مغرب کے پالیسی ساز برطانوی جریدے “دی اکنامسٹ” کے مضمون کا ایک تجزیہ
ایک ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کی حکمت عملی یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو فنا کردو، یا ان کو اس طرح بدل دو کہ اسلام، اسلام نہ رہے اور مسلمان، مسلمان نہ رہیں۔ بسا اوقات مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کو بیک وقت کچلا بھی ہے اور بدلا بھی ہے۔ 1095ء میں پوپ اُربن دوئم نے صلیبی جنگوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو فنا کرنے کی سازش کی تھی۔ نوآبادیاتی دور میں مغربی طاقتوں نے مسلمانوں کو مارا بھی اور اپنی تعبیرات کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو بدلا بھی۔ اس حوالے سے اکبرالٰہ آبادی نے بے مثال شعر کہا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے:
توپ کھسکی پروفیسر آئے
جب بسولہ ہٹا تو رندا ہے
اکبر کہہ رہے ہیںکہ مغرب پہلے توپ کے ذریعے حریفوں پر غالب آتا ہے، اور غلبے کے بعد پروفیسروں یا دانش وروں کو بھیج کر توپ سے حاصل ہونے والے غلبے کو تہذیبی اور علمی بنیادیں مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ برصغیر میں یہی ہوا۔ پہلے انگریزوں نے عسکری طاقت کے ذریعے مسلم سلطنت کو تہ و بالا کیا، اور پھر لارڈ میکالے اور ان جیسے لوگوں نے یہاں آکر مقامی باشندوں کو مغربی علوم کے ذریعے ’’مہذب‘‘ بنانے کی کوشش کی۔ نائن الیون کے بعد مغرب پوری طرح ننگا ہوکر سامنے آگیا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ٹوئن ٹاورز کس نے گرائے ہیں اور پینٹاگون کے صدر دفتر کو کس نے نشانہ بنایا ہے، مگر امریکہ کے نیوز چینل ’فوکس نیوز‘ پر امریکہ کے دو سابق وزرائے خارجہ اور سی آئی اے کے دو سابق سربراہ اس بات پر متفق تھے کہ اگر امریکہ کو جوابی کارروائی میں افغانستان کے خلاف ایٹم بم بھی استعمال کرنا پڑے تو اسے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ نائن الیون کے واقعے نے نہ صرف یہ کہ افغانستان اور عراق پر جارحیت مسلط کرائی بلکہ پاکستان کے حکمرانوں کو کرائے کے فوجی میں تبدیل کردیا۔ نائن الیون نے امریکہ اور یورپ میں آباد مسلمانوں کو بدترین دبائو اور خوف میں مبتلا کردیا۔ مغربی ممالک میں مسلمانوں پر حملے عام ہوگئے۔ ان کے خلاف نفرت کی سطح بلند ہوگئی۔ کئی یورپی ممالک میں برقعے کو کیا، اسکارف کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا۔ امریکہ میں پیٹریاٹ ایکٹ ون اور پیٹریاٹ ایکٹ ٹو کے تحت مسلمانوں کی آزادیاں سلب کرلی گئیں۔ ان کی ڈاک کی نگرانی ہونے لگی، ان کی ای میلز پر نظر رکھی جانے لگی، ان کے فون ٹیپ کیے جانے لگے، انہیں چھے ماہ کے لیے کوئی وجہ بتائے بغیر گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ مغرب نے خوف کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف 17 سال تک ایک ’’ہتھیار‘‘ کے طور پر استعمال کیا۔ اکبرالٰہ آبادی کے الفاظ میں یہ توپ کا استعمال تھا۔ توپ کے استعمال کے بعد ’’پروفیسر‘‘ کو آنا ہی تھا۔ ان میں سے ایک پروفیسر کا نام جیسنڈا آرڈرن ہے۔
