جماعت اسلامی کے بارے میں اب ’’پرائے‘‘ ہی نہیں ’’اپنے‘‘ بھی یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ جماعت اسلامی دوسری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرح کی پارٹی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے قیام کا پس منظر، محرک اور نصب العین اتنا مختلف ہے کہ اسے کسی دوسری جماعت کی طرح سمجھنا جہالت بھی ہے اور حماقت بھی۔ عام طور پر جماعتوں کے قیام کے محرکات کو تاریخ میں تلاش کیا جاتا ہے، مگر اتفاق سے مفکرِ اسلام اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودیؒ کی ایک ایسی تقریر موجود ہے جس میں مولانا نے جماعت اسلامی کے قیام کے اسباب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ مولانا کی اس تقریر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ مولانا نے اس تقریر میں کہا ہے کہ میں نے آج تک کہیں یہ بات بیان نہیں کی کہ میں نے جماعت اسلامی کیوں قائم کی۔ مولانا نے لکھا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ میں اِس دنیا سے رخصت ہوجائوں اور کسی کو معلوم ہی نہ ہوسکے کہ جماعت اسلامی کیوں قائم کی گئی۔ چنانچہ مولانا نے 26 اگست 1946ء کے روز جماعت اسلامی کے یوم تاسیس کے موقع پر ایک تقریر کی، جو بعدازاں ’’جماعت اسلامی کے 29 سال‘‘ کے عنوان کے تحت ایک کتابچے کی صورت میں شائع ہوئی۔ یہ تقریر اور کتابچہ جماعت اسلامی کے حوالے سے ایک قیمتی دستاویز ہے، اس لیے کہ اس تقریر اور کتابچے میں جماعت اسلامی کے بانی نے خود جماعت اسلامی کے قیام کے محرکات پر کلام کیا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے سب سے پہلے اُس ماحول پر روشنی ڈالی ہے جس میں مولانا نے شعور کی آنکھ کھولی۔ مولانا کے بقول تحریکِ خلافت کے وقت ان کی عمر سولہ سترہ سال تھی، اور دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ بھی تحریکِ خلافت سے متاثر تھے، مگر مولانا کو اس کم عمری میں بھی ترکی کی قیادت کے دو نقائص صاف نظر آرہے تھے۔ ترکی کی قیادت کا ایک نقص اس کی قوم پرستی تھا، اور دوسرا نقص مغرب سے سیکھی ہوئی لادینیت یا سیکولرازم۔ چنانچہ خلافت تحریک کے پُرجوش حامی ہونے کے باوجود مولانا کو اندیشہ تھا کہ کہیں ترکی کی قیادت خود خلافت کا خاتمہ نہ کردے۔ بدقسمتی سے مولانا کا یہ اندیشہ بعدازاں درست ثابت ہوا۔ مولانا کی نوجوانی کا دوسرا اہم واقعہ جلیانوالہ باغ کا سانحہ تھا۔ اس سانحے نے پورے ہندوستان کی سیاسی فضا کو بھی متاثر کیا اور برصغیر میں آزادی کے جذبے کو بھی پروان چڑھایا۔
