جو معاشرہ اس صورت حال کو برداشت کررہا ہے اُس کے مذہب، اس کی تہذیب، اس کی اخلاقیات اور اس کے علم میں یقیناً کوئی نہ کوئی بڑا نقص پیدا ہوچکا ہے
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کی یہ عزت ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے اور ذرائع ابلاغ نے مذہب کو ’’تفریح‘‘ اور تفریح کو ’’مذہب‘‘ بنادیا ہے۔
قرآن مجید فرقانِ حمید کہتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی تو ایک دھوکا یا Smoke Screen ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر دنیا کی پوری زندگی کھیل تماشا ہے تو خود کھیل تماشے یا تفریح کا اسلامی تہذیب میں کیا مقام ہوگا! مگر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان میں مذہب صرف آئین کے صفحات میں مؤثر نظر آتا ہے جبکہ انفرادی و اجتماعی زندگی بالخصوص ریاستی زندگی میں ہر طرف سیکولرازم، لبرل ازم اور دنیا پرستی کا غلبہ ہے۔
ابلاغیات کے ممتاز ماہر ولبر شریم نے کہا ہے کہ ابلاغ کا ذریعہ ہی بجائے خود پیغام ہے۔ انگریزی میں اس کا اصل فقرہ یہ ہے:
“Medium is the message”
ہم نے اس فقرے کی تشریح کرتے ہوئے ایک بار جو کچھ عرض کیا تھا اُس کا خلاصہ یہ تھا: کتاب کا پورا نظام لفظ پر کھڑا ہوا ہے۔ ہر لفظ میں دو چیزیں ہوتی ہیں: ایک مفہوم اور ایک تاثر۔ مگر لفظ میں مفہوم بنیادی اور تاثر ثانوی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ٹیلی ویژن کا پورا نظام تصویر پر کھڑا ہوا ہے۔ تصویر میں بھی دو چیزیں ہوتی ہیں: ایک تاثر اور دوسرا مفہوم۔ مگر تصویر میں تاثر کی نوعیت بنیادی اور مفہوم کی نوعیت ثانوی ہوتی ہے۔ اس تناظر میں اسلامی تہذیب اور جدید مغربی تہذیب کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کتاب اور لفظ پر کھڑی ہوئی تہذیب ہے، اور جدید مغربی تہذیب گزشتہ سو سال سے تصویر پر کھڑی ہوئی تہذیب ہے۔
ان باتوں کا زیر بحث مسئلے سے گہرا تعلق ہے۔ اسلامی دنیا میں سینما اور ٹیلی ویژن کو قبول کرلیا گیا ہے، چنانچہ اسلامی معاشروں میں بھی ’’تاثر کا سیلاب‘‘ در آیا ہے۔ اس تناظر میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم معاشروں کے حکمران، علما، دانش ور اور سیاسی رہنما ٹیلی ویژن اور سینما کے مواد پر گہری نظر رکھتے اور اسے زیادہ سے زیادہ معنویت سے ہم کنار کرنے کی کوشش کرتے۔ مگر ہوا اس کے برعکس یہ ہے کہ ٹیلی ویژن اور سینما کے مواد پر نظر رکھنے والا اور اس کی معنویت کا تجزیہ کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کو ذرائع ابلاغ سے اُس وقت شکایت ہوتی ہے جب وہ حکمرانوں یا سیاسی رہنمائوں پر جائز یا ناجائز تنقید کرتے ہیں۔ مگر ذرائع ابلاغ ہمارے مذہب، تہذیب، ہماری تاریخ اور قوم کی اخلاقی و ثقافتی اقدار کا قیمہ بنادیں تو نہ کسی جرنیل کو غصہ آتا ہے، نہ کوئی عمران خان اور نوازشریف بھڑکتا ہے اور نہ کوئی سیاسی رہنما آگ بگولا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جسے دیکھو لمبی تان کر سورہا ہے اور گاندھی کا بندر بنا ہوا ہے۔ یعنی آنکھ، کان اور منہ بند کیے بیٹھا ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ کا ملک میں کیا حال ہوگیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ حسینہ معین جیسی ’’ترقی پسند‘‘ ڈرامہ نگار نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کا ٹیلی ڈرامہ اب خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ ممتاز اداکار طلعت حسین نے فرمایا ہے کہ ڈرامہ ہماری صنف ہی نہیں ہے، ہماری صنف شاعری ہے۔ معروف ڈرامہ نگار، مصور اور طنز نویس انور مقصود نے کہا ہے کہ کبھی ٹیلی ویژن عوام میں شعور بھی بیدار کرتا تھا مگر اب تو یہ میڈیم صرف پھکڑ پن پھیلا رہا ہے۔ روزنامہ ڈان جیسے لبرل اخبار میں تین چار معروف ڈرامہ نگاروں کے انٹرویو شائع ہوئے تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ہمارا ٹیلی ڈرامہ این جی اوز کے ہاتھ میں جاچکا ہے۔ اب این جی اوز ’’طے‘‘ کرتی ہیں کہ کہانی کیا ہوگی یا کردار کیسے ہوں گے، اور ان کو کس طرح پیش کیا جائے گا۔ ایک ڈرامہ نگار نے کہا کہ میرے ایک ڈرامے میں ایک کردار ’’مثبت‘‘ تھا مگر میرے پروڈیوسر نے مجھ پر دبائو ڈالا کہ میں اسے بھی منفی بنائوں۔ مطلب یہ کہ ڈرامہ تخلیق کرنے والی این جی اوز چاہتی ہیں کہ معاشرے میں صرف یہ تاثر عام ہو کہ دنیا میں اب خیر کا کوئی وجود نہیں، ہر طرف شر ہی شر ہے۔ ایک ڈرامہ نگار نے شکایت کی کہ انہوں نے مسلمانوں کی تاریخ کے حوالے سے ڈرامہ لکھا تو اسے ہر ایک نے Sponser کرنے سے انکار کردیا۔ ایک ڈرامہ نگار نے بتایا کہ ہمارے ڈراموں میں عورت کو یا تو روتے پیٹتے اور آنسو بہاتے دکھایا جاتا ہے یا اسے ’’ترقی پسند‘‘ عرف Progressive باور کرایا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کسی مذہبی یا اخلاقی وجہ سے ڈرامہ نہ دیکھتے ہوں، مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے! ایک اندازے کے مطابق ملک میں دس سے پندرہ کروڑ لوگ ڈرامہ دیکھتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ دس سے پندرہ کروڑ افراد ڈرامے کے توسط سے وہ مواد دیکھ رہے ہیں جو ہمارے مذہبی تصورات، تہذیبی حس، اخلاقی اقدار اور تاریخی تجربے سے کوئی مطابقت ہی نہیں رکھتا، بلکہ وہ ان تمام چیزوں کی ضد ہے۔ ٹیلی ویژن ایک تو تاثر کا سیلاب خلق کررہا ہے، اس پر اِس سیلاب میں ’’زہر‘‘ ملا ہوا ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو اس کی فکر ہے نہ علما، دانش وروں اور سیاسی رہنمائوں کو اس کی کوئی پروا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ صورت حال مذہب کو تفریح کے سیلاب میں ڈبو دینے کی ایک سازش ہے۔ یہ معاشرے اور ریاست کو شعوری طور پر بدلنے اور بالآخر سیکولر اور لبرل بنانے کا ایک منصوبہ ہے۔ بعض احمق مسلمان ہر جگہ یہودی سازش، یہودی سازش کرنے لگتے ہیں، لیکن سازش ’’خفیہ‘‘ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ’’منصوبہ‘‘ اپنی اصل میں ’’عیاں‘‘ ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سازش کی کسی کو بھی خبر نہ ہو، مگر جو کچھ ٹیلی ویژن کی اسکرین پر ہورہا ہے وہ تو منصوبے کی حیثیت سے سب کے سامنے ہے، مگر ہمارا انفرادی اور اجتماعی شعور ’’منصوبے‘‘ کو بھی رجسٹر کرنے میں ناکام ہے۔
