جدید مغربی تہذیب دنیا کی واحد تہذیب ہے جس کا اپنے بارے میں کیا گیا ہر دعویٰ جھوٹاہے۔ جدید مغرب خود کو ’’مہذب‘‘ کہتا ہے، اور جدید مغرب کی تاریخ بدتہذیبی سے بھری ہوئی ہے۔ جدید مغرب خود کو ایمان دار کہتا ہے، اور جدید مغرب کی تاریخ لوٹ مار سے اٹی ہوئی ہے۔ جدید مغرب انسانی آزادی کو پوجتا ہے، مگر جدید مغرب کی تاریخ دوسری اقوام کو مسلسل غلام بنانے کی تاریخ ہے۔ مغرب خود کو ’’عقل پرست‘‘ یا Rational کہتا ہے، مگر مغرب سے زیادہ Irrational کوئی نہیں۔ مغرب خودکو جمہوریت پسند کہتا ہے، مگر مغرب مسلم دنیا میں کہیں اسلامی تحریکوں کو جمہوری طریقے سے اقتدار میں آتے نہیں دیکھ سکتا۔ مغرب ’’مساوات‘‘ کا دعویدار ہے، مگر اسے ’’عدم مساوات‘‘ سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔ آئیے مغربی اقوام کی لوٹ مار، ان کی بدتہذیبیوں اور ان کے تخلیق کیے ہوئے انسانی جہنم پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
مغربی اقوام کا تصورِ ذات یہ رہا ہے کہ اُن کی طرح کوئی نہیں ہے۔ ہٹلر جرمن قوم کو دنیا کی سب سے برتر قوم سمجھتا تھا۔ برطانیہ نے اپنے نام کے ساتھ ’’عظیم‘‘ لگاکر خود کو “Great Britain” بنایا ہوا ہے۔ امریکی اپنے آپ کو دنیا کا خدا سمجھتے ہیں۔ مگر مغربی اقوام نے نوآبادیاتی دور میں اپنی نوآبادیوں کو اس طرح لوٹا کہ مغربی اقوام کو چور اور ڈاکو قرار دینا چوروں اور ڈاکوئوں کی توہین ہے۔
اُتسا پٹنائک (Utsa Patnaik) دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر امریطس (Professor Emeritus) ہیں۔ اُتسا پٹنائک کی تحقیق کے مطابق انگریزوں نے بھارت پر قبضے کے بعد 1765ء سے 1938ء تک 45 ہزار ارب ڈالر یا 45 ٹریلین ڈالر کی لوٹ مار کی، اور یہ رقم بھارت سے برطانیہ منتقل کی۔ (ہندوستان ٹائمز۔ 30 اکتوبر 2018ء)
اُتسا پٹنائک نے اس دعوے کو اپنے ایک انٹرویو میں بھی دہرایا۔ یہ انٹرویو www.livemint.com پرملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اتسا سے پوچھا گیا:
’’آپ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کہا ہے کہ انگریزوں نے بھارت سے 45 ہزار ارب ڈالر برطانیہ منتقل کیے۔ کیا آپ اس رقم کو تناظر مہیا کرتے ہوئے بتا سکتی ہیں کہ اس رقم سے بھارت کی معیشت میں کیا فرق واقع ہوسکتا تھا؟‘‘
اس کے جواب میں اتسا پٹنائک نے کہا:
’’جی ہاں یہ رقم برطانیہ منتقل ہوئی۔ یہ رقم بھارت میں انگریزوں کی مرکزی حکومت کے مجموعی بجٹ کا 26 سے 36 فیصد تھی، اور اگر یہ رقم ہندوستان میں رہتی تو ہندوستان زیادہ ترقی یافتہ ہوتا۔ (اس لوٹ مار کی وجہ سے) بھارت میں 1900ء سے 1946ء تک فی کس آمدنی میں کوئی اضافہ نہ ہوا، حالانکہ 1929ء سے تین دہائیاں قبل عالمی معیشت کے دائرے میں ہندوستان Surplus earnings کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک تھا۔ چونکہ ہندوستان کی ساری آمدنی برطانیہ لے اڑا، اس لیے ہندوستانی معیشت کا انجماد قابلِ فہم ہے۔ یہ بات تکلیف دہ معنوں میں حیران کن ہے کہ 1911ء کے دوران ہندوستان کے شہریوں کی اوسط عمر صرف 22 سال تھی۔ چونکہ انگریزوں نے ہندوستانیوں پر بھاری محصولات عایدکیے ہوئے تھے اس لیے اس کا اثر غذائی اجناس کی دستیابی اور استعمال پر بھی پڑا۔ 1900ء میں بھارت کا ہر شہری اوسطاً 200 کلو گرام گندم استعمال کرتا تھا، تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد 1946ء میں ایک عام ہندوستانی بمشکل 137 کلوگرام گندم کھا رہا تھا۔ یہ صورتِ حال دنیا کے پسماندہ ترین ملک سے بھی بدتر تھی۔ 1770ء میں بنگال میں قحط پڑا اور خود انگریزوں کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق اُس وقت بنگال کی آبادی 3کروڑ تھی۔ قحط ان میں سے ایک کروڑ افراد کو نگل گیا‘‘۔
انگریز قبضے کے دوران ہندوستان کے 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ 45 ہزار ارب ڈالر کتنی بڑی رقم ہے؟ اس وقت بھارت کا شمار دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے اور اس کی مجموعی قومی پیداوار یا GDP تقریباً 2 ہزار ارب ڈالر ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ موجودہ ہندوستان 22 سال تک جو کچھ کمائے گا وہ اُس رقم کے برابر ہوگا جو ’’عظیم برطانیہ‘‘ لوٹ کر لے گیا۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار اس وقت 305 ارب ڈالرہے۔ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان آئندہ 148 سال تک جو کچھ کمائے گا وہ 45 ہزار ارب ڈالر کے مساوی ہوگا۔ یعنی برطانیہ کی لوٹ مار پاکستان کے 148 سال کی آمدنی کھا گئی۔ اس کے باوجود برطانیہ ’’مہذب‘‘ ہے۔ ’’عقل پرست‘‘ ہے۔ ’’روشن خیال‘‘ ہے۔ ’’انسان دوست‘‘ ہے۔ ’’مساوات‘‘ کا قائل ہے۔ ’’عظیم ‘‘ ہے۔ لیکن یہ برطانیہ کا واحد ظلم نہیں تھا۔ برطانیہ ہندوستان کے معاشی استحصال کے حوالے سے اور کیا کررہا تھا اُتساپٹنائک کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ کہتی ہیں:
’’انگریزوں سے پہلے ہندوستان نوابین کے ماتحت تھا، اور نوابوں نے بھی عوام پر بھاری محصولات عاید کیے ہوئے تھے، مگر انگریزوں نے ٹیکس کو تین گنا کردیا۔ چنانچہ انگریزوں کی حکومت نے اہلِ ہندوستان کو قحط زدہ کردیا۔ انگریزوں نے مزید ظلم یہ کیا کہ وہ ہندوستانیوں سے ٹیکس کی صورت میں جو رقم حاصل کرتے تھے اُس رقم سے وہ ہندوستان کی تیار کی ہوئی مصنوعات خریدتے تھے اور یہ مصنوعات خریدکر وہ برطانیہ بھیج دیتے تھے۔ اس کا طریقہ انہوں نے یہ بنایا ہوا تھا کہ ٹیکس وصول کرنے والا “Collector” ٹیکس وصول کرتا تھا۔ انگریز یہی رقم کسی اور شخص کو دے کر اُس سے مصنوعات کی خریداری کرا لیتے تھے، چنانچہ ہندوستانیوں کو معلوم بھی نہیں ہوپاتا تھا کہ ان کے دیے ہوئے ٹیکس سے انگریز ہندوستانیوں کی مصنوعات خرید رہے ہیں۔ اگر یہ دونوں کام ایک ہی شخص کرتا تو پھر ہندوستانی اصل کھیل سے آگاہ ہوجاتے۔ ان حقائق کا مطلب یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستانیوں سے مصنوعات ’’مفت‘‘ خریدتی رہی‘‘۔
اتسا پٹنائک سے سوال کیا گیا:
“What happend to the money that was drain out of India? what was it used for?”
