پاکستان عشق کی کبھی نہ ختم ہونے والی داستان بن کر رہ گیا ہے۔ اقبال زندہ ہوتے تو وہ عشق کی اس داستان پر مسجدِ قرطبہ جیسی نظم ضرور لکھتے۔ پاکستان کی داستان کا ایک پہلو یہ ہے کہ قائداعظم نے اپنی زندگی کا آخری حصہ تخلیقِ پاکستان کے لیے وقف کردیا۔ قیام پاکستان کے بعد برصغیر کے طول و عرض میں ہونے والے مسلم کُش فسادات میں 10 لاکھ مسلمان شہید ہوگئے۔ ہماری 80 ہزار سے زیادہ بیٹیاں، مائیں اور بہنیں اغوا ہوئیں۔ 1971ء میں البدر، الشمس اور جماعت اسلامی کے 10 ہزار لوگ ملک کے دفاع پر قربان ہوگئے، اور بنگلہ دیش میں قربانیوں کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ کشمیر میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ دس ہزار سے زیادہ مسلم خواتین اپنی عزتوں سے محروم ہوچکی ہیں۔ ہزاروں لوگ لاپتا ہیں۔ ہزاروں لوگ جیلوں میں پڑے ہیں۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویزمشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کیا تو ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوگئی اور 5 ہزار فوجیوں سمیت 70 ہزار لوگ ملک پر قربان ہوگئے۔ ان تمام حقائق نے مل جل کر پاکستان کو ایک عشقیہ واردات بنادیا ہے۔ اس واردات کا اصل تشخص یہ ہے کہ پاکستان پر دو قومی نظریے کا سایہ ہے۔ دو قومی نظریہ لاالٰہ الااللہ محمد الرسول اللہ کے سوا کچھ نہیں۔
قیام پاکستان سے پہلے کی دنیا ’’ایک قومی‘‘ نظریے کی دنیا تھی۔ اس دنیا میں قومیں جغرافیہ، نسل اور زبان سے Define ہورہی تھیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سرسید بھی ایک قومی نظریے کے علَم بردار تھے۔ وہ کہتے تھے ’’ہندو اور مسلمان ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں ہیں‘‘۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ گاندھی اور اُن کی کانگریس اردو اور فارسی کو قومی زندگی سے دیس نکالا دے رہے ہیں اور ’’شدھ ہندی‘‘ یا خالص ہندی کو فروغ دے رہے ہیں تو انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ ہرگز کانگریس میں شمولیت اختیار نہ کریں، انہیں اپنے قومی مفادات عزیز ہیں تو وہ ایک الگ پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں۔ غلط یا صحیح، اسی بنیاد پر سرسید دو قومی نظریے کے بانی کہلاتے ہیں۔
اقبال کا معاملہ سرسید سے بھی زیادہ گمبھیر تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں دل کھول کر بابا گرونانک کو سراہا ہے۔ گوتم بدھ کی تعریف کی ہے اور رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کہا ہے۔ اقبال کی قوم پرستی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ہمالیہ پر بھی خوبصورت نظم لکھی ہے، ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا قرار دیا ہے، اور خاکِ وطن کے ہر ذرے کو ’’دیوتا‘‘ قرار دیا۔ مگر اقبال بھی زیادہ دیر تک ایک قومی نظریے کے اسیر نہ رہ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اقبال کی آرزو کو بدل دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندو قیادت کی اسلام اور مسلم دشمنی بھی عیاں ہوتی چلی گئی۔ چنانچہ اقبال برصغیر میں ’’نظریاتی اسلام‘‘ کے سب سے بڑے شاعر بن کر اُبھرے۔ وہ کل تک ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کہہ رہے تھے۔ اب انہوں نے کہا:
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
