[پروفیسر عبدالجبار شاکر]
حجۃ الاسلام، زین الدین ابو حامد محمد ابن محمد الطوسی الشافعی عالمِ اسلام کے سب سے بدیع الخیال مفکر اور فلسفی ہیں۔ وہ طوس میں 450ھ/ 1058ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں طوس میں، پھر نیشا پور میں تعلیم حاصل کی۔ یہاں امام الحرمین ابوالمعالی عبدالملک جوینی کے حلقۂ درس میں شرکت کی۔ یہاں پر صوفیانہ ماحول میں رہنے کے باوجود باقاعدہ صوفی نہ بنے، بلکہ فقہی موشگافیوں کی طرف توجہ زیادہ تھی۔ نیشاپور سے وہ سلجوقی وزیر نظام الملک کے دربار میں پہنچے اور 484ھ تک علما اور فقہا کی اس جماعت میں شریک رہے، جو وزیر موصوف کی خدمت میں حاضر رہتی تھی۔ نظام الملک نے ان کی آمدکی بہت قدردانی کی اور انہیںمدرسہ نظامیہ بغداد میں معلم و مدرس کی حیثیت سے فائز کیا۔ چار سال کی قلیل مدت میں آپ کی تدریس کا شہرہ عام ہوگیا۔ تین سو علما اور فضلا بھی ان کی مجلسِ درس میں شریک ہوتے اور اکتسابِ فیض کرتے تھے۔ 483ھ سے 487ھ تک وہ اپنے زمانے کے مختلف مذاہب اور فلسفے کا بڑی محنت اور انہماک سے مطالعہ کرتے رہے۔ اسی دور میں ان میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہوا۔ تدریس اور دنیوی امور سے منقطع ہوکر مکہ مکرمہ چلے آئے۔ یہاں سے شام پہنچے اور جامع دمشق میں اعتکاف بیٹھے۔ کچھ عرصے بعد بیت المقدس سے ہوتے ہوئے مصر پہنچے۔ وہاں سے خراسان اور پھر طوس میں آگئے اور نو سال تک گوشہ نشین رہے۔ اسی دور میں انہوں نے اپنے گراں بہا علمی آثار اور تصنیف و تالیف کا کام شروع کیا۔ فلسفۂ اسلامی میں شاید یہ آخری موقع تھا کہ یونانی جدلیات کی مختلف شکلیں امام موصوف کی بدولت فکرِ اسلامی میں داخل ہوئیں، گویا جس کام کا آغاز الاشعری نے نیم شعوری طور پر کیا تھا، غزالی نے اسے انتہائی دانش مندی کے ساتھ انجام تک پہنچا دیا۔ ان کا فلسفیانہ امتیازیہ ہے کہ انہوں نے یونانی جدلیات کی شکلوں سے کام لیتے ہوئے مدرکات و محسوسات پر مبنی نظام کی بنیاد رکھی۔ غزالی اس دور میں گوشہ نشیں تھے، مگر فخرالملک کی طرف سے نظامیہ نیشاپور کے مدرسے میں تدریس کی دعوت قبول کرلی، یوں 499ھ میں طوس سے نیشاپور منتقل ہوگئے۔ چار سال تک یہاں خدمات انجام دینے کے بعد 503ھ میں پھر طوس واپس چلے آئے اور اپنے چند مریدوں کے ساتھ گوشہ نشیں رہے، اور یہیں پر ایک مدرسے اور خانقاہ کی نگرانی کرتے تھے۔ فلسفہ اسلامی کا یہ آفتاب 14 جمادی الثانی 505ھ 19/ دسمبر 1111ء کو غروب ہوگیا۔
غزالی نے حیل فقہی پر کاری ضرب لگائی اور انہیں دین کا جزو ماننے سے انکار کردیا۔ یہی سلوک غزالی نے کلام کی عقلی موشگافیوں سے بھی کیا۔ ان کی یہ دینی اصلاحات بربنائے اجماع تسلیم کرلی گئیں، جس کے باعث وہ اپنے عہد کے مجدد اور احیائے دین کے امام قرار پائے۔ غزالی نے فلسفہ میں اجتہادی، تنقیدی اور فکری کام کیا اور اسلامی الٰہیات میں ایک تجدیدی کارنامہ انجام دیا۔ انہوں نے فلسفہ و کلام کو، جو مذہبی اصطلاحات اور دائرۂ شریعت سے بغاوت کررہا تھا، ازسرِ نو کتاب و سنت کے ساتھ باندھ دیا، اور یوں یونانی فلسفہ و تصوف کی مضرت رسانیوں کے سامنے ایک مضبوط بند باندھ دیا۔ ان کے علمی آثار اور تصانیف 130 کے قریب ہیں، جن میں کیمیائے سعادت اور نصیحۃ الملوک فارسی زبان میں لکھی گئی ہیں۔ آپ کی اہم عربی تصانیف میں احیائے علوم الدین، مقاصد الفلاسفہ، تہافۃ الفلاسفہ، الاقتصد فی الاعتقاد، جواہر القرآن، منہاج العابدین اور المنقذ من الضلال زیادہ معروف ہیں۔