ترجمہ: ’’اُس رقم کا کیا بنا جو بھارت سے برطانیہ بھیجی گئی؟ یہ کس مقصد کے لیے بروئے کار آئی؟‘‘
اس سوال کا جواب ان کے الفاظ میں سنیے، انہوں نے کہا:
“The modern capitalist world would not exist with out colonialism and drain”
ترجمہ: ’’مغربی اقوام کے برپا کیے ہوئے نوآبادیاتی دور اور ان کی لوٹ مار کے بغیر جدید سرمایہ دار دنیا وجود میں نہیں آسکتی تھی‘‘۔
جدید مغرب کی جھوٹی عظمت کی پشت پر کئی چیزوں کا تذکرہ موجود ہے۔ جدید مغرب نشاۃ ثانیہ کی تحریک کا حاصل ہے۔ صنعتی انقلاب کا نتیجہ ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا پروردہ ہے۔ مغربی لوگوں کی عبقریت کا ساختہ ہے۔ اہلِ مغرب کی محنت کا ثمر ہے۔ مگر اتساپٹنائک ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پر کہہ رہی ہیں کہ مغرب کی سرمایہ دارانہ دنیا نوآبادیاتی تجربے اور مغربی اقوام کی لوٹ مار اور استحصال کے بغیر خلق نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ امر ظاہر ہے کہ انگریز جو کچھ ہندوستان میں کررہے تھے، وہی کچھ وہ دوسری نوآبادیات میں بھی کررہے تھے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انگریز اگر صرف ہندوستان سے 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے تو انہوں نے اپنی تمام نوآبادیات میں کتنی زیادہ لوٹ مار کی ہوگی۔ لیکن یہ معاملہ صرف انگریزوں یا برطانیہ تک محدود نہیں۔ فرانسیسی بھی اپنی کالونیوں میں یہی کررہے تھے۔ اطالوی، پرتگالی، ولندیزی اور جرمن بھی اپنی اپنی نوآبادیات میں یہی گھنائونا کھیل کھیل رہے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود تمام مغربی اقوام ’’مہذب‘‘ بھی ہیں، ’’صاحبِ علم‘‘ بھی ہیں، ’’صاحبِ اخلاق‘‘ بھی ہیں۔ مسلم دنیا کے بوکھلائے مغرب زدگان ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ اہلِ مغرب کی طرح کوئی ایمان دار نہیں۔ ان کی طرح کوئی ’’مہذب‘‘ نہیں۔ ان کی طرح کوئی ’’عقل مند‘‘ نہیں۔
آپ یہ خیال نہ کیجیے گا کہ اتساپٹنائک اپنے خیالات میں تنہا ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے ایک صحافی اور دانش ور ایوب ملک نے مغرب کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں نوم چومسکی نے کیاکہا، ملاحظہ فرمائیے۔ انہوں نے کہا:
’’یہ خطہ (یعنی برصغیر) 17 ویں صدی میں دنیا کا خوشحال ترین خطہ تھا۔ ٹیکسٹائل کی مقامی صنعت جو کہ اُس وقت یورپی صنعت سے زیادہ ترقی یافتہ تھی اسے انگریز تاجروں اور انگلستان میں آنے والے صنعتی انقلاب نے تباہ کردیا۔ کیا وجہ تھی کہ 18 ویں صدی تک یورپین سیاح ہندوستان، چین اور جاپان سے متاثر نظرآتے تھے؟ 1700ء کی دہائی میں جنوبی ایشیا صنعتی ترقی میں بہت آگے تھا اور 1820ء تک برطانیہ کے صنعت کار یہاں لوہے سازی کی تربیت لینے آیا کرتے تھے۔ ریل کے انجن بنانے کی جو صنعت بمبئی میں تھی وہ ٹیکنیکل طور پر برطانیہ کی صنعت کے برابر تھی۔ انڈیا کی لوہے کی صنعت اور بھی ترقی کرسکتی تھی اگر برطانیہ کی جانب سے امپورٹ پر ڈیوٹیاں نہ لگائی جاتیں۔ یاد رہے ہندوستان نہ صرف صنعتی لحاظ سے انگلستان سے آگے تھا بلکہ تہذیبی لحاظ سے بھی بہت آگے تھا۔ جتنی تعداد میں کتابیں صرف بنگال میں شائع ہوتی تھیں، اتنی تعداد میں پوری دنیا میں شائع نہیں ہوتی تھیں۔ ڈھاکہ کا مقابلہ لندن سے کیا جاتا تھا۔ انگلستان نے اسٹیل ہندوستان سے لے کر اپنی ٹیکسٹائل اور شپ بلڈنگ انڈسٹری بنائی تھی۔‘‘ (روزنامہ جنگ۔ 10ستمبر 2018ء)
اتساپٹنائک نے ایک اور اہم مسئلے پر روشنی ڈالی ہے، انہوں نے مسلمانوں اور انگریزوں، اور ان کی حکومتوں کے فرق کو واضح کیا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آج کل ہندوستان میں مغلوں کے دور کے بارے میں بھی طرح طرح کی باتیں ہورہی ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت کے لوگوں کے لیے مغل اور انگریز دونوں باہر سے آئے ہوئے یا Outsider تھے؟ اس سوال کے جواب میں اتسا نے کہا:
“The Mughals did come from outside, but then waves of migration have always come from outside. What the Mughals did was exactly what the Rajasthan Princes also did. They taxed the people, but in moderation, and spent all taxes within the country.They settled here and did not retain any permanent ties with their places of origin. Clearly, the Mughals can in no way be equated with the British because there was no export drive, no cheating of local producers, and no tax-financed annual drain out of the subcontinent.”
