مولانا مجیب اللہ ندوی
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ دن کا خطا کار توبہ کر لے اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات کا گناہ گار توبہ کر لے۔ اور اس کی یہ رحمت و مغفرت اس وقت تک ہے جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے۔‘‘
بندے کے اپنے مقام کے لحاظ سے یہ بات انتہائی غلط ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے اور اسی لیے بندے کی نافرمانی اللہ کو مبغوض اور سخت مبغوض ہے، اس کے باوجود نہ تو اللہ انسان پر اس کی نافرمانی کے نتیجہ میں فوری طور پر کوئی عذاب نازل کرتا ہے اور نہ ایسا ہوتا ہے کہ نافرمانیوں کے بعد اس کو اپنے در سے ہمیشہ کے لیے دھتکار دے۔ وہ عزیزِ مقتدر ہونے کے ساتھ ساتھ رئوف و رحیم بھی ہے اور اس کی رحمت اس کی تمام صفات پر غالب ہے۔ اس لیے وہ انسان کی سرکشی کی بنا پر اس پر فوراً اپنا غضب نازل کرنے کے بجائے اسے اس بات کا زیادہ سے زیادہ موقع دیتا ہے کہ وہ اس کے غضب کے بجائے اس کی رحمت و عنایت کا مستحق ہو سکے۔ چنانچہ بندہ جس دم بھی اپنی غلط روی پر نادم ہو کر اللہ کی طرف پلٹتا اور اپنی روش سے باز آکر اللہ سے توبہ کرت اہے تو اللہ اسی دم اس کی غلطی کو معاف فرما کر اسے اپنی رحمت سے نوازتا ہے اور اپنے غضب کو دور فرما کر اس سے خوش ہو جاتا ہے۔ اس حقیقت کو حدیث میں ان پیارے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اللہ رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ دن کا خطا کار توبہ کر لے اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات کا گناہ گار توبہ کر لے۔‘‘ گویا نافرمانی ہو جانے کے بعد اللہ بندے سے منہ پھیر لینے کے بجائے اس سے اس بات کا طالب ہوتا ہے کہ وہ اس کی طرف پلٹ آئے اور اس کی کھوئی ہوئی رحمت کو پھر سے حاصل کر لے۔ اللہ اکبر! انسان کی یہ سرکشی کہ وہ اپنے خالق و مالک اور منعم حقیقی کی نافرمانی کرے اور کرتا چلا جائے اور مالک کی یہ عنایت کہ اس کی ان حرکتوں کے باوجود اس کی طرف اپنی رحمت و مغفرت کا ہاتھ بڑھائے اور اس کی توبہ قبول کرنے کے لیے ہمہ دم تیار رہے!!
’’اللہ اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے‘‘ اس کا مطلب جہاں یہ ہے کہ انسان توبہ کر کے دراصل اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہے یعنی اس سے عہد بندگی کی تجدید کرتا ہے اور اپنے آپ کو پھر بالکلیہ اس کے سپرد کرتا ہے، وہاں اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انسان توبہ کر کے اللہ کی رحمت اور اس کے قرب کو بلکہ درحقیقت خود اس کو پا لیتا ہے۔ توبہ کا کتنا عظیم مقام ہے یہ! ایک حقیر خطا کار بندے کو آخر اور کیا چاہیے؟
’’اور اس کی یہ رحمت و مغفرت اس وقت تک ہے جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے۔‘‘ یعنی نوع انسانی کو اس نے یہ مہلت اس وقت تک دے رکھی ہے جب تک قیامت کے آثار کھلم کھلا ظاہر ہونے لگیں، قیامت کے بالکل قریب سورج مغرب سے طلوع ہو گا اور اس وقت نوعِ انسانی کی مہلتِ امتحان ختم ہو جائے گی اور درِ توبہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