مولانا کے عہدِ جوانی میں ہندو مسلم اتحاد کا غلغلہ بھی بلند ہورہا تھا اور بعض مذہبی رہنما بھی ’’ایک قومی نظریے‘‘ کے فروغ میں کردار ادا کررہے تھے، مگر مولانا کا علم اور فہم انہیں بتا رہا تھا کہ مسلمان ہر اعتبار سے ہندوئوں سے الگ قوم ہیں۔ مولانا کے بقول چونکہ انگریز خود ایک قوم تھے اس لیے انہوں نے اپنے تجربے اور پس منظر کو ہندوستان پر منطبق کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہوا تھا کہ ہندوستان بھی ایک قوم کا ملک ہے، اُن کا خیال تھا کہ اگر مسلمانوں کے کچھ تحفظات ہیں بھی تو مسلمانوں کے مفادات کو آئینی تحفظ مہیا کرکے مسلمانوں کو مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ تاہم مولانا کا خیال تھا کہ جس دن ہندوستان میں اقتدار ہندوئوں کے ہاتھ میں آئے گا مسلمانوں کو مہیا ہونے والے نام نہاد آئینی تحفظات کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہوگی، اور مسلمان عملاً انگریزوں کے بعد ہندوئوں کے غلام بن جائیں گے۔
مولانا مسلمانوں کے ’’جوہر‘‘ سے آشنا تھے اور اُنیس بیس سال کی عمر میں بھی ان کا خیال تھا کہ مسلمان ایک ’’مشنری قوم‘‘ ہیں، چنانچہ مسلمانوں کا قول اور عمل ایک ہونا چاہیے۔ تاہم مولانا دیکھ رہے تھے کہ مسلمانوں کی اخلاقی حالت اچھی نہیں ہے۔ دوسری اقوام جھوٹ بولتی ہیں اور مسلمان بھی اس برائی میں مبتلا ہیں۔ دوسری اقوام بددیانت اور بدکار ہیں اور مسلمانوں میں بھی بددیانتی اور بدکاری موجود ہے۔ چنانچہ ہندوئوں کو یہ جرأت ہورہی تھی کہ وہ شدھی کی تحریک کے ذریعے مسلمانوں کو ہندو بنا رہے تھے۔ شدھی تحریک کا بانی شردھانند نام کا ایک شخص تھا۔ مسلمانوں کی کمزوری، اور فہم کے نقص کا یہ عالم تھا کہ بعض مسلمان اسے دہلی کی جامع مسجد میں لے گئے اور اُس مقام پر کھڑا کردیا جہاں سے مؤذن اذان دیتا تھا۔ شردھانند کی اسلام دشمنی کی وجہ سے اسے قتل کردیا گیا، جس کے بعد گاندھی نے کہاکہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ یہی وہ وقت تھا جب مولانا محمد علی جوہر نے دہلی کی جامع مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ کیا تم میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اسلام کے تصورِ جہاد کو دلائل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرے! اس کے بعد مولانا نے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ پر کام شروع کرکے اسے مکمل کیا۔
مولانا کے بقول اس زمانے کے مسلمانوں میں چار بڑے عیب تھے۔ ایک عیب یہ تھا کہ مسلمان مغربی تہذیب کی پیروی کررہے تھے۔ وہ انگریزی لباس زیب تن کررہے تھے اور اردو اور ترکی کے رسم الخط کو بدل کر رومن رسم الخط اختیار کرنا چاہتے تھے۔ ہندوستان میں یہ کام نہ ہوسکا مگر ترکی میں رسم الخط تبدیل ہوا۔ مسلمانوں کا ایک اور عیب یہ تھا کہ ان میں مختلف علوم و فنون بالخصوص ادب کے ذریعے الحاد پھیلایا جارہا تھا۔ برصغیر میں 1936ء میں ترقی پسند تحریک شروع ہوچکی تھی۔ اس تحریک کا اثر پورے برصغیر کے شاعروں اور ادیبوں پر تھا۔ اس تحریک کے ہاتھ میں الحاد، سوشلزم اور مغربی تہذیب کے پرچم تھے۔ اس پر طرہ یہ تھا کہ کمیونسٹ تحریک بھی پورے برصغیر میں برپا ہوگئی۔ مولانا کے بقول مسلمانوں کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ان میں دو تعلیمی نظام موجود تھے۔ ایک طرف جدید تعلیمی نظام تھا جس کا دین اور اس کے تصور سے کوئی تعلق نہ تھا، چنانچہ اس نظام سے فارغ ہونے والے لوگ دنیا کو تو تھوڑا بہت سمجھتے تھے، مگر ان کے شعور پر اسلام کا کوئی اثر نہ تھا۔ دوسری طرف مدارس کا نظام تھا۔ اس نظام سے فارغ التحصیل ہونے والے دینی علوم کو تو جانتے تھے مگر جدید علوم اور دنیا کے تقاضوں سے آگاہ نہیں تھے۔