خیر یہ مذہب کو تفریح کے سیلاب میں غرق کرنے کی بات تھی۔ اب آیئے دیکھتے ہیں کہ مذہب کو کس طرح تفریح بنایا جارہا ہے۔ رمضان المبارک مسلمانوں کا مقدس ترین مہینہ ہے، یہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے، یہ غزوہ بدر کا مہینہ ہے، اس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس ماہ میں نفلی عبادت ترقی کرکے فرض عبادت کے برابر ہوجاتی ہے، اور ایک فرض عبادت پر 70 فرض عبادتوں کا ثواب ملتا ہے۔ روزے دار کا مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور مجھے روزے دار کے منہ کی بو مشک سے زیادہ عزیز ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی تقدیس بے پناہ ہے، مگر ہمارے ٹیلی ویژن چینلز کے مالکان نے رمضان المبارک کے خصوصی پروگراموں میں اداکاروں، اداکارائوں یا Entertainers کو گھسا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا رمضان المبارک سے متعلق پروگرام ’’تفریحی پروگرام‘‘ ہیں؟ اور رمضان المبارک سے متعلق نشریات ’’تفریحی نشریات‘‘ ہیں؟ سامنے کی بات ہے کہ کرکٹ کا میچ ہوتا ہے تو ’’کرکٹ کے ماہرین‘‘ اس کی کمنٹری کرتے ہیں اور ’’Expert‘‘ بھی کرکٹ کی دنیا سے لایا جاتا ہے۔ ہاکی کا میچ ہوتا ہے تو ہاکی کا ماہر ہی اس کی کمنٹری کرتا ہے اور Expert کا تعلق بھی ہاکی کے شعبے سے ہوتا ہے۔ شو بزنس کی تقریب ہوتی ہے تو شو بزنس سے متعلق شخصیات ہی تقریب میں چھائی ہوئی ہوتی ہیں۔ معیشت پر گفتگو کے لیے معیشت دان بلائے جاتے ہیں۔ سیاست پر بات چیت کے لیے سیاست دان یا صحافی طلب کیے جاتے ہیں۔ مگر ہمارے میڈیا ٹائی کونز نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہب کو کرکٹ، ہاکی اور شوبزنس سے بھی زیادہ حقیر بنادیا ہے، چنانچہ مذہب پر گفتگو کے لیے اداکار، گلوکار یا Entertainers بلائے جاتے ہیں اور انہیں علما کے ساتھ ’’مساوی الحیثیت‘‘ بناکر بٹھا دیا جاتا ہے، اور بدقسمتی سے ہمارے ’’باحیا علما‘‘ کو اس صورت حال پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ حالات یہی رہے تو ایک دن ایسا آسکتا ہے کہ رمضان المبارک کی ٹرانسمیشن میں ’’مستند طوائفیں‘‘ اسلام، رمضان اور روزے پر گفتگو کریں گی۔ ہمیں یقین ہے کہ پورا معاشرہ اس کے باوجود بھی خاموش رہے گا، اس لیے کہ طوائفیں بھی ’’زندگی کا حصہ‘‘ ہیں۔ ہم حسن نثار کو صحافیوں کا بھانڈ سمجھتے ہیں، مگر رمضان المبارک کے حوالے سے چینلز کی نشریات کا یہ حال ہے کہ حسن نثار بھی جیو ٹی وی کے ایک پروگرام ’رپورٹ کارڈ‘ میں کہہ رہے تھے کہ مجھ جیسے ’’Relaxed آدمی‘‘ سے بھی یہ سب کچھ برداشت نہیں ہورہا، اس لیے کہ رمضان سے متعلق پروگراموں کو بھانڈوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ مذہب کو تفریح بنانے پر اگر حسن نثار بھی پریشان ہیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صورت حال کتنی سنگین ہوگی۔ مگر ہمارے علما، دانش وروں اور سیاسی رہنمائوں کو اس سلسلے میں کوئی فکر لاحق نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کم از کم اس دائرے میں حسن نثار بے شمار علما اور دانش وروں اور سیاست دانوں سے بہتر ہیں۔
