صحافی کا سوال تھا: ”جون کا مہینہ، دوپہر کا وقت اور لاہور کی آگ اُگلتی سڑکیں …… اس شدت کی گرمی میں ”عوامی مارچ“؟ کون آپ کے ساتھ نکلے گا؟“ مردِ درویش، مردِ حق، سینیٹر سراج الحق کا جواب تھا: ”ہم جس نبی محترمؐ کے پیروکار ہیں، انہوں نے اپنے جاں نثار صحابہؓ کے ہمراہ جنگِ تبوک میں اس سے بھی زیادہ شدید گرمی اور مشکل تر حالات میں دشمن کا مقابلہ کیا تھا، ہم ان کی اطاعت کا جذبہ لیے، ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی نیت کے ساتھ میدان میں نکلیں گے……“ اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ 16 جون کا دن …… کڑکتی دوپہر، دن گیارہ، بارہ بجے کا وقت، تپتی شاہراہ قائداعظم پر دین کے یہ پروانے، سراج الحق کی قیادت میں مسجدِ شہداء چوک سے نعرے لگاتے، پرچم لہراتے، لہو گرماتے، بینر اور کتبے تھامے فیصل چوک کی جانب ایک عزم مصمم کے ساتھ رواں دواں تھے۔ مرد ہی نہیں عفت مآب خواتین کی بھی بہت بڑی تعداد ان کے ہم رکاب تھی…… جوان ہی نہیں، بچے اور بوڑھے بھی پُرجوش اور سربکف تھے۔ سینیٹر سراج الحق کے ہمراہ سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی امیرالعظیم، نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، عبدالغفار عزیز، سیکریٹری جنرل وسطی پنجاب مولانا جاوید قصوری، امیر ضلع لاہور ڈاکٹر ذکر اللہ مجاہد، نائب امراء لاہور ضیاء الدین انصاری، ملک شاہد اسلم، قائم مقام جنرل سیکریٹری لاہور چودھری محمود الاحد، صدر الخدمت فاؤنڈیشن لاہور عبدالعزیز عابد، جے آئی کسان لاہور کے صدر میاں رشید، صدر جے آئی یوتھ لاہور صہیب شریف ودیگر قائدین کی بڑی تعداد نے مارچ کی قیادت کی۔
فیصل چوک کے قریب پہنچ کر مارچ کے آگے آگے چلنے والے ٹرک کو بغیر کسی سائبان کے اسٹیج کی شکل دے دی گئی، جب کہ جھلسا دینے والی اس گرمی میں ننگی شاہراہ قائداعظم کو بغیر کسی کرسی اور قنات کے جلسہ گاہ قرار دے کر تلاوتِ کلام پاک سے کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ لاہور جماعت کے قائم مقام جنرل سیکریٹری محمود الاحد میزبانی کے فرائض ادا کررہے تھے۔ تلاوت کے بعد حافظ لئیق احمد نے ترانہ ”مہنگائی مار گئی“ سے دلوں کو گرمایا، اور پھر جماعت کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اور سیکریٹری جنرل امیرالعظیم نے دو دو منٹ کے نہایت مختصر خطاب کیے۔ لاہور جماعت کے جواں عمر امیر ڈاکٹر ذکر اللہ مجاہد نے امیر جماعت سینیٹر سراج الحق کی پکار پر لبیک کہنے والے لاہور کے زندہ دل خواتین و حضرات کا شکریہ بھی ادا کیا اور انہیں خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے غریب و بے بس اور بے کس عوام کے مسائل صرف اور صرف جماعت اسلامی ہی حل کرسکتی ہے، اور یہ صرف زبانی دعوے نہیں، جماعت کے قائدین سراج الحق، عنایت اللہ خاں اور نعمت اللہ خاں جیسے لوگوں نے وزارتوں، نظامتوں اور عہدوں پر رہ کر ثابت کیا ہے کہ وہ امانت و دیانت کے ساتھ خدا خوفی کے جذبے سے اہلِ وطن کی خدمت کرسکتے ہیں، وہ اپنی تجوریاں نہیں بھرتے بلکہ اپنے رب کی رضا کی خاطر نیک نیتی سے خدمت کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم نے لوٹ مار کرنے والوں کو بار بار آزمایا جنہوں نے تمام ادارے تباہ کردیے اور ملک کے بچے بچے کو مقروض کردیا۔ اب قوم کے پاس مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، بے حیائی اور دیگر تمام مسائل سے نجات کے لیے جماعت اسلامی کی باصلاحیت، امین اور دیانت دار قیات کو موقع دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ ڈاکٹر ذکر اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ وہ محض اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بن رہے بلکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ اگر بدعنوانی اور بددیانتی پر احتساب کیا گیا تو سراج الحق کے سوا کوئی لیڈر نہیں بچے گا۔
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق سے قبل حافظ لئیق احمد نے ایک بار پھر ترانے سے حاضرین کے جذبات کو مہمیز دی ؎
ظالم سے ٹکرا سکتی ہے، ظلم کا دور مٹا سکتی ہے
جو تبدیلی لا سکتی ہے، صرف جماعت اسلامی ہے
میزبان محمود الاحد نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو خطاب کی دعوت دی تو شاہراہ قائداعظم فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی…… ”مردِ مومن مردِ حق…… سراج الحق، سراج الحق“ کی صداؤں کے مابین سینیٹر سراج الحق نے اپنے خطاب کا آغاز کیا، حمد و ثنا اور درود و سلام کے بعد انہوں نے قرآن حکیم کی اس آیت کی تلاوت سے بات شروع کی جس کا ترجمہ شاعر نے ان الفاظ میں کیا ہے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