ان حالات میں گاندھی نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر ایک اہم بیان دے دیا۔ انہوں نے فرمایا: ہم آزادی کی جدوجہد کریں گے مسلمانوں کے ساتھ، مسلمانوں کے بغیر، بلکہ ان کی مزاحمت کے باوجود۔ گاندھی کے اس بیان نے مولانا کے اس اندیشے کو درست ثابت کردیا کہ ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ ایک ڈھکوسلا ہے، اور مسلمانوں کو اپنے حال اور مستقبل کے تحفظ کے لیے کانگریس سے قطع نظر کرتے ہوئے کچھ اور سوچنا ہوگا۔
اس عرصے میں مولانا نے حیدرآباد دکن میں قیام کیا۔ مولانا کے بقول وہ ریل گاڑی سے سفر کررہے تھے اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ریل میں موجود بعض مسلمان ہندو مسافروں کے ساتھ اس طرح بات کررہے تھے جیسے ہندو آقا ہوں اور مسلمان ان کے غلام۔ حیدرآباد دکن کی پوری ریاست مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی، اور وہ برصغیر کے مسلمانوں کا مان اور سہارا تھی، مگر حیدرآباد دکن کی صرف 15 فیصد آبادی مسلمان تھی اور 85 فیصد آبادی ہندوئوں پر مشتمل تھی۔ چنانچہ مولانا نے سوچا کہ جب آزادی کی تحریک کا سیلاب حیدرآباد پہنچے گا تو حیدرآباد میں مسلمانوں کی حکمرانی بھی اس سیلاب میں بہہ جائے گی۔
اس فضا میں مولانا نے 1932ء میں ترجمان القرآن کا اجرا کیا، اور اس کے دو بڑے مقاصد طے کیے۔ ایک یہ کہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر پیش کیا جائے، دوسرا یہ کہ مغرب کی تنقید کے ذریعے مسلمانوں کی مغرب زدگی کا علاج کیا جائے۔ ایسا کرتے ہوئے مولانا انبیا، مرسلین اور مجددین کی سنت کا اتباع کررہے تھے۔ ایک جانب وہ حق کو مکمل ضابطۂ حیات ثابت کرکے حق کی اہمیت اور فضیلت کو عیاں کررہے تھے، دوسری جانب وہ مغرب کی تنقید کے ذریعے مسلمانوں کو ’’مغربیت‘‘ سے نجات دلانے کی کوشش کررہے تھے۔ یہ دراصل مسلمانوں کے Colonized ذہن کو De-colonized کرنے کا عمل تھا، اور اس کام کی اہمیت دو ستونوں میں سے ایک ستون کی ہے۔
ہندوئوں کو جیسے جیسے یقین ہورہا تھا کہ ہندوستان کا اقتدار مستقبل میں انہی کے پاس ہوگا ویسے ویسے ان کی جرأت بڑھتی جارہی تھی، اور اب انہوں نے مسلمانوں کی جماعت سے بات کرنے کے بجائے براہِ راست مسلمانوں سے بات کرکے انہیں ’’ایک قومیت‘‘ کے جال میں پھانسنے کی کوششیں شروع کیں۔ چنانچہ مولانا نے دو قومی نظریے کی حمایت میں قلمی جہاد شروع کردیا۔ مولانا کے اس قلمی جہاد سے مسلم لیگ نے بھی بڑے پیمانے پر استفادہ کیا، اور ایک وقت وہ آیا جب مولانا کو یقین ہوگیا کہ اب مسلمان ایک قومیت کے جال میں ہرگز نہیں پھنسیں گے۔ مگر ایک مسئلہ اور بھی تھا۔