مسلم دنیا کے بعض دانش وروں، صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور سیاسی رہنمائوں نے جیسنڈا آرڈرن کی اتنی تعریف کی ہے کہ اگر ان کے لیے ممکن ہوتا تو وہ جیسنڈا آرڈرن کو ’’عقدِ ثانی‘‘ کا پیغام دینے سے نہ ہچکچاتے۔ مسلمانوں کی تاریخ ہے کہ خیر اور نیکی کو جہاں دیکھتے ہیں اس کی حمایت بھی کرتے ہیں اور تعریف بھی۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے سانحہ نیوزی لینڈ کے بعد جس طرح نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کی دل جوئی کی، وہ قابلِ تعریف ہے۔ ہر برادری میںکچھ اچھے انسان ہوتے ہی ہیں۔ چنانچہ ان کی تعریف ہونا ہی چاہیے۔ مگر مغرب ایک ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں کے تعاقب میں ہے۔ مسلمان مغرب کے ’’دودھ‘‘ ہی کے نہیں ’’چھاچھ‘‘ کے بھی جلے ہوئے ہیں، چنانچہ انہیں کسی واقعے کے بہائو میں بہنا نہیں چاہیے، اور ’’حقائق‘‘ پر نظر رکھنی چاہیے۔
نیوزی لینڈ کی آبادی صرف 50لاکھ ہے۔ عالمی سیاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی آبادی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ چنانچہ بظاہر وہاں دو مساجد پر حملے کا کوئی ’’منطقی جواز‘‘ نہیں تھا۔ مگر وہاں دو مساجد پر دن دہاڑے حملہ ہوا اور 50 مسلمان شہید اور 40 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ 28 سالہ برینٹن ٹیرنٹ کے انتہا پسندوں سے رابطے تھے اور وہ سوشل میڈیا پر اپنے انتہا پسندانہ خیالات کا اظہارکررہا تھا، مگر نیوزی لینڈ سمیت کسی مغربی ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ان خیالات کا نوٹس نہ لیا۔ اُس نے چھے سات بڑی گنز خریدیں، مگر نیوزی لینڈ کے متعلقہ اداروں نے اس بات کا نوٹس ہی نہ لیا کہ ایک نوجوان اپنے گھر میں اسلحہ کا ڈھیر کیوں لگا رہا ہے۔ اخباری رپورٹ سے ثابت ہوچکا ہے کہ پولیس دو منٹ میں موقع واردات پر پہنچ سکتی تھی، مگر نہیں پہنچی۔ پانچ منٹ میں ایمبولینسز آسکتی تھیں، مگر نہ آئیں۔ تو کیا جیسنڈا آرڈرن کا جذبہ جھوٹا ہے؟ نہیں، مگر ان کا جذبہ ’’سیاسی‘‘ ضرور ہے۔ مگر اس دعوے کی دلیل کیا ہے؟
مغرب ایک ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ’’ایک اکائی‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں پر صلیبی جنگ کسی ایک مغربی ملک نے مسلط نہیں کی تھی بلکہ ’’پورا یورپ‘‘ صلیبی جنگوں میں شریک تھا۔ مسلمانوں پر نوآبادیاتی دور کسی ایک مغربی ملک نے نہیں ٹھونسا تھا، بلکہ یورپ کی ’’تمام اقوام‘‘ اس کی ذمے دار تھیں۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر صرف امریکہ نے حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ تمام مغربی اقوام اس سلسلے میں امریکہ کے ساتھ تھیں۔ چنانچہ سانحۂ نیوزی لینڈ کو ’’مقامی واقعہ‘‘ اور جیسنڈا آرڈرن کے طرزعمل اور ردعمل کو ’’انفرادی طرزِعمل‘‘ اور ’’انفرادی ردعمل‘‘ سمجھنا درست نہیں۔
اس کی ایک نہیں، کئی ٹھوس شہادتیں موجود ہیں۔ اگرچہ نیوزی لینڈ کا عالمی سیاست سے بظاہر کوئی تعلق نہیں، مگر نیوزی لینڈ دنیا کے اُن چھے سات ممالک میں شامل ہے جن کے ساتھ امریکہ خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نیوزی لینڈ مغرب کے عالمی ایجنڈے کے دائرے کے اندر ہے، اس کے باہر نہیں۔ سانحہ نیوزی لینڈ 15 مارچ 2019ء کو ہوا، اس سے محض ایک ماہ قبل لندن سے شائع ہونے والے مغربی دنیا کے اہم ترین ہفت روزے ’’دی اکنامسٹ‘‘ نے اپنے 9 فروری سے 15 فروری 2019ء کے شمارے میں 12 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کا مجموعی عنوان ہے:
(Islam) Here to Stay
مغرب میں اسلام کے ’’Stay‘‘ کرنے کا مفہوم کیا ہے، اس پر آئندہ سطور میں تفصیل سے گفتگو ہوگی، البتہ یہاں یہ کہنا اہم ہے کہ امریکہ اور پورا یورپ نائن الیون کے بعد سے اب تک
“Islam you must not stay here”
اور
“Muslims you must not stay here”
