹا ہے۔ جو ہندو قیادت ہندوازم کے دائرے میں موجود کروڑوں شودروں کو 6 ہزار سال سے ذلیل و خوار کررہی ہے، جو ہندو قیادت ہندوئوں کے اتحادیوں کے کعبے گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کرچکی ہے، وہ ہندو قیادت پاکستان یا بھارت کے مسلمانوں سے کیا انصاف کرے گی؟ جو پاکستانی قیادت ان حقائق کا ادراک نہیں رکھتی وہ بھارت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔ ایک وقت تھا کہ ہم وقت کی واحد سپرپاور برطانیہ کے غلام تھے مگر ہماری قیادت قائداعظم کے ہاتھ میں تھی، اور قائداعظم کے ایمان اور ان کی نفسیات کی قوت کا یہ عالم تھا کہ وہ مسلمانوں کو ہندوئوں اور برطانیہ کا “Equal” سمجھتے تھے، اور ایک وقت یہ ہے کہ ہماری قیادت عمران خان کے ہاتھ میں ہے، اور وہ بھارت سے اس طرح بات کرتے ہیں جیسے بھارت، بھارت نہ ہو ’’امریکہ‘‘ ہو۔ یہ طرزِعمل بھارت کو طاقت کا ٹانک پلانے والا ہے۔
بھارت کی پوری نفسیات ’’طاقت مرکز‘‘ ہے۔ اسے کبھی علم، اخلاق، کردار، امن، آشتی، دوستی، محبت، تہذیب اور کردار جیسے تصورات کے ذریعے ’’راہِ راست‘‘ پر نہیں لایا جاسکتا۔ اس کی دو بہت ہی ٹھوس مثالیں موجود ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھارت نے پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ جنرل ضیاء الحق کو اس منصوبے کا علم ہوا تو وہ کرکٹ ڈپلومیسی کی آڑ میں بھارت پہنچے، بھارت کا دورہ کیا اور بھارت سے واپسی پر وہ ہوائی اڈے پہنچے تو بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی انہیں الوداع کہنے کے لیے موجود تھے۔ جنرل ضیا راجیو کو ایک طرف لے گئے اور کہا کہ ہمیں آپ کے منصوبے کا علم ہوچکا ہے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہم ایٹم بم بنا چکے ہیں۔ آپ نے پاکستان پر حملے کی حماقت کی تو ہم ایٹم بم استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے صورتِ حال کو De-escalate ہوجانا چاہیے۔ اور جنرل ضیاء الحق کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے صورتِ حال De-escalate ہوگئی۔ ابھی حال ہی میں پاکستان نے بھارت کے دو طیارے گرائے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کیا تو بھارت نے پاکستان کے تین بڑے اور اہم شہروں پر ایٹم بم گرانے کے لیے انہیں میزائلوں پر نصب کردیا۔ پاکستان نے اس کے جواب میں 6 ایٹم بموں کا رخ 6 بھارتی شہروں کی طرف کردیا اور بھارت کو مطلع بھی کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کا اتحادی امریکہ میدان میں کود پڑا اور ایک بار پھر صورتِ حال De-escalate ہوگئی۔ جب عمران خان بحران میں نریندر مودی کو تین بار فون کرتے ہیں تو پاکستان کے لیے خطرات کو بے پناہ بڑھا دیتے ہیں۔ جب ہم جارح بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو جلد بازی میں رہا کرتے ہیں تو ہم بھارت کے تکبر کو چوہے سے شیر بنا دیتے ہیں۔ بھارت کا ایک ہی علاج ہے، 3 ایٹم بموں کے جواب میں 6 ایٹم بموں کی دھمکی۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی دھمکی کو صرف دھمکی بھی نہیں ہونا چاہیے، بھارت کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری کوئی “Stake” ہی نہیں ہے۔ Stake ہے تو اُس کی۔ وہ ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا دے گا تو ہم بھی بھارت کو زندہ رہنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔ پاکستان اگر نظریہ نہیں ہے صرف جغرافیہ ہے تو اس کے کوئی معنی ہی نہیں۔ لیکن اگر پاکستان ایک نظریہ ہے تو بھارت کیا، پوری دنیا بھی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ کیا سوویت یونین کے خلاف دادِ شجاعت دینے والے مجاہدین کے پاس ریاست تھی؟ فوج تھی؟ معیشت تھی؟ نہیں۔ مگر انہوں نے سوویت یونین کو منہ کے بل گرا دیا۔ چلو اس جنگ میں تو امریکہ اور یورپ بھی مجاہدین کی حمایت کررہے تھے، مگر امریکہ کے خلاف جنگ میں افغان مجاہدین کے پاس کسی بڑی طاقت کی سیاسی، سفارتی پشت پناہی بھی نہ تھی، مگر اس کے باوجود وقت کی واحد سپرپاور امریکہ اور اس کے 50 اتحادیوں کو افغانستان میں شکست ہوگئی۔ یہ ہوتی ہے نظریے کی قوت، اور نظریے سے گہرے تعلق کا نتیجہ۔ اقبال نے کہا ہے ؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