مولانا کا فہمِ دین انہیں بتا رہا تھا کہ مسلمان ایک مشنری قوم ہیں تو ان کی حکومت کو بھی مشنری ہونا چاہیے، مگر مولانا دیکھ رہے تھے کہ مسلم لیگ کی قیادت اس سلسلے میں کفایت کرتی نظر نہیں آرہی۔ مولانا کا خیال تھا کہ پاکستان بن بھی گیا تو مسلم لیگ پاکستان میں ’’قومی حکومت‘‘ قائم کرے گی، ’’اسلامی حکومت‘‘ نہیں۔
مولانا کے بقول یہ تھا وہ تاریخی پس منظر اور حالات، جس میں انہوں نے بالآخر جماعت اسلامی کے قیام کا فیصلہ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی کوئی ’’حادثاتی‘‘ یا ’’مفاداتی‘‘ گروہ نہیں ہے۔ مولانا نے جماعت اسلامی قائم کی تو اس کا نصب العین بھی واضح کیا۔ جماعت اسلامی کا نصب العین اللہ کے کلمے کو بلند اور غالب کرنا تھا، اور ہے۔ دوسری جانب اسے ہر شعبۂ حیات میں اسلامی نظام کے مثالی نمونے مہیا کرنے تھے، اور ہیں۔
مولانا نے جماعت اسلامی کے اراکین اور کارکنوں کے لیے معیارِ مطلوب کے باب میں یہ بات کہی کہ ان میں مندرجہ ذیل خوبیاں ہونی چاہئیں:
(1) انہیں عقاید میں پختہ ہونا چاہیے۔ اسلام اپنے کسی مطالبے یا تقاضے کی دلیل مہیا کرنے کے خلاف نہیں ہے، مگر مولانا چاہتے تھے کہ جماعت اسلامی کے وابستگان کے عقائد اتنے مضبوط ہوں کہ ان کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات بجائے خود کافی ہوں۔
(2) مولانا چاہتے تھے کہ جماعت اسلامی کے وابستگان سیرت و کردار میں قابلِ بھروسا ہوں۔ انہوں نے تحریکِ خلافت کی مثال دی ہے۔ اس تحریک میں برصغیر کے مسلمانوں نے بڑا سرمایہ صرف کیا مگر مولانا کے بقول مالی خوردبرد کے واقعات ہوئے جس سے تحریک کی ساتھ کو نقصان پہنچا۔
(3) مولانا کو معلوم تھا کہ جماعت اسلامی کے نظم و ضبط کو اختیار کرنا معاشرے کے تمام طبقات اور افراد کے لیے آسان نہ ہوگا، چنانچہ انہوں نے متفق کے تصور کو پیش کیا۔
(4) مولانا کا تصور یہ تھا کہ جماعت اسلامی کو قدیم و جدید کا امتزاج ہونا چاہیے۔ یعنی جماعت اسلامی میں دین کا فہم رکھنے والے بھی شامل ہوں اور جدید دنیا اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے والے بھی موجود ہوں، تاکہ جماعت کا اجتماعی ذہن ’’دوئی‘‘ کا شکار نہ ہو۔
(5) مولانا کا خیال تھا کہ جماعت کو تمام مسالک اور مکاتبِ فکر کا نمائندہ ہونا چاہیے تاکہ پوری قوم اور ملت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جاسکے۔ انہوں نے فرمایا کہ جماعت میں کوئی بھی آسکتا ہے مگر ہم اسے جماعت میں اپنے مسلک کو ’’امت‘‘ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کے سوا اس پر جماعت میں کوئی بھی پابندی نہیں ہوگی۔
(6) مولانا کے مطابق جماعت میں تزکیۂ نفس بہت ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی مسلمان داعی کا کردار ادا نہیں کرسکتا۔ مگر مولانا نے تزکیۂ نفس کے جس طریقے کی نشاندہی کی ہے وہ تزکیۂ نفس کا روایتی طریقہ نہیں ہے۔ مولانا کا تزکیۂ نفس کا تصور پانچ نکات پر مشتمل ہے:
