قتل کے واقعات نے حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے
اے این پی کے عہدیداروں پر مختلف اوقات میں نامعلوم افراد کے قاتلانہ حملوں کے نتیجے میں اب تک صرف پشاور میں پارٹی کے سابق سینئر راہنما اور سینئر صوبائی وزیر بشیراحمد بلور سمیت 6 شخصیات جاں بحق ہوچکی ہیں، جبکہ میاں افتخار حسین اور حاجی غلام احمد بلور اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملوں میں اب تک محفوظ رہے ہیں، جن پر بدستور مزید حملوں کا خدشہ ظاہرکیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ اے این پی کے راہنمائوں پر حملوں کی ابتدا خیبر پختون خوا میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت کے ابتدائی دنوں یعنی یکم جنوری2009ء کو اے این پی کے رکن صوبائی اسمبلی عالم زیب خان سے ہوئی تھی، جنہیں پشاور میں دلہ زاک روڈ پر گھر کے باہر گلی میں ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ دھماکے سے ایم پی اے عالم زیب خان کے علاوہ بھی چند افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اے این پی کے عہدیداروں کی جانب سے اس قتل کا الزام طالبان پر عائدکیا گیا تھا۔ اس قتل کے بارے میں تاحال کسی پر ذمہ داری ثابت نہیں ہوسکی ہے۔ پشاور میں اے این پی پر دوسرا بڑا حملہ عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور پر خودکش حملے کی صورت میں پشاور کے گنجان رہائشی علاقے میں 22 دسمبر2014ء کو مغرب کے وقت کیا گیا تھا جس میں بشیر احمد بلور کے علاوہ ان کے سیکریٹری نور محمد اور پولیس افسران جاں بحق ہوگئے تھے۔ اے این پی پشاور کی لیڈرشپ پر تیسرا بڑا حملہ ڈسٹرکٹ پشاور کے صدر میاں مشتاق پر ہوا تھا جس میں وہ دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ بڈھ بیر کے نواح میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ اے این پی پشاور کو چوتھا بڑا صدمہ گزشتہ برس جولائی میں اُس وقت برداشت کرنا پڑا جب بشیر احمد بلور کے بڑے صاحبزادے اور پی کے78پشاور سے اے این پی کے امیدوار ہارون بلور پر خودکش حملہ کیا گیا، جس میں وہ کئی کارکنوں کے ہمراہ جاں بحق ہوئے۔4 ستمبر 2018ء کو اے این پی کے، پی کے 74سے امیدوار ابرار خلیل کو فائرنگ کرکے بھانجے سمیت قتل کیا گیا۔ جب کہ اے این پی پشاور کے عہدیداروں کے ساتھ نیا واقعہ گزشتہ ہفتے کے روز گلبہار میں پیش آیا جس میں اے این پی پشاور سٹی کے صدر اور ضلعی اسمبلی کے رکن سرتاج خان کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے گولی مار کر قتل کردیا۔ اس کے علاوہ بھی اے این پی کے عہدیداروں اور کارکنوں پر پشاور میں نامعلوم افراد کی جانب سے حملے ہوئے ہیں، لیکن ان میں کوئی بڑا جانی نقصان نہیں ہوا۔ اے این پی کے راہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ کا ایک اور اندوہناک واقعہ پارٹی کے موجودہ مرکزی سیکریٹری جنرل میاں افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے میاں راشد حسین کا نوشہرہ پبی میں قتل کیا جانا تھا۔ اسی طرح پشاور کے علاوہ بونیر، سوات، باجوڑ، چارسدہ اور صوابی میں بھی اے این پی کے مقامی قائدین کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اے این پی کے راہنمائوں پر تازہ حملوں میں ایک واقعہ گزشتہ دنوں باجوڑ میں پیش آچکا ہے جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی رہنما مولانا گل داد خان بم حملے میں اپنے قریبی ساتھی ملک قیوم سمیت شدید زخمی ہوگئے ہیں۔ گزشتہ پیرکی صبح 11 بجے باجوڑ کی تحصیل ناواگئی، علاقہ دربنو میں اے این پی کے مقامی رہنما اور امن کمیٹی کے رکن مولاناگل داد خان پر اُس وقت ریموٹ کنٹرول بم حملہ کیا گیا جب وہ اپنے ساتھی ملک قیوم کے ساتھ دربنو چیک پوسٹ سے تقریباً 100میٹر کے فاصلے پر اپنے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے۔ اس دھماکے کے بعد دونوں زخمیوںکو ابتدائی علاج کے لیے ناواگئی اسپتال اور بعدازاں ہیڈکواٹر اسپتال خار منتقل کردیا گیا۔ واضح رہے کہ مولانا گل داد خان پر 2008ء سے اب تک ایک درجن سے زائد حملے ہوچکے ہیں۔ کئی بار ان حملوں میں وہ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جس مقام پر اب مولانا گل داد خان کو نشانہ بنایا گیا ہے اس علاقے میں ان کے ایک جواں سال بیٹے کو شہید کیا گیا تھا۔ اے این پی کے راہنمائوں پر جاری تازہ حملوں کا ایک اور نشانہ سوات میں پارٹی راہنما عبداللہ یوسف زئی کے برخوردار ازمرک یوسف زئی اور ان کے بھائی ثناء اللہ اور ان کے ایک دوست ریاض بنے ہیں، جنہیں سیدوشریف سوات گل کدہ کے علاقے میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کا نشانہ بنایا ہے جس میں یہ تینوں شدید زخمی ہوگئے ہیں۔