ترجمہ: ’’مغل باہر سے آئے، لیکن اگر ایسا ہے تو تارکینِ وطن کی لہر بھی باہر ہی سے آتی ہے۔ مغلوں نے وہی کیا جو راجستھان کے مقامی شہزادوں نے کیا۔ انہوں نے لوگوں پر ٹیکس لگائے، مگر اوسط درجے کے ٹیکس۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے عوام سے حاصل ہونے والی ٹیکسوں کی رقم ملک کے اندر ہی خرچ کی۔ مغل یہیں بس گئے اور انہوں نے اپنے آبائی علاقوں سے کوئی مستقل تعلق نہ رکھا۔ چنانچہ مغلوں کا موازنہ کسی طرح بھی انگریزوں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے ہندوستان سے کوئی چیز باہر برآمد نہیں کی۔ نہ ہی انہوں نے مقامی پیداکاروں یا Producer کو دھوکہ دیا، اور نہ ہی انہوں نے محصولات سے حاصل ہونے والی رقم کے ذریعے مقامی مصنوعات خرید کر باہر بھیجیں‘‘۔
اتسا سے پوچھا گیا کہ کیا برطانیہ سے لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے؟ اس کے جواب میں اتسا نے کہا کہ صرف برطانیہ کو نہیں بلکہ تمام مغربی اقوام کو لوٹی ہوئی رقم اپنی سابقہ کالونیوں کو واپس کرنی چاہیے، اور انہیں اپنی مجموعی قومی پیداوار کا ایک حصہ ہر سال اس کے لیے وقف کرنا چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مغربی اقوام کا اخلاقیات سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ وہ لوٹی ہوئی رقم کیا واپس کریں گی، وہ تو اپنی سابقہ کالونیز کو گزشتہ پچاس سال سے قرضوں کے جال میں جکڑنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ترقی پذیر ممالک 4 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضوںمیں ڈوبے ہوئے ہیں۔ صرف پاکستان کے بیرونی قرضے 100 ارب ڈالر ہوگئے ہیں، اور آئی ایم ایف سے عمران خان کی حکومت کے مذاکرات کامیاب رہے تو بہت جلد پاکستان کا بیرونی قرض 107 ارب ڈالر ہوجائے گا۔ مغربی ممالک اور اُن کے مالیاتی ادارے ’’تاثر‘‘ دیتے ہیں کہ وہ غریب ممالک کو قرض مہیا کرکے اُن کی معاشی مشکلات کو کم کرتے ہیں اور اُن کی معیشت کو مضبوط بناتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے قیام کا بنیادی مقصد غریب اور کمزور ممالک کو مغرب کا معاشی غلام بنانا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف دنیا کے 75 سے زیادہ ممالک کو مدتوں سے قرض دے رہے ہیں، مگر ان ممالک میں سے کسی ملک کی معیشت مضبوط نہیں۔ اس کے برعکس صورتِ حال یہ ہے کہ غریب ممالک کے قومی بجٹ کا بڑا حصہ بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہورہا ہے، مثلاً اس وقت پاکستان کے بجٹ کا تقریباً 40فیصد سود کی ادائیگی پر خرچ ہورہا ہے یا ہونے ہی والا ہے۔ پاکستان کا قرض بڑھے گا تو سود کی ادائیگی کا دائرہ مزید وسیع ہوگا، اور وہ وقت آسکتا ہے کہ پاکستان کا آدھے سے زیادہ بجٹ سود کی ادائیگی پر خرچ ہونے لگے۔ یہی قصہ دنیا کے دوسرے غریب اور ترقی پذیر ممالک کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مغربی اقوام دو سو سال تک براہِ راست اپنی نوآبادیات کو لوٹ کر اپنی معیشتوں کو مضبوط کرتی رہیں اور اب گزشتہ پچاس سال سے وہ یہی کام قرضوں کا سود وصول کرکے انجام دے رہی ہیں۔ یعنی یہ قومیں کل بھی انسانیت کی دشمن تھیں اور آج بھی انسانیت کی دشمن ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی اقوام نے اربوں انسانوںکے لیے اس دنیاکو سیاسی، معاشی اور سماجی جہنم بنایا ہوا ہے۔ Oxfame کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے صرف ’’8 افراد‘‘ کی دولت 3.6 ارب انسانوں کی دولت کے مساوی ہے۔ مغرب اور اُس کے ’’احمق متاثرین‘‘ اکثر شور مچاتے رہتے ہیں کہ بادشاہت کا نظام بڑا انسانیت کُش تھا، ایک بادشاہ کے پاس اپنی پوری قوم سے زیادہ دولت ہوتی تھی، بادشاہ عیش کرتا تھا اور اس کی رعیت معاشی مشکلات کا شکار رہتی تھی۔ مگر آج مغرب کی تخلیق کردہ ’’آزاد‘‘ دنیا، ’’جمہوری‘‘ دنیا، ’’عقل پرست ‘‘ دنیا، ’’روشن خیال‘‘ دنیا اور ’’جدید‘‘ دنیا کا یہ حال ہے کہ صرف 8 بادشاہ 3 ارب 60 کروڑ افراد سے زیادہ دولت مند ہیں۔ یہ دولت کی عریانی وفحاشی کی انتہا ہے۔ یہ مغرب کی پیدا کردہ دنیا کی ایسی تصویر ہے کہ اگر اس تصویر کو شیطان بھی غور سے دیکھ لے اور اس کے معنی سمجھ لے تو وہ بھی مغرب پر تھوک دے۔ اس کی وجہ ہے۔ مغرب کی پیدا کردہ دنیا میں ایک طرف 8 لوگ آدھی دنیا کی دولت کے مالک ہیں، دوسری طرف اسی دنیا میں ایک ارب انسان انتہائی غربت میں مبتلا ہیں۔ ان افراد کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر اور دو ڈالر کے درمیان ہے۔ مغرب کے پیدا کردہ جہنم کی سنگینی کا مزید اندازہ کرنا ہو تو سویڈن کے تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ ملاحظہ کرنی چاہیے۔
روزنامہ ڈان کراچی کی ایک تفصیلی خبر کے مطابق 2018ء میں دنیا کے تمام ممالک نے اپنی عسکری صلاحیت کو بہتر بنانے پر صرف 1822 ارب ڈالرصرف کیے ہیں (ڈان کراچی۔ 30 اپریل 2019ء)۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے ساری دنیا کے انسانوں کو صاف پانی مہیا کیا جا سکتا ہے، تمام غریبوں کو علاج کی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں، دنیا کے تمام بچوں کے لیے بنیادی تعلیم کا بندوبست ہوسکتا ہے۔ مگر مغرب کی پیدا کردہ دنیا میں اتنا عدم تحفظ، اتنا خوف اور ایک دوسرے سے اتنی نفرت ہے کہ ہر ملک اپنے دفاع پر زیادہ سے زیادہ رقم صرف کررہا ہے۔ مغرب کی پیدا کردہ دنیا اگر ’’مہذب‘‘ ہوتی، مغرب کی پیدا کردہ دنیا اگر ’’عقل پرست‘‘ ہوتی، مغرب کی پیدا کردہ دنیا اگر ’’انسانی‘‘ ہوتی، مغرب کی پیدا کردہ دنیا اگر ’’علم‘‘ کی پیروکار ہوتی، مغرب کی پیدا کردہ دنیا اگر ’’جمہوری‘‘ ہوتی تو دنیا میں اتنا خوف نہ ہوتا کہ وہ صرف ایک سال میں ہتھیار خریدنے اور افواج کو بہتر بنانے پر 1822 ارب ڈالر صرف کرتی۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 2018ء میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہتھیاروں اور فوج پر خرچ کیا۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 2018ء میں ہتھیاروں اور فوج پر 649 ارب ڈالر خرچ کیے۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، عسکری اعتبار سے سب سے طاقتور ملک ہے، مگر اس کے حکمران جنگی خواہشات پر سب سے زیادہ خرچ کررہے ہیں۔ یہ دراصل دنیا پر غلبے کی نفسیات کا حاصل ہے ۔ غلبے کی یہ نفسیات ہمیشہ سے موجود ہے مگر مغرب نے اس نفسیات کو ’’جنون‘‘ بنادیا ہے۔ اس لیے بھی مغرب کی پیدا کردہ دنیا جہنم بنی ہوئی ہے۔