(الف) جماعت کے وابستگان گالیاں کھا کر گالیاں نہ دیں بلکہ صبر سے کام لیں۔
(ب) جھوٹے الزام کے جواب میں جھوٹا الزام نہ لگائیں، یعنی صداقت پرست بنیں۔
(ج) کوئی لالچ آپ کو سیدھی راہ سے نہ ہٹا سکے۔ نہ مال کا لالچ، نہ عہدے اور منصب کا لالچ، نہ شہرت کی تمنا۔
(د) دین کے غلبے کی جدوجہد میں جماعت کے وابستگان ہر نقصان اٹھانے کے لیے تیار رہیں۔
(ہ) کسی بھی طاقت سے خوف زدہ ہوکر اپنا کام ترک نہ کریں۔ اپنا راستہ نہ چھوڑیں۔
ان نکات کی اہمیت یہ ہے کہ مولانا کی زندگی تزکیۂ نفس کا بہترین نمونہ تھی۔ انہیں ہر طرف سے گالیاں پڑیں مگر انہوں نے کبھی پلٹ کر کسی کو گالی نہ دی۔ ان پر جھوٹے الزامات کی بارش کی گئی مگر مولانا نے خود کسی پر جھوٹا الزام نہ لگایا۔ مولانا کو کبھی کسی لالچ کے نرغے میں آتے نہ دیکھا گیا۔ اس سے بھی سوا یہ کہ مولانا کسی نقصان سے گھبرائے، نہ کسی طاقت سے ڈرے۔ نہ کسی جماعت سے ڈرے، نہ کسی اسٹیبلشمنٹ سے ڈرے۔ نہ کسی یورپ سے خوف زدہ ہوئے، نہ کسی امریکہ اور سوویت یونین سے انہوں نے خوف محسوس کیا۔ اقبال نے کہا ہے:
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
مولانا نے زیر بحث کتابچے میں جماعت اسلامی کے تین اوصاف کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے:
(1) مولانا نے فرمایا ہے کہ جماعت اسلامی ’’تقریروں‘‘ سے نمودار ہونے والی جماعت نہیں، بلکہ جماعت اسلامی کی بنیاد لٹریچر ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لٹریچر جماعت ہے اور جماعت اسلامی لٹریچر ہے۔ لٹریچر علم کی علامت ہے، لٹریچر دلیل کی علامت ہے، لٹریچر شعور کی علامت ہے، حق کے شعور کی علامت۔ باطل کے شعور کی علامت۔ چنانچہ جماعت اسلامی کی زندگی لٹریچر پڑھنے، نیا لٹریچر تخلیق کرنے اور لٹریچر کو معاشرے میں پھیلانے کے اندر ہے۔ یہ وہ پیمانہ ہے جس پر جماعت کے ماضی، حال اور مستقبل کو پرکھا جائے گا۔ پرکھا جانا چاہیے۔
(2) مولانا نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ کارکن کا اخلاص اور خدمتِ خلق جماعت اسلامی کا تشخص بھی ہے اور اس کا اثاثہ بھی۔
(3) مولانا نے فرمایا ہے کہ جماعت اسلامی کے تشخص کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ باطل کی مزاحمت کرنے والی جماعت ہے۔ باطل کی مزاحمت انبیا و مرسلین اور مجددین کی سنت ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی کی جانب سے باطل کی مزاحمت ’’ضروری‘‘ نہیں ’’ناگزیر‘‘ ہے۔ باطل کی مزاحمت کا ایک پہلو فکری ہے، ایک پہلو نظام کی تخلیق ہے، یہاں ایک پہلو عملی مزاحمت کا بھی ہے۔ مولانا جب تک زندہ رہے وہ ان تینوں محاذوں پر خود بھی لڑتے رہے اور جماعت کو بھی ان تینوں محاذوں پر صف آرا رکھا۔ یہ جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کی وہ خوبی اور وہ وصف ہے جس میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ باطل کی مزاحمت بھی جماعت اسلامی کے ماضی، حال اور مستقبل کے تجزیے کا ایک پیمانہ ہے۔