یہ ’’ارضیت‘‘ یا زمین پرستی سے اسلام کی ’’آفاقیت‘‘ کی طرف لگائی جانے والی ایک غیر معمولی چھلانگ تھی۔ اس کے بغیر اقبال کبھی اقبال نہیں بن سکتے تھے، نہ وہ کبھی مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کا تصور پیش کرسکتے تھے۔
محمد علی جناح کا قصہ اقبال سے بھی زیادہ الجھا ہوا تھا۔ وہ عملاً کانگریس میں تھے۔ کانگریس میں ان کا مقام یہ تھا کہ جب گاندھی جنوبی افریقہ سے بیرسٹر بن کر لوٹے تو اُن کے اعزاز میں ممبئی میں جو استقبالیہ دیا گیا اُس کی صدارت محمد علی جناح کررہے تھے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے ’’سفیر‘‘ بھی کہلاتے تھے، مگر قائداعظم نے خود کہا ہے کہ انہوں نے لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں ہندو قیادت کا رویہ دیکھا تو ان کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ قائداعظم نے گول میز کانفرنس میں ہندو قیادت کے رویّے کو ’’Shok of my life‘‘ قرار دیا۔ قائداعظم نے قراردادِ لاہور کی منظوری سے بہت پہلے 4 جولائی 1939ء کو صاف لفظوں میں کہا کہ ہندو مسلمانوں کے تہذیبی و ثقافتی تشخص کو مرحلہ وار طریقے سے مگر یقینی طور پر تباہ کررہے ہیں۔ اس طرح دو قومی نظریے کے شعور نے محمد علی جناح کو ’’قائداعظم‘‘ بنادیا۔ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ میں یہ تیسرا بڑا ’’Conversion‘‘ تھا۔ تاریخ کا دھارا ایک قومی نظریے کی طرف بہہ رہا تھا مگر برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی بڑی شخصیات تاریخ کے دھارے کی الٹی سمت میں تیر رہی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تاریخی شخصیات کسی اور سے کیا، تاریخ سے بھی بڑی تھیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ اپنی تاریخ کو بھول چکا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت پر ڈاکا ڈالا تو عمران خان اور اُن کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو گاندھی اور نہرو کا ’’ورثہ‘‘ بہت یاد آیا۔ ان کے بقول گاندھی اور نہرو ’’سیکولر‘‘ تھے اور نریندر مودی انتہا پسند ہندو یا آر ایس ایس کا آدمی ہے۔ مگر یہ خیال صرف غلط ہی نہیں بلکہ جاہلانہ بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرسید، اقبال اور محمد علی جناح ایک قومی نظریے کو ترک کرکے دو قومی نظریے کے قائل ہوئے تو نریندر مودی اور بی جے پی کے دور میں نہیں، گاندھی اور نہرو کے دور میں۔ تحریکِ پاکستان چلی تو گاندھی اور نہرو کے دور میں۔ پاکستان بنا تو گاندھی اور نہرو کے وقت میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرسید، اقبال اور محمد علی جناح کے زمانے میں گاندھی اور نہرو ہی نریندر مودی تھے، اور کانگریس اُس زمانے کی بی جے پی تھی۔ اس سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر کی 1930ء میں کی گئی تقریر کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ انہوں نے ممبئی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’گاندھی ہندو پرست مہاسبھا کے زیراثر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی ہندو تنظیموں شدھی اور سنگھٹن کی مذمت نہیں کی، حالانکہ یہ تنظیمیں کھلے عام اسلام اور مسلمانوں کے خاتمے کے لیے کام کررہی ہیں۔ آپ کو معلوم ہے ہریجنوں کے رہنما ڈاکٹر امیبدکر نے اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے لکھا ہے کہ گاندھی نے لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی قیادت سے کہا کہ وہ انہیں (گاندھی کو) اس بات کا یقین دلائیں کہ اگر ہریجنوں یعنی اچھوتوں نے اپنے لیے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کیا تو مسلمان اس مطالبے کی مخالفت کریں گے۔ اب بھلا بتائیے عزت و وقار اور انصاف کو پسند کرنے والا کوئی شخص کس طرح 6 کروڑ ہریجنوں کو اچھوت رکھنے کی حمایت کرسکتا ہے! میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں انسانیت کے نام پر مسلمانوں سے زیادہ اچھوتوں کی حمایت کرتا ہوں۔ آخر مسلمانوں کا مزاج کچھ لو اور کچھ دو کے اصول سے ہم آہنگ ہے‘‘۔
مولانا محمد علی جوہر نے اس تقریر میں جو کچھ کہا ہے مودی اور امیت شاہ کے بارے میں نہیں کہا ہے، بلکہ گاندھی اور نہرو کے بارے میں کہا ہے۔ مودی کا تشخص ہرگز ’’روحانی‘‘ نہیں ہے، مگر گاندھی (جی) تو ’’مہاتما‘‘ یعنی ’’عظیم روح‘‘ کہلاتے تھے۔ ہندوئوں کے والد یا ’’باپو‘‘ قرار دیے جاتے تھے۔ اُن کے بارے میں مولانا محمد علی جوہر کہہ رہے ہیں کہ وہ اُن ہندو تنظیموں کو کچھ نہیں کہتے جو اسلام اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے کام کررہی ہیں۔ یہاں تک کہ گاندھی کو ہندوازم کے دائرے میں موجود ہریجنوں کی بھی پروا نہیں۔ گاندھی اور نہرو کو پروا تھی تو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی۔ نریندر مودی اور آدتیہ ناتھ کا ہندوستان بھی اصل میں اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کا ہندوستان ہے۔ بھارت کے مسلمانوں، کشمیریوں اور پاکستان کے لیے بھارت کا ہر ہندو لیڈر ’’مودی‘‘ رہا ہے، اور ہندوئوں کی ہر جماعت مسلمانوں، کشمیریوں اور پاکستان کے لیے بی جے پی رہی ہے۔ فرق صرف درجوں کا ہے۔ ہمارے لیے کوئی بڑا مودی ہے، کوئی چھوٹا مودی ہے۔ کوئی بی جے پی نمبر ایک ہے، کوئی بی جے پی نمبر دو ہے اور کوئی بی جے پی نمبر تین۔ اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو مودی اور بی جے پی کے جانی دشمن دہلی کے وزیراعلیٰ اندر کمار کیجریوال نے مودی کے اقدام کی بھرپور حمایت کی۔ اچھوتوں کی رہنما اور سماج وادی پارٹی کی سربراہ مایا وتی نے بھی کھل کر مودی کو سراہا۔ صرف کانگریس نے مودی کے اقدام پر نکتہ چینی کی ہے، مگر اس کی وجہ ان کی انصاف پسندی یا کشمیر نوازی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کشمیر کے حوالے سے نہرو کے ورثے کو پھلانگ کر کھڑی ہوگئی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو کانگریس بھی مودی کی حمایت کرتی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے دو ٹکڑے بی جے پی کے دور میں نہیں، کانگریس کے دور میں ہوئے۔ دو قومی نظریے کو خلیجِ بنگال میں مودی نے غرق نہیں کیا تھا، بلکہ اندرا گاندھی نے غرق کیا تھا۔ بابری مسجد بھی بی جے پی کے دورِ حکومت میں شہید نہیں ہوئی، بلکہ اُس وقت مرکز اور یوپی میں کانگریس کی حکومت تھی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کو ان حقائق کا شعور ہی نہیں۔