کے عنوان سے مہم چلائے ہوئے تھے۔ مگر اب اچانک مغرب کا ایک اہم ’’رائے ساز‘‘ اور ’’رجحان ساز‘‘ رسالہ اپنی تفصیلی رپورٹ میں بتا رہا ہے کہ اسلام اور مسلمان مغرب میں ’’Stay‘‘ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ دی اکنامسٹ کے اس شمارے میں شائع ہونے والے ایک صفحے کے مضمون کا عنوان بھی معنی خیز ہے:
“Muslims are going native”
یعنی مغرب میں مقیم مسلمان ’’مقامی‘‘ بن رہے ہیں۔
حالانکہ مغرب اور اس کے ذرائع ابلاغ گزشتہ 18سال سے اس بات کے لیے مہم چلائے ہوئے تھے کہ مغرب میں مسلمان ’’مقامی‘‘ نہیں ہیں، وہ ’’اسلامی‘‘ ہیں، ’’جہادی‘‘ ہیں، ’’جنوبی ایشیائی‘‘ ہیں، ان پر ’’مشرق وسطیٰ‘‘ کا اثر ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اب مغرب کا ایک اہم رسالہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے: سنو سنو اے دنیا والو! مغرب کے مسلمان ’’مقامی‘‘ ہوگئے ہیں۔ مغرب کے نزدیک مسلمانوں کے ’’مقامی‘‘ ہونے کا کیا مفہوم ہے، اس کا ذکر بھی آئندہ سطور میں ہونے والا ہے۔
امریکہ کے ممتاز ہفت روزے Time کے یکم اپریل 2019ء کے شمارے کا ’’سرورق‘‘ بھی انتہائی اہم ہے۔ ٹائم نے سانحہ نیوزی لینڈ کے حوالے سے سرورق بنایا ہے۔ سرورق پر تین افراد قارئین کی طرف پیٹھ کیے کھڑے ہیں۔ ان میں سے ایک ’’باحجاب‘‘ مسلمان عورت بھی ہے۔ تینوں افراد ستاروں سے مزین افق کو دیکھ رہے ہیں اور ان کے قدموں میں گلاب کے پودے اگ رہے ہیں۔ ٹائٹل کی سرخی ہے:
“WHAT TERROR CAN’T DIVIDE”
یعنی ’’وہ جسے دہشت تقسیم نہیں کرسکتی‘‘۔ اس سرخی کا مزید آسان ترجمہ یہ ہے:
’’دہشت گردی مغرب کے مسلمانوں اور مقامی آبادی کو تقسیم نہیں کرسکتی‘‘۔
بہت اچھی بات ہے، مگر پوری مغربی دنیا اور اس کے ہزاروں اخبارات، رسالے اور چینلز گزشتہ 18 برس سے مغرب و مشرق میں آباد مسلمانوں اور مغرب کی مقامی آبادی کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرکے انہیں تقسیم کررہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ مغرب کے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کے قلوب و اذہان میں اچانک اسلام اور مسلمانوں کے لیے ’’محبت کے چشمے‘‘ کیوں ابلنے لگے؟ اس سوال کے دو جواب ہیں، ایک جواب خود دی اکنامسٹ کے 16 سے 22 فروری 2019ء کے شمارے میں موجود ہے۔ اس جواب کی تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں۔ ذرا دل تھام کر ملاحظہ کیجیے:
دی اکنامسٹ نے Muslims are going native کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھا:
’’مغربی اسلام‘‘ کی ایسی کایا کلپ ہورہی ہے جس کا بہت کم نوٹس لیا جارہا ہے۔ جیسا کہ اس ہفتے کی ہماری رپورٹ سے ظاہر ہے ’’فطری انجذاب اور قبولیت وہ کام کررہے ہیں جو اسلامی انتہا پسندی کے سلسلے میں حکومتیں بھی نہیں کرسکیں‘‘۔
(دی اکنامسٹ۔ 16 تا 22 فروری 2019ء۔ صفحہ 13)
سوال یہ ہے کہ جو کام مغربی حکومتیں بھی نہیں کرسکیں وہ کام کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دی اکنامسٹ کی زبانی سنیے، لکھتا ہے:
“Three generations after their arrival, they are fashioning a theology for highly diverse societies and secular systems of government in which Islam does not hold power. In short, they are building a Western Islam”
(The Economist Page-5)
ترجمہ: (مسلم دنیا سے مغرب میں آنے والی) تین نسلیں ایک متنوع معاشرے اور سیکولر نظام حکومت میں ایک ایسی Theology وضع کررہی ہیں، جس کے دائرے میں طاقت اسلام کے پاس نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ (مغرب میں آباد مسلمانوں کی تین نسلیں) ’’مغربی اسلام‘‘ تخلیق کررہی ہیں‘‘۔