مذہب کو تفریح بنانے کا ایک پہلو یہ ہے کہ Entertainers کی ایک Star Value ہوتی ہے، یعنی ان کے حوالے سے علم، کردار یا ذہانت زیر بحث نہیں آتی، صرف ان کی Star Value زیر بحث آتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ پاکستان میں اسلام کو Star Value سے منسلک کرکے اسے Star Value کا غلام بنادیا گیا ہے۔ یہ اسلام کی توہین بھی ہے، تضحیک بھی۔ اس سلسلے میں ایک مسئلہ اور بھی سنگین ہے۔ قرآن کہتا ہے: تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں۔ اس اصول کا اطلاق علما اور دانش وروں سمیت ہر فرد پر ہوتا ہے، اور بلاشبہ ہمارے علما اور دانش وروں کے قول اور فعل میں تضاد ہوگا، مگر اداکاروں اور گلوکاروں یا Entertainers کے قول و فعل کا تضاد معاشرے کے دیگر طبقات کے تضاد سے زیادہ نمایاں اور عیاں ہوتا ہے۔ چنانچہ مذہب کو اداکاروں اور گلوکاروں کے ہاتھ میں تھمانے کا مطلب معاشرے کو یہ پیغام دینا ہے کہ اسلام کا قول وفعل کے تضاد سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ اقبال نے اپنے ایک شعر میں شکایت کی ہے:
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
اذان تو حضرت بلالؓ بھی دیتے تھے اور ایک پیشہ ور مؤذن بھی دیتا ہے، مگر حضرت بلالؓ کے لیے اذان کے الفاظ ’’حال‘‘ تھے، اس کے برعکس اکثر پیشہ ور موذنوں کے لیے اذان کے الفاظ صرف ’’قال‘‘ ہوتے ہیں۔ غزالیؒ کی ’’تلقین‘‘ اور عام علما کی تلقین میں بھی یہی فرق ہے۔ غزالیؒ کا قال ان کا حال تھا، اور بدقسمتی سے اب علما کی بڑی تعداد کا قال صرف قال ہی ہوتا ہے۔ یعنی ان کے پاس مستند علم تو ہوتا ہے مگر علم پر غزالیؒ کی طرح کا عمل نہیں ہوتا، چنانچہ ان کی تلقین اس طرح قلب کو متاثر نہیں کرتی جس طرح غزالیؒ کی تلقین آٹھ سو سال گزرنے کے بعد بھی دلوں کو متاثر کررہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو Entertainers کے پاس ’’حال‘‘ تو کیا ’’قال‘‘ بھی نہیں ہوتا۔ یعنی ان کے پاس دین کا مستند علم بھی نہیں ہوتا۔ چنانچہ مذہب کو ان کے حوالے کرنے کا مقصد اسلام کو معاشرے میں ’’معمولی‘‘ بناکر پیش کرنا ہے۔ اس معمولی پن میں یہ پیغام ہے کہ کرکٹ، ہاکی، موسیقی اور اداکاری پر گفتگو کے لیے اہلیت یا فکر و عمل کی ہم آہنگی درکار ہے، مگر مذہب پر تو کوئی بھی بات کرسکتا ہے… ایک اداکار، ایک گلوکار، ایک اینکر خاتون، ایک Entertainer۔