سینیٹر سراج الحق نے مہنگائی، بے روزگاری، ظلم و جبر، کرپشن، عالمی بینک و آئی ایم ایف کی غلامی اور حکومت کے ظالمانہ بجٹ کے خلاف میدان میں نکل کر جدوجہد کرنے پر جماعت اسلامی لاہور کی قیادت اور کارکنان کو شاباش بھی دی اور سلام بھی پیش کیا، جو بدعنوانی کے الزام میں کسی لیڈر کی گرفتاری پر احتجاج اور اس کی رہائی کے لیے جلوس نکالنے نہیں آئے بلکہ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے عوامی مسائل کے لیے میدان میں نکلے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا پہلا مارچ ہے آخری نہیں، اس طرح کے ”عوامی مارچ“ شہر شہر اور قریہ قریہ برپا کیے جائیں گے اور ہمارا اگلا پڑاؤ اسی جون کے مہینے کی 23 تاریخ یعنی اگلے اتوار کو فیصل آباد میں ہوگا۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہم ملک و قوم کو آئی ایم ایف کی غلامی سے آزاد کرانے اور مہنگائی و بے روزگاری کی دلدل سے نکالنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ وزیراعظم سابقہ حکومتوں کے دس سال کے قرضوں کا ضرورحساب کتاب کریں مگر انہوں نے دس ماہ میں جو قرضے لیے ہیں، اس کا بھی حساب ہوناچاہیے۔ اسلام آباد کے قبرستان میں موجود بے ضمیر مُردوں کا بھی احتساب ضروری ہے۔ منتخب رکن اسمبلی اسد عمر کو وزارتِ خزانہ سے ہٹا کر آئی ایم ایف کے نمائندے کو مسلط کردیا گیاہے اور خزانے کی چابیاں بھی آئی ایم ایف کے ایجنٹ کے حوالے کردی گئی ہیں۔ سارا بجٹ سودی نظام پر مبنی ہے۔ 2828 ارب روپے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔ سود پاکستان کو کھا رہاہے اور اس کا مقصد ہی سودی قرضوں میں جکڑکر ہماری آزادی کو سلب کرنا ہے۔ وزیر سائنس غربت اور بھوک سے پریشان لوگوں کو فلمیں دکھانے کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گیارہ سو نئے سینما گھر تعمیر کریں گے۔ ایسا لگتاہے کہ حکمرانوں کے ہاں شرم نام کی کوئی چیز نہیں۔
سینیٹر سراج الحق نے مزید کہاکہ وزیراعظم نے منتخب ہونے کے بعد قوم سے وعدہ کیا تھاکہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے، لیکن اب وہ ہر بات پر یوٹرن لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے خود کشی کو بہتر قرار دیا تھا مگر اب انہوں نے ملک کا معاشی نظام اور قومی خزانہ آئی ایم ایف کے حوالے کردیاہے۔ وزیراعظم نے مدینہ کی اسلامی ریاست کی بات کی تھی، اب وہ نہ صرف اس عظیم اسلامی ریاست بلکہ صحابہ کرام ؓ کی اہانت سے بھی نعوذباللہ نہیں چوکتے۔ حکومت نے حج و عمرہ مہنگا کرکے بیت اللہ اور مسجد نبویؐ کی زیارت کو مشکل بنادیا ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ حکومت کرنا کون سا مشکل ہے! اگر انہیں عوام کی پریشانیوں، غربت اور بھوک پیاس کا احساس ہوتا تو ان کے لیے حکومت کرنا اتنا آسان نہ ہوتا۔ حکومت نے بجٹ میں اتنی مہنگائی کی ہے کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ چینی کی قیمت چار روپے کلو تک بڑھا دی گئی ہے، حالانکہ گنا اور چینی تو باہر سے نہیں آتے۔ اسی طرح سیمنٹ مہنگا کیا گیا ہے اور دوائیوں کی قیمتوں میں دو سو فیصد تک اضافہ کر دیاگیاہے۔ اب غریب روٹی کھائے یا علاج کرائے! آٹا، گھی اور دالیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ عام آدمی کے لیے سانس لینا مشکل ہوگیاہے۔ ایک طرف عوام غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں فاقوں پر مجبور ہیں اور دوسری طرف صدر صاحب کے گھر میں طوطوں کے پنجر ے کے لیے 29 لاکھ روپے کے ٹینڈر دیے جارہے ہیں۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ ہم پر پتھر دل لوگ حکمران ہیں، جماعت اسلامی حکومت کی اس بے حسی اور عوام کی بے بسی پر اب خاموش نہیں رہے گی، ہم اس ظلم و جبر کے خلاف قوم کو منظم کریں گے اور بھرپور تحریک چلائیں گے۔ ہمارے احتجاج کا مقصد عوام کی ترجمانی ہے، ہم ملک و قوم کو مہنگائی اور آئی ایم ایف سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ ہم کسی ایسے احتجاج میں نہیں جائیں گے جس کا مقصد لوگوں کو جیلوں سے چھڑانا ہے۔ ہم غریبوں، بے روزگاروں، کسانوں، مزدوروں اور محروموں کی آواز بنیں گے۔ ہم ڈرنے، دبنے اور جھکنے والے نہیں، نہ ہی کوئی ہمیں بلیک میل کرسکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا دامن صاف ہے۔
جماعت اسلامی کے نائب امیر اور ڈائریکٹر امورِ خارجہ محترم عبدالغفار عزیز کی دعا کی ساتھ یہ عوامی مارچ بخیر و خوبی تکمیل پذیر ہوا۔