’’مغربی اسلام‘‘ کیا ہے، آیئے دی اکنامسٹ ہی سے سنتے ہیں۔ دی اکنامسٹ کے مطابق جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ اسلام کا جرمنی سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کیا ہے اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا جرمنی سے تعلق ہوسکتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں جرمنی میں آباد مسلمانوں کے لیے ایک استقبالیہ دیا تھا۔ اس استقبالیے میں طرح طرح کی شرابیں بھی تھیں اور خنزیر کا گوشت بھی۔ ایک جرمن اہلکار نے اس موقع پر کہا کہ اگر مسلمانوں کو مغرب کی ’’عریانی‘‘ اور شراب بری لگتی ہے تو وہ کہیں اور جاکر رہیں۔
(دی اکنامسٹ صفحہ۔7)
آپ نے مغرب کے تخلیق کردہ ’’مغربی اسلام‘‘ کا ایک چہرہ ملاحظہ کیا۔ اب دوسرا چہرہ ملاحظہ فرمایئے۔ اکنامسٹ لکھتا ہے:
’’جرمنی میں اسلام کو جرمنی کی شرائط پر قومی زندگی کا حصہ بنانے کا منصوبہ جرمنی کے سول سرونٹ مارکس کربر سے متعلق ہے۔ مارکس کربر کا کہنا ہے کہ جرمنی کی مساجد کو بیرونی ہاتھوں سے آزاد کراکے اپنے ہاتھوں میں لینے کی ضرورت ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح جرمن رہنما بسمارک نے 19 ویں صدی میں کیتھولک چرچ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ مارکس کربر کے مطابق مساجد کو حکومت اسی طرح امداد دے سکتی ہے جس طرح وہ عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں کو امداد دیتی ہے۔ اس کے بقول مساجد میں ’’غیر ملکی اماموں‘‘ کی جگہ ’’جرمن اماموں‘‘ کو تعینات کیا جانا چاہیے۔ ان اماموں کو حکومت خود تربیت دے گی اور اماموں کا تقرر حکومت کے ہاتھ میں ہوگا۔ ایک وقت تھا کہ مغربی سیاسی رہنما کثیرالثقافتی اور متنوع معاشرے کی بات کیا کرتے تھے، مگر اب وہ مسلمانوں پر زور دے رہے ہیں کہ ان کے عقائد کو مغربی اقدار سے ہم آہنگ ہونا ہوگا‘‘۔
(دی اکنامسٹ۔ صفحہ 7)
دی اکنامسٹ نے ’’مغربی اسلام‘‘ کے ایک اور چہرے پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بقول آسٹریا کے اسکولوں میں مسلم بچیوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ تیراکی سیکھیں اور تیراکی کی کلاسز لیں۔ مسلمان طالبات پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ جبری شادیوں اور ہم جنس پرستی کو برا گرداننے کے خلاف لکھیں۔
(دی اکنامسٹ، صفحہ8)
’’مغربی اسلام‘‘ کے ایک اور چہرے کی نشاندہی کرتے ہوئے دی اکنامسٹ نے لکھا ہے:
’’آئرلینڈ میں سلفی مسلمانوں کی پرانی نسل چھوٹے چھوٹے اسلامی قوانین کا دفاع کررہی ہے اور ان کے بچوں میں یہ بحث ہورہی ہے کہ خدا ہے بھی کہ نہیں۔ آئرلینڈ ہی میں فتویٰ دینے والے ادارے نے سود میں جڑیں رکھنے والے رہن کی حمایت کردی ہے۔ آئرلینڈ کے مفتیوں کا کہنا ہے کہ اسلام لانے والی عورت غیر مسلم شوہر کے ساتھ زندگی بسر کرسکتی ہے۔ بہت سے لوگ سخت انحرافی رویوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ ایک امام نے کہا: ’’میں خدا تھوڑی ہوں، یہ تو خدا کام ہے کہ وہ بتائے کیا اچھا ہے کیا برا ہے‘‘۔ دی اکنامسٹ کے بقول شام سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر بسام طائبی نے کہاکہ ’’یورپی اسلام‘‘ کی جڑیں نشاۃ ثانیہ، روشن خیالی اور فرانسیسی انقلاب میں پیوست ہیں۔ مغرب میں ایسی مساجد وجود میں آچکی ہیں جہاں خواتین نمازوں کی امامت کررہی ہیں۔ کئی مساجد میں نمازِ جمعہ، جمعہ کے روز نہیں بلکہ اتوار کے روز ادا کی جاتی ہے، اس لیے کہ مغربی ممالک میں جمعہ کا دن دفاتر میں حاضری کا دن ہے۔ لمیا قادر نام کی ایک شامی نژاد عورت ہم جنس پرستوں کے حقوق کی بات کررہی ہے۔ وہ ٹوئٹر پر ہم جنس پرست مسلمانوں کی نمازوں کا اعلان کرتی ہے۔ فرانس میں ہم جنس پرست اماموں کی تربیت کا ادارہ قائم کیا جاچکا ہے۔
