مسلم لیگ (ن) کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے قائد میاں محمد نواز شریف کوٹ لکھپت جیل ہیں قید ہیں… ان کی حال ہی میں پارٹی کی نائب صدر بنائی جانے والی بیٹی مریم نواز بھی اپنے والد کے ساتھ ہی سزا یافتہ ہیں تاہم عدالت سے ضمانت اور سزا معطل کئے جانے کے بعد آج کل جیل سے باہر ہیں… پارٹی کے صدر قومی اسمبلی میں قائد میاں شہباز شریف بھی مختلف ریفرنسز میں قومی احتساب بیورو کے زیر تفتیش ہیںان کے فرزند پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز بھی نیب کی حراست میں مختلف ریفرنسز میں تحقیق وتفتیش کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ شہباز شریف کے دوسرے بیٹے سلمان شہباز اور داماد علی بھی مختلف مقدمات میں مطلوب ہیں تاہم وہ بیرون ملک جا چکے ہیں۔ میاں نواز شریف کے دونوں بیٹے حسن اور حسین اور سمدھی اسحٰق ڈار بھی نیب کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں مگر برطانیہ میں ہونے کی وجہ سے تاحال محفوظ ہیں۔
سابق وفاقی وزیر سعد رفیق اور ان کے بھائی سابق صوبائی وزیر سلمان رفیق بھی قومی احتساب بیورو کی حراست میں ہیں… سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال سمیت نواز شریف کابینہ کے اکثر ارکان نیب کے ریڈار پر ہیں اور پیشیاں بھگت رہے ہیں… نواز لیگ کے ایک اور رہنما سابق صوبائی وزیر رانا مشہودکو ہفتہ 29 جون کی شب لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ ایف آئی اے کے اہلکاروںنے اس وقت جہاز سے اتار لیا جب وہ ایک نجی فضائی کمپنی کے ذریعہ امریکہ پرواز کرنے والے تھے۔ ایف آئی اے حکام کا موقف ہے کہ ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے کیونکہ ان کے خلاف نیب میں پنجاب اسپورٹس فیسٹول میں کروڑوں روپے کی بدعنوانی کے الزام میں تحقیقات ہو رہی ہیں اور نیب نے انہیں 8 جولائی کو طلب کر رکھا ہے وہ ان تحقیقات سے بچنے کے لیے امریکہ فرار ہو رہے تھے مگر ایف آئی اے حکام نے ان کی یہ کوشش ناکام بنا دی…!!!
اسی اثناء میں 29 جون ہی کو یہ خبر سامنے آئی کہ نواز لیگ کے پندرہ ناراض ارکان اسمبلی پنجاب اسمبلی نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی قیادت میں وزیر اعظم عمران کی رہائش گاہ بنی گالا میں ان سے ملاقات کی۔ بعض ذرائع کے مطابق نو لیگی ارکان قومی اسمبلی بھی ملاقات کرنے والوں میں شامل تھے ملاقات کرنے والے وفد میں جن لوگوں کے نام ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آئے ان میں سے چند نے خود بھی اس ملاقات کی تصدیق کر دی تاہم چند ابھی تک اس ملاقات سے انکاری ہیں… نواز لیگی قیادت نے بھی پہلے تو سرے سے اس واقعہ کی تصدیق کر دی تو ان کے پاس بھی اسے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھاتحریک انصاف کی قیادت نے اس ملاقات کے ذریعے ایک تیر سے کم از کم دوشکار کرنے کی کوشش کی اول تو نواز لیگ کے اندرونی انتشار کو نمایاں کر کے اسے دبائو میں لانے کا مقصد حاصل کیا جب کہ دوسری طرف اس ملاقات کے ذریعے اپنے اتحادیوں خصوصاً ق لیگ کو یہ پیغام دیا ہے اب حکومت زیادہ دیر تک ان کی بلیک میلنگ میں نہیں آئے گی کہ اب وہ متبادل راستہ تلاش کر چکی ہے… بہرحال نواز لیگ کی قیادت کے لیے یہ ایک بہت بڑا دھچکاتھا جس کے اثرات محسوس بھی کئے گئے… پارٹی کے صوبائی صدر رانا ثناء اللہ نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس طرز عمل کی مذمت بھی کی اوریہ دھمکی بھی دی کہ عمران خان سے ملاقات کرنے والے لیگی ارکان کے گھروں کا گھیرائو کیا جائے گا جس کی قیادت وہ خود کریں کے جس کی ایک ہلکی سی جھلک گوجرانوالہ کے ناراض لیگی رکن اسمبلی اشرف انصاری کے گھر کا گھیرائو اور نعرہ بازی کر کے دکھائی بھی گئی… !!!
یکم جولائی کو ایک انتہائی نامناسب واقعہ گجرات سے نواز لیگ کے سابق صوبائی وزیر میاں طارق محمود کے ساتھ پیش آیا وہ نواحی گائوں نواں لوگ میں سروس سٹیشن کا افتتاح کرنے گئے تو مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کر دی جس سے ان کا گن مین نعیم زخمی ہو گیا جب کہ مسلح افراد میاں طارق کو گاڑی میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کے سر کے بال مونڈھ کر انہیں نڈھال حالت میں نہر کے کنارے پھینک گئے… تاہم اس واقعہ کا الزام میاں طارق نے حکومت پر نہیں بلکہ ایک مقامی سیاسی مخالف گروپ پر عائد کیا ہے…!!!