قائداعظم نے پاکستان بناکر اس شعر کی صداقت کی گواہی دی۔ افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کی شکست بھی یہ کہہ رہی ہے کہ اقبال نے سچا شعر کہا ہے۔ خود مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے بھی اس شعر کی سچائی پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔ بھارت بڑی طاقت ہے اور مقبوضہ کشمیر کے لوگ نہتے ہیں، مگر انہوں نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ بھارت کبھی کہتا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک کی پشت پر پاکستان ہے، مگر کشمیر کے لوگوں نے پاکستان کی مدد کے بغیر بھی تحریک کو چلا کر بلکہ زیادہ طاقت ور بنا کر دکھا دیا ہے۔ پاکستان تو ایک نظریاتی اور ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان اپنی روح کے ساتھ پورے قد سے کھڑا ہوجائے تو نریندر مودی ہمارے حکمرانوں کو دن میں پانچ بار فون کرے گا اور مذاکرات کی بھیک مانگے گا۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی اقدام کے سلسلے میں بدترین Intelligence Failure کا سامنا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ جنوبی ایشیا کا شیطان بھارت مقبوضہ کشمیر کے ساتھ کیا کرنے جارہا ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ بھارت 24 گھنٹے میں یہ اقدام کرے گا (جنگ کراچی)۔ کیوں صاحب! ریاست پاکستان کو اتنی بڑی بات کیوں معلوم نہیں تھی؟ کیا ریاست کے تمام ادارے گھوڑے بیچ کر سورہے تھے؟ خدانخواستہ کل بھارت نے پاکستان پر ایٹمی حملہ کردیا تو ہمارے حکمران فرما دیں گے کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ بھارت یہ کر گزرے گا۔ بدقسمتی سے بھارت نے کشمیر کے سلسلے میں جو شیطانی طرزِعمل اختیار کیا ہے عمران خان کے خیالات بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں۔ ہمارے سامنے روزنامہ ’’جموں و کشمیر‘‘ کے 3 سال پرانے شمارے کی شہ سرخی رکھی ہوئی ہے۔ یہ شہ سرخی عمران خان کے انٹرویو سے نکالی گئی ہے۔ اس انٹرویو میں عمران خان نے کشمیر کے حوالے سے کیا فرمایا ہے، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ عمران خان نے کہا:
’’کشمیر کا بہترین حل یہ ہے کہ اسے تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ گلگت بلتستان پاکستان کو دے دیا جائے۔ لداخ بھارت لے لے، اور وادی و آزاد کشمیر کو ایک کرکے اسے آزاد ریاست بنادیا جائے‘‘۔(روزنامہ جموں و کشمیر۔ 13 فروری 2016ء)
بلاشبہ عمران خان کا یہ انٹرویو تین سال پرانا ہے، اور عمران خان یوٹرن کے بادشاہ ہیں۔ چنانچہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ اب ان کے خیالات یہ نہیں ہیں۔ مگر ممکن ہے کہ ان کے خیالات اب بھی یہی ہوں۔ اگر ایسا ہے تو انہیں بھارت کے اقدام پر کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی ہوگی۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ اب کشمیر کے سلسلے میں عمران خان کی رائے کیا ہے؟ بدقسمتی سے اب تک شیطان بھارت کے اقدام پر پاکستانی حکمرانوں کا ردعمل افسوس ناک ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ان کے لیے زندگی اب بھی معمول کے مطابق ناشتے، ظہرانے، عصرانے اور عشائیے کی زندگی ہے۔ البتہ کورکمانڈرز کانفرنس سے اطلاع آئی ہے کہ پاک فوج کشمیر کے دفاع میں کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ یہ بہت حوصلہ افزا بات ہے، مگر پاک فوج کی قیادت سے عرض ہے کہ بیانات کا وقت گزر چکا۔ اب عمل کا وقت ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر ’’بیان‘‘ نہیں دیا، ’’عمل‘‘ کرکے دکھایا ہے۔ پاک فوج بھی اب ’’عمل‘‘ کرکے دکھائے۔ پاک فوج کشمیر کے دفاع میں کسی بھی حد تک جائے گی تو وہ قوم کو اپنے ساتھ کھڑا پائے گی۔ اقبال نے کہا ہے:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
