بھارت امریکہ اتحاد، چین اور پاکستان کے لیے نئے خطرات

وزیراعظم نریندر مودی کی کامیابی کے بعد سے جہاں بھارت میں ہندوانتہا پسندوں کے حوصلے بلند ہوئے اور دیش کو حقیقی ہندو ریاست بنانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں، وہیں دنیا بھر کے پاکستان و مسلم مخالف انتہا پسند اور قدامت پسند عناصر بھی ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ فلسفے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ یہ نعرہ انتخابی نتائج کے اعلان کے فوراً بعد بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ نے بلند کیا تھا۔ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ ہندوئوں کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ جب پوری قوم اپنے نظامِ حکمرانی کو مذہی عقیدے کے مطابق ترتیب دینے کے لیے پُرعزم ہوگئی ہے، اور اب ہندو ریاست کے فلسفے کو عوام کی قانونی حمایت حاصل ہے۔
مغرب ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھتا ہے، اور وہاں مودی جی کے قدامت پسند مسلم مخالف سیاسی فلسفے کی بھرپور عوامی توثیق پر مغرب کا دایاں بازو بے حد پُرجوش ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیل کے بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور جرمنی کے نسل پرستوں کے خیال میں ایک عالمی نظریاتی اتحاد کی تشکیل کے لیے یہ انتہائی مناسب وقت ہے۔
امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تجارتی و عسکری تعاون برسوں پرانا ہے۔ واشنگٹن اور دہلی کی حالیہ قربت کا آغا اوباما دور میں ہوا جب سابق امریکی صدر نے ہندوستان کو مرکزی دفاعی شراکت داری کا درجہ دے دیا۔ اس اعلان کے بعد واشنگٹن نے نئی دہلی کے ساتھ سول نیوکلیائی معاہدہ کیا۔ اس بندوبست کے تحت ہندوستان اور امریکہ مل کر جوہری ایندھن کے لیے نئی منڈیاں تلاش کررہے ہیں۔
ہند امریکہ تعلقات کی بنیادی وجہ بحرالکاہل میں چین کا بڑھتا ہوا عسکری اثررسوخ ہے، جس سے امریکہ اور اُس کے ایشیائی اتحادیوں کے ساتھ ہندوستان بھی خوفزدہ ہے۔ دوسری طرف ایک ارب سے زیادہ صارفین پر مشتمل منڈی پر دنیا بھر کے زرداروں کی رال ٹپک رہی ہے۔ کرپشن و بدعنوانی، مذہبی کشیدگی، مختلف علاقوں میں علیحدگی کی تحریکوں اور بدامنی کے باوجود سیاسی استحکام اور تعلیم یافتہ افرادی قوت کی بنا پر ہندوستان سرمایہ کاروں کے لیے ایک پُرکشش ملک ہے۔
صدر ٹرمپ خود کو مودی جی کا نظریاتی حلیف سمجھتے ہیں، اور ان کے حکومت میں آنے کے بعد سے دونوں ممالک کا باہمی تعاون نئی بلندیوں پرنظر آرہا ہے۔ اگست 2017ء میں صدر ٹرمپ نے افغانستان میں اپنی حکمت عملی کو جنوب ایشیا پالیسی کا حصہ قرار دیا، جس کے تحت بھارت کو افغانستان میں امریکہ کے سیاسی و عسکری اتحادی کا مقام حاصل ہوگیا ہے۔
گزشتہ سال سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعلقات کو مربوط بنانے کے لیے2 Dialogue+2 کے عنوان سے دونوں ملکوں کی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ دفاع کی مشترکہ بین الوزارتی کمیٹی بنائی گئی، جس کا ہر تین ماہ بعد اجلاس ہوتا ہے۔ ان اجلاسوں میں دوسرے معاملات کے ساتھ دہشت گردی کے حوالے سے ہندوستان کو لاحق خطرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت ہر تین ماہ بعد پاکستان کے خلاف الزامات کی نئی فہرست امریکہ کے حوالے کردیتا ہے۔ بحرالکاہل و بحرہند کی چار ہم خیال جمہوریتوں پر مشتمل ایک Quad Dialogue Indo- Pacificکی صورت میں امریکہ نے جاپان اور آسٹریلیا کو بھی ہندوستان کی پشت پر لاکھڑا کیا ہے۔
تجارتی و اقتصادی حجم کی بنا پر ہندوستان امریکہ کو مطلوبہ مدد فراہم کرنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتا ہے بلکہ چین اور پاکستان سے مقابلے کے لیے وہ چچا سام سے اتحاد کے لیے پُرجوش بھی ہے، یعنی ’اس طرف ہے گرم خوں اور ان کو عاشق کی تلاش‘ والا معاملہ ہے۔ اس سے پہلے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو امریکی بائیکاٹ سے استثنیٰ دے کر واشنگٹن ہندوستان پر اپنی خصوصی عنایات کا اظہار کرچکا ہے۔ یہ بندرگاہ ہندوستانی مصنوعات افغانستان اور وہاں سے وسط ایشیا پہنچانے کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ مسلم دشمن بیانیے کے نظریاتی سیمنٹ نے دہلی واشنگٹن اقتصادی و عسکری اتحاد کو مزید پختہ کردیا ہے۔