مولانا نے زیر بحث کتابچے میں بتایا ہے کہ ایک اجتماع میں جماعت اسلامی کے ’’نئے اراکین‘‘ نے مولانا مودودی یعنی جماعت اسلامی پر کھلی تنقید ہوتے دیکھی تو وہ پریشان ہوئے، لیکن مولانا نے بتایا کہ امیر جماعت اسلامی پر تنقید جماعت کو صحت مند طریقے سے چلانے کا ایک طریقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے امیر کا فرض ہے کہ وہ اراکین کو مطمئن کرے یا پھر اراکین امیر جماعت اسلامی کو قائل کرلیں۔ یہ ہے اسلام کے تصورِ شورائیت کی اصل روح۔ اس سلسلے میں مولانا نے دوسری بات یہ کہی کہ جماعت کے فیصلے ’’کثرتِ رائے‘‘ کے بجائے ’’اتفاقِ رائے‘‘ سے ہوں تو اچھا ہے۔ اس اصول میں بھی اسلام کی روح پوری طرح کارفرما ہے۔
مولانا نے اپنی تقریر میں تین پیش گوئیاں بھی فرمائی تھیں۔ ان میں سے دو درست اور ایک غلط ثابت ہوئی۔ مولانا کی پہلی پیش گوئی یہ تھی کہ کانگریس دو ٹانگوں پر کھڑی ہے۔ ایک ٹانگ ہے مسلمانوں کی دشمنی، اور دوسری ٹانگ ہے آزادی۔ مولانا کا خیال تھا کہ ہندوستان کو آزادی مل گئی تو کانگریس کی صرف ایک ٹانگ باقی رہ جائے گی۔ مسلم دشمنی۔ یہی ہوا۔ مولانا کی دوسری پیش گوئی یہ تھی کہ ہندوستان میں اردو ختم ہوجائے گی۔ اردو ختم تو نہیں ہوئی مگر خاتمے کی طرف جا ضرور رہی ہے۔ مولانا کی تیسری پیش گوئی یہ تھی کہ ہندو قوم پرستی، داخلی تضادات کا شکار ہوکر ختم ہوجائے گی۔ مولانا کی یہ پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔ ہندو قوم پرستی قوی سے قوی تر ہوتی چلی گئی اور مستقبل قریب میں بھی اس کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں۔
مولانا نے اپنی تقریر میں صاف کہا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کو اسلامی بنانے سے شعوری طور پر گریز کیا۔ مولانا کے بقول قراردادِ مقاصد کو 1947ء ہی میں منظور ہوجانا چاہیے تھا مگر مسلم لیگی 1947ء میں کہہ رہے تھے کہ اگر حدود کے قوانین نافذ کیے گئے تو 95 فیصد پاکستانیوں کے ہاتھ کٹ جائیں گے۔ مولانا کے بقول یہ بات کہنے والے دراصل یہ فرما رہے تھے کہ پاکستان کے 95 فیصد عوام چور ہیں۔ قراردادِ مقاصد 1949ء میں منظور ہوئی، مگر مولانا کے بقول اس کا مقصد عوام کا منہ بند کرنا تھا، ورنہ قراردادِ مقاصد ایک ایسی بارش تھی جس سے پہلے نہ کوئی گھٹا اٹھی، نہ اس کے بعد کوئی روئیدگی پیدا ہوئی۔ مولانا کے تجزیے کے مطابق ختمِ نبوت کی تحریک مطالبۂ اسلامی کو روکنے کی ایک کوشش تھی۔ مولانا کے بقول انہوں نے ختمِ نبوت کی تحریک کے رہنمائوں کو بہت سمجھایا کہ اسلامی دستور بن رہا ہے، چنانچہ آپ کچھ دن کے لیے اپنی تحریک مؤخر کردیں۔ مگر ایسا نہ ہوسکا، اور ختمِ نبوت کی تحریک کے دوران پیدا ہونے والے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور میں مارشل لا لگادیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین کو برطرف کردیا گیا۔