سلیم صافی صحافیوں کے بھانڈ بھی نہیں ہیں، اس لیے وہ مذکورہ بالا ٹی وی پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ مذہبی پروگراموں پر کسی طبقے کی ’’اجارہ داری‘‘ نہیں ہوسکتی۔ وطنِ عزیز میں اجارہ داری کا قصہ یہ ہے کہ ہمارے جرنیلوں کو ٹھیک سے ’’عسکریت‘‘ بھی نہیں آتی، آتی تو مشرقی پاکستان میں ہمارے 90 ہزار فوجی ہتھیار نہ ڈالتے۔ مگر وہ سیاست، معیشت، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، مذہبی امور، تعلیم و تدریس سمیت تمام امور میں دخیل ہیں۔ ذرا سلیم صافی کبھی اس اجارہ داری کو چیلنج کرنے کی طرح چیلنج کرکے دکھائیں۔ ہمارے ملک میں بڑے بڑے بدمعاش میڈیا ٹائی کونز محض سرمائے کی بنیاد پر ذرائع ابلاغ کی قوت سے مذہب، تہذیب، تاریخ، سیاست، آرٹ، کلچر غرضیکہ پوری زندگی کی تشریح و تعبیر پر ’’اجارہ داری‘‘ قائم کیے ہوئے ہیں، سلیم صافی ذرا کبھی اس اجارہ داری کو چیلنج کرکے دکھائیں۔ جہاں تک مذہب پر علما کی ’’اجارہ داری‘‘ کا تعلق ہے تو یہ اجارہ داری نہیں، یہ اپنی اصل میں علما کی ’’علمی اہلیت‘‘ ہے، اور علمی اہلیت صرف مذہب کے دائرے میں نہیں، زندگی کے ہر دائرے میں درکار ہوتی ہے۔ آدمی بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، اسے گھر بنوانا ہوتا ہے تو انجینئر سے رابطہ کرتا ہے۔ اب تو تخصص کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ دل کے امراض کے ڈاکٹر الگ ہیں اور گردے کے امراض کے ڈاکٹر الگ۔ ایسی دنیا میں اگر مذہب کے حوالے سے علما کے ’’تخصص‘‘ پر اصرار کیا جائے تو اس میں اجارہ داری کہاں سے آگئی؟ چلیے مذہب پر گفتگو کے لیے مستند علما نہ ہوں تو کم از کم مذہب کا تھوڑا بہت علم رکھنے والے لوگ ہی ہوں۔ ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جامعات اور کالج کے اساتذہ اور صحافی مذہبی پروگراموں میں بلائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ’’مذہبی عالم‘‘ نہیں ہوتے، مگر ان کی پروگراموں میں شمولیت پر کوئی بھی اعتراض نہیں کرتا، اس لیے کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ اساتذہ اور صحافی کچھ نہ کچھ مذہب کو جانتے ہیں۔ مگر ہمارے اکثر اداکاروں، گلوکاروں اور اینکرز کو تو اپنا ’’فن‘‘ بھی نہیں آتا، چنانچہ مذہب کو ان کے حوالے کرنے کا مفہوم معاذ اللہ اسلام کو ’’Fun‘‘ بنانا ہے۔ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ جو معاشرہ اس صورت حال کو برداشت کررہا ہے اُس کے مذہب، اس کی تہذیب، اس کی اخلاقیات اور اس کے علم میں یقینا کوئی نہ کوئی بڑا نقص پیدا ہوچکا ہے۔
بہت سے لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے ٹیلی ویژن کی اسکرین کو صرف اسکرین سمجھتے ہیں، حالانکہ ٹیلی ویژن کی اسکرین پورے معاشرے کی ’’علامت‘‘ ہے۔ یعنی ٹی وی کی اسکرین پر جو کچھ نظر آرہا ہے وہی معاشرہ ہے۔ اور اگر ’’ابھی‘‘ وہ معاشرہ نہیں ہے تو آنے والے کل میں وہی معاشرہ ہوگا۔ معاشرے میں ابھی تک علما مذہب پر ’’اتھارٹی‘‘ سمجھے جاتے ہیں، مگر ایک منصوبے کے تحت ٹی وی کی اسکرین پر اداکاروں، گلوکاروں اور Entertainers کو ’’مذہب پراتھارٹی‘‘ بنایا جارہا ہے۔ اس وقت اس حوالے سے ٹی وی کی اسکرین اور معاشرے میں فرق ہے، مگر چند سال کے اندر ٹی وی کی اسکرین ہی معاشرہ بن جائے گی اور مذہب کے حوالے سے علما کی اتھارٹی یا توختم ہوجائے گی یا بری طرح چیلنج ہوجائے گی۔ یہ صرف علما کا نہیں پورے مذہب اور پورے معاشرے کا عظیم الشان نقصان ہوگا۔ بدقسمتی سے مذہبی لوگ اور مذہبی طبقات ’’نیند میں چلنے والے‘‘ بنے ہوئے ہیں اور وہ اس حوالے سے قومی اور بین الاقوامی کھیل کو سمجھ ہی نہیں رہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تفریح کو مذہب بنانے کا تماشا بھی عرصے سے جاری ہے۔ ایک وقت تھا کہ معاشرے کے ’’ہیروز‘‘ علما تھے، دانش ور تھے، شاعر تھے، ادیب تھے، اساتذہ تھے، صحافی تھے، مؤرخ تھے، محقق تھے۔ مگر اب مدتوں سے ہمارے ہیروز اداکار ہیں، گلوکار ہیں، کھلاڑی ہیں، ماڈل گرلز ہیں، Entertainer ہیں، چار آنے میں آٹھ مل جانے والے اینکرز ہیں۔ کبھی لوگ آسمان سے گرتے تھے تو کھجور میں اٹک جاتے تھے، مگر ہمارے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ نے معاشرے کو آسمان سے گرا کر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر ٹانگ دیا۔ بلاشبہ زندگی کو تفریح کی بھی ضرورت ہوتی ہے، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کروڑوں انسانوں کو پیغام دے رہے ہیںکہ تمہیں صرف ’’تفریح‘‘ ہی کی ضرورت ہے۔ ہم نے ایک بار اپنے کالم میں لکھا تھا کہ کبھی کھیل زندگی کا حصہ تھا مگر اب زندگی کھیل کا حصہ ہے۔ کھیل تماشے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ایک بار موجودہ آرمی چیف باجوہ نے کہا تھا کہ کرکٹ قوم کو متحد کرنے والی ہے۔ جنرل باجوہ نے غلط نہیں کہا تھا، مگر ایک وقت تھا کہ صرف مذہب قوم کو متحد کرنے والا تھا مگر ہمارے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ نے مذہب کا وہ حال کیا ہے کہ جنرل باجوہ تک اسے قوم کو متحد کرنے والا نہیں کہتے۔ یہاں ہمیں اقبال کا ایک بے مثال شعر یاد آگیا۔ اقبال نے کہا ہے:
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری اور علم نباتات
اقبال کہہ رہے ہیں کہ غلام افراد اور غلام قوموں کے لیے ان کے آقا جن علوم کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں ان میں سے ایک موسیقی ہے، ایک مصوری ہوتی ہے اور ایک پیشہ پودوں کی زندگی کا علم ہوتا ہے۔ آقا کبھی بھی غلاموں کو مذہب، فلسفے، اخلاقیات اور تاریخ وغیرہ کا شعور فراہم نہیں ہونے دیتے، اس لیے کہ یہ چیزیں انسانوں کو باشعور بناتی ہیں، انہیں ان کے نصب العین پر مطلع کرتی ہیں، انہیں اپنی تقدیر سے آشنا کرتی ہیں، ان میں تحرک پیدا کرتی ہیں، انہیں بغاوت بلکہ انقلاب کا خواب دکھاتی ہیں، انہیں آزادی کے عشق میں مبتلا کرتی ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں تفریح اور کھیل تماشے کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے جیسے یہ مذہب ہوں، اور ہماری دنیوی اور اخروی زندگی کی کامیابی کا انحصار کھیل تماشے اور تفریح پر ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ خیال ایک دھوکا ہے اور پاکستانی معاشرہ تفریح اور کھیل کے سیلاب میں غرق ہوکر اپنے شعورِ ذات یا اپنے خواص سے محروم ہورہا ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
