میرا بنیادی رجحان اور پسندیدہ موضوع تو شاعری اور مذہب کا مطالعہ ہی ہے—- ساری اردو شاعری اور تمام بڑی فارسی شاعری، کچھ عالمی شاعری۔ لیکن میری شخصیت و فکر پر جو اثرات ہیں وہ دینی لحاظ سے مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ہیں۔ مولانا مودودی صاحب کو اس زمانے میں اس لیے بہت زیادہ پڑھا کہ سلیم احمد کی رائے ان کے بارے میں بہت اچھی تھی۔
مولانا مودودی صاحب کی کتابوں میں ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ اہم ترین اور بنیادی کتاب ہے جس میں ان کی پوری فکر اور تصورِ دین سمجھ میں آجاتا ہے۔ ان کا ”تفہیمات“ کا جو سلسلہ ہے اس کا مجھ پر بہت زیادہ اثر ہوا کیونکہ اس میں بہت سے مسائل میری دلچسپی کے تھے جس پر وہ جواب لکھتے تھے۔ ایک اور اہم ترین کتاب ”سنت کی آئینی حیثیت“ ہے جو شاید اُس وقت کتابی شکل میں نہیں تھی، بلکہ ڈاکٹر عبدالودود کے ساتھ ان کا مکالمہ چل رہا تھا اور رسائل میں چھپ رہا تھا۔ اس سے میں بہت متاثر ہوا۔ ان سے متاثر ہونے کا ایک دینی جذبہ تھا لیکن دوسرا سبب یہ ہوا کہ ان کا استدلال بہت ہی قابلِ اعتبار ہے۔ اگر مودودیؒ صاحب کی دو تین نمائندہ تحریریں منتخب کی جائیں تو ”قرآن پاک کی چار بنیادی اصطلاحیں“ اس میں ضرور شامل ہوگی۔ اصل میں ان کا سب سے بنیادی کام ان کی تفسیر ہے۔ ایک کتاب جو شاید کم نظر آتی ہے، لیکن بہت اہم اور قابلِ ذکر کتاب ہے، وہ ”اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی“ ہے۔ وہ بھی میری بہت پسندیدہ کتاب ہے۔ لیکن اس زمانے میں میرے لیے تھوڑی مشکل تھی۔ یہ کتاب غالباً مولانا مودودیؒ صاحب کی سب سے مشکل کتاب ہے۔ ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“ کی اہمیت یہ ہے کہ مودودی صاحب کی ساری کتابوں کا جو نچوڑ اس میں نظر آتا ہے، وہ کسی اور میں نہیں۔ تو اگر کوئی شخص ان کی فکر کا مطالعہ کرنا چاہے تو اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس سے آغاز کرے۔
( ”میرا مطالعہ“ از عرفان احمد۔ صفحہ 15,14)