(دی اکنامسٹ، صفحہ11)
گھبرایئے نہیں، ابھی ’’مغربی اسلام‘‘ کے ایک اور چہرے کا دیدار باقی ہے۔ دی اکنامسٹ لکھتا ہے:
’’جرمنی میں ’’سیکولر اسلام‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوچکا ہے۔ ایک امام مسجد نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’تنقیدی سوانح‘‘ لکھ ڈالی ہے۔ امریکہ کے Pew Research Centerکے ایک سروے کے مطابق مغرب میں آباد 23 فیصد مسلمان اپنے تشخص کو اسلام سے وابستہ نہیں کرتے۔ دی اکنامسٹ کے مطابق امریکہ کے پچاس فیصد مسلم طلبہ و طالبات نے تسلیم کیا ہے کہ وہ شادی سے پہلے جنسی تعلقات کے تجربے سے گزر چکے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 2013ء میں کوئی مسلم لڑکی یہ اعتراف نہیں کرتی تھی کہ اس کا کوئی بوائے فرینڈ ہے۔ اب بہت سی لڑکیاں کہتی ہیں کہ وہ Bi-Sexual ہیں۔ Muslim dating app بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پہلے مساجد میں عورتیں مساجد کی گیلریوں میں نماز پڑھتی تھیں، اب مغربی ممالک کی مساجد میں وہ مردوں کے ٹھیک پیچھے بلکہ ان کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز پڑھتی نظر آتی ہیں۔ مغرب میں آباد مسلمانوں میں ہم جنس پرستی کے خلاف سخت ردعمل موجود ہے۔ برطانیہ کے 65 سے 76 فیصد افراد ہم جنس پرستی پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں، مگر 18 سے 24 سال کی عمر کے برطانوی نوجوانوں میں سے صرف 40 فیصد ہم جنس پرستی کے خلاف ہیں۔
(دی اکنامسٹ، صفحہ 12)
اب آپ کو اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کے Native یا ’’مقامی‘‘ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اب آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ مغرب کے ذرائع ابلاغ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ اب اسلام مغرب میں ’’Stay‘‘ کرے گا۔ ان حقائق سے آپ کو یہ بات بھی معلوم ہوگئی ہوگی کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کا جذبہ کیوں ’’سیاسی‘‘ ہے۔ وہ اسلام کے اصل تشخص پر اصرار کرنے والے مسلمانوں کو گلے نہیں لگا رہی تھیں بلکہ وہ ایسے مسلمانوں کو گلے لگا رہی تھیں جن کی آئندہ نسلوں کو ’’مقامی‘‘ بننا ہے۔ ان نسلوں میں وہ ’’مسلمان‘‘ ہوں گے جو مسلمان ہونے کے باوجود شراب پئیں گے، خنزیر کھائیں گے، ہم جنس پرستی کی حمایت کریں گے، ’’سیکولر اسلام‘‘ ایجاد کریں گے، ہم جنس پرست اماموں کا ادارہ قائم کریں گے۔ ہم ایک بار پھر دہراتے ہیں جیسنڈا آرڈرن مغرب کے مرکزی دھارے سے الگ کوئی شخصیت نہیں ہیں۔ مغرب کے دانش ور ’’مغربی اسلام‘‘ اور مغربی مسلمانوں کی ’’نئی نسلوں‘‘ سے کتنا خوش ہیں اس کا اندازہ آپ فرانس میں اسلام پر اتھارٹی سمجھے جانے والے اولیویئر رائے (Olivier Roy) کے تبصرے سے کیجیے۔ فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں کی نئی نسل نے جنگ میں فتح حاصل کرلی ہے‘‘۔(دی اکنامسٹ، صفحہ12)
رائے کے نزدیک مسلمانوں کی ’’گمراہی‘‘ فتح ہے، ’’ضلالت‘‘ کامیابی ہے، اور اسلام سے وابستہ رہنا ان کی شکست ہے۔ اس سلسلے میں چلتے چلتے خود دی اکنامسٹ کی رائے بھی سن لیجیے:
“Islam belongs to Western history and culture. Muslims have governed parts of Europe for 13 centuries: they helped kindle the Renaissance. If today’s varied and liberal form of Islam continues to flourish, it may even serve as an example of tolerance for the rest of the Muslims world.”