یہ واقعہ بھی یکم جولائی ہی کو پیش آیا کہ نواز لیگ کے صوبائی صدر رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ پارٹی اجلاس میں شرکت کے لیے فیصل آباد سے لاہور آ رہے تھے کہ سکھیکی کے قریب انسداد منشیات فورس پنجاب کی خصوصی ٹیم نے ان کی گاڑی کو روک کر اس کی تلاشی لی اور پھر رانا ثناء اللہ کو گرفتار کر لیا… انسداد منشیات فورس کے ذرائع کے مطابق ان کی گاڑی سے 15 کلو گرام، ہیروئن برآمد ہوئی جس کی مالیت پندرہ کروڑ روپے سے زائد ہے۔ ان ذرائع کے مطابق رانا ثناء اللہ اپنی سیاسی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ہیروئن لاہور پہنچانے میں سہولت کار کے طور پر کام کر رہے تھے… حکومتی کار پردازان کا موقف ہے کہ حکومت کا اس گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں یہ گرفتاری خالصتاً انسدادمنشیات قانون کے مطابق کارروائی ہے، جو ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے جب کہ حزب اختلاف کے رہنما اس گرفتاری کو سیاسی وجوہ کی بناء پر انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں…!!!
رانا ثناء اللہ فیصل آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور کافی عرصہ پیشتر پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر نواز لیگ میں شامل ہوئے اور پھر یہاں شریف برادران خصوصاً میاں شہباز شریف کے سب سے زیادہ قابل اعتماد ساتھی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے… ان کی شخصیت ہمیشہ سے خاصی متنازعہ رہی ہے… خاص طور پر ان کی زبان درازی کی وجہ سے انہیں اکثر مسائل کا سامنا رہا جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب وہ پنجاب اسمبلی کے رکن تھے تو ان کی غیر ذمہ دارانہ یا بعض حلقوں کے نزدیک جراتمندانہ گفت گو کے باعث بعض نامعلوم مسلح افراد نے انہیں اغواء کر کے انہیں خوب تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے سر، بھنوئوں اور مونچھوں کے بال مونڈھ کر یعنی انہیں نشان عبرت بنا کر چھوڑ دیا گیا… بعد ازاں جب ماڈل ٹائون لاہور میں تحریک منہاج القرآن کے چودہ افراد کی ہلاکت اور تقریباً سو افراد کے شدید زخمی کئے جانے کا واقعہ پیش آیا تو تو رانا ثناء اللہ شہباز شریف کابینہ میں وزیر داخلہ تھے، چنانچہ ماڈل ٹائون کے واقعہ کی براہ راست ذمے داری ان پر ہی عائد کی گئی اور جب دبائو زیادہ بڑھا تو میاں شہباز شریف کو انہیں اپنی کابینہ سے فارغ کرنا پڑا تاہم کچھ وقت گزرنے کے بعد انہیں دوبارہ کابینہ میں شامل کر لیا گیا وہ شہباز کابینہ کے واحد با اختیار وزیر کہے جاتے تھے جب کہ دیگر ارکان کابینہ میں سے تو کئی ایسے تھے جن کو کئی کئی ماہ تک میاں شہباز شریف سے ملاقات کا وقت نہیں دیتے تھے… جب نواز لیگ قیادت کا بحران پیدا ہوا اور میاں شہباز شریف صوبائی صدارت سے مرکزی صدارت کے منصب پر پہنچ گئے تو طویل عرصہ تک صوبائی صدر کا عہدہ خالی رکھنے کے بعد آخر میاں شہباز شریف نے بہت سے سنیٹر رہنمائوں کو نظر انداز کر کے پنجاب کے صدر کے طور پر رانا ثناء اللہ پر اعتماد کا اظہار کیا…!!!
پارٹی بلکہ فیصل آباد میں بھی ان کی شخصیت خاصی متنازع رہی اور سابق وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی کے والد شیر علی خاں جو شریف خاندان کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں، بھرے جلسوں میں رانا ثناء اللہ پر 22 افراد کے قتل اور دیگر بہت سے الزامات عائد کرتے رہے تاہم میاں شہازب شریف نے اس سب کے باوجود رانا ثناء اللہ پر ہمیشہ اپنے بھر پور اعتماد کا اظہار کیا …!!!
اپنی حالیہ گرفتاری سے قبل رانا ثناء اللہ ایک سے زائد بار مختلف ٹیلی ویژن پروگراموں میں یہ اعلان کر چکے تھے۔ کہ حکومت انہیں بہرحال گرفتار کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اسی فیصلے پر کسی بھی وقت عمل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ یکم جولائی کی دوپہر اس فیصلے پر عمل ہو گیا… لیگی ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ حکومت کے کارپردازان نے پہلے نیب سے راناء ثناء اللہ کو گرفتار کرنے کے لیے کہا مگر نیب کی طرف سے جواب دیا گیا کہ ہمارے پاس ان کے خلاف کوئی کیس نہیں… پھر یہی کام کرنے کے لیے ایف آئی اے سے رابطہ کیا گیا مگر وہاں سے بھی یہی جواب ملا اور آخری حربے کے طور پر انسداد منشیات فورس‘‘ کو روبہ عمل لایا گیا…!!!
دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ آج پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، ان کے والد محترم شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پارٹی کے اکثر دیگر رہنما رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کو سیاسی مقاصد کے لیے اور انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں جب کہ ماضی قریب میں یہ سب رہنما بھرے جلسوں میں رانا ثناء اللہ پر کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات اور روابط کے الزامات تسلسل سے عائد کرتے رہے ہیں اور انہیں گرفتار کر کے ان سے ان روابط اور ان تنظیموں کی جانب سے فنڈنگ کی تحقیق اور تفتیش کے مطالبات کرتے نہیں تھکتے تھے…