ان واقعات کے خلاف اے این پی کی جانب سے مقدمات تو متعلقہ پولیس اسٹیشنوں میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کرائے گئے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ان حملوں کا الزام طالبان پر بھی ڈالا جارہا ہے، جس کو نامعلوم مقامات سے طالبان کے مختلف گروپوں کی جانب سے آنے والے دعووں سے تقویت ملتی ہے۔ مذکورہ تمام واقعات میں ملوث افراد کو تاحال بے نقاب نہیں کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اے این پی کے صوبائی جنرل سیکریٹری سردار حسین بابک کے مطابق اب تک اے این پی کے سات سو سے زائد کارکنوں کو صوبے کے مختلف علاقوں میں چن چن کر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ بونیر میں ان پر بھی فائرنگ ہوئی جس میں وہ بچ گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے ابھی تک کسی بڑے ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے جس پر اے این پی کے کارکن خود کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ اے این پی کے راہنمائوں پر حالیہ حملوں کا پہلا نشانہ پشاور سٹی کے صدر سرتاج خان بنے ہیں جنہیں گلبہار میں گولی مار کر قتل کیا گیا ہے۔ سرتاج خان کے قتل کے حوالے سے پشاور پولیس نے واضح کیا ہے کہ انہیں کوئی دھمکی نہیں ملی تھی، ذمہ دار اداروں کی جانب سے بھی سرتاج خان کی جان کو خطرے کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔ ایس ایس پی آپریشن پشاور ظہور آفریدی کا کہنا ہے کہ سرتاج خان کو دھمکی کی کوئی اطلاع نہیں تھی اور نہ ہی تھریٹ کے حوالے سے کوئی مراسلہ موصول ہوا ہے، پشاور پولیس کی جانب سے کیس کی مختلف زاویوں سے تفتیش جاری ہے، تاہم کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
دریں اثناء عوامی نیشنل پارٹی نے سرتاج خان کے قتل کے خلاف تین روزہ سوگ کے اعلان کے علاوہ صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے جس میں قاتلوں کی فی الفور گرفتاری کے علاوہ اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی خان نے واقعے کی مذمت اور سانحے میں ان کی شہادت پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کی جان کسی طور محفوظ نہیں، گزشتہ سال ہارون بلور کی شہادت کے بعد سرتاج خان کی شہادت شاید اے این پی کے لیے خفیہ پیغام ہے، تاہم باچا خان کے سپاہی اپنے مشن سے کسی طور پیچھے نہیں ہٹیں گے، قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کرکے کٹہرے میں لایا جائے، عوامی نیشنل پارٹی کو میدان سے باہر رکھنے کی سازش کی جارہی ہے، کچھ بھی ہوجائے میدان نہیں چھوڑیں گے۔ پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل میاں افتخار حسین نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرتاج خان کے قتل کا سیاسی بدلہ لیا جائے گا، ان کی جماعت مزید خاموش نہیں رہے گی۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب تک وہ قبائلی علاقوں میں ہونے والے مظالم پر آنسو بہا رہے تھے، لیکن اب پشاور کے دل گلبہار میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعے نے حکومتی رٹ کا پول کھول دیا ہے، یہ سیاسی ٹارگٹ کلنگ ہے اور وہ اس کا بدلہ سیاسی طور پر لیں گے۔ پولیس کی جانب سے واقعے کو رہزنی کا رنگ دینے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غلط بیانی سے سانحے پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا، سرتاج خان کو باقاعدہ ٹارگٹ کرکے شہید کیا گیا، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سرتاج خان کو صرف ایک گولی لگی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ واقعہ ٹارگٹ کلنگ ہے۔ صوبائی صدر ایمل ولی خان نے اے این پی سٹی ڈسٹرکٹ پشاور کے صدر سرتاج خان کے بہیمانہ قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے میں جنگل کا قانون ہے، صوبائی حکومت دہشت گردوں کی ساتھی ہے، اس بہیمانہ کارروائی کے خلاف اے این پی تین روزہ سوگ کا اعلان کرتی ہے، سرتاج خان کو دن دہاڑے تھانے کے قریب ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا لیکن مثالی پولیس قاتلوں کو پکڑنے میں ناکام رہی، حکومت اے این پی رہنمائوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، شہادتوں کے سلسلے پر اب مزید خاموش نہیں رہا جائے گا اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہر بار الیکشن سے قبل اے این پی کو دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ڈال کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاتا ہے، لیکن ہم ڈرنے اور جھکنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی ادارے اور حکومت تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، نازک صورتِ حال کا ادراک نہ کیا گیا تو آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے، دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کے بجائے انہیں اے این پی کو نشانہ بنانے کا ٹاسک حوالے کردیا گیاہے۔ باجوڑ، پشاور اور سوات کے واقعات اے این پی کو میدان چھوڑنے کے لیے پیغامات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے اعلانات ان کی اپنی جماعت کے لیے ہیں، حقیقت میں دہشت گردی ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی گزشتہ چار سال سے مطالبہ دہراتی آئی ہے کہ دہشت گردی کے ناسور سے قوم کو بچانے کے لیے اے پی ایس کے بعد سامنے آنے والی 20 نکاتی متفقہ دستاویز پر من و عن عمل کیا جائے، اور اس سلسلے میں مصلحت سے کام نہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا، تاہم بدقسمتی سے مرکزی و صوبائی حکومتوں نے اپنے مفادات کی خاطر اس پر سمجھوتا کیا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ پے در پے ہونے والے واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی راہ میں بڑی رکاوٹ اے این پی ہے۔