چین امریکہ تجارتی جنگ میں شدت آنے کے بعد سے دہلی اور واشنگٹن کے تعلقات میں مزید گرم جوشی نظر آرہی ہے۔ 12 جون کو واشنگٹن میں امریکہ بھارت بزنس کونسل کی India Idea Summit سے اپنے کلیدی خطاب میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے ہندامریکہ تعاون کی نئی جہتوں کا اعلان کیا۔ بھارت امریکہ بزنس کونسل کی India Ideas Summit میں دونوں ملکوں کی کارپوریٹ قیادت شریک ہوئی۔
اپنی تقریر میں امریکی وزیر خارجہ نے امریکی منڈی کو بھارتی مصنوعات کے لیے ترجیحی بنیاد پر کھولنے کا عندیہ دیا۔ کسٹم کی اصطلاح میں اسے Generalized System of Preference یا GSPکہا جاتا ہے۔ اس سال مارچ میں صدر ٹرمپ نے ہندوستان کے لیے GSPکو یہ کہہ کر معطل کردیا تھا کہ ہند امریکہ تجارت کا پلڑا ہندوستان کے حق میں بہت زیادہ جھکا ہوا ہے اور بھارت کی سستی مصنوعات سے امریکی صنعت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ لیکن مائیک پومپیو کی تقریر سے اندازہ ہوا کہ چین سے مقابلے کے لیے امریکہ فوجی تعاون کے ساتھ ایشیا میں مضبوط صنعتی اتحاد تعمیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اپنے خطاب میں مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکہ ہندوستان سے تجارتی تنازعات بات چیت کے ذریعے دور کرنے کا خواہش مند ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہندوستانی دوست امریکی کارپویشنوں اور مصنوعات کے لیے اپنے دروازے کھول دیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو امریکہ ہندوسانی مصنوعات کے لیے اپنی بانہیں وا کرنے کو پہلے ہی سے تیار ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دوستوں کے درمیان افراد اور اسباب کی آمدورفت پر قدغن کسی طور مناسب نہیں۔
مائیک پومپیو نے امریکہ اور بھارت کے درمیان غیر عسکری جوہری تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا، جس میں جوہری ایندھن کی فروخت کے لیے باہمی تعاون سرِفہرست ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے 5-G ٹیلی کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے حصول میں Huawei کا راستہ روکنے کے لیے باہمی تعاون کی پیشکش کی۔ یعنی اس چشم کشا یا Game Changer ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے ہندوستان امریکہ مشترکہ منصوبہ خارج از امکان نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ہندوستان کو پاکستان پر غیر معمولی سبقت حاصل ہوسکتی ہے۔ اسی کے ساتھ حساس معلومات (data) کی چوری روکنے کے لیے امریکہ ہندوستان کی قابلیت و صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ Data Localization اور Data Sovereignty کے عنوان سے ساری دنیا میں اس سنگین مسئلے پر کام ہورہا ہے اور امریکیوں کا خیال ہے کہ ہندوستان نے اس میدان میں خاصی پیش قدمی کی ہے۔ مائیک پومپیو نے کہا کہ ہم اپنے دوست ممالک کے درمیان دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے متعلق حساس ڈیٹا کے بے خطر بہائو کے لیے پہلے سے موجود الیکٹرانک شاہراہوں کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کام کے لیے بنگلور کے تجربے سے دونوں ملکوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہند امریکہ تعاون کا سی پیک سے موازنہ کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے اعتراف کیا کہ دو پڑوسیوں کے درمیان تعاون کے مقابلے میں سات سمندر پار اتحاد کو خاص نوعیت کے مسائل و آزمائش کا سامنا ہے۔ اسی بنا پر امریکہ5-G اور دوسری ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر موسم میں قابل استعمالCyber Highway کی تعمیر پر زور دے رہا ہے تاکہ سمندر و براعظم اتحاد کی راہ میں روڑے نہ اٹکا سکیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ بھارت کو اس کی مخصوص سیاست اور اس کے منفرد اسٹرے ٹیجک چیلنجز کے ساتھ ایک خودمختار اور اہم ملک کے طور پر عزت دیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کے لیے پاکستان اور چین کے ساتھ ڈیل کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہاکہ دہلی اور واشنگٹن کو اس تناظر میں بہت سوچ سمجھ کر تشکیل دیے جانے والے اسٹرے ٹیجک فریم ورک کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ اپنی تقریر میں امریکی وزیرخارجہ نے ’اسٹرے ٹیجک فریم ورک‘ کی تفصیل نہیں بتائی۔
مائیک پومپیو کی اس یقین دہانی پر ہال تالیوں اور جے ہند کے نعروں سے گونج اٹھا کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حوالے سے بھارتی کوشش کی حمایت جاری رکھے گا۔ دفاع کے ضمن میں جناب پومپیو نے ہندوستانی تاجروں کو مطلع کیا کہ اپاچی ہیلی کاپٹروں کی پہلی کھیپ تیار ہونے کے قریب ہے، جبکہ لاک ہیڈ مارٹن کے ایف 21 اوربوئنگ ایف/اے-18لڑاکا طیارے بہت جلد ہندوستان کے حوالے کردیے جائیں گے، جس کے بعد ہندوستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہوجائے گا۔
تجارت اور ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہوئے مائیک پومپیو پاکستان پر تبرہ پڑھنے سے باز نہ رہ سکے، اور فرمایا کہ خطے میں دہشت گردی کے لیے پاکستان کی حمایت ناقابلِ قبول ہے جس کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ نے سخت اور دوٹوک مؤقف اپنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں نریندر مودی کی زبردست کامیابی سے باہمی تعاون کے مزید بڑھنے کی قوی امید ہے، جس کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے امریکی لہجے میں ہندی الفاظ دہرائے کہ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘۔
جس وقت مائیک پومپیو امریکی و ہندوستانی تاجروں کے اجلاس میں بھارت سے قریبی تعلقات کی نوید سنا رہے تھے، تقریباً عین اسی وقت امریکہ کی نائب وزیرخارجہ محترمہ ایلس ویلز ایشیا پیسفک اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو سے متعلق کانگریس کی ذیلی کمیٹی کے روبرو امریکی حکومت کا سرکاری مؤقف پیش کررہی تھیں۔ 12 رکنی اس کمیٹی کے سربراہ ڈیموکریٹک پارٹی کے بریڈ شرمن ہیں، جبکہ شری امی بیرا روحِ رواں۔ کیلی فورنیا سے منتخب ہونے والے امی بیرا کے والدین کا تعلق ممبئی سے ہے۔ موصوف پاکستان کے سخت مخالف ہیں۔ کمیٹی میں ری پبلکن پارٹی کے رہنما ٹیڈ یوہو بھی پاکستان کو پسند نہیں کرتے۔
کمیٹی کے سامنے اپنے تحریری بیان میں ایلس ویلز نے یقین دلایا کہ آئی ایم ایف بنیادی تبدیلیاں کرائے بغیر پاکستان کو قرضہ نہیں دے گا۔ ان کے بیان میں یہ وضاحت موجود نہیں تھی کہ بنیادی تبدیلی سے ان کی کیا مراد ہے، تاہم تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ زرمبادلہ پر پابندیوں کا خاتمہ، FATFکی سفارشات پر اُن کی روح کے ساتھ مکمل و غیر مشروط عمل درآمد، انتہا پسندی کا خاتمہ اور کالعدم تنطیموں کے خلاف کارروائی شامل ہے۔
انھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات مالی امداد سے ہٹ کر اب تجارتی تعلقات کی طرف بڑھ رہے ہیں، یعنی ہندوستان کی طرح پاک امریکہ تعلقات بھی کثیرجہتی شکل اختیار کررہے ہیں، تاہم پاکستان پر واضح کردیا گیا ہے کہ جیشِ محمد جیسی دہشت گرد تنظیموں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
کمیٹی کے ارکان کی جانب سے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے امریکہ کا سب سے بڑا مالی تعاون بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ذریعے اسے دیا جانے والا 6 ارب ڈالر کا پیکیج ہے جو امریکی تعاون کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔ ایلس ویلز نے ارکان کو یقین دلایا کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ہر نشست میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا معاملہ اٹھایا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات علاقے کے استحکام کے لیے بہت ضروری ہیں اور ہم اسلام آباد کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس کا اصل دشمن بھارت نہیں بلکہ ملک میں سرگرم دہشت گرد تنظیمیں ہیں، اور بھارت سے اچھے تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں۔