(The Economist- Page13)
ترجمہ: اسلام مغرب کی تاریخ اور کلچر کا حصہ ہے۔ مسلمانوں نے یورپ کے کچھ حصوں پر 13 صدیوں تک حکومت کی ہے۔ انہوں نے نشاۃ ثانیہ میں یورپ کی مدد کی۔ اگر اب اسلام مختلف النوع اور لبرل صورت میں فروغ پذیر ہورہا ہے تو ممکن ہے مغرب کے مسلمان باقی مسلم دنیا کے لیے بھی برداشت کی مثال بن جائیں۔‘‘
آپ نے دیکھا انحرافات، گمراہیوں اور ضلالت کا شکار ہوتے ہی مسلمان کیا، پورا اسلام مغرب کی ’’تاریخ اور کلچر کا حصہ‘‘ بھی ہوگیا اور مغرب کو اچانک یہ بھی یاد آگیا کہ مغرب کی نشاۃ ثانیہ اسلامی اثرات کا حاصل تھی۔ لیکن دی اکنامسٹ نے ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ ’’مغرب کے مسلمان‘‘ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ’’نمونۂ عمل‘‘ بھی بن سکتے ہیں۔ اسی منصوبے کے تحت ملعونہ آسیہ کو رہائی دلائی گئی ہے، اسی کے تحت میاں نوازشریف کے دور میں زنا بالرضا کو ’’حلال‘‘ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، اور میاں صاحب کا ’’اعزاز‘‘ ہے کہ ان کے دور میں اس مطالبے کو ’’قابلِ غور‘‘ قرار دیا گیا۔
مسلمان کئی بار مغرب میں آباد ہوئے مگر انہیں اہلِ مغرب نے مار بھگایا۔ اس لیے کہ انہوں نے اسلام کو ترک کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مگر اِس بار مغرب کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ دی اکنامسٹ نے لکھا:
“Having settled in the West for the third time in history, this time in a different role, Islam seems destined to stay. The journey so far has not been easy. But a third generation of Muslims now seems set to become a permanent part of a more diverse, more tolerant Western society- as long as that society continues to nurture those virtues.”
(The Economist Page13)
ترجمہ: مسلمان اِس بار مغرب میں تیسری مرتبہ آباد ہوئے ہیں، مگر اِس بار ان کا رول مختلف دکھائی دے رہا ہے، چنانچہ اسلام مغرب میں ٹھیرے گا یعنی Stay کرے گا۔ مسلمانوں کا اب تک کا سفر آسان نہیں تھا، مگر اِس بار مغرب میں آباد مسلمانوں کی تیسری نسل مغرب کے زیادہ متحمل مزاج معاشرے کا حصہ بنی ہے، اور جب تک مسلم معاشرہ ان تصورات سے جڑا رہے گا جن سے اب جڑا ہوا ہے تب تک وہ مغرب کے معاشرے کا حصہ رہے گا۔‘‘
آپ نے دیکھا، یہ ہے مغرب کی رواداری، برداشت اور تحمل۔ مسلمان اسلام چھوڑ دیں تو وہ مغرب کا حصہ رہیں گے۔ مسلمان اسلام پر اصرار شروع کردیں گے تو انہیں ایک بار پھر مغرب سے کھدیڑ دیا جائے گا۔ جیسا کہ ظاہر ہے مغرب نے برداشت اور رواداری کا مفہوم ہی بدل ڈالا ہے۔ لیکن بہرحال یہ ہے وہ سب سے بڑی وجہ جو اسلام اور مسلمانوں پر مغرب کی ’’مہربانی‘‘ کا سبب بن رہی ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی ’’مہربانیاں‘‘ بھی اسی وسیع مہربانی کا حصہ ہیں، مگر مغرب کا ایک مسئلہ اور بھی ہے۔