ہندو قیادت اور ہندوستان کو صرف ایک مسلم رہنما نے پہچانا۔ اس رہنما کا نام محمد علی جناح ہے۔ قائداعظم کے فہم کی تین بنیادیں تھیں: دو قومی نظریہ، مشاہدہ اور تجربہ۔ قائداعظم کے فہمِ ہندوستان کے سلسلے میں ان کے مشاہدات اور تجربات بھی اہم ہیں، مگر اصل اہمیت دو قومی نظریے کے شعور کی ہے۔ دو قومی نظریے کے تناظر سے پہلے قائداعظم کی پوری زندگی ہندو رہنمائوں کے ساتھ گزری تھی، مگر انہیں ہندو نہ تنگ نظر دکھائی دیتے تھے، نہ تھڑدلے دکھائی دیتے تھے، اور نہ انہیں یہ خیال آتا تھا کہ ہندو قیادت اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہے۔ مگر دو قومی نظریے کے تناظر نے قائداعظم پر ہندو قیادت کے ظاہر و باطن دونوں کو آشکار کردیا۔ جنرل ایوب سے عمران خان تک پاکستان کے ہر آنے والے حکمران کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس نہ دو قومی نظریے کا چشمہ ہے، نہ وہ اپنی تہذیب اور تاریخ میں سانس لیتے ہیں۔ چنانچہ جنرل ایوب ہی نہیں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات کا شوق فرماتے رہے۔ میاں نوازشریف نے حد ہی کردی۔ انہوں نے آزادی میں غلامی کا منظر تخلیق کردیا۔ عمران خان آج ٹیپو سلطان کی باتیں کررہے ہیں مگر ڈیڑھ دو سال پہلے انہوں نے بھارت اور پاکستان کے مشترکہ ایٹمی پروگرام کی تجویز پیش کی تھی، اور پاک بھارت کشیدگی کے دوران انہوں نے مودی کو تین تین بار فون کرڈالے تھے۔ جنرل ایوب کے دور میں انہیں ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا مگر انہوں نے اسے ’’مہنگا منصوبہ‘‘ کہہ کر مسترد کردیا۔ ہمارے حکمران طبقے کی بھارت پرستی کا یہ عالم ہے کہ بھارت نے ایٹم بم بنایا تو ہمیں ایٹم بم بنانے کا خیال آیا۔ بھارت نے میزائل سازی کی، تو ہم میزائل بنانے پر مائل ہوئے۔ بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو ہم ایٹمی دھماکوں کی طرف گئے۔ بھارت نے پاکستانی سرحد کے ساتھ چھائونیاں بنائیں تو ہم نے چھوٹے ایٹم بن بنائے۔ بھارت کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بات اور شملہ معاہدے پر اصرار کرتا رہا تو ہم بھی قراردادوں اور شملہ معاہدے سے چمٹے رہے۔ اب بھارت نے دونوں کی دھجیاں اڑائی ہیں تو حکمران سوچ رہے ہیں کہ ہمیں بھی شملہ سمجھوتے سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ اصول ہے کہ جو حق کو پہچانتا ہے وہی باطل کو ٹھیک ٹھیک سمجھتا ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ دو قومی نظریے کو سمجھتا تو وہ جانتا کہ بھارت کیا ہے؟ اور ہندو قیادت کس چیز کا نام ہے؟ مگر ہمارے حکمران نہ دو قومی نظریے اور اس کے امکانات اور اطلاقات کو سمجھتے ہیں، نہ انہیں معلوم ہے کہ بھارت کیا ہے اور اس سے کس طرح کا تعلق رکھنا چاہیے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ دو قومی نظریے کو سمجھتا تو پاکستان آج دنیا کے دس طاقتور ترین ممالک میں سے ایک ہوتا اور مسئلہ کشمیر کو حل ہوئے پچاس سال ہوچکے ہوتے۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہندو قیادت اور ہندوستان کو صرف قائداعظم سمجھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کشمیر اور اس کے حل کو بھی سب سے بہتر انداز میں جانتے تھے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی خودنوشت ’’آتش چنار‘‘ میں لکھا ہے کہ قائداعظم نے ان سے کہا کہ کانگریس پر کبھی بھروسا نہ کرنا۔ اس کے معنی یہ تھے کہ قائداعظم کہہ رہے تھے کہ بھارت کی ہندو قیادت پر کبھی اعتبار نہ کرنا۔ بدقسمتی سے شیخ عبداللہ نے کانگریس پر اعتبار کیا اور آج محبوبہ مفتی کہہ رہی ہیں کہ قائداعظم کا دو قومی نظریہ ہی ٹھیک تھا، ہم نے بھارت کے ساتھ الحاق کرکے غلطی کی۔ کشمیریوں کے ایک حصے نے بھارت کے ساتھ الحاق کرکے غلطی کی، اور پاکستان کے حکمرانوں نے کشمیر کے سلسلے میں قائداعظم کے ورثے کو ترک کرکے بھیانک کوتاہی کا ارتکاب کیا۔ مگر کشمیر کے سلسلے میں قائداعظم کا ورثہ کیا ہے؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا۔ کشمیر کے سلسلے میں قائداعظم کے ورثے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ قائداعظم کشمیر میں جہاد یا پاکستان کی مسلح مداخلت کو کشمیر کے مسئلے کا حل سمجھتے تھے۔ چنانچہ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا تو قائداعظم نے پاک فوج کے سربراہ جنرل گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا۔ کسی بھی وجہ سے سہی، جنرل گریسی نے قائداعظم کی حکم عدولی کی۔ لیکن قائداعظم اگر زندہ رہتے تو وہ کشمیر کے سلسلے میں کیا کرتے، اس کا اندازہ ان کے اس بیان سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ قائداعظم نے دہلی میں مسلم لیگ کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
“If our minorities are ill treated, (in India) Pakistan can not remain a passive spectator (Pakistan will) Intervene in Hindustan- if they are oppressed”
ترجمہ: اگر (بھارت میں) ہماری اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک ہوا تو پاکستان خاموش تماشائی نہیں رہے گا۔ (پاکستان) بھارت میں مداخلت کرے گا‘‘۔(9 اپریل۔ 1946ء)۔
ظاہر ہے کہ ’’مداخلت‘‘ تقریروں، بیانات اور مذاکرات کے ذریعے نہیں ہوتی۔ مداخلت عسکری طاقت کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ قائداعظم بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے لیے ممکنہ مداخلت کی بات کررہے ہیں، حالانکہ بھارت کے مسلمان بھارت کا ’’داخلی معاملہ‘‘ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر قائداعظم بھارت کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے لیے اتنے ’’حساس‘‘ ہوسکتے تھے تو وہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے کتنے حساس ہوتے! اس لیے کہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کے فارمولے کے اعتبار سے پاکستان کا حصہ ہے۔ اس حصے پر بھارت نے طاقت کے زور پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کشمیر کی آزادی کے سلسلے میں قائداعظم کی فکر مکمل طور پر ’’جہادی‘‘ ہوتی۔ یہ ہمارا ’’قیاس‘‘ نہیں ہے، قائداعظم سے متعلق ایک ’’ٹھوس حقیقت‘‘ ہے۔ آپ بھارت کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے بھارت میں مداخلت، اور کشمیر میں فوج داخل کرنے کے حوالے سے قائداعظم کی رائے ملاحظہ کرچکے۔ اب یہ بھی ملاحظہ کرلیجیے کہ قائداعظم نے نیویارک ٹائمز کے نمائندے کو عربوں کی مدد کے حوالے سے دیے گئے انٹرویو میں کیا فرمایا:۔
“The Indian Muslim will do everything in his power to help the Arab, he will go to any length because we do not want Palestine to go out of Muslim hands.” when asked to define “any length” Mr Jinnah Said “it means whatever we can do, violence if necessary”
ترجمہ: ’’بھارت کا مسلمان عربوں کی ہر ممکن مدد کرے گا۔ وہ اس سلسلے میں کسی بھی حد تک جائے گا، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ فلسطین مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلے‘‘۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’کسی بھی حد‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ تو مسٹر جناح نے کہا ’’اس کا مطلب ہے ہم جو کچھ بھی کرسکیں، اگر ضروری ہو تو طاقت کا استعمال یا تشدد بھی‘‘۔