قوموں کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جو قوم کی’’تعریف‘‘ متعین کرتا ہے۔ اسے ’’Define‘‘ کرتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم اِس وقت ایسے ہی وقت سے دوچار ہیں جو کسی خاص ادارے کی نہیں بلکہ پوری قوم کی تعریف متعین کرے گا۔ اس وقت کی پکار یہ ہے ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘۔ اقبال نے کہا ہے:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
کردار میں گفتار میں اللہ کی برہان
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈ ک وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
یہ سطور لکھی جاچکی تھیں کہ عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر ڈالا۔ ان کے خطاب سے ہمارا یہ اندیشہ اور خیال درست ثابت ہوگیا کہ میاں نوازشریف ہوں یا عمران خان، جنرل ایوب ہوں یا جنرل پرویز مشرف، یا حاضر سروس جرنیل… کوئی بھارت کو نہیں جانتا۔ عمران خان نے کہا کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ مودی انتخابات کی وجہ سے بات چیت نہیں کررہے، مگر ہمیں بعد میں احساس ہوا کہ وہ تو تکبر کی وجہ سے ایسا نہیں کررہے۔
بھارت آدھا پاکستان کھا گیا، مزید آدھے کو فنا کرنے پر لگا ہوا ہے، اور ہمارا حکمران طبقہ جانتا ہی نہیں کہ بھارت کیا چیز ہے؟ یہ ملک و قوم کی ایک ایسی بدقسمتی ہے جس کا جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ چلیے دیر آید درست آید۔ عمران خان کو بالآخر معلوم ہوہی گیا کہ بھارت کتنا بڑا شیطان ہے۔ خدا کا شکر ہے انہوں نے خود بھارت کو نسل پرست اور نازیوں کی راہ پر چلنے والا قرار دے دیا۔ عمران خان نے کہا کہ ہم خون کے آخری قطرے تک جنگ لڑیں گے اور ایسی جنگ ایٹمی جنگ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میں نیوکلیئر بلیک میلنگ سے کام نہیں لے رہا، ’’کامن سینس‘‘ کی بات کررہا ہوں۔ انہوں نے دنیا سے کہا کہ وہ بھارت کو خوش کرنے کی پالیسی ترک کرے ورنہ ایٹمی جنگ ہوئی تو سب کا نقصان ہوگا۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ عمران خان نے ایٹمی جنگ کی بات کردی، مگر یہ باتوں کا وقت نہیں، ہم نے ایٹمی ہتھیار نمائش کے لیے نہیں بنائے۔ بھارت نے ہماری سلامتی پر عملاً حملہ کیا ہے، چنانچہ ہمیں اپنے ایٹمی ہتھیار بھارت کو ہدف بناکر نصب کردینے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھارتی سفیر کو فوراً ملک سے نکال باہر کرنا چاہیے اور اپنے سفیر کو واپس بلالینا چاہیے۔ اب ہمارے سر سے کرتارپور راہداری کا بھوت بھی اُتر جانا چاہیے۔ ہمیں مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو سلامتی کونسل میں بھی اُٹھانا چاہیے اور پوری دنیا میں جارحانہ سفارت کاری کا آغاز کردینا چاہیے۔ عمران نے اپنی تقریر میں قائداعظم اور دو قومی نظریے کو بھی یاد کیا ہے۔ یہ تاریخ کا جبر ہے یا کچھ اور کہ اب دو قومی نظریے اور قائداعظم کی عظمت کی گواہی محبوبہ مفتی نے بھی دی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ قائداعظم اور ان کا دو قومی نظریہ درست تھا اور ہم نے 1947ء میں بھارت کے ساتھ الحاق کرکے غلطی کی۔
دو قومی نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہیں، مگر اسلام اپنی عظمت کے اظہار کے لیے قربانی بھی طلب کرتا ہے۔ کیا پاکستانی حکمران قربانی کے لیے تیار ہیں؟