’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو‘‘۔
(محمد47:33)
باَلفاظِ دیگر اعمال کے نافع اور نتیجہ خیز ہونے کا سارا انحصار اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہے۔ اطاعت سے منحرف ہوجانے کے بعد کوئی عمل بھی عملِ خیر نہیں رہتا کہ آدمی اس پر کوئی اجر پانے کا مستحق ہوسکے۔
(تفہیم القرآن، پنجم، ص30، محمد، حاشیہ40)
]سورۃ النساء میں اس کی مزید وضاحت کی گئی ہے[
’’ اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو‘‘۔
(النسا:4:59)
یہ آیت اسلام کے پورے مذہبی، تمدنی اور سیاسی نظام کی بنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اوّلین دفعہ ہے۔ اس میں حسبِ ذیل اصول مستقل طور پر قائم کردیئے گئے ہیں:
اسلامی نظام میں اصل مُطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندۂِ خدا ہے، باقی جو کچھ بھی ہے اس کے بعد ہے۔ مسلمان کی انفرادی زندگی اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام، دونوں کا مرکز و محور خدا کی فرماں برداری اور وفاداری ہے۔ دوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مدمقابل نہ ہوں بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں۔ ورنہ ہر وہ حلقہ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف ہو۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:’’خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے‘‘۔
اسلامی نظام کی دوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے۔ یہ کوئی مستقل بالذات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعتِ خدا کی واحد عملی صورت ہے۔ رسول اس لیے مُطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقے سے کرسکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں۔ کوئی اطاعتِ خدا رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے، اور رسول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ: جس نے میری اطاعت کی اُس نے خدا کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے خدا کی نافرمانی کی۔