سماعت کے دوران امریکہ کے مالی سال 2020ء کے بجٹ میں جنوبی ایشیا کے لیے مالی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے ایلس ویلز نے بتایا کہ پاکستان کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اقتصادی تعاون کی مد میں 7کروڑ ڈالر مختص کرنے کی تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔ انھوں نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ یہ امداد انسداد دہشت گردی کے لیے ٹھوس کوششوں سے مشروط ہوگی۔ اس موقع پر بقراطی جھاڑتے ہوئے کمیٹی کے چیئرمین بریڈ شرمن نے نکتہ اٹھایا کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کا قرضہ واپس نہ کرسکا تو اس سے امریکہ کے ٹیکس دہندگان کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔
جون کے اختتام پر G-20سربراہ کانفرنس سے پہلے جناب پومپیو نے ہندوستان کا دورہ کیا جہاں اور باتوں کے علاوہ India Idea summitکی سفارشات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر امریکی وزیرخارجہ صدر ٹرمپ کا وزیراعظم مودی کے نام ایک خط بھی لائے تھے جس کی پیشانی پر صدر ٹرمپ نے اپنے ہاتھ سے I Love India لکھا تھا۔ دوسری طرف واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے مشیر اقتصادیات لیری کڈلو نے کہا کہ صدر ٹرمپ ہندوستان کی جانب سے امریکی مصنوعات پر قدغنوں سے خوش نہیں، لیکن وہ بے حد پُرامید ہیں کہ دہلی نے مائیک پومپیو کو اُن کے حالیہ دورے میں جو یقین دہانیاں کروائی ہیں ان کی پاسداری کی جائے گی۔گویا صدر ٹرمپ امریکی منڈیوں کو ہندوستانی مصنوعات کے لیے چوپٹ کھول دینے پر اب تک رضامند نہیں ہوئے، لیکن دفاعی تعاون کے معاملے میں ان دونوں ملکوں کے درمیان مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔
اپنے ہندوستانی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر سے تفصیلی مذاکرات کے بعد امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ دفاع، تیل و گیس، جوہری توانائی اور خلائی تحقیق کے میدان میں امریکہ اور ہندوستان کئی منصوبوں پر مل کر کام کررہے ہیں۔ امریکہ کے وزیرتوانائی رک پیری (Rick Perry) نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکی کمپنی Westinghouse Energy آندھرا پردیش میں 6 جوہری ری ایکٹر تعمیر کرے گی۔ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ Westinghouseنے حال ہی میں Bankruptcyکی وفاقی عدالت میں دیوالیہ ہونے کی درخواست کی ہے، لیکن وزیرتوانائی کو توقع ہے کہ ہندوستان میں کام کی تکمیل کیلیے امریکی حکومت Westinghouseکے حق میں ضمانت دینے کو تیار ہوجائے گی۔ آندھرا پردیش کے پلانٹ بظاہر غیرعسکری نوعیت کے بجلی گھر کو ایندھن فراہم کریں گے، لیکن یہاں افزود کیا جانے والا یورینیم اسلحہ کی تیاری میں بھی کام آسکتا ہے۔
اسی کے ساتھ امریکہ کی تیل کمپنیاں بھارت کو پُرکشش شرائط پر LNG فروخت کرنے کی خواہش مند ہیں، اور بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات میں مائیک پومپیو نے توقع ظاہر کی کہ امریکی کمپنیوں سے معاہدے کے بعد بھارت کو ایران یا وینزویلا سے تیل وگیس اور پیٹرولیم مصنوعات خریدنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ خلائی تحقیق کے میدان میں دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعاون ایک عرصے سے جاری ہے۔ خلائی تحقیق کے امریکی ادارے NASA اور Indian Space Research Organization یا ISROکی مشترکہ رصدگاہ نے کام شروع کردیا ہے۔ حال ہی میں NASAاور ISRO نے چاند کی جانب ایک مشترکہ مشن بھی روانہ کیا ہے۔