مغرب کے دعوے کے مطابق اس کی پیدا کردہ دنیا ’’قانون و انصاف‘‘ کی دنیا ہے۔ مگر اس دنیا میں قانون و انصاف کا کیا عالم ہے، اس کا اندازہ مغرب کے قائم کردہ ادارے ’’ورلڈ جسٹس فورم‘‘ کی ایک رپورٹ سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے 5 ارب 10 کروڑ افراد بامعنی انصاف تک رسائی نہیں رکھتے (ڈان کراچی۔ 30 اپریل 2019ء)۔ رپورٹ کے مطابق 25 کروڑ سے زیادہ انسان ناانصافی کی انتہائی صورت میں زندہ ہیں، جب کہ 4 ارب 50 کروڑ افراد ایسے ہیں جنہیں قانون سے مہیا ہونے والے مواقع میسر نہیں۔ رپورٹ کے مطابق ناانصافی سے مزید ناانصافی جنم لیتی ہے۔
پاکستان میں انصاف کا یہ حال ہے کہ ماتحت عدالتوں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان عدالتوں میں وکیل کرنے سے بہتر یہ ہے کہ جج کر لیا جائے، یعنی جج کو خرید لیا جائے۔ اعلیٰ عدالتوں کا یہ حال ہے کہ ان کے اکثر فیصلے ’’سیاسی‘‘ ہوتے ہیں۔ ملک میں ماتحت عدالتوں کا انصاف بھی اتنا مہنگا ہے کہ ملک کی 80 فیصد آبادی اس کا مالی بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ عام آدمی مالی اعتبار سے اعلیٰ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کی استعداد نہیں رکھتا۔ مگر یہ انصاف کا صرف ایک پہلو ہے۔ انصاف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اتنا سست ہے کہ اس کے حصول میں برسوں لگ جاتے ہیں اور انصاف کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں وکلا کا کردار بنیادی ہے، اور وکیل کے بارے میں اکبرالٰہ آبادی نے ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج میں بھی صاحبِ اولاد ہو گیا
بدقسمتی سے یہ صرف پاکستان کے حقائق نہیں ہیں، یہ کم و بیش اس پوری دنیا کے حقائق ہیں جو مغرب کی پیدا کردہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ساڑھے سات ارب انسانوں کی دنیا میں 5 ارب 10 کروڑ انسان بامعنی انصاف تک رسائی ہی نہیں رکھتے۔ جس دنیا میں ظلم ہی ظلم ہو، عدم مساوات ہی عدم مساوات ہو، طاقت ہی طاقت ہو، اس دنیا میں اگر انصاف بھی نہ ہو تو اس دنیا کے جہنم ہونے میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟
ایک جانب مغرب کی تخلیق کردہ دنیا کا یہ عالم ہے کہ وہ جہنم کا منظر پیش کررہی ہے، دوسری جانب مغرب اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے یہ تاثر دے رہا ہے کہ اس نے دنیا کو ’’جنتِ ارضی‘‘ میں ڈھال دیا ہے۔ انسان چاند پر پہنچ چکا ہے۔ مریخ پر کمند ڈالنے والا ہے۔ مغرب کے دانش ور کہہ رہے ہیں کہ انسان موت پر قابو پانے ہی والا ہے اور دائمی زندگی انسان کا مقدر بننے ہی والی ہے۔ بدقسمتی سے مغرب کی جنت ایک ’’مفروضہ‘‘ ہے، مگر مغرب کا ’’جہنم‘‘ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مغرب نے جنتِ ارضی تخلیق کی ہے تو یہ جنت کہیں مغرب کے چند ملکوں کے لیے ہے، کہیں دنیا کی ایک فیصد آبادی کے لیے، کہیں اُن 8 افراد اور اُن کے متعلقین کے لیے ہے جنہوں نے ساڑھے تین ارب انسانوں کے برابر دولت جمع کرلی ہے۔