سوشلزم کی تحلیل اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغرب کا خیال تھا کہ جس طرح 19 ویں اور 20 ویں صدی بھی اس کی تھی اسی طرح 21 ویں صدی بھی اسی کی ہوگی۔ امریکہ کے ممتاز دانش ور فوکویاما نے اعلان کردیا تھا کہ تاریخ کا سفر سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی کشمکش کے سوا کچھ نہ تھا، چونکہ سوشلزم کو شکست ہوگئی ہے اس لیے تاریخ کا سفر بھی ختم ہوگیا ہے، اور اب دنیا کے پاس کرنے کو صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ وہ جدید مغربی تہذیب کی اقدار کی پیروی اور پرستش کرے۔ مگر مغرب کی بدقسمتی کہ روس دوبارہ بڑی قوت بن کر ابھر آیا۔ اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ چین امریکہ کے مقابلے کی طاقت بن کر ابھر آیا۔ ہمیں یاد ہے کہ امریکی دانش ور سیموئل ہن ٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا تو جہاں انہوں نے اسلامی تہذیب کو مغرب کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا، وہیں یہ بھی کہاکہ تہذیبوں کا تصادم ہوگا تو چین اور اسلامی تہذیب مغرب کے خلاف متحد ہوکر سامنے آسکتی ہیں۔ ایسا ہوگا یا نہیں، اس بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا ممکن نہیں، مگر مغرب بہرحال یہ چاہتا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان اگر تصادم کی نوبت آئے تو مسلم دنیا چین کے بجائے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کا ساتھ دے۔ چنانچہ مغرب اس لیے بھی اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں اپنے لب و لہجے کو بدل رہا ہے۔ مگر جیسا کہ ظاہر ہے مغرب اسلام کا بھی دشمن ہے اور مسلمانوں کا بھی۔ اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا تو ان کو بدل دو۔ مسلمانوں ہی کو نہیں، اسلام کو بھی مغربی بنادو۔ سرسید مسلمانوں کو مغربی بنانا چاہتے تھے۔ ان کا مشہور نعرہ تھا ’’مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن، دوسرے میں سائنس، اور سر پر لاالٰہ کا تاج‘‘۔ مگر سرسید کا مغرب آج مسلمانوں سے کہہ رہا ہے: ایک ہاتھ میں نماز، دوسرے میں ہم جنس پرستی، اور سر پر لادینیت یعنی سیکولرازم کا تاج۔ سرسید کے دوست اور شاگرد مولانا الطاف حسین حالی بڑے جوش و جذبے کے ساتھ فرمایا کرتے تھے:
حالی اب آئو پیرویٔ مغربی کریں
کاش کوئی مولانا حالی کو عالمِ بالا میں جاکر بتاتا کہ اب ان کی ’’پیرویٔ مغربی‘‘ کے ’’تقاضے‘‘ کیا ہوگئے ہیں؟ مسلم معاشروں میں دانش ور، علما، سیاست دان اور مذہبی عناصر لمبی تان کر سورہے ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ ایک سیلابِ بلاخیز لمحہ لمحہ ان کی جانب بڑھ رہا ہے… ان کے اسلام اور ان کے معاشرے اور خود انہیں ’’مغربی‘‘ بنانے کے لیے۔ کیا کوئی زندہ ہے اور سن رہا ہے؟
یہاں کہنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ یہ ہے وہ مغرب جسے مسلم دنیا کے سول اور فوجی حکمران ہمارے لیے ماڈل بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ہے وہ مغرب جسے مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ ہمارے لیے قابلِ تقلید سمجھتے ہیں۔ یہ ہے وہ مغرب جس سے مسلم دنیا کے ’’احمق دانش ور‘‘ مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہے وہ مغرب جسے مولانا مودودیؒ نے 70 سال پہلے ’’جاہلیتِ خالصہ‘‘ اور ’’شجرِ خبیث‘‘ قرار دیا تھا۔ ہم ایک بار پھر اپنے کہے کو دہراتے ہیں۔ کیا کوئی زندہ ہے اور سن رہا ہے؟