ان ’’حقائق‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ قائداعظم مداخلت کی جگہ مداخلت کے قائل تھے، مسلح جدوجہد کی جگہ مسلح جدوجہد پر ان کا ایمان تھا، اور جہاں طاقت کے استعمال یا تشدد کی گنجائش تھی وہاں وہ طاقت کے استعمال سے گریزاں نہیں ہوتے تھے۔ قائداعظم آج زندہ ہوتے تو وہ بھارت کے مظلوم مسلمانوں کی بھی مدد کرتے، فلسطینیوں کے لیے بھی جان کی بازی لگاتے، برما کے مسلمانوں کے لیے بھی آواز اٹھاتے، بھارت کے شودروں اور اچھوتوں کے لیے بھی صدا بلند کرتے۔ ظاہر ہے کہ وہ کشمیر کے مسلمانوں کو کیسے بھول جاتے! ان کی آزادی کے لیے تووہ ایٹم بم استعمال کرنے پر مائل ہوجاتے۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے حکمران جو رات دن قائداعظم کا نام لیتے ہیں، کشمیر کی آزادی کے ضمن میں قائداعظم کے فکر و عمل سے کتنی دور کھڑے ہوئے ہیں؟ جنرل ایوب کو 1962ء میں چین بھارت جنگ کے دوران چین نے پیغام دیا کہ بھارت اپنی ساری فوج کو چین کی سرحد پر لے آیا ہے، پاکستان آگے بڑھے اور اپنا کشمیر بھارت سے چھین لے۔ مگر امریکہ کو اس بات کی خبر ہوگئی اوراُس نے جنرل ایوب کو یہ پٹی پڑھائی کہ امریکہ چین بھارت جنگ کے بعد مسئلہ کشمیر حل کروا دے گا۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں کشمیریوں سے کہا گیا کہ اگر آپ اپنی تحریکِ آزادی کو تحرّک کی ایک بلند سطح پر لے آئے تو پاکستان مداخلت کرے گا۔ مگر جب کشمیریوں نے جان کی بازی لگاکر تحرّک کی مطلوب سطح حاصل کرلی تو اُن سے کہا گیا ہم کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگا سکتے۔ جنرل پرویز کے زمانے میں کارگل ہوا اور ہم نے بھارت کی دو ڈویژن فوج کو محصور کرلیا۔ یہ فوج یا تو پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈالتی یا بھوک سے مر جاتی۔ اس لیے کہ پاکستان نے اُن کی سپلائی لائن کاٹ دی تھی۔ مگر ہم بھارت کا دبائو برداشت نہ کرسکے۔ اِس وقت بھی ہمارے حکمران طبقے کی ’’بدن بولی‘‘ سے ایسا نہیں لگ رہا کہ وہ کشمیر کے لیے کچھ غیر معمولی کرنے والا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے سفیر کو ملک بدر کردیا، بہت اچھا کیا۔ اپنا سفیر بھارت سے بلالیا، مزید اچھا کیا۔ مگر ہم نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلق کو الوداع نہیں کہا۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارت پر پابندی لگا کر بھی بہت اچھا کیا، مگر بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارت پر پابندی نہیں لگائی، حالاں کہ بھارت نے کشمیر ہڑپ کرلیا ہے۔ حکمرانوں نے سمجھوتا ایکسپریس اور تھر ایکسپریس کو بند کرکے بھی اچھا کیا، مگر کرتارپور راہداری کھلی رہے گی۔ کہا جارہا ہے کہ پاکستان کرتارپور راہداری کے لیے People to people رابطے کی راہ مسدود نہیں کرنا چاہتا۔ ٹھیک ہے۔ اس اعتبار سے تو پاکستان کو سمجھوتا ایکسپریس اور تھر ایکسپریس بھی بند نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ ان دونوں راستوں سے بھی People to people contact کی راہ ہموار ہورہی تھی۔ کہا جارہا ہے کہ کرتارپور راہداری کے ذریعے سکھوں پر اثرانداز ہوا جارہا ہے۔ بڑی اچھی بات ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے ماضی میں خالصتان کی پوری تحریک کو سبوتاژ کردیا تھا۔ جو بوجھ ہم ماضی میں نہیں اٹھا سکے وہ بوجھ اب مستقبل میں کیسے اٹھائیں گے؟ عمران خان کو اب تک کئی اہم ممالک کے دورے کرلینے چاہیے تھے، مگر وہ وزیراعظم ہائوس سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں اور چھوٹے موٹے بیانات کے ذریعے ’’جہاد‘‘ فرما رہے ہیں۔ بلاشبہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ بہادر شاہ ظفر کے بجائے ٹیپو سلطان کا راستہ اختیار کریں گے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو، مگر ٹیپو سلطان کوئی Instant جوہر جوشاندہ نہیں ہے جو ایک لمحے میں تیار ہوجائے۔ ٹیپو سلطان برسوں میں تیار ہوتا ہے۔ چنانچہ ٹیپو سلطان عمران خان کی زبان پر تو ہے مگر ان کے دل و دماغ میں بہادر شاہ ظفر بیٹھا نظر آرہا ہے۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ اہلِ کشمیر کے لیے ہمیں کچھ بھی کرگزرنا چاہیے۔ اس لیے کہ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے، اور اس لیے بھی کہ کشمیریوں سے بہتر پاکستانی اس وقت روئے زمین پر موجود نہیں۔ اصولی اعتبار سے تو سب سے اچھے پاکستانی ہمیں پاکستان میں دستیاب ہونے چاہئیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت درجۂ اوّل کے پاکستانی یا تو کشمیر میں ملتے ہیں یا بھارت میں۔ پاکستان میں تو زیادہ تر ’’پیدائشی‘‘ اور ’’پیشہ ور‘‘ پاکستانی پائے جاتے ہیں۔ جس طرح ’’پیدائشی مسلمان‘‘ ہوتے ہیں اسی طرح ’’پیدائشی پاکستانی‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ مگر کشمیری اب پیدائشی پاکستانی نہیں ہیں بلکہ وہ ’’شعوری پاکستانی‘‘ ہیں۔ انہیں پاکستانیت ورثے میں نہیں ملی بلکہ انہوں نے اپنی پاکستانیت جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی دے کر خریدی ہے۔ جرنیل ہوں یا سیاست دان، صحافی ہوں یا دانش ور… ہم سب پاکستان میں فائیو اسٹار زندگی بسر کرتے ہوئے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں، مگر کشمیریوں کا کمال یہ ہے کہ بندوق کی نوک پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کہتے ہیں۔ اسی لیے ہم یہ لکھتے رہے ہیں کہ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے پاکستانی سید علی گیلانی ہیں۔ کون سی قربانی ہے جو انہوں نے نہیں دی؟ کون سا دکھ ہے جو انہوں نے نہیں جھیلا؟ مگر ان کی زبان پر ہمیشہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ رہتا ہے۔ عام کشمیری جان، مال اور عزت و آبرو کی قربانی دیتے ہیں اور اپنی گھڑیوں کو پاکستانی وقت سے آراستہ کرتے ہیں، اپنے شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفناتے ہیں اور کہتے ہیں ’’پاکستان سے رشتہ کیا… لاالٰہ الااللہ‘‘۔ ایسے پاکستانیوں کے لیے ہم جو کر گزریں، کم ہے۔
یہ حقیقت عیاں ہوچکی کہ امریکہ اور یورپ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر زبانی جمع خرچ کے سوا نہ کچھ کررہے ہیں، نہ کریں گے۔ اگر وہ کچھ کریں گے بھی تو پاکستان کے خلاف سازش ہی کریں گے۔ عرب مملک کا ردعمل حوصلہ شکن ہے۔ چین نے قدرے بہتر مؤقف اختیار کیا ہے۔ صرف ترکی کے صدر رجب طیب اردوان دل و جان سے پاکستان کے ساتھ ہیں۔ مگر ہمیں نہ امریکہ سے کچھ لینا ہے، نہ یورپ اور چین سے ہمیں کچھ درکار ہے۔ اس سلسلے میں بھی ہمیں قائداعظم کے کردار سے سیکھنا چاہیے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ اگر ہندو اور سلطنتِ برطانیہ مل کر بھی ہمارے خلاف سازش کریں گے تو بھی اس کی مزاحمت کریں گے، خواہ ہم سب ہی کیوں نہ مارے جائیں۔ قائداعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ امریکہ اور چین کی اجتماعی طاقت بھی ہم سے وہ کام نہیں کروا سکتی جو برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کے خلاف ہو۔ ہر چیلنج انسان کو Define کرتا ہے، اور چیلنج میں انسان کی اصلیت سامنے آتی ہے۔ فرد، افراد، ادارے، قومیں اگر بہادر ہوتی ہیں تو ان کی بہادری آشکار ہوجاتی ہے۔ فرد، افراد، ادارے اور قومیں بزدل ہوتی ہیں تو ان کی بزدلی تاریخ کے صفحات پر چھا جاتی ہے۔ ہر چیلنج میں ایک خطرہ اور ایک امکان چھپا ہوتا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے میں بھی ایک خطرہ اور ایک امکان ہے، مگر ہمارے حکمران طاقتور کے سامنے صرف خطرے کو دیکھتے ہیں، امکان کو نہیں دیکھتے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ حکمران کہہ رہے ہیں اگر بھارت نے آزاد کشمیر یا پاکستان پر حملہ کیا تو ہم سخت جواب دیں گے۔ ارے بھائی جب حریف حملہ کردیتا ہے تو پھر کتے اور بلیاں بھی حملے کا جواب دیتی ہیں، اہمیت تو پہل کاری یا Initiative کی ہے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ پہل کاری یا Initiative کی تاریخ ہے۔ مگر ہمارے جرنیل ہوں یا سول حکمران، انہیں مسلمانوں کی تاریخ سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ چنانچہ اندیشہ یہ ہے کہ عمران خان کے اندر کا ٹیپو سلطان سویا رہے گا اور ان کے اندر کا بہادر شاہ ظفر پوری طرح Active رہے گا۔ اسی طرح کورکمانڈر کانفرنس کا یہ اعلان کہ ہم کشمیریوں کے دفاع میں ’’کسی بھی حد تک جائیں گے‘‘ ’’ایک حد تک جائیں گے‘‘ میں تبدیل ہوجائے گا۔ یہاں ہمیں ایک حدیث یاد آرہی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو لوگ ظالم کو دیکھیں اور اُس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو اللہ بہت جلد ان کو سزا دے گا‘‘۔ بھارت تو صرف ظالم بھی نہیں ہے، وہ جنوبی ایشیا کا شیطان ہے اور پورا جنوبی ایشیا اُس کے ظلم سے پریشان ہے۔
یہ سطور لکھی جاچکی تھیں کہ عمران خان نے 14 اگست کے موقع پر آزاد کشمیر کی اسمبلی سے خطاب کر ڈالا۔ ان کے خطاب کی اہم ترین بات یہ تھی کہ مودی ایکشن لے کر دیکھے، ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ کوئی عمران خان کو بتائے کہ مودی مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرکے ’’Action‘‘ لے چکا۔ سوال یہ ہے کہ اس اینٹ کے جواب میں عمران خان کا پتھر کہاں ہے؟ عمران خان کے مذکورہ بالا فقرے کو ایک اور طرح بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ انسان کے الفاظ بھی بہت اہم ہوتے ہیں، مگر انسان کے خطاب کا جوش و جذبہ اور لب و لہجہ الفاظ سے بھی زیادہ اہم ہوتا ہے۔ عمران خان نے فرمایا ہے کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ ان الفاظ میں بڑی گرمی ہے، مگر یہ بات جس لب و لہجے میں کہی گئی اس میں کوئٹہ کی وہ ٹھنڈ ہے جو درجۂ حرارت منفی دس ہوجانے سے پیدا ہوتی ہے۔ کاش عمران خان مودی اور اس کے بھارت کے خلاف اسی جوش و جذبے سے تقریر کرسکتے جس جوش و جذبے سے میاں نوازشریف اور آصف زرداری کے خلاف تقریر کرتے ہیں۔