امریکہ ایک عرصے سے خلائی ٹیکنالوجی کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور یونائیٹڈ اسٹیٹس اسپیس فورس یا USSFکے نام سے امریکی فضائیہ کا ایک علیحدہ شعبہ تشکیل دیا جارہا ہے جو 2024ء میں 15000افراد پر مشتمل ہوگا۔ USSFکے اہداف میں تباہ کن جوہری ہتھیاروں کو خلا میں ذخیرہ کرنے اور حملوں کے لیے خلائی لانچرز کی تعمیر شامل ہے۔ خیال ہے کہ ہندوستان کی ISRO ان امور پر تحقیقات میں USSFکے ساتھ مل کر کام کرے گی۔
ہندوستان سے G-20اجلاس میں جاپان جاتے ہوئے مائیک پومپیو سری لنکا بھی ٹھیرے۔ ایسٹر تہوار کے دن کولمبو کے گرجا گھروں پر دہشت گرد حملوں کے بعد سے سری لنکا بھی اسلام فوبیا کی لپیٹ میں ہے۔ اسی بنا پر کولمبو اور دہلی میں قربت بڑھتی نظر آرہی ہے۔ سری لنکا اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی بہت اہم ہے، کہ یہاں سے آبنائے ملاکا پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ ملائشیا اور انڈونیشیا کے درمیان یہ تنگ سی آبی راہ داری بحرہند کو بحرالکاہل سے ملاتی ہے۔
واشنگٹن میں امریکہ بھارت بزنس کونسل کے اجلاس اور اس کے بعد دہلی میں قریبی تجارتی و عسکری تعاون پر بات چیت کا سلسلہ جاپان میں ہونے والےG-20 سربراہی اجلاس کے دوران بھی جاری رہا، جہاں صد ٹرمپ، وزیراعظم مودی اور ان کے جاپانی ہم منصب شنزو ایبے نے کانفرنس سے پہلے تفصیلی مذاکرات میں بحرہند، خلیج بنگال اور بحرالکاہل کی نگہبانی کے لیے مؤثر نظام کی تشکیل پر غور کیا۔ اس دوران تجارتی امور بھی زیربحث آئے۔ نامہ نگاروں کے مطابق باہمی تجارت کے باب میں صدر ٹرمپ ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے نعرے پر قائم رہے، لیکن صدر ٹرمپ کی گفتگو سے کچھ ایسا تاثر ابھرا کہ ایران سے تیل کی خریداری کے معاملے میں ہندوستان کو رعایت بھی خارج از امکان نہیں۔ امریکی خفیہ اداروں کا خیال ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران چین، جاپان اور ہندوستان کو انتہائی پُرکشش قیمتوں پر تیل فروخت کررہا ہے اور ادائیگی کے لیے تیسرے ملک میں تعینات ایجنٹوں کی مدد حاصل کی جارہی ہے۔ امریکی نامہ نگاروں کے مطابق سہ فریقی ملاقات میں صدر ٹرمپ نے اس بندوبست پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران بائیکاٹ ناکام بنانے کی کوششیں امریکہ کے لیے قابلِ قبول نہیں، اور پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔ اس موقع پر مودی جی نے کہا کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی لاگت سے ہندوستانی صنعت کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جس سے امریکہ کے اس اہم اتحادی کی دفاعی استعداد بھی متاثر ہوگی۔ اس معاملے کے سیاسی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے نریندر مودی نے افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے تناظر میں دہلی تہران تعلقات کی اہمیت بھی واضح کی۔ ہندوستانی وزیراعظم نے کہا کہ طالبان نے ایران سے اپنے تعلقات خاصے بہتر کرلیے ہیں اور اس موقع پر ہندوستان ایران قریبی تعلقات افغانستان میں استحکام کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ ہندوستانی وزارتِ خارجہ پُرامید ہے کہ ایران سے تیل کی خریداری کے لیے ہندوستان کو استثنیٰ مل جائے گا۔
امریکہ اور ہندوستان دونوں کا کہنا ہے کہ ان کا باہمی تعاون کسی ملک کے خلاف نہیں، اور امریکی حکام اس ضمن میں پاکستان کو اپنے اخلاص کی یقین دہانی کراتے چلے آئے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے طرزِعمل اور صدر ٹرمپ کے مسلم و پاکستان مخالف بیانیے سے ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ہند اتحاد کا نشانہ چین کے ساتھ پاکستان بھی ہے۔ بدقسمتی سے دہلی اور واشنگٹن کے درمیان قربتوں میں اضافہ عین اُس وقت ہورہا ہے جب پاکستان میں آئی ایم ایف اور امریکہ کے تنخواہ دار حساس و کلیدی مناصب پر براجمان ہیں۔

………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

Leave a Reply