ذکر و فکر و صبح گاہی اور خانقاہ تو بڑی چیز تھی، اب ہمارے حکمران، ذرائع ابلاغ اور ان کے غیر ملکی سرپرست چاہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ صبح موسیقی، شام موسیقی، صبح ڈرامہ، شام ڈرامہ، صبح مارننگ شوز اور شام ٹاک شوز، صبح گلوکار، شام اداکار، صبح موسیقار اور شام ماڈل گرلز میں مست رہے۔ ایسا ہوگا تو معاشرے کو یاد ہی نہیں رہے گا کہ اس کا ایک مذہب بھی ہے۔ ایسا مذہب جو اس سے انفرادی زندگی سے لے کر ریاستی اور بین الاقوامی زندگی تک ہر جگہ خدا اور رسول اکرمؐ کے حکم کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔ اسے یاد ہی نہیں رہے گا کہ اس کی ایک بے مثال تہذیب، بے مثال تاریخ اور بے مثال علمی ماضی بھی ہے۔ تفریح اور کھیل کا سیلاب اور ان شعبوں سے نمودار ہونے والے ہیروز ہمیں کبھی اپنے ’’حقیقی ہیروز‘‘ کی طرف دیکھنے ہی نہیں دیں گے۔ ہم نہ کبھی بڑے علما پیدا کرنے کے قابل ہوں گے، نہ بڑے دانش ور اور شاعر و ادیب ہمارا اجتماعی مقدر ہوں گے۔ ہمارے نصیب میں نہ بڑے مؤرخ ہوں گے نہ بڑے سائنس دان۔ ہم ایک معاشرے کی حیثیت سے تھرڈ کلاس اداکاروں، گلوکاروں، موسیقاروں اور ماڈلز کو Icon بناکر چومتے چاٹتے رہیں گے۔ اس عمل کو ایک ’’مذہبی تقدیس‘‘ فراہم ہوگی اور معاشرہ کھیل اور تفریح کا پجاری بن کر اپنی اصل سے کٹ جائے گا۔
ہمیں معلوم ہے کہ کچھ عرصہ قبل جنرل باجوہ کے ساتھ ملک کے معروف اینکرز اور کالم نویسوں کی ملاقات کرائی گئی تھی۔ اس ملاقات میں جنرل باجوہ نے ایک چینل کے نمائندے سے صاف کہاکہ آپ کا چینل ’’Subversion‘‘ میں ملوث ہے اور ابھی تو ہم اس کے خلاف کچھ نہیں کررہے مگر چینل نے اپنی روش نہ بدلی تو ہم دس منٹ میں اسے بند کردیں گے۔ اس چینل پر الزام تھا کہ وہ بیرونی طاقتوں کے اشارے پر فوج اور پاکستان کے خلاف مواد نشر کرتا ہے۔ فوج اور ملک بہت اہم ہیں اور ان کا دفاع ناگزیر ہے، مگر ملک کا نظریہ فوج اور ملک سے بھی ہزار گنا اہم ہے۔ اس لیے کہ فوج اور ملک نے نظریے کو نہیں بلکہ نظریے نے فوج اور ملک کو تخلیق کیا ہے۔ مگر افسوس کوئی جنرل ایسا نہیں جو مذہب کو Entertainment اور Entertainment کو مذہب بنانے والے کسی چینل کو شٹ اپ کال دے اور کہے کہ اگر تم ملک کے نظریے سے کھیلتے رہے تو ہم تمھیں بند کردیں گے۔ ملک میں ایسے کئی علما ہیں جن کے لاکھوں شاگرد ہیں۔ یہ علما چاہیں تو لاکھوں طلبہ کو سڑکوں پر لاکر مذہب کو تفریح اور تفریح کو مذہب بنانے والوں کو سخت پیغام دے سکتے ہیں۔ ملک کی کئی سیاسی جماعتیں مذہب کو تفریح اور تفریح کو مذہب بنانے کے خلاف بڑا احتجاج منظم کرکے معاشرے کو مزاحمت پر آمادہ کرسکتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے معاشرے میں فوج اور پاکستان کے محافظ موجود ہیں، علما اور مدارس کے پاسبان بھی بہت ہیں، سیاسی رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کے نگہبانوں کی بھی کوئی کمی نہیں، مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کے پیغام کو مذاق بنانے والوں اور تفریح اور کھیل کو مذہب کے درجے پر فائز کرنے والوں کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