مولانا کا ذہن پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالے سے واضح تھا۔ چنانچہ انہوں نے 1948ء میں لاہور کے ایک کالج میں تقریر کرتے ہوئے چار نکاتی مطالبہ پیش کیا:
(1) مولانا نے مطالبہ کیا کہ آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے۔
(2) حکومت اللہ کی قائم کردہ حدود میں کام کرے۔
(3) انگریزی دور کے وہ قوانین منسوخ کردیئے جائیں جو خلافِ شریعت ہوں۔
(4)نئے قوانین اسلام کے مطابق بنائے جائیں۔
قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی زمانے میں اگرچہ جماعت اسلامی آج کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی جماعت تھی، مگر مولانا اور جماعت کی آواز اتنی مؤثر تھی کہ مولانا کو بار بار جیل بھیجا جارہا تھا، یہاں تک کہ انہیں سزائے موت سنادی گئی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا اور ان کی جماعت حکمرانوں کے لیے کتنا بڑا دردِ سر تھے۔ اس منظرنامے میں مولانا کے خلاف ایک سازش کی گئی۔ ایک سرکاری اہلکار مولانا کے پاس آیا اور تنہائی میں ملاقات کا خواہش مند ہوا۔ ملاقات میں اُس نے مولانا سے پوچھا کہ آپ جہادِ کشمیر میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟ مولانا نے کہاکہ جس قوم سے حکومت پاکستان نہ لڑ رہی ہو اس سے افراد کیسے لڑ سکتے ہیں! اس شخص نے اگلے دن پریس سے جاکر کہہ دیا کہ مولانا مودودی جہادِ کشمیر کے خلاف ہیں۔ مولانا نے ریڈیو پر آکر اپنے مؤقف کی وضاحت کرنی چاہی مگر انہیں اس کا موقع ہی نہ دیا گیا۔ مولانا کے بقول 1949ء سے 1967ء تک جماعت اسلامی کے خلاف پروپیگنڈا مہم جاری رہی۔ علما کا ایک گروہ بھی مولانا اور جماعت اسلامی پر حملے کرتا رہا، اور 1970ء تک پروپیگنڈے کی شدت بڑھتی رہی۔ اس عرصے میں 1963ء کا اجتماع آیا اور اس موقع پر جماعت کو ختم کرنے کی سازش کی گئی۔ جماعت کو ایک تنگ جگہ پر اجتماع کے لیے مجبور کیا گیا۔ جماعت کو لائوڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہ دی گئی، اور بالآخر اجتماع پر غنڈوں کو چھوڑ دیا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ مزاحمت ہو تو جماعت پر پابندی کی راہ ہموار کی جائے۔ اجتماع میں مولانا پر فائرنگ کی گئی۔ اس موقع پر کسی نے مولانا سے کہا کہ آپ بیٹھ جایئے۔ اس کے جواب میں مولانا نے تاریخی فقرہ کہا۔ انہوں نے کہاکہ اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا۔ حکومتِ وقت کی سازش ناکام ہوگئی مگر 1964ء میں جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی۔
تحریکوں کے بانی تحریکوں کے لیے آئینے کی طرح ہوتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی شخصیت اور ان کی فکر جماعت اسلامی کے لیے آئینہ ہے۔ اس آئینے میں دیکھ کر جماعت اسلامی کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس کے خدوخال